کہتے ہیں شہنشاہ جہانگیر جب کشمیر پہنچا اور وہاں کا حُسن دیکھا تو برملا کہہ اٹھا ’’اگر زمین پر کوئی جنت ہے تو بلاشبہ کشمیر ہے‘‘۔ جہانگیر نے اپنی محبوب ملکہ نورجہاں کے لیے وہا ں شالامار باغ بھی بنوایا۔
کشمیری زبان میں کشمیر کے معنی ہیں ’’خشک ہوئی زمین‘‘۔ کشمیر کی وادی کسی زمانے میں پانی کا بڑا ذخیرہ تھی جو بعد میں خشک ہوگئی۔ وادی کشمیر قراقرم پہاڑ کے دامن میں چنار کے درختوں کے سلسلے اور سیب کے باغات سے بھری ہوئی ہے۔ اونچے نیچے پہاڑ، بہتے دریا، سردیوں کے موسم میں برف سے ڈھکی وادی زمین پر دلہن کی مانند ہے۔
لیکن حسین وادی کشمیر کے باسیوں کی تقدیر آنسوؤں اور سسکیوں کی داستان ہے۔ پہلے اسے ایک مہاراجا نے بیچا، پھر اس پر ہندوستان کی حکومت نے جابرانہ قبضہ کرلیا۔ تقسیمِ ہند کے وقت انگریز وائسرائے نے یہ ہدایت نامہ جاری کیا تھا کہ ریاست کے عوام ہندوستان یا پاکستان جس کے ساتھ ملنا چاہیں گے ریاست کشمیر کا الحاق اسی ملک کے ساتھ ہوگا۔ یہی بات اقوامِ متحدہ نے بھی تسلیم کی۔ لیکن ہندوستان کی حکومت نے مسلمانوں کی اکثریتی آبادی والے خطے کو زبردستی وہاں کے باشندوں کی مرضی کے خلاف اپنی ملکیت میں رکھا۔
دنیا میں آج دو باتوں کا بہت چرچا ہے، (1) آزادانہ رائے شماری، اور (2) انسانی حقوق۔ کشمیر کا المیہ یہ ہے کہ اُس کے معاملے میں رائے شماری کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ کشمیری عوام بارہا پاکستان کے حق میں رائے دے چکے ہیں۔ وہ پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں۔
14 اگست کے دن کشمیر کی چھتوں پر پاکستان کے جھنڈے لہراتے ہیں۔ کرکٹ میچ میں پاکستان کی جیت کا جشن وادی کے دامن میں جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ لیکن نہ ہندوستان کو یہ منظر گوارا ہوتا ہے، نہ عالمی میڈیا کو نظر آتا ہے۔
جہاں تک انسانی حقوق کا تعلق ہے، کشمیر بھی فلسطین کی طرح ریاستی جبر اور تشدد کا شکار ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں ہندوستانی فوج کشمیر میں تعینات ہے۔ بلاوجہ نوجوانوں کو گرفتار کرکے جیلوں میں ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔ کسی بھی وقت فوج گھروں میں گھس کر توڑ پھوڑ کرتی ہے اور خواتین کی چادرِ عصمت تارتار کرتی ہے۔ ایک مدت سے کشمیر میں کرفیو ہے، انٹرنیٹ اور فون کی سہولت بھی ختم کردی گئی ہے۔ ہندوستانی میڈیا سرکار کا دیا ہوا راگ الاپتا ہے اور آزادیِ رائے کا عَلم بردار عالمی میڈیا نہ اُدھر آتا ہے، نہ وہاں کی تصویر دکھاتا ہے۔
کشمیر کے غیور عوام مسلسل آزادی کی جدو جہد میں مصروف ہیں۔ سید علی گیلانی، یاسین ملک اور دیگر کشمیری رہنماؤں نے اپنی آزادی کے لیے قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں اور اپنی زندگی اسی مقصد کے لیے تمام کردی۔
5 فروری کشمیر سے یکجہتی کی تاریخ ہے۔ دنیا کی توجہ کشمیر کی جانب مبذول کرانا اور اقوام متحدہ کو کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کا حق دینے پر مجبور کرنا اہلِ صحافت کی بھی ذمہ داری ہے اور اہلِ سیاست کی بھی۔