حج کا پس منظر

570

برادرانِ اسلام! پچھلے خطبے میں نماز‘ روزے اور زکوٰۃ کی متعلق آپ کو تفصیل کے ساتھ بتایا جا چکا ہے کہ یہ عبادتیں انسان کی زندگی کو کس طرح اسلام کے سانچے میں ڈھالتی اور اس کو اللہ کی بندگی کے لیے تیار کرتی ہیں۔ اب اسلام کی فرض عبادتوں میں سے صرف حج باقی ہے‘ جس کے فائدے مجھےآپ کے سامنے بیان کرنے ہیں۔
حج کے معنی:
حج کے معنی عربی زبان میں زیارت کا قصد کرنے کے ہیں۔ حج میں چوں کہ ہر طرف سے لوگ کعبے کی زیارت کا قصد کرتے ہیں‘ اس لیے اس کا نام ’’حج‘‘ رکھا گیا۔
حج کی ابتدا:
سب سے پہلے اس کی ابتدا جس طرح ہوئی اس کا قصہ بڑا سبق آموز ہے۔ اس قصے کو غور سنیے تاکہ حج کی حقیقت اچھی طرح آپ کے ذہن نشین ہو جائے۔ پھر اس کے فائدوں کو سمجھنا آپ کے لیے آسان ہوگا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں حالات:
کون مسلمان‘ عیسائی یا یہودی ایسا ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نام سے واقف نہ ہو؟ دنیا کی دو تہائی سے زیادہ آبادی اُن کو پیشوا مانتی ہے۔ حضرت موسیٰؑ، حضرت عیسیٰؑ اور حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم‘ تینوں انہی کی اولاد سے ہیں۔ انہی کی روشن کی ہوئی شمع سے دنیا بھر میں ہدایت کا نور پھیلا ہے۔ چار ہزار برس سے زیادہ مدت گزری جب وہ عراق کی سرزمین میں پیدا ہوئے تھے۔ اُس وقت ساری دنیا خدا کو بھولی ہوئی تھی۔ روئے زمین پر کوئی ایسا انسان نہ تھا جو اپنے اصلی مالک کو پہچانتا ہو اور صرف اُسی کے آگے اطاعت و بندگی میں سر جھکاتا ہو۔ جس قوم میں انہوں نے آنکھیں کھولی تھیں وہ اگرچہ اس زمانے میں دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ قوم تھی‘ لیکن گمراہی میں بھی وہی سب سے آگے تھی۔ علوم و فنون اور صنعت و حرفت میں ترقی کر لینے کے باوجود ان لوگوں کو اتنی ذرا سی بات نہ سوجھتی تھی کہ مخلوق کبھی معبود ہونے کا اہل نہیں ہوسکتا۔ ان کے ہاں ستاروں اور بتوں کی پرستش ہوتی تھی۔ نوم‘ فال گیری‘ غیب گوئی‘ جادو ٹونے اور تعویذ گنڈے کا خوب چرچا تھا۔ جیسے آج کل ہندوئوں میں پنڈت اور برہمن ہیں اسی طرح اس زمانے میں بھی پچاریوں کا ایک طبقہ تھا جو مندروں کی محافظت بھی کرتا‘ لوگوںکو پوجا بھی کراتا‘ شادی اور غمی وغیرہ کی رسمیں بھی ادا کرتا اور غیب کی خبریں بھی لوگوں کو بتانے کا ڈھونگ رچاتا تھا۔ عام لوگ ان کے پھندے میں ایسے پھنسے ہوئے تھے کہ انہی کو اپنی اچھی اور بری قسمت کا مالک سمجھتے تھے‘ انہی کے اشاروں پر چلتے تھے اور بے چون و چراں ان کی خواہشات کی بندگی کرتے تھے کیوں کہ ان کا گمان تھا کہ دیوتائوں کے ہاں ان پجاریوں کی پہنچ ہے۔ یہ چاہیں تو ہم بادشاہوں کی ملی بھگت تھی۔ عام لوگوں کو اپنا بندہ بنا کر رکھنے میں بادشاہ پجاریوں کے مددگار تھے اور پجاری بادشاہوں کے۔ ایک طرف حکومت ان پجاریوں کی پشت پناہی کرتی تھی اور دوسری طرف یہ پجاری لوگوں کے عقیدے میں یہ بات بٹھاتے تھے کہ بادشاہِ وقت بھی خدائوں میں سے ایک خدا ہے‘ ملک اور رعیت کا مالک ہے‘ اس کی زبان قانون ہے اور اس کو رعایا کی جان و مال پر ہر قسم کے اختیارات حاصل ہیں‘ اتنا ہی نہیں بلکہ بادشاہوں کے آگے پورے بندگی کے مراسم بجا لائے جاتے تھے تاکہ رعایا کے دل و دماغ پر ان کی خدائی کا خیال مسلط ہو جائے۔
حضرت ابراہیمؑ کا گھرانا:
ایسے زمانے اور ایسی قوم میں حضرت ابراہیم ؑ پیدا ہوئے اور لطف یہ ہے کہ جس گھرانے میں پیدا ہوئے وہ خود پجاریوں کا گھرانا تھا۔ ان کے باپ دادا اپنی قوم کے پنڈت اور برہمن تھے۔ اس گھر میں وہی تعلیم اور وہی تربیت ان کو مل سکتی تھی جو ایک پنڈت زادے کو ملا کرتی ہے۔ اسی قسم کی باتیں بچپن سے کانوں میں پڑتی تھیں۔ وہی پیروں اور پیرزادوں کے رنگ ڈھنگ اپنے بھائی بندوں اور برادری کے لوگوں میں دیکھتے تھے۔ وہی مندر کی گدی ان کے لیے تیار تھی جس پر بیٹھ کر وہ اپنی قوم کے پیشوا بن سکتے تھے‘ وہی نذر و نیاز اور چڑھاوے جن سے ان کا خاندان مالا مال ہو رہا تھا ان کے لیے بھی حاضر تھے‘ اُسی طرح لوگ ان کے سامنے بھی ہاتھ جوڑنے اور عقیدت سے سر جھکانے کے لیے موجود تھے۔ اسی طرح دیوتائوں سے رشتہ ملا کر اور غیب گوئی کا ڈھونگ رچا کر وہ ادنیٰ کسان سے لے کر بادشاہ تک ہر ایک کو اپنی پیری کے پھندے میں پھانس سکتے تھے‘ اس اندھیرے میں جہاں کوئی ایک آدمی بھی حق کو جاننے اور والا موجود نہ تھا‘ نہ تو ان کو حق کی روشنی ہی کہیں سے مل سکتی تھی اور نہ کسی معمولی انسان کے بس کا یہ کام تھا کہ اس قدر زبردست ذاتی اور خاندانی فائدوں کو لات مار کر محض سچائی کے پیچھے دنیا بھر کی مصیبتیں مول لینے پر آمادہ ہو جاتا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اعلانِ برأت:
مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کوئی معمولی آدمی نہ تھے‘ کسی اور ہی مٹی سے ان کا خمیر بنا تھا۔ ہوش سنبھالتے ہی انہوں نے سوچنا شروع کردیا کہ یہ سورج‘ چاند اور ستارے جو خود غلاموں کی طرح گردش کر رہے ہیں‘ اور یہ پتھر کے بت جن کو آدمی خود اپنے ہاتھ سے بناتا ہے اور یہ بادشاہ جو ہم ہی جیسے انسان ہیں‘ آخریہ خدا کیسے ہو سکتے ہیں؟ جو بے چارے خود اپنے اختیار سے جنبش نہیں کر سکتے‘ جن میں آپ اپنی مدد کرنے کی قدرت نہیں‘ جو اپنی موت اور زیست کے بھی مختار نہیں‘ ان کے پاس کیا دھرا ہے کہ انسان ان کے آگے عبادت میں سر جھکائے‘ ان سی اپنی حاجتیں مانگے‘ ان کی طاقت سے خوف کھائے اور ان کی خدمت گاری و فرماں برداری کرے‘ زمین اور آسمان کی جتنی چیزیں ہمیں نظر آتی ہیں یا جن سے کسی طور پر ہم واقف ہیں‘ ان میں سے تو کوئی بھی ایسی نہیں جو خود محتاج نہ ہو‘ جو خود کسی طاقت سے دبی ہوئی نہ ہو اور جس پر کبھی نہ کبھی زوال نہ آتا ہو۔ پھر جب ان سب کا یہ حال ہے تو ان میں سے کوئی رب کیسے ہو سکتا ہے؟ جب ان میں سے کسی نے مجھ کو پیدا نہیں کیا‘ نہ کسی کے ہاتھ میں میری موت اور زیست کا اور نفع اور نقصان کا اختیار ہے‘ نہ کسی کے ہاتھ میں رزق اور حاجت روائی کی کنجیاں ہیں‘ تو میں انکو رب کیوں مانوں اور کیوں ان کے آگے بندگی و اطاعت میں سر جھکائوں؟ میرا رب تووہی ہوسکتا ہے جس نے سب کو پیدا کیا‘ جس کے سب محتاج ہیں اور جس کے اختیار میں سب کی موت و زیست اور سب کا نفع و نقصان ہے۔ یہ دیکھ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قطعی فیصلہ کر لیا کہ جن معبودوں کو میری قوم پوجتی ہے ان کو میں ہرگز نہ پوجوں گا اور اس فیصلے پر پہنچنے کے بعد انہوں نے علی الاعلان لوگوں سے کہہ دیا کہ:
-1 ’’جن کو تم خدائی میں شریک ٹھہراتے ہو‘ میں اُن سب سے بے زار ہوں۔‘‘ (الانعام۔ 78:6)
-2 ’’میں نے تو یکسو ہو کر اپنا رُخ اُس ہستی کی طرف کر لیا جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور میں ہرگز شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘ (الانعام۔ 79:6)
مصائب کے پہاڑ:
اس اعلان کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ باپ نے کہا کہ میں عاق کر دوں گا اور گھر سے نکال باہر کروںگا۔ قوم نے کہا ہم میں سے کوئی تمہیں پناہ نہیں دے گا۔ حکومت بھی ان کے پیچھے پڑ گئی اور بادشاہ کے سامنے مقدمہ پیش ہوا‘ مگر وہ یکہ و تنہا انسان سب کے مقابلے میں سچائی کی خاطر ڈٹ کر کھڑا ہوگیا۔ باپ کو ادب سے جواب دیا کہ جو علم میرے پاس ہے وہ تمہیں نہیں ملا‘ اس لیے بجائے اس کے کہ میں تمہاری پیروی کروں‘ تمہیں میری پیروی کرنی چاہیے۔ قوم کی دھمکیوں کے جواب میں اس کے بتوں کو اپنے ہاتھ سے توڑ کر ثابت کر دیا کہ جنہیں تم پوجتے ہو‘ وہ خود کس قدر بے بس ہیں‘ بادشاہ کے بھرے دربار میں جا کر صاف کہہ دیا کہ تو میرا رب نہیں ہے بلکہ وہ ہے جس کے ہاتھ میں میری اور تیری زندگی و موت ہے اور جس کے قانون کی بندش میں سورج تک جکڑا ہوا ہے۔ آخر شاہی دربار میں فیصلہ ہوا کہ اس شخص کو زندہ جلا ڈالا جائے‘ مگر وہ پہاڑ سے زیادہ مضبوط دل رکھنے والا انسان‘ جو خدائے واحد پر ایمان لا چکا تھا‘ اس ہولناک سزا کو بھگتنے کے لیے بھی تیار ہو گیا۔ پھر جب اللہ نے اپنی قدرت سے اس کو آگ میں جلنے سے بچا لیا تو وہ اپنے گھر بار‘ عزیز واقارب‘ قوم اور وطن سب کو چھوڑ چھاڑ کر صرف اپنی بیوی اور ایک بھتیجے کو لے کر غریب الوطنی میں ملک ملک کی خاک چھاننے کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ جس شخص کے لیے اپنے گھر میں مہنت کی گدی موجود تھی‘ جو اس پر بیٹھ کر اپنی قوم کی پیر بن سکتا تھا۔ دولت و عزت دونوں جس کے قدم چومنے کے لیے تیار تھیں‘ اور جو اپنی اولاد کو بھی اس مہنتی کی گدی پر مزے لوٹنے کے لیے چھوڑ سکتا تھا‘ اس نے اپنے لیے اور اپنی اولاد کے لیے جلا وطنی اور بے سروسامانی کی زندگی پسند کی‘ کیوں کہ دنیا کے جھوٹے خدائوں کے جال میں پھانس کر خود مزے کرنا اسے گوارا نہ تھا اور اس کے مقابلے میں یہ گوارا تھا کہ ایک سچے خدا کی بندگی کی طرف لوگوں کو بلائے اور اس جرم کی پاداش میں کہیں چین سے نہ بیٹھ سکے۔
ہجرت:
وطن سے نکل کر حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ و السلام شام‘ فلسطین‘ مصر اور عرب کے ملکوں میں پھرتے رہے۔ خدا ہی جانتا ہے کہ اس مسافرت کی زندگی میں ان پر کیا گزری ہوگی۔ مال و زر کچھ ساتھ لے کر نہ نکلے تھے اور باہر نکل کر اپنی روٹی کمانے کی فکر میں نہیں پھر رہے تھے بلکہ رات دن فکر تھی تو یہ تھی کہ لوگوں کو ہر ایک کی بندگی سے نکال کر صرف ایک خدا کا بندہ بنائیں۔ اس خیال کے آدمی کو جب اس کے اپنے باپ نے اور اس کی اپنی قوم نے برداشت نہ کیا تو اور کون برداشت کر سکتا تھا؟ کہاں اس کی آئو بھگت ہو سکتی تھی؟ ہر جگہ وہی مندروں کی مہنت اور وہی خدائی کے مدعی بادشاہ موجود تھے اور ہر جگہ وہی جاہل عوام بستے تھے جو ان جھوٹے خدائوں کے پھندے میں پھنسے ہوئے تھے۔ ان لوگوں کے درمیان وہ شخص کہاں چین سے بیٹھ سکتا تھا جو نہ صرف خود ہی خدا کی سوا کسی کی خدائی ماننے کے لیے تیار نہ تھا‘ بلکہ دوسروں سے بھی اعلانیہ کہتا پھرتا تھا کہ ایک اللہ کے سوا تمہارا کوئی مالک اور آقا نہیں ہے۔ سب کی آقائی و خداوندی کا تختہ الٹ دو اور صرف اس ایک کے بندے بن کر رہو۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کو کسی جگہ قرار نصیب نہ ہوا۔ سالہا سال سے بے خانماں پھرتے رہے‘ کبھی کنعان کی بستیوں میں ہیں تو کبھی مصر میں اور کبھی عرب کے ریگستان میں۔ اسی طرح ساری جوانی بیت گئی اور کالے بال سفید ہو گئے۔
اولاد اور اس کی تربیت:
اخیر عمر میں جب 90 برس ہونے میں صرف چار سال باقی تھے اور اولاد سے مایوسی ہو چکی تھی‘ اللہ نے اولاددی۔ لیکن اس اللہ کے بندے کو اَب بھی یہ فکر نہ ہوئی کہ خود خانماں برباد ہواہوں تو کم از کم اپنے بچوں ہی کو دنیا کمانے کے قابل بنائوں اور انہیں کسی ایسے کام پر لگا جائوں کہ روٹی کا سہارا مل جائے۔ نہیں‘ اس بوڑھے مسلمان کو فکر تھی تو یہ تھی کہ جس مشن کو پھیلانے میں خود اس نے اپنی عمرکھپا دی تھی‘ کاش کوئی ایسا ہو جو اس کے بعد بھی اسی مشن کو پھیلاتا رہے۔ اسی غرض کے لیے وہ اللہ سے اولاد کا آرزو مند تھا اور جب اللہ نے اولاد دی تو اس نے یہی چاہا کہ اپنے کام کو جاری رکھنے کے لیے انہیں تیار کرے۔ اس انسانِ کامل کی زندگی ایک سچے اور اصلی مسلمان کی زندگی تھی۔ ابتدائے جوانی میں ہوش سنبھالنے کے بعدہی جب اس نے اپنے خدا کو پہچانا اور پالیا تو خدا نے اس سے کہا کہ کہ ’’اسلام لے آ‘ اپنے آپ کو میرے سپرد کردے‘ میرا ہو کر رہ) اور اس نے جواب میں قول دیا کہ ’’میں نے سلام قبول کیا‘ میں رب العالمین کا ہوگیا‘ میں نے اپنے آپ کو اس کے سپرد کر دیا۔‘‘ (البقرہ 131:2)
اس قول و قرار کو اس سچے آدمی نے تمام عمر پوری پابندی کے ساتھ نباہ کر دکھا دیا۔ اس نے رب العالمین کی خاطر صدیوں کے آبائی مذہب اور اس کی رسموں اور عقیدوں کو چھوڑا اور دنیا کے ان سارے فائدوں کو چھوڑا‘ اپنی جان کو آگ کے خطرے میں ڈالا‘ جلا وطنی کی مصیبتیں سہیں‘ملک ملک کی خاج چھانی‘ اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ رب العالمین کی اطاعت اور اس کے دین کی تبلیغ میں صَرف کر دیا اور بڑھاپے میں جب اولاد نصیب ہوئی تو اس کے لیے بھی یہی دین اور یہی کام پسند کیا۔
سب سے بڑی آزمائش:
مگر ان آزمائشوں کے بعد ایک اور آخری آزمائش باقی رہ گئی تھی جس کے بغیر یہ فیصلہ نہ ہوسکتا تھا کہ یہ شخص دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر رب العالمین سے محبت رکھتا ہے‘ اور وہ آزمائش یہ تھی کہ اس بڑھاپے میں جب کہ پوری مایوسی کے بعد اسے اولاد نصیب ہوئی ہے‘ اپنے اکلوتے بیٹے کو رب العالمین کی خاطر قربان کرسکتا ہے یا نہیں۔ چنانچہ یہ آزمائش بھی کر ڈالی گئی‘ اور جب اشارہ پاتے ہی وہ اپنے بیٹے کو اپنے ہاتھ سے ذبح کرنے پر آمادہ ہو گیا‘ تب فیصلہ فرما دیا گیا کہ ہاں اب تم نے اپنے مسلم ہونے کے دعوے کو بالکل سچا کر دکھایا۔ اب تم اس کے اہل ہو کہ تمہیں ساری دنیا کا امام بنایا جائے۔ اسی بات کو قرآن میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ:
’’اور جب ابراہیمؑ ک اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا اور وہ ان میں پورا اتر گیا تو فرمایا کہ میں تجھے انسانوں کا امام (پیشوا) بنانے والا ہوں۔ اس نے عرض کیا اور میری اولاد کے متعلق کیا حکم ہے؟ جواب دیا ان میں سے جو ظالم ہوں گے انہیں میرا عہد نہیں پہنچتا۔‘ (البقرہ۔ 124:2)
امامتِ عالم پر سرفرازی:
اس طرح حضرت ابراہیمؑ کی پیشوائی سونپی گئی اور وہ اسلام کی عالمگیر تحریک کے لیڈر بنائے گئے۔ اب ان کو اس تحریک کی اشاعت کے لیے ایسے آدمیوں کی ضرورت پیش آئی جو مختلف علاقوں کو سنبھال کر بیٹھ جائیں اور ان کے خلیفہ یا نائب کی حیثیت سے کام کریں۔ اس کام میں تین آدمی ان کے لیی قوتِ بازو ثابت ہوئے۔ ایک اُن کے بھیتجے حضرت لوط علیہ السلام‘ دوسرے اُن کے بڑے صاحبزادے حضرت اسماعیل علیہ السلام جنہوں نے یہ سن کر کہ رب العالمین ان کی جان کی قربانی چاہتا ہے‘ خود اپنی گردن خوشی خوشی چھری کے نیچے رکھ دی۔ تیسرے اُن کے چھوٹے صاحبزادے حضرت اسحاق علیہ السلام۔
حضرت لوطؑ کو شرِق اُردن بھیجنا:
بھتیجے (حضرت لوط علیہ السلام) کو آپ نے سدوم کے علاقے میں بٹھایا‘ جس کو آج کل شرقِ اُردن (ٹرانس جورڈینیا) کہتے ہیں۔ یہاں اس وقت کی سب سے زیادہ پاجی (بدمعاش و جرائم پیشہ) قوم رہتی تھی‘ اس لیے اس کی اصلاح مدنظر تھی اور ساتھ ہی دور دراز کے علاقوں پر بھی اثر ڈالنا مقصود تھا کیوں کہ ایران‘ عراق اور مصر کے درمیان آنے جانے والے سب تجارتی قافلے اسی علاقے سے گزرتے تھے اور یہاں بیٹھ کر دونوں طرف تبلیغ کا سلسلہ جاری کیا جاسکتا تھا۔
حضرت اسحاقؑ کو فلسطین بھیجا:
چھوٹے صاحبزادے حضرت اسحاق علیہ السلام کو کنعان کے علاقے میں آباد کیا جس کو آج کل فلسطین کہا جاتا ہے۔ یہ علاقہ شام اور مصر کے درمیان واقع ہے اور سمندر کے کنارے ہونے کی وجہ سے دوسرے ملکوں پر بھی یہاں سے اثر ڈالا جا سکتا ہے۔ یہیں سے حضرت اسحاقؑ کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام (جن کا نام اسرائیل بھی تھا) اور پوتے حضرت یوسفؑ کی بدولت اسلام کی تحریک مصر تک پہنچی۔
حضرت اسماعیلؑ کو حجاز میں رکھا:
بڑے صاحبزادے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو حجاز میں مکے کے مقام پر رکھا اور ایک مدت تک خود ان کے ساتھ رہ کر عرب کے تمام گوشوں میں اسلام کی تعلیم پھیلائی۔
تعمیر کعبہ:
پھر یہیں دونوں باپ بیٹے نے اسلامی تحریک کا وہ مرکز تعمیر کیا جو کعبہ کے نام سے آج ساری دنیا میں مشہور ہے۔ اس مرکز کا انتخاب اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا تھا ار خود ہی اس تعمیر کی جگہ تجویز کی تھی۔ یہ عمارت محض ایک عبادت گاہ ہی نہ تھی‘ جیسے مسجدیں ہوا کرتی ہیں‘ بلکہ اوّل روز ہی سے اس کو دینِ اسلام کی عالمگیر تحریک کا مرکز تبلیغ و اشاعت قرار دیا گیا تھا‘ اور اس کی غرض یہ تھی کہ ایک خدا کو ماننے والے ہر جگہ سے کھنچ کھنچ کر یہاں جمع ہوا کریں۔ مل کر خداکی عبادت کریں اور اسلام کا پیغام لے کر پھر اپنے ملکوں کو واپس جائیں۔ یہی اجتماع تھا جس کا نام حج رکھا گیا۔ اس کی پوری تفصیل کہ یہ مرکز کس طرح تعمیر ہوا‘ کن جذبات اور کن دعائوں کے ساتھ دونوں باپ بیٹے نے اس عمارت کی دیواریں اٹھائیں اور کیسے حج کی ابتدا ہوئی‘ قرآن مجید میںیوں بیان کی گئی ہے:
-1’’یقینا پہلا گھر جو لوگوں کے لیے مقرر کیا گیا وہی تھا جو مکہ میں تعمیر ہوا‘ برکت والا گھر‘ اور سارے جہان والوں کے لیے مرکزِ ہدایت۔ اس میں اللہ کی کھلی ہوئی نشانیاں ہیں‘ مقام ابراہیمؑ ہے اور جواس میں داخل ہو جاتاہے اس کو امن مل جاتا ہے۔‘‘ (آل عمران۔96-97:3)
-2 کیا لوگوں نے دیکھا نہیں کہ ہم نے کیسا پُرامن حرم بنایا ہے‘ حالانکہ اس کے گردوپیش لوگ اچک لیے جاتے ہیں۔ (یعنی جب کہ عرب میں ہر طرف لوٹ مار‘ قتل و غارت گری اور جنگ و جدل کا بازار گرم تھا اس حرم میں ہمیشہ امن ہی رہا۔ حتیٰ کہ وحشی بدو تک اس کے حدود میں اپنے باپ کے قاتل کو بھی دیکھ پاتے تو اس پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہ کرتے۔)‘‘ (العنکبوت۔ 67:29)
حضرت ابراہیمؑ کی دعائیں:
’’اورجب کہ ہم نے اس گھر کو لوگوں کے کے لیے مرکز و مرجع اور امن کی جگہ بنایا اور حکم دیا کہ ابراہیم ؑ کے مقامِ عبادت کو جائے نماز بنا لو اور ابراہیمؑ اور اسماعیلؑ کو ہدایت کی کہ میرے گھر کو طواف کرنے والے اور ٹھہرنے والے اور رکوع و سجدہ کرنے والے لوگوں کے لیے پاک صاف رکھو اور جب کہ ابراہیمؑ نے دُعا کی کہ پروردگار! اس شہر کو پُرامن شہر بنا دے اور یہاں کے باشندے کو پھلوں کا رزق بہم پہنچا‘ جو ان میں سے اللہ اور یومِ آخر پر ایمان لانے والا ہو… اورجب ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ اس گھر کی بنیادیں اٹھا رہے تھے تو دعاکرتے جاتے تھے کہ پروردگار! ہماری اس کوشش کو قبول فرما‘ تو سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔ پروردگار! اور تو ہم دونوں کو اپنا مسلم (اطاعت گزار) بنا اور ہماری نسل سے ایک ایسی قوم اٹھا جو تیری مسلم ہو اور ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا اور ہم پر عنایت کی نظر رکھ کہ تو بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے۔ پروردگار! اور تو ان لوگوں میں انہی کی قوم سے ایک ایسا رسول بھیجیو جو انہیں تیری آیات سنائے اور ان کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دے اور ان کے اخلاق درست کرے۔ یقینا تو بڑی قوت والا ہے اور بڑاحکیم ہے۔‘‘ (البقرہ۔ 125-129:2)
-2 ’’اور جب کہ ابراہیم ؑ نے دعاکی کہ پروردگار! اس شہر کو پُرامن شہر بنا اور مجھ کو اور میرے بچوںکو بت پرستی سے بچا۔ پروردگار! ان بتوں نے بہتیرے لوگوں کو گمراہ کیا ہے۔ سو جو کوئی میرے طریقے کی پیروی کرے تو میرا ہے اورجو میرے طریقے سے پھر جائے تو یقینا تو غفور اور رحیم ہے۔ پروردگار! میں نے اپنی نسل کے ایک حصے کو تیرے اس عزت والے گھر کے پاس اس بے آب و گیارہ وادی میں لابسایا ہے تاکہ یہ نمازکا نظام قائم کریں۔ پس اے رب! تو لوگوں کے دلوں میں ایسا شوق ڈال کہ وہ ان کی طرف کھنچ کر آئیں اور ان پھلوں سے رزق پہنچا۔ امید ہے کہ یہ تیرے شکر گزار بنیں گے۔‘‘ (ابراہیم۔ 37:14)
حج کا اعلانِ عام:
’’یاد کرو وہ وقت جب کہ ہم نے ابراہیمؑ کے لیے اس گھر (خانہ کعبہ) کی جگہ تجویز کی تھی‘ (اس ہدایت کے ساتھ کہ) میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو‘ اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور قیام و رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک رکھو اور لوگوں کو حج کے لیے اذنِ عام دے دو کہ وہ تمہارے پاس ہر دور دراز مقام سے پیدل اور اونٹوں پر سوار آئیں تاکہ وہ فائدے دیکھیں جو یہاں ان کے لیے رکھے گئے ہیں اور چند مقرر دنوں میں ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انہیں بخشے ہیں۔خود بھی کھائیں اور تنگ دست محتاج کوبھی دیں۔‘‘ (الحج۔ 28-26:22)
برادرانِ اسلام! یہ ہے اس حج کی ابتدا کا قصہ جسے اسلام کا پانچواں رکن قرار دیا گیا ہے۔ اس سے آپ کو معلوم ہو گیا ہوگا کہ دنیا میں سب سے پہلے جس نبی کو اسلام کی عالم گیر دعوت پھیلانے پر مامورکیا گیا تھا‘ مکہ اس کے مشن کا صدر مقام تھا۔ کعبہ وہ مرکز تھا جہاں سے یہ تبلیغ دنیا کے مختلف گوشوں میں پہنچائی جاتی تھی اور حج کا طریقہ اس لیے مقرر کیا گیا تھا کہ جو لوگ خدائے واحد کی بندگی کا اقرار کریں اور اس کی اطاعت میں داخل ہوں‘ خواہ وہ کسی قوم اور کسی ملک تعلق رکھتے ہوں‘ سب کے سب اس ایک مرکز سے وابستہ ہو جائیں اور سال یہاں جمع ہو کر اس مرکز کے گرد طواف کریں۔گویا ظاہر میں اپنی اس باطنی کیفیت کا نقشہ جما لیں کہ ان کی زندگی اس پہیے کی طرح ہے جو ہمیشہ اپنے دُھرے (محور: Axos) کے گرد ہی گھومتا ہے۔ (جاری ہے)

حصہ