حضرت موسیٰ علیہ السلام میلوں دور تک پھیلے بحیرہ احمر کے دہانے پر کھڑے تھے اور ان کے پیچھے بنی اسرائیل مایوسی و اندوہ کا شکار تھے۔ سمندر کی بلند و بالا لہریں دور سے دیکھنے پر ہی موت کا پیغام معلوم ہوتی تھیں۔ موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کے پیچھے نکلی فرعون کی فوج کسی بھی وقت اُن تک پہنچنے والی تھی اور انہیں یقین تھا کہ اس کے بعد فرعون انہیں جینے کے حق سے بھی محروم کردے گا۔ ان میں سے بعض کو اب حضرت موسیٰؑ کے ساتھ نکلنے پر افسوس ہو رہا تھا۔ لیکن سمندر کی تند و تیزموجوں کو گہری نظروں سے دیکھتے، دل میں اللہ رب العالمین کو پکارتے حضرت موسیٰؑ کا یقین غیر متزلزل تھا۔ بنی اسرائیل کی مایوسی اور موسیٰ ؑ کے اس یقین کو اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں یوں بیان کیا :
’’جب دونوں گروہوں کا آمناسامنا ہوا تو موسیٰ(علیہ السلام) کے ساتھی چیخ اُٹھے کہ ہم تو پکڑے گئے۔ موسیٰؑ نے کہا ہرگز نہیں، میرے ساتھ میرا رب ہے، وہ ضرور رہنمائی فرمائے گا‘‘ (سورۃ الشعرا: 26-16)
پھر جب فرعون کا لشکر اُن تک پہنچ گیا اور بنی اسرائیل کو اپنی تباہی کا یقین ہوگیا تب اللہ تعالیٰ نے اپنی مدد بھیجی اور سمندر کو حکم دیا گیا کہ دو ٹکڑوں میں پھٹ جائو ،اور وہ ہیبت ناک سمندر یکایک آسان گزر گاہ بن گیا اور بنی اسرائیل اس راستے پر سے گزرتے چلے گئے۔ لیکن فرعون اور اس کے لشکر کو سمندر کی موجوں نے آن دبوچا اور وہ عالی شان لہروں کا نوالہ بنا دیے گئے۔
آج کشمیر کے مسلمان اسی بحیرہ احمر کی تند و تیز موجوں کے سامنے کھڑے ہیں جن کے سامنے صدیوں پہلے بنی اسرائیل کھڑے تھے۔ وہ طویل عرصے سے بھارتی سامراج کے انسانیت سوز مظالم سہہ رہے ہیں، اُن کے جسم کی پور پور زخموں سے چُور چُور ہے اور ان کا بدن خون سے لہولہان ہے، لیکن ایمان اور اپنی آزادی کی حفاظت کے عزم اور جدوجہد میں انھوں نے کوئی کمی نہیں آنے دی۔ انہیں یقین ہے کہ مظالم و مشکلات کا یہ لامتناہی سلسلہ جلد ختم ہوگا، ان کے لیے بھی سمندر کو پاٹ دیا جائے گا اورگزر گاہ بنا دیا جائے گا۔
کشمیر میں جاری تحریک ِ آزادی ایک طرف جہاں بھارتی ظلم و استبداد کے تمام ہتھکنڈوں کی ناکامی کا ثبوت ہے وہیں دوسری طرف احتجاج اور قربانیوں کا یہ حال ہے کہ شہدا کے سروں کی فصل کاٹی جا رہی ہے مگر سرفروشوں کی فراوانی میں کمی نہیں۔ ہر گھر ماتم کدہ بن گیا ہے مگر خون اور آنسو اس تحریک کے لیے مہمیز کا کام دے رہے ہیں۔اس تاریخی جدوجہد نے ہر سازش کا مقابلہ کیا ہے۔ بہت سے ممالک نے کشمیر کو لے کر دنیا کے منظر نامے میں سیاست کرنے کی کوشش کی ہے۔ پاکستانی حکمرانوں نے بھی کشمیر کے مسئلے پر مؤثر سفارت کاری کی کوشش نہیں کی، حتیٰ کہ اقوامِ متحدہ میں پاکستانی مندوب ملیحہ لودھی نے کشمیر پر مظالم کے کیس میں جعلی فلسطینی تصویریں دکھا کر کشمیر کا معاملہ مزید دھندلا کردیا تھا۔ لفظی کھیل کے سوا پاکستانی حکمرانوں کے پاس کشمیر کے لیے کرنے کو کچھ باقی نہیں بچا۔ مسلم ممالک کی بے حسی کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ جب کشمیر اور دیگر مظلوم مسلم ممالک اپنی آزادی کے لیے فیصلہ کن جنگ لڑ رہے تھے اُس وقت عرب کے حکمران مفادات کا کھیل کھیلنے میں مصروف تھے۔
متحدہ عرب امارات کے ولی عہد محمد بن زید کا سینکڑوں کشمیریوں کے قاتل مودی کو ایوارڈ سے نوازنا اس بات کا سب سے بڑا ثبوت ہے، اور اس کے ساتھ ہی یہ ایک بہترین بزنس ڈیل بھی ہے۔ وہ یمن کی بندرگاہوں سے لے کر قرن افریقا تک بحرِ ہند اور اس سے آگے عرب امارات کے تجارتی مفادات کو دیکھ رہے ہیں۔ اس قدر وسیع مفادات میں کشمیر کے 70 لاکھ مسلمانوں کا درد محسوس کس طرح ہو سکتا ہے؟
وہ ولولے آج ابنِ قاسم کے کیا فسانوں میں کھو گئے ہیں
نبیؐ کی امت کے تن سے رِستا ہوا یہ خوں تم سے پوچھتا ہے
یہ حقیقت ہے کہ پاکستانی حکومتوں کی ہولناک غلطیوں، کمزوریوں، قلا بازیوں اور عالمی سطح پر سفارتی ناکامیوں نے پاکستان سے محبت، عقیدت اور یگانگت کے احساس کے ساتھ پاکستانی قیادت سے مایوسی اور بے اعتمادی میں اضافہ کیا ہے۔ 2019ء میں جموں و کشمیر میں غیر مسلم آبادی کے باوجود 86 فیصد آبادی بھارت کے چنگل سے نکلنے کے لیے غیر معمولی عزم کا اظہار کرچکی ہے، بھارت کے ساتھ کشمیر کے منسلک رہنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ البتہ پاکستانی قوم کے لیے یہ لمحۂ فکر ہے کہ کشمیری عوام پاکستانی قیادت اور پاکستانی پالیسیوں سے مایوسی کا اظہار کرچکے ہیں لیکن پاکستانی قوم سے کشمیریوں کو اب بھی امید ہے۔ گو ان کی مایوسی لمحہ بہ لمحہ بڑھ رہی ہے لیکن اگر ہم اب بھی صحیح پالیسی اختیار کریں تو پاکستان سے رشتہ جوڑنا تو کشمیریوں کے دل کی آواز اور تاریخی آرزو ہے، البتہ بھارت سے آزادی ان کا وہ ہدف اور تاریخ کا وہ اشارہ ہے جو اب نوشتۂ دیوار کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ 2019ء میں بھارت کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 370 (جو کشمیر کی امتیازی حیثیت کے بارے میں تھا) کا خاتمہ اور کشمیر کو بزور طاقت بھارت میں ضم کرنا، مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں، کشمیر میں کرفیو کی صورت حال اس بات کا اعلان کرتی نظر آرہی ہے کہ کشمیر کے حالات تاریخی موڑ پر آگئے ہیں، تبدیلی دستک دے رہی ہے، کشمیری عوام نے اپنا فیصلہ دے دیا ہے۔ وہ اپنا حق حاصل کرنے کے لیے جان کی بازی لگا چکے ہیں اور واپسی کی کشتیاں جلا چکے ہیں۔ اور تاریخ شاہد ہے کہ جو قوم اللہ پر یقین کے ساتھ باطل کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کردے اُس کے لیے آسمان سے مدد آتی ہے اور سمندر وں میں راستے بنا دیے جاتے ہیں۔
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
اب فیصلہ پاکستان کی حکومت اور قوم کو کرنا ہوگا کہ تاریخ کے اِس فیصلہ کن موڑ پر کیا کردار ادا کرنا ہے؟ جہاں تاریکی چھٹنے اور نئی صبح طلوع ہونے کے امکانات ہیں وہیں ابھی سازشوں اور سامراجی ہتھکنڈوں کے جاری رہنے کا بھی خدشہ ہے۔ حالات ہر گزرتے دن کے ساتھ ابتری کی جانب جا رہے ہیں۔ اِن حالات میں ہمارے لیے کرنے کے کام واضح ہونے چاہئیں تاکہ ہم تاریخ کے اِس دوراہے پر اپنا مثبت کردار ادا کرسکیں، اور لاعلمی میں تحریکِ آزادی کو کسی بھی طرح نقصان پہنچانے کا سبب نہ بن جائیں۔
آج کے دجالی دور میں جب کہ مسلم امت کو اتحاد کی اشد ضرورت ہے اور یہودی طاقتیں چہار اطراف سے امتِ مسلمہ کا شیرازہ بکھیر رہی ہیں، مسلم ممالک کا آپس میں ایک دوسرے کی جڑیں کاٹنا بے ضمیری، بے حسی اور خودغرضی کی علامت ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں کو دنیا سے کشمیریوں کی زندگی کی بھیک مانگنے کے بجائے عملی قدم اٹھانا چاہیے۔ ورنہ وہ دن دور نہیں جب اسلام کا کھوکھلا ہوتا قلعہ بھی اسلام دشمنی کی بھینٹ چڑھا دیا جائے گا۔
آج پاکستانی قوم جن اندرونی مسائل کا شکار ہے اُس سے سبق حاصل کرتے ہوئے ہمیں اپنی کشمیر پالیسی قومی یک جہتی کے ساتھ وضع کرنی چاہیے۔ امریکا کی مسلط کردہ ’’دہشت گردی کی جنگ‘‘ سے نجات، بھارت کے سلسلے میں اصول اور حق و انصاف پر مبنی رویّے، اور جموں و کشمیر کی تحریکِ آزادی سے اپنے تعلق اور اس میں اپنے بھرپور کردار کی ادائیگی کی فکر احساسِ ذمے داری کے ساتھ کرنی چاہیے۔ مسلمان کا شیوہ زمانے کے رُخ پرچلنا اور مصائب اور مشکلات کے آگے سپر ڈالنا نہیں، بلکہ مخالف لہروں سے لڑنا اور حالات کے رُخ کو موڑنا ہے۔