قیصرو کسریٰ قسط (35)

342

لڑکے نے اپنے باپ کی طرف دیکھا اور اُس کا اشارہ پا کر عاصم کے ہاتھ سے سکہ لے لیا۔ عاصم دوبارہ گھوڑے پر سوار ہوگیا۔ تھوری دور آگے جا کر عاصم مڑا اور فسطینہ کی ماں کی طرف دیکھ کر بولا۔ ’’وہ کسان غریب ضرور تھا لیکن بھکاری نہیں تھا، آپ کو اُس کی دل آزاری نہیں کرنی چاہیے تھی‘‘۔
عورت نے ندامت کا اظہار کرنے کے بجائے تلخ ہو کر کہا۔ ’’اگر ہم اُسے کچھ نہ دیتے تو وہ ہمیں بھکاری سمجھتا۔ میں نے یہ بات آج تک نہیں سنی کہ سونا دیکھ کر کسی شامی کی دل آزاری ہوسکتی ہے۔ آپ کو اُس کی خوشنوادی حاصل کرنے کے لیے گھوڑے سے اُترنے کی ضرورت نہ تھی‘‘۔
اس مغرور خاتون کے تیور صاف بتا رہے تھے کہ مجھے صرف یروشلم کے رومی حاکم کا خوف ہے۔ لیکن میں فلاح کی بیٹی اور فلاں کی بیوی ہوں اور کوئی بڑی سے بڑی مصیبت بھی میری نگاہ میں ایک شامی کسان کا درجہ نیچا نہیں کرسکتی۔ عاصم نے اضطراب کی حالت میں اُس کی طرف دیکھا لیکن اِس مسئلہ پر مزید بحث کی ضرورت محسوس نہ کی۔ اور وہ کسان جو ابھی تک ٹیلے پر کھڑا تھا اپنے بیٹے سے یہ کہہ رہا تھا۔ ’’مجھے یقین ہے کہ وہ عورت کسی امیر اور بااثر رومی گھرانے سے تعلق رکھتی ہے لیکن وہ اُس نوجوان کی ماں نہیں ہوسکتی۔ آج گائوں کا کوئی آدمی نہیں مانے گا کہ ایک رومی نے مجھ سے ایک دوست کی طرف باتیں کی ہیں۔ لیکن تم یہ دیکھ چکے ہو کہ وہ میرے ساتھ کس قدر ادب سے پیش آتا تھا۔ اُس نے وعدہ کیا ہے کہ آئندہ میں تمہارے گھر ٹھہرا کروں گا۔ ایسا شریف آدمی چھوٹا نہیں ہوسکتا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ دمشق پہنچتے ہی تمہارے بھائی کو تلاش کرے گا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ تمہارے بھائی کو اِس کی مدد سے فوج میں ترقی مل جائے گی‘‘۔
نوجوان نے کہا۔ ’’لیکن مجھے تو اُس کی باتوں سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ رومی نہیں؟‘‘۔
’’تم بیوقوف ہو اگر وہ ایک چرواہے کے لباس میں ہوتا تو بھی مجھے اُس کے رومی ہونے میں شک نہ ہوتا۔ تم نے ایک نہایت احمقانہ بات کی تھی اگر وہ عالی نسب نہ ہوتا تو ہماری شامت آجاتی‘‘۔
’’لیکن میں حیران ہوں کہ ’’اسے ہمارے گائوں سے گزرنا کیوں پسند نہ تھا۔ کوئی ایسی بات تھی جسے وہ چھپانا چاہتا تھا‘‘۔
بوڑھے نے جھنجھلا کر کہا۔ ’’ارے پاگل! گائوں میں وہ اس لیے داخل نہیں ہوا کہ وہاں تم جیسے بے وقوفوں کی کمی نہیں۔ اور وہ ہر مسافر کا راستہ روک کر عجیب و غریب سوال کرتے ہیں۔‘‘
O
غروب آفتاب تک عاصم اور اُس کے ساتھی چند کوس اور سفر کرچکے تھے۔ شام کے وقت سڑک کے قریب انہیں ایک چھوتی سی نسبتی دکھائی دی۔ عاصم نے اپنے ساتھیوں سے کہا۔ ’’ہمارے لیے سڑک کے قریب بستی میں ٹھہرنا مناسب نہیں۔ اس لیے ہم یہاں سے گھوڑوں کو پانی پلاتے ہی روانہ ہوجائیں گے اور کچھ دور آگے کسی موزوں جگہ قیام کریں گے‘‘۔
فسطینہ کی ماں نے کہا۔ ’’ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ اگر آپ چاہیں تو ہم آدھی رات تک سفر کرسکتے ہیں۔‘‘
وہ سڑک سے اُتر کر بستی کے ایک کنوئیں پر پہنچے۔ وہاں چند دیہاتی پانی بھر رہے تھے، انہوں نے ان مسافروں اور ان کے گھوڑوں کو پانی پلایا۔ عاصم نے احتیاطاً اپنا مشکیزہ بھی بھر لیا۔ جب وہ وہاں سے روانہ ہونے لگے تو بستی کے ایک معمر آدمی نے انہیں رات کے وقت اپنے ہاں ٹھہرنے کی دعوت دی لیکن عاصم نے اپنے گھوڑے کی باگ موڑتے ہوئے جواب دیا۔ ’’آپ کا شکریہ! لیکن ہم اگلی بستی میں قیام کرنا چاہتے ہیں‘‘۔
ایک نوجوان نے معمر آدمی سے کہا۔ ’’تم عجیب آدمی ہو۔ اگر وہ تمہاری دعوت قبول کرلیتے تو ہمارے پاس انہیں ٹھہرانے کے لیے کون سی جگہ تھی؟‘‘
بوڑھے نے جواب دیا۔ ’’بھئی! مجھے معلوم تھا کہ ایک رومی افسر یہاں نہیں ٹھہرے گا۔ اور اسی لیے میں نے اسے دعوت دی تھی‘‘۔
ایک اور آدمی نے کہا۔ ’’میں نے آج تک کسی رومی افسر کو رات کے وقت ایک مسلح دستے کے بغیر سفر کرتے نہیں دیکھا۔ اور اُسے یہ بھی معلوم نہ تھا کہ اگلی بستی یہاں سے ایک منزل دور ہے‘‘۔
بوڑھے نے کہا۔ ’’بھئی ایسے گھوڑوں پر چند میل چلنا کون سا مشکل ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ پیچھے اُن کے ساتھی آرہے ہوں‘‘۔
عاصم اور اُس کے ساتھیوں نے دوبارہ سڑک پر پہنچتے ہی اپنے گھوڑوں کی رفتار تیز کردی۔ تھوڑی دیر بعد یہ سڑک ایک ایسے وسیع میدان سے گزر رہی تھی جہاں انسانی آبادی کے کوئی آثار دکھائی نہ دیتے تھے۔ آسمان صاف تھا اور فضا میں دسویں رات کے چاند کی روشنی پھیلی ہوئی تھی… سڑک کے دونوں کناروں پر ریت کے ٹیلوں کے درمیان کہیں کہیں چھوٹی چھوٹی جھاڑیاں دکھائی دیتی تھیں۔ کچھ دیر سرپٹ دوڑنے کے بعد اُن کے تھکے ہوئے گھوڑے معمولی رفتار سے چل رہے تھے۔ اچانک عاصم نے اپنے گھوڑے کی باگ کھینچ لی اور مڑ کر پیچھے دیکھنے لگا۔ فسطینہ اور اس کی ماں نے بھی پریشان ہو کر اپنے گھوڑے روک لیے۔
فسطینہ نے مضطرب ہو کر پوچھا۔ ’’کیوں کیا بات ہے؟‘‘
عاصم نے ہاتھ سے اشارہ کیا اور اُسے اپنا سوال دہرانے کی جرأت نہ ہوئی۔ چند ثانیے یہ تینوں دم بخود کھڑے رہے۔ پھر عاصم نے کہا۔ ’’کوئی آرہا ہے۔ مجھے گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز سنائی دے رہی ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ ہمارا پیچھا کررہے ہوں۔ تاہم ہمیں راستے سے ایک طرف ہٹ کر اُن کے گزر جانے کا انتظار کرنا چاہیے۔ آئیے!‘‘۔ عاصم نے اپنے گھورے کو دائیں طرف موڑ کر ایڑ لگادی اور فسطینہ اور اُس کی ماں کچھ کہے بغیر اُس کے پیچھے چل پڑیں۔ تھوری دیر بعد وہ رات کے ایک ٹیلے کی آڑ میں کھڑے تھے اور فسطینہ سہمی ہوئی آواز میں کہہ رہی تھی۔ ’’مجھے یقین ہے کہ وہ گورنر کے آدمی ہیں۔ آپ وعدہ کریں کہ اگر وہ ہمیں گرفتار کرکے یروشلم لے گئے تو آپ اُن سے بچ کر دمشق پہنچنے کی کوشش کریں گے اور میرے نانا کو خبردار کردیں گے‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’وہ اس وقت ہمیں سڑک سے نہیں دیکھ سکتے لیکن اگر وہ اِس طرف آبھی جائیں تو بھی آپ کو خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ چار سوار آپ کو گرفتار نہیں کرسکتے۔ میرا ترکش تیروں سے بھرا ہوا ہے‘‘۔
فسطینہ نے کہا۔ ’’آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ وہ صرف چار ہیں؟‘‘
عاصم نے جواب دیا۔ ’’میرے لیے گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز سننے کے بعد اُن کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ میں ایک عرب ہوں۔ لیکن آپ اطمینان رکھیے، وہ اس طرف نہیں آئیں گے۔ اگر پچھلی بستی کے لوگوں نے اُن کی رہنمائی کی ہے تو وہ اگلی بستی مین داخل ہونے سے پہلے کسی جگہ نہیں رُکیں گے‘‘۔
عاصم کے یہ الفاظ فسطینہ اور اُس کی ماں کی تسلی کے لیے کافی نہ تھے۔ وہ دم بخود ہو کر اُس کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ تھوری دیر بعد گھوڑوں کی ٹاپ کی آواز قریب سنائی دینے لگی اور عاصم نے فسطینہ سے مخاطب ہو کر کہا ’’میرا خیال غلط نہ تھا وہ صرف چار ہیں‘‘۔
فسطینہ کی ماں نے کہا۔ ’’اب ہمارے لیے سڑک پر سفر کرنا خطرناک ہوگا‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’اب ہمیں سڑک پر جانے کی ضرورت نہیں۔ آئیے‘‘۔
وہ کچھ کہے بغیر اُس کے پیچھے چل پڑیں، لیکن ایک گھنٹہ سفر کرنے کے بعد فسطینہ کی ماں نے کہا۔ ’’آپ کس طرف جارہے ہیں‘‘۔
’’دمشق کی طرف‘‘، اُس نے اطمینان سے جواب دیا۔
’’آپ کو یقین ہے کہ آپ اِس صحرا میں راستہ نہیں بھول جائیں گے‘‘۔
’’آپ گھبرائیں نہیں میں ستاروں سے اپنا راستہ دیکھ سکتا ہوں۔ لیکن اب ہم زیادہ دیر سفر نہیں کریں گے۔ میں قیام کے لیے کوئی موزوں جگہ دیکھ رہا ہوں۔ آج کی رات آپ کو آسمان کی چھت کے نیچے سونا پڑے گا‘‘۔
وہ پریشانی اور اضطراب کی حالت میں کچھ دیر اور عاصم کے پیچھے چلتی رہیں۔ بالآخر عاصم نے ریت کے چند بلند ٹیلوں کے درمیان رکتے ہوئے کہا۔ ’’میرے خیال میں یہ جگہ موزوں ہے‘‘۔
وہ گھوڑوں سے اُتر پڑے۔ عاصم نے گھوڑوں کی جھاڑیوں سے باندھ دیا۔ پھر اُس نے اِدھر اُدھر سے کچھ سوکھی لکڑیاں اور گھاس کے تنکے جمع کیے اور اپنی خرجین سے چقماق نکال کر آگ جلانے میں مصروف ہوگیا۔
فسطینہ اور اس کی ماں خاموشی سے ایک طرف بیٹھی اُس کی کارگزاری دیکھ رہی تھیں۔ جب آگ سلگنے لگی تو فسطینہ کی ماں نے کہا۔ ’’یہاں آگ جلانا خطرناک تو نہ ہوگا؟‘‘
’’نہیں‘‘۔ اُس نے اطمینان سے جواب دیا۔ ’’ہم سڑک سے خاصی دور ہیں۔ اور اس سردی میں آگ کے بغیر رات گزارنا بہت مشکل ہوگا۔ آپ الائو کے قریب آجائیں‘‘۔
وہ اُٹھ کر آگ کے قریب بیٹھ گئیں اور فسطینہ نے اپنے ہاتھ پھیلاتے ہوئے کہا۔ ’’میرا جسم سن ہورہا ہے اور میں ابھی یہ سوچ رہی تھی کہ اس بیابان میں اچانک ہمیں کوئی خانقاہ دکھائی دے گی اور جب ہم اُس کے دروازے پر دستک دیں گے تو کوئی نیک دل راہب باہر نکل کر ہمارا خیر مقدم کرے گا۔ اور ہمیں یہ مژدہ سنائے گا کہ تمہارے لیے اندر ایک کشادہ کمرے میں آگ جل رہی ہے۔ اس وقت مجھے آگ سے زیادہ کسی چیز کی خواہش نہ تھی‘‘۔
عاصم نے خرجین سے ایک ادنیٰ چادر نکال کر زمین پر بچھاتے ہوئے کہا۔ ’’آپ یہاں بیٹھ جائیں۔ میں کچھ اور ایندھن جمع کرلوں‘‘۔
جب عاصم اپنی تلوار سے ایک جھاڑی کاٹ رہا تھا تو فسطینہ اُٹھی اور کٹی ہوئی شاخیں اُٹھا اُٹھا کر الائو کے قریب ڈھیر کرنے لگی۔
عاصم نے کہا۔ ’’آپ تکلیف نہ کریں۔ یہ جھاڑیاں کانٹوں سے بھری ہوئی ہیں‘‘۔
فسطینہ نے جواب دیا۔ ’’اس سفر کے بعد مجھے یہ کانٹے تکلیف نہیں دے سکتے‘‘۔
تھوڑی دیر بعد وہ الائو کے گرد بیٹھے دوپہر کا بچا ہوا کھانا کھارہے تھے۔ گزشتہ کئی گھنٹے کی بے آرامی کے باعث عاصم پر نیند کا غلبہ ہورہا تھا، لیکن فسطینہ اور اُس کی ماں کے لیے ایک ویرانے میں رات بسر کرنے کا یہ پہلا موقع تھا اور وہ نیند یا تھکاوٹ کے بجائے خوف محسوس کررہی تھیں۔ ماں اپنی آنکھوں کے اشاروں سے اپنی بیٹی کو یہ سمجھا رہی تھی کہ ہم ایک خطرے سے بچنے کے لیے دوسرا خطرہ مول لے چکے ہیں۔ یہ نوجوان بہرحال ایک اجنبی ہے اور اگر اُس نے ہماری بے بسی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی تو ہم اس ویرانے میں کیا کرسکیں گے۔ لیکن جب وہ عاصم کی طرف دیکھتیں تو انہیں ایسا محسوس ہوتا کہ اُن کے دل کا بوجھ ہلکا ہورہا ہے۔
اچانک فسطینہ کی ماں نے کہا۔ ’’میں آپ کا نام پوچھ سکتی ہوں‘‘۔
’’میرا نام عاصم ہے‘‘۔ اُس نے جواب دیا۔
وہ قدرے توقف کے بعد بولی۔ ’’یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ آپ سرائے میں موجود تھے اور ہمیں دمشق پہنچانے کا خطرہ مول لینے کو تیار ہوگئے‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے، میں دمشق جانے میں کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتا۔ میری صرف یہ خواہش ہے کہ آپ بخیریت اپنے گھر پہنچ جائیں‘‘۔
’’میں کبھی اس احسان کا بدلہ نہیں دے سکوں گی‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’میں نے اپنی خوشی سے یہ ذمہ داری قبول کی تھی‘‘۔
فسطینہ نے پوچھا۔ ’’اگر وہ سوار ہم پر حملہ کردیتے تو آپ کیا کرتے؟‘‘
عاصم مسکرایا۔ ’’مجھے معلوم نہیں۔ لیکن میرا خیال ہے کہ میرے ترکش کے چند تیر یقینا کم ہوجاتے‘‘۔
’’اور اگر وہ زیادہ ہوتے تو؟‘‘۔
’’تو مجھے زیادہ تیر ضائع کرنے پڑتے۔ کم از کم میں آپ کو گرفتار ہوتے دیکھنا پسند نہ کرتا۔ معاف کیجیے آپ کا یہ مشورہ میرے لیے ناقابل قبول تھا کہ اگر وہ حملہ کردیں تو مجھے لڑنے کے بجائے دمشق پہنچ کر آپ کے گھر اطلاع دینی چاہیے۔ جب میں اپنے وطن سے نکل کر شام کا رُخ کررہا تھا تو میں نے اپنی تلوار اُتار کر پھینک دی تھی اور اپنے دل میں یہ عہد کیا کہ اب میں کسی لڑائی میں حصہ نہیں لوں گا لیکن آپ کی حفاظت کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعد جب میں نے سرائے کے مالک سے یہ تلوار حاصل کی تھی تو مجھے اس بات کا یقین ہوچکا تھا کہ اگر آپ کو راستے میں کوئی خطرہ پیش آیا تو میں اپنے عہد پر قائم نہیں رہ سکوں گا‘‘۔
(جاری ہے)

حصہ