ہماری قومی زندگی میں کشمیر محض ایک سیاسی مسئلے کے طور پر زیر بحث آتا ہے، اور سیاست کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ اس کا اصولوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ لیکن کشمیر ہمارے لیے صرف سیاسی مسئلہ نہیں ہے، اور کشمیر سے متعلق ہماری سیاست کا بے اصولی سے کوئی علاقہ نہیں۔
اس کے برعکس کشمیر سے ہمارے تعلق کی بنیادیں ایک سے زیادہ تصورات پر استوار ہیں۔ ان تصورات کا تعلق نظریات سے بھی ہے اور تاریخ سے بھی۔ یہ تصورات جدوجہد سے بھی متعلق ہیں اور قربانیوں کی لازوال داستان سے بھی۔
ایک مسلمان کے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ حق پر کھڑا ہو اور اسی کے مطابق جدوجہد کررہا ہو۔ کشمیر کے سلسلے میں پاکستان اور اہلِ کشمیر کی سب سے بڑی طاقت یہ ہے کہ ہم حق پر کھڑے ہیں۔ برصغیر کی تقسیم کا بنیادی فارمولا یہ تھا کہ ہندو اکثریت کے علاقے بھارت میں شامل ہوں گے اور مسلم اکثریت کے علاقے پاکستان کا حصہ ہوں گے۔ کشمیر مسلم اکثریتی علاقہ تھا اور اسے پاکستان اور اہلِ کشمیر کے مطالبے کے بغیر پاکستان کا حصہ ہونا چاہیے تھا ،لیکن بھارت نے کشمیر کے ہندو راجا کے ساتھ سازباز کی اور کہا کہ چوںکہ کشمیر کا حکمران پاکستان کے ساتھ الحاق نہیں چاہتا اس لیے بھارت، کشمیر میں اپنی فوج بھیجنے پر مجبور ہے۔ یہ تقسیم ِبرصغیر کے بنیادی فارمولے کی کھلی خلاف ورزی تھی، لیکن بھارت اس خلاف ورزی کو بھی ’’اصول‘‘ نہ بنا سکا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ حیدرآباد دکن ہندو اکثریتی علاقہ تھا مگر اُس کا حاکم مسلمان تھا، اور وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کا خواہش مند تھا، لیکن بھارت نے حیدرآباد دکن کے حکمران کو اس کی اجازت نہ دی اور حیدرآباد دکن میں بھی بڑے پیمانے پر فوجی کارروائی کی۔ یہی کچھ جوناگڑھ میں ہوا جہاں کا حکمران مسلمان تھا۔ یعنی بھارت نے تقسیمِ برصغیر کے حوالے سے نہ اکثریت کے اصول کو پوری طرح تسلیم کیا اور نہ حکمرانوں کی رائے کی بالادستی کے اصول کی پوری طرح پاس داری کی۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو کشمیر کے سلسلے میں پاکستان کی اخلاقی پوزیشن غیر معمولی ہے۔ اس کے برعکس کشمیر کے سلسلے میں بھارت کی کوئی اخلاقی حیثیت ہی نہیں ہے۔
کشمیر کے حوالے سے ایک بنیادی بات یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے جانے والا پاکستان نہیں بلکہ بھارت تھا۔ بھارت نے کشمیر میں فوج داخل کی اور پھر بھارت کے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ میں لے گئے، اور اقوام متحدہ نے ایک سے زیادہ قراردادیں منظور کرکے کشمیر کو تصفیہ طلب مسئلہ تسلیم کیا اور کہا کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ حقِ رائے دہی کے تحت ہوگا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پنڈت نہرو مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں کیوں لے گئے؟ اس کی تین وجوہ تھیں۔ ایک یہ کہ کشمیر کے سلسلے میں بھارت کی اخلاقی پوزیشن انتہائی کمزور تھی، چناںچہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے جانے سے پنڈت نہرو کا احساسِ جرم بھی کم ہوا اور انہیں اپنے مؤقف میں اخلاقی جہت بھی پیدا ہوتی نظر آئی۔ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے جانے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ نہرو قیادت پاکستان کو ناکام تجربہ سمجھتی تھی اور اس کا خیال تھا کہ دو چار سال میں اس تجربے کی ناکامی عیاں ہوجائے گی اور جناح صاحب پاکستان کو پھر سے انڈین یونین کا حصہ بنانے کی درخواست کریں گے۔ چناںچہ پنڈت نہرو کو محسوس ہوا کہ اُس وقت تک کشمیر کو اقوام متحدہ میں لٹکائے رکھا جاسکتا ہے۔ پنڈت نہرو کا خیال شاید یہ بھی تھا کہ پاکستان ناکام تجربہ نہ بھی بنا تو بھی وہ ناکام نہیں ہوں گے۔ وہ اہلِ کشمیر کی وفاداریاں خریدلیں گے اور حقِ رائے دہی کی نوبت آئی تو کشمیری بھارت کے حق میں رائے دیں گے۔ لیکن بہرحال مسئلہ کشمیر کے اقوام متحدہ میں چلے جانے سے کشمیر کے سلسلے میں پاکستان کو اپنے مؤقف کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر ایک قانونی جواز بھی مہیا ہوگیا۔
پاکستان کا دفاع پہلے دن سے بھارت مرکز یا India Centric ہے اور اس کی بنیادی وجہ مسئلہ کشمیر ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے 74 سال میں اپنے دفاع پر جو وسائل صرف کیے ہیں اس کی وجہ کشمیر ہے۔ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے اور اس کے دفاع پر وسائل کا بڑا حصہ خرچ کرنے کا مطلب پاکستان کی کئی نسلوں کے معاشی، تعلیمی اور سماجی مستقبل کی قربانی دینا ہے، اور پاکستانی قوم نے جرنیلوں کی ہوسِ ملک گیری کے باوجود قومی دفاع کے سلسلے میں وسائل مہیا کیے جانے پر کبھی اعتراض نہیں کیا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ کشمیر کے سلسلے میں پاکستانی قوم نے اپنی کئی نسلوں کے مستقبل کی سرمایہ کاری کی ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی تین جنگوں کا سبب بھی کشمیر ہے۔ اس معاملے کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اب پاکستان اور بھارت ایٹمی طاقتیں ہیں، چناںچہ کشمیر کے حوالے سے کسی جنگ کی صورت میں کشمیر ایٹمی جنگ کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ ایسے کسی ہولناک وقوعہ سے جنوبی ایشیا ہی نہیں، پورا خطہ بلکہ پوری دنیا متاثر ہوسکتی ہے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ کہا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کو آبی وسائل مہیا کرنے والے دریا کشمیر سے گزر کر پاکستان آتے ہیں۔ قائداعظم نے جب کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ کہا تھا تو پاکستان کو کسی آبی مسئلے کا سامنا نہیں تھا، لیکن گزشتہ چند برسوں میں بھارت نے پاکستان کے خلاف آبی جارحیت ایجاد کرکے قائداعظم کی بصیرت پر مہرِ تصدیق ثبت کردی ہے۔
ایک وقت تھا جب اہلِ کشمیر کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ان کی تاریخ میں مزاحمت اور مسلح جدوجہد کا کوئی پہلو نہیں… اور یہ بات غلط نہ تھی۔ لیکن کشمیر کے مسئلے نے اہلِ کشمیر کے اجتماعی مزاج اور ذوق کو تبدیل کردیا۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ مزاحمت کی بے مثال تاریخ رقم کی بلکہ قربانیوں کی داستان کو اپنی تاریخ کا حصہ بنادیا۔ اس میں چار لاکھ سے زیادہ شہداء کا تجربہ ہے۔ اس داستان کا ایک باب یہ ہے کہ کشمیر کے ہزاروں لوگ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے لاپتا ہوگئے، ہزاروں خواتین کی عصمتیں تار تار ہوئیں، ہزاروں لوگ جیلوں کی دائمی اذیت کی نذر ہوگئے، ہزاروں گھروں کے معاشی سہارے چھن گئے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو کشمیر کے ساتھ پاکستان کا تعلق کسی ایک پہلو سے متعلق نہیں۔ کشمیر ہمارے لیے اخلاقی جہت کا حامل ہے۔ کشمیر کا ایک پہلو نظریاتی ہے۔ کشمیر کا ایک زاویہ تاریخی ہے۔ کشمیر کا ایک حوالہ قانونی ہے۔ ایک اور حوالے سے کشمیر پاکستان کے دفاع کا محوری نکتہ ہے۔ ایک اور سطح پر کشمیر قربانیوں کی داستان ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کشمیر کے سلسلے میں پاکستان کے حکمرانوں کا طرزِعمل کیاہے؟
کشمیر کے سلسلے میں لوگ سیاسی قیادت کے رویّے سے شاکی ہیں، اور اس کا پورا جواز موجود ہے۔ اس لیے کہ بے نظیر بھٹو اور میاں نوازشریف نے کشمیر کے پاکستان سے الحاق کے سلسلے میں کچھ نہیں کیا، بلکہ اس کے برعکس میاں نوازشریف کشمیر کو نظرانداز کرکے بھارت کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے خواہش مند تھے۔ یہی صورتِ حال موجودہ حکومت کی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے کشمیر کے سلسلے میں فوجی حکمرانوں کا طرزعمل سیاسی قیادت سے زیادہ افسوس ناک ہے۔ 1962ء کی چین بھارت جنگ کے موقع پر چین نے جنرل ایوب سے کہا تھا کہ بھارت اپنی ساری فوجی قوت چین کی سرحد پہ لے آیا ہے، آپ کے لیے موقع ہے، آگے بڑھیں اور بھارت سے اپنا حق لے لیں۔ لیکن جنرل ایوب امریکا کے دبائو میں آگئے اور کچھ نہ ہوسکا۔ جنرل ضیاء نے اہلِ کشمیر کو اپنی تحریک میں تیزی پیدا کرنے کی تلقین کی اور انہیں یقین دلایا کہ جب تمہاری تحریک ایک خاص سطح پر آجائے گی تو پاکستان تمہاری مدد کرے گا۔ لیکن جب اہلِ کشمیر اپنی تحریک کو مطلوبہ سطح تک لے گئے تو کشمیر کی مزاحمتی قیادت کو پیغام دیا گیا کہ ہم کشمیر کے لیے پاکستان کی سلامتی کو دائو پر نہیں لگا سکتے۔ جنرل پرویزمشرف کارگل کے ’’ہیرو‘‘ تھے مگر کارگل کا ہیرو آگرہ میں ہونے والے مذاکرات میں کشمیر کے مسئلے کے حل کے حوالے سے پنڈورا باکس کھول کر بیٹھ گیا اور اس نے کشمیر سے متعلق پوری تاریخ کو تماشا بنادیا۔