”تزکِ جہانگیری‘‘، بادشاہ جلال الدین اکبر کے بیٹے نورالدین جہانگیر کا روزنامچہ ہے جو علمی اور ادبی شاہ کار ہے، جس میں انہوں نے اپنے حالات و واقعات قلمبند کیے ہیں، میدانِ جنگ کا حال، دربار کی چہل پہل اور علمی مسائل کا تمام پہلوئوں سے جائزہ لیا ہے۔ بادشاہ چوں کہ خود بھی شاعر تھا، اس لیے ’’تزکِ جہانگیری‘‘ میں جا بجا اُس وقت کی ادبی سرگرمیوں کا ذکر بھی ملتا ہے۔ یہ کتاب فارسی ادب کا سرمایہ ہے اور اُردو زبان میں بھی دستیاب ہے۔ ان کے روزنامچہ میں کشمیر سے متعلق تحریر قارئین کے لیے پیش خدمت ہے۔
اب میں کشمیر کے مختصر حالات تحریر کرتا ہوں، کشمیر چوتھی اقلیم میں واقع ہے، اس کا عرض خط استوا سے 35 درجے اور طول جزائر سفید سے ایک سو پانچ درجے۔ زمانہ قدیم میں یہ ملک راجائوں کے زیر حکومت رہا ، جن کی مجموعی مدت حکومت چار ہزار سال بنتی ہے۔ ان راجوں کے نام اور حالات زندگی تاریخ راجہ ترنگ میں، جو حضرت عرش آشیانی (شہنشاہ اکبر) کے حکم سے ہندی سے فارسی میں ترجمہ کی گئی تھی، تفصیل کے ساتھ موجود ہیں۔ 712ھ میں مسلمانوں کی حکومت قائم ہونے پر یہ خطہ اسلامی برکات سے فیض یاب ہونا شروع ہوا جس کے بعد 282 سال تک 32 مسلمان حکمرانوں نے حکومت کی۔ یہاں تک کہ 994ھ میں حضرت عرش آشیانی نے اسے فتح کیا۔ جب سے لے کر اب تک جو کہ 35 سال کا عرصہ ہوتا ہے یہ ہماری سلطنت کے افسران کے زیر انتظام رہا ہے۔
شہر کا نام سرینگر ہے۔ دریائے بہت (جہلم) اس کے وسط سے گزرتا ہے۔ اس دریا کا سرچشمہ جسے دیرناک کہتے ہیں، شہر کے جنوب میں 14 میل کے فاصلے پر ہے۔ وہاں میرے حکم سے ایک عمارت اور باغ بنایا گیا ہے۔ اس دریا پر شہر میں لکڑی اور پتھر سے چار نہایت مضبوط پل بنائے گئے ہیں جن پر سے لوگ آسانی کے ساتھ گزرتے ہیں، پل کو کشمیری زبان میں کدل کہتے ہیں۔ شہر میں ایک نہایت عالیشان مسجد ہے جسے 795ھ میں سلطان سکندر نے تعمیر کروایا تھا۔ یہ ایک عرسے کے بعد جل گئی تھی تو سلطان حسین نے اسے دوبارہ تعمیر کروانا شروع کیا تھا، لیکن اس کی زندگی نے وفا نہ کی جس کی وجہ سے اس کی تکمیل اس کے وزیر ابراہیم پاکری نے 909ھ میں کی۔ جب سے لے کر اب تک 120 سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس کا طول محراب سے لے کر اس کی مشرقی دیوار تک 145 گز اور عرض 144 گز ہے۔ اس میں چار طاق بنائے گئے ہیں اور اطراف کے ایوانوں اور ستونوں پر اعلیٰ درجے کے نقش و نگار منقش کیے گئے ہیں۔ سچ بات تو یہ ہے کہ کشمیر کے سابقہ حکمرانوں کی اس سے بہتر اور کوئی یادگار باقی نہیں رہی ہے۔
میر سیّد علی ہمدانی قدس سرہ کچھ عرصہ اس شہر میں رہے ہیں۔ ان کی یادگار کے طور پر ایک خانقاہ شہر میں موجود ہے۔ شہر سے متصل 2 بڑے بڑے تالاب ہیں جو تمام سال پانی سے بھرے رہتے ہیں اور پانی کا ذائقہ قطعاً نہیں بدلتا۔ لوگوں اور سامان کی آمدورفت کا داراومدار کشتیوں پر ہے۔ شہر اور پرگنات میں پانچ ہزار سات سو کشتیاں ہیں جن کو 2 حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ بالائی حصہ آمراج اور نشیبی، ادھر کا حصہ کامراج کہلاتا ہے۔ یہاں زمین کی ضابطہ بندی اور لین دین میں روپے اور اشرفی کو کام میں لانے کا رواج عام نہیں ہے، تمام اجناس کی قیمت کا تعین دھان کے ڈھیروں سے کرتے ہیں اور ہر ڈھیر 3 من 8 سیر کا ہوتا ہے۔ کشمیریوں کا ایک من دو سیر کا ہوتا ہے اور اپنے چار من کو جو آٹھ سیر کے برابر ہوتا ہے ایک ترک کہتے ہیں، اس کے محصولات کی کل آمدنی 30 لاکھ 63 ہزار 50 خروار ہے جو نقدس کے لحاظ سے 7 کروڑ 50 لاکھ 70 ہزار دام بنتی ہے۔ کشمیر کا راستہ دشوار گزار ہے۔ نسبتاً سب سے سہل رستہ بھمبر اور پکھلی کا ہے۔ بھمبھر کا راستہ اگرچہ زیادہ نزدیک ہے، لیکن اگر کوئی شخص کشمیر کے موسم بہار سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہو تو اس کے لیے پکھلی کا راستہ بہتر ہے کیونکہ دوسرے راستے موسم بہار میں برف سے اَٹے ہوئے ہیں۔
اگر کشمیر کی تعریف و توصیف کماحقہ کی جائے تو کئی کتابوں میں پوری ہو مجبوراً اس کی خصوصیات مختصراً تحریر کرتا ہوں۔
کشمیر ایک سدا بہار باغ ہے، یا یوں کہہ لیجیے کہ ایک فولادی قلعہ ہے جس کو کوئی زوال نہیں، بادشاہوں کے لیے ایک عشرت فزاگلشن اور درویشوں کے لیے دلکشا خلوت سرائے ہے، جہاں خوشنما چمن، آبشاریں، چشمے اور دریا بے حد و حساب ہیں جہاں تک نگاہ کام کرتی ہے، سبزہ اور آب رواں ہی دکھائی دیتا ہے۔ گلاب بنفشہ اور خودرونرگس صحرا صحرا کھلتے ہیں، پھولوں کی اقسام لاتعداد ہیں، کوہ دوشت شگوفوں سے مالا مال ہیں، درودیوار وبام پر کھلے ہوئے گل لالہ بہار پرور مناظر پیش کرتے ہیں، مرغزاروں کی تعریف الفاظ میں سما نہیں سکتی۔
شدہ جلوہ گر نازنیناں باغ
رُخ آراستہ ہریکی چوں چراغ
باغ کے نازک اندام خوب رو (پھول) جلوہ افروز ہوگئے
ہیں اور ان کے چہرے چراغ کی طرح سے روشن ہیں
غزل خوانی بلبل صبح خیز
تمنائے سے خوابگاہ کردہ تیز
(نغمہ سحر گاہی چھیڑنے والے بلبل کی دلکش صدا نے مکیشوں کی خواہش مے کش کو تیز کردیا ہے)
بہر چشمہ منقا ربط آب گیر
چوں مقراض زریں بقطع حریر
(بطخ چشمے کے صاف و شفاف پانی میں اپنی منقاریں دبو رہی ہے، جیسے حریری پارچہ پر سنہری قینچی چل رہی ہو)
بساط گل و سبزہ گلشن شدہ
چراغ گل ازباد روشن شدہ
(گلشن نے سبزی و گل کا فرش بچھایا ہوا ہے اور پھولوں کے چراغ ہوا نے روشن کیے ہیں)
بنفشہ سرزلف راخم زدہ
گروہ در دل غنچہ محکم زدہ
(بنفشہ نے اپنی زلفوں کو خم دے کر غنچوں کے دلوں پر اپنی کشش کی بندھن مضبوط کردی ہے)
بادام اور آڑو کے شگوفے یہاں کے بہترین شگوفوں میں سے ہیں۔ دوسرے علاقوں میں یہ شگوفے ماہ اسفندارفد کی پہلی تاریخ سے پھوٹنا شروع ہوتے ہیں، لیکن کشمیر میں ماہ فروری کے آغاز اور سرینگر میں فروری کی نویں دسویں تاریخ سے یہ شگوفے چنبیلی کھلنے کا موسم شروع ہونے تک درختوں پر دکھائی دیتے ہیں۔ میں نے والد بزرگوار کی معیت میں کشمیر کے زعفران زاروں کی سیر موسم خزاں میں متعدد مرتبہ کی ہے۔ بحمدللہ! خزاں کی خوبیاں خزاں آنے پر بیان کروں گا۔ کشمیر کی عمارتیں لکڑی سے تعمیر کی جاتی ہیں اور دو دو، تین تین، چار چار منزلہ ہوتی ہیں جن کی چھتوں پر لپائی کرکے لالہ چوغاشی کے پھول اُگائے جاتے ہیں، جو سال کے موسم بہار میں کھل کر نہایت خوشنما معلوم ہوتے ہیں۔ چھتوں پر پھول اُگانے کا یہ طریقہ صرف اہل کشمیر میں رائج ہے۔ اس سال دولت خانے کے باغیچے اور جامع مسجد کی چھت پر گل لالہ بکثرت کھلے ہوئے تھے۔ یاسمن کبود باغات میں کثرت سے ہوتا ہے۔ سفید یاسمن، جسے اہل ہند چنبیلی کہتے ہیں، خوشبو دار ہوتا ہے۔ ایک اور قسم کا چنبیلی کا پھول صندل کے رنگ کا ہوتا ہے جس کی خوشبو نہایت تیز ہوتی ہے یہ پھول صرف کشمیر میں پایا جاتا ہے۔ گلاب کے پھول کئی قسم کے دیکھنے میں آئے، لیکن ان میں صرف ایک قسم کا پھول خوشبودار ہوتا ہے۔ گلاب کی طرح کا ایک اور قسم کا پھول دیکھنے میں آیا جس کا رنگ صندل کی طرح ہوتا ہے۔ سوسن کے پھول دو طرح کے ملتے ہیں: ایک تو وہ جو باغات میں ہیں، یہ نہایت شاداب ہیں اور ان کا رنگ سبز ہے، دوسرے وہ جو صحرائی ہیں، ان کا رنگ پھیکا ہے، لیکن یہ نہایت خوشبودار ہیں۔ گل جعفری بڑا اور خوشبودار ہوتا ہے۔ اس کا پودا قد آدم سے بھی اونچا ہوجاتا ہے، لیکن بعض سالوں میں جب گل جعفری کا پودا پوری طرح سے پرورش پا کر پھول دیتا ہے تو اس میں ایک قسم کا کیڑا پیدا ہوجاتا ہے، جو اس کے پھولوں کو لکڑی کی طرح سے جالابن کر ضائع کردیتا ہے اور اس کے تنے کو خشک کردیتا ہے۔ اس سال بھی ایسا ہی ہوا۔ کشمیر میں جو پھول میری نظر سے گزرے ہیں، ان کی قسمیں شمار سے باہر ہیں۔ ان میں سے جن پھولوں کی نادر النحصر استاد منصور نقاش نے تصویریں بنائی ہیں، سو سے زائد اقسام کے ہیں، یہاں عرش آشیانی کے عہد حکومت سے قبل شاہ آلوقطعاً نہیں ہوتا تھا۔ محمد قلی افشار نے کابل سے لاکر پیوند لگادیے۔ اب تک ان میں سے دس پندرہ کے قریب پھل لاچکے ہیں۔
خوبانیوں کے پیوند لگے ہوئے درخت بھی یہاں معدودے چند تھے۔ موصوف نے ہی پیوند لگانے کا طریقہ یہاں عام کیا۔ اب یہاں خوبانی کثرت سے اور فی الواقع بہت خوب ہوتی ہے۔ کابل کے باغ شہر آرا میں میرزائی نام کا خوبانی کا ایک بہت عمدہ درخت تھا جب میں نے اس درخت کی خوبانی کھائی تو مجھے محسوس ہوا تھا کہ میں نے اس سے قبل اتنی اچھی خوبانی نہیں کھائی تھی۔ کشمیر میں اس جیسے کئی درخت ہیں، یہاں کی ناشپاتی اعلیٰ قسم کی ہوتی ہے۔ یہ کابل و بدخشاں کی ناشپاتی سے بہتر اور تقریباً سمرقند کی ناشپاتی کی طرح ہے۔ یہاں کا سیب اپنی عمدگی کے لیے مشہور ہے۔ امرود درمیانے درجے کا ہوتا ہے۔ انگور کثرت سے ہوتا ہے، لیکن اس کی بیشتر قسمیں کھٹی اور ادنیٰ ہوتی ہیں۔ انار بھی ہوتے ہیں لیکن کم مقدار میں، تربوز اعلیٰ قسم کا ہوتا ہے۔ خربوزے نہایت میٹھے ہوتے ہیں، لیکن پختگی کو پہنچ کر ان میں سے اکثر کیڑے پڑجانے کی وجہ سے خراب ہوجاتے ہیں جو خراب ہونے سے بچ جاتے ہیں نہایت عمدہ ہوتے ہیں۔ شہتوت نہیں ہوتا۔ البتہ توقوت کی دیگر تمام قسمیں جن کے تنوں کا سہارا لے کر انگور کی بیلیں اوپر چڑھی ہوئی ہوتی ہیں بہت فراواں ہیں لیکن یہ توت چند درختوں کے توتوں کو چھوڑ کر کھانے کے قابل نہیں ہوتے۔ اور یہ چند درخت بھی وہ ہیں جو قلمی ہیں۔ توت کے پتوں کو ریشم کے کیڑوں کوپالنے کے کام میں لایا جاتا ہے۔ ریشم کے کیڑوں کے انڈے تبت اور گلگت سے لائے جاتے ہیں۔ شراب اور سرکہ یہاں بہت بنتا ہے لیکن یہ شراب ذائقے میں ترش اور ادنیٰ درجے کی ہوتی ہے۔ کشمیری زبان میں مس کہلاتی ہے۔ کئی پیالے پینے کے بعد سرور پیدا کرتی ہے۔ سرکے سے کئی اقسام کے اچار بناتے ہیں چونکہ یہاں اچھی قسم کا لہسن پیدا ہوتا ہے اس لیے اچاروں میں بہترین اچار لہسن کا بنتا ہے۔ یہاں چنے کو چھوڑ کر تمام اقسام کے غلہ جات کی فصل ہوتی ہے۔ جب چنے کی کاشت کرتے ہیں تو پہلے سال اچھی فصل ہوتی ہے۔ دوسرے سال ادنیٰ درجے کے چنے ہوتے ہیں اور تیسرے سال تو اس قدر خراب ہوتے ہیں کہ کلائو کی طرح سے دکھائی دیتے ہیں، چاول کی پیداوار تمام دیگر غلہ جات سے زیادہ ہے۔ غالباً تمام غلہ جات کو ملا کر مجموعی پیداوار تین حصے چاول اور ایک حصہ دیگر غلہ جات پر مشتمل ہے۔ کشمیریوں کی بنیادی غذا چاول ہے، لیکن یہاں چاول ادنیٰ درجے کا ہوتا ہے۔ اس کا خشکہ بنا کر ٹھنڈا کرکے کھاتے ہیں اور اسے بتھ کہتے ہیں۔ کھانا گرم کھانے کا رواج نہیں ہے، بلکہ غریب لوگ تو اس کا ایک حصہ رات کے وقت کھا کر دوسرا حصہ دوسرے دن کھانے کے لیے رکھ چھوڑتے ہیں۔ نمک ہندوستان سے آتا ہے، بتھ میں نمک نہیں ڈالتے۔ البتہ سبزی کو پانی میں ابال کر خوش ذائقہ بنانے کے لیے اس میں تھوڑا سا نمک ڈال دیتے ہیں اور بتھ کے ساتھ کھاتے ہیں۔ جو لوگ خوشحال ہوتے ہیں اور اس کا اظہار کرنا چاہتے ہیں وہ سبزی میں تھورا سا روغن چار مغز ڈال دیتے ہیں، لیکن چار مغز کے اس تیل سے کھانا جلد ہی کڑوا اور بدمزہ ہوجاتا ہے۔ گھی بھی بتھ میں ڈال دیتے ہیں، لیکن وہ بھی کھانے کو بدمزہ کردیتا ہے۔ اگر مکھن سے تازہ تازہ گھی بنا کر استعمال کریں تو ایسا نہیں ہوتا۔ تازہ تازہ بنے ہوئے گھی کو کشمیری میں سدا پاک کہتے ہیں۔
یہ گھی ہوا کے سخت سرد اور مرطوب ہونے کی وجہ سے تین چار روز کے بعد خراب ہوجاتا ہے۔ بھینس اس علاقے میں نہیں ہوتی۔ گائے بھی چھوٹی اور ادنیٰ قسم کی پائی جاتی ہے۔ گیہوں کے دانے ہلکے ہوتے ہیں، گندم کھانے کا یہاں رواج نہیں ہے۔ دنبوں کے چکنائی نہیں ہوتی اور یہ پہاڑی دنبوں کی طرح سے ہوتے ہیں جسے ہندوستانی ہندو کہتے ہیں۔ اس کا گوشت لطیف اور خوش ذائقہ ہوتا ہے۔ مرغ، قاز مرغابی اور سویہ کثرت سے ہوتا ہے۔ مچھلیاں چھلکے دار اور غیر چھلکے دار دونوں قسم کی ملتی ہیں۔ لوگ ادنیٰ درجے کے پشیمنے سے، جسے پٹو کہتے ہیں، کُرتہ بنوا کر پہنتے ہیں، پٹو کے سلسلے میں ان کا نظریہ یہ ہے کہ اس کے بغیر ہوا سے بچنا محال اور ہاضمہ کا صحیح رکھنا ناممکن ہے۔ یہاں کی بنی ہوئی پشیمنہ کی شال جس کا نام حضرت عرش آشیانی (شہنشاہ اکبر) نے ہرم نرم رکھا ہے، انتہائی مشہور ہونے کی وجہ سے محتاج تعریف نہیں ہے۔ ایک اور قسم کا پشیمینہ بُنا جاتا ہے، جسے نرم کہتے ہیں، یہ شال سے زیادہ موٹا اور ملائم تر ہوتا ہے۔ ورد نام کا پشیمینہ بھی بنتا ہے جو گدھوں اور کتوں کا جھول بنانے اور فرش پر ڈالنے کے مصرف میں آتا ہے۔ شال کو چھوڑ کر باقی جتنے پشیمنے ہیں، تبت کے پشیمنوں سے بہتر نہیں ہیں۔ شال تبت کی شال سے بہتر ہے، حالانکہ اس کے لیے اُون تبت سے منگوائی جاتی ہے، کیونکہ تبتی اس اُون سے شال نہیں بناسکتے۔ اس شال کی اُون ایک ایسی بکری سے حاصل ہوتی ہے جو فقط تبت ہی میں پائی جاتی ہے۔ کشمیر میں شال کی اُون سے اعلیٰ درجے کے پٹوبھی بنتے ہیں اور دو شالوں کو ایک دوسرے کے ساتھ رفو کرکے بانات کی طرح ملتے ہیں جس کے بعد بارش کے لیے بھی کارآمد ہوجاتا ہے۔ کشمیر کے لوگ ڈاڑھی منڈواتے ہیں اور گول دستار پہنتے ہیں۔ عوام الناس کی عورتوں میں صاف اور دُھلا ہوا کپڑا پہننے کا رواج نہیں ہے۔ وہ پٹو کا ایک ہی کُرتہ بنوا کر تین چار سال تک مسلسل پہنتی ہیں۔ پٹو بغیر دھوئے ہوئے جلاہے کے ہاں سے لے آتی ہیں اور کرتہ سی کر پہن لیتی ہیں، جب تک یہ کرتہ پھٹ نہیں جاتا پانی کا منہ نہیں دیکھتا۔ پاجامہ پہننا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ کرتہ کھلا اور سر سے پائوں تک لمبا ہوتا ہے۔ جسے کرم کے مقام پر کمر بند سے باندھ لیتی ہیں۔ اگرچہ اکثر لوگوں کے گھر دریا کے کنارے واقع ہوئے ہیں لیکن پانی کا قطرہ بھی نہانے کے مصرف میں نہیں لاتے۔ اہل صنعت و حرفت میرزئی حیدر کے زمانے میں بہت زیادہ تعداد میں یہاں آکر آباد ہوئے اور فن موسیقی میں ترقی ہو کر کمانچہ، جنتر، قانون، چنگ، دف اور بانسری کا رواج ہوا۔ اس سے قبل کمانچہ کی طرح کا ایک ساز یہاں رائج تھا۔ کشمیری زبان کے نمے ہندی راگوں کے سُروں میں گائے جاتے تھے۔ وہ بھی دو تین سُروں میں بلکہ اکثر ایک ہی لے میں۔ سچ بات تو یہ ہے کہ کشمیر کی رونق بڑھانے میں مرزا حیدر نے جو خدمات سرانجام دی ہیں اس کی وجہ سے اس کے بہت سے حقوق ہیں۔ حضرت آشیانی کے عہد سلطنت سے پہلے یہاں کے لوگوں کی سواری کا انحصار گونٹ پر تھا۔ یہاں کے گھوڑے بڑے قد وحبثہ کے نہیں ہوتے تھے۔ البتہ باہر کے ملکوں سے یہاں کے حکام کے لیے بطور تحفہ عراقی اور ترکی گھوڑے لائے جاتے تھے۔ گونٹ پستہ قد گھوڑے کو کہتے ہیں جو ہندوستان کے دیگر پہاڑی علاقوں میں بھی بکثرت پایاجاتا ہے۔ خصوصاً اس کی وہ قسمیں جن کو جنگرہ اور شیخ جلور کہتے ہیں۔ جب یہ خداداد سرزمین گلشن آئین شہنشاہ اکبر کے زیرنگیں آئی تو انہوں نے بہت سے قبائلی امراء کو یہاں جاگیریں عنایت کرکے عراق اور ترکی گھوڑوں کے گلے نسل بڑھانے کے لیے عنایت کیے۔ ان کے سپاہیوں نے بھی اپنی طرف سے اپنے لیے ایسے انتظامات کیے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تھوڑے ہی عرصے میں کشمیر میں اعلیٰ قسم کے گھوڑے ملنے لگے۔ جیسا کہ اب گھوڑے کی قیمت دو تین سو روپے تو عام ہے اور ہزار روپے کی قیمت کا گھوڑا بھی ملتا ہے۔ لوگ سوداگر اور زراعت پیشہ ہیں۔ اکثریت کا مذہب سنت والجماعت ہے۔ سپاہی پیشہ لوگ امامیہ شیعہ ہیں۔ ایک گروہ نوربخشی فرقے سے تعلق رکھتا ہے۔ فقراء کا طبقہ بھی پایا جاتا ہے جنہیں ریشمی کہتے ہیں۔ یہ اہل علم و معرفت تو نہیں ہیں لیکن سادگی و بے ریائی کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ کسی کی برائی نہیں کرتے مطلب دنیا سے کنارہ کش رہتے ہیں، گوشت نہیں کھاتے، شادی نہیں کرتے اور صحرائوں میں پھل دینے والے درختوں کے پودے لگاتے رہتے ہیں اور محض اس خیال سے کہ لوگ ان درختوں کے پھلوں سے بہرہ ور ہوں، خود ان کے پھلوں سے لطف اندوز نہیں ہوتے۔ اس خطے کے افراد کی تعداد دو ہزار ہوگی۔ برہمن لوگ بھی جو اس ملک کے قدیمی باشندے ہیں یہاں موجود ہیں، یہ عام شیریں زبان میں گفتگو کرتے ہیں اور ظہری وضع و اطوار میں مسلمانوں سے مختلف معلوم نہیں ہوتے، لیکن ان کی کتابیں سنسکرت میں ہیں۔ سنسکرت پڑھتے ہیں اور بت پرستی کی تمام رسوم بجا لاتے ہیں۔
جمعہ 15 ماہ فروری کو تبت کے راجہ کی طرف سے پیشکش کے طور پر بھیجی ہوئی دو قطاس گائیں میری نظر سے گزاری گئیں، یہ شباہت اور حبثے میں بھینس سے ملتی ہیں۔ جسم بالوں سے بھرے ہوئے ہیں جو سرد مقام کے حیوانات کا خاصہ ہے۔ اس کے برعکس ولایت بکر سے جو گرم پہاڑی علاقہ ہے۔ ایک پہاڑی بکرا لایا گیا تھا جو نہایت خوبصورت تھا لیکن اس کے جسم پر بال بہت کم تھے۔ اس کوہستان کشمیر میں سرد اور برفانی علاقے ہونے کی وجہ سے جتنے بھی حیوانات پائے جاتے ہیں بالوں سے ڈھکے ہونے اور بدوضع ہوتے ہیں۔ کشمیری پہاڑی بکرے کو کپل کہتے ہیں۔
انہیں دنوں میں ایک آہوئے ختن بھی بطور پیشکش لایا گیا۔ چونکہ میں نے اس قسم کے ہرن کا گوشت اس سے قبل نہیں کھایا تھا اس لیے حکم دے کر اس کا گوشت پکوایا۔ سخت بدمزہ نکلا۔ کسی بھی جنگلی حیوان کا گوشت اس قدر بدذائقہ نہیں ہوتا۔ اس ہرن کے نافے میں تازہ حالت میں خوشبو نہیں ہوتی۔ جب یہ کچھ دن کے بعد خشک ہوجاتا ہے تو مہکنے لگتا ہے، ہرنی میں نافہ نہیں ہوتا۔
میں پچھلے دو تین دنوں میں اکثر و بیشتر کشتی کی سواری کرکے بہاک اور شالمار کے شگوفہ زاروں کے نظاروں سے محظوظ ہوتا رہا۔ بہاک کا پرگنہ کوہ ڈل کے اطراف میں واقع ہے، اس طرح سے شالمار کا پرگنہ بھی کوہ ڈل سے متصل ہے جہاں ایک عمدہ ندی ہے جس کا پانی ڈل سے متصل پہاڑ سے نکل کر ڈل میں مل جاتا ہے۔ میں نے خرم بیٹے کو ہدایت کرکے اس ندی کے وسط میں ایک بند بندھوایا جس کی وجہ سے یہ ندی ایک ایسے آبشار کی صورت اختیار کرگئی جس کے نظارے سے لطف اٹھایا جاسکتا ہے۔ یہ مقام کشمیر کی عمدہ سیرگاہوں میں شمار وہتا ہے۔