یہ سچ ہے کہ معاشرے کی صحت کا دارومدار خواتین کی صحت پر ہوتا ہے، تندرست مائیں ہی صحت مند معاشرہ جنم دیتی ہیں۔ پاکستان میں خواتین کی صحت کی عمومی صورتِ حال غیر تسلی بخش ہے۔ مناسب طبی سہولیات کے فقدان اور دیگر وجوہ کی بنا پر خواتین مختلف مسائل و اوہام کا شکار دکھائی دیتی ہیں۔ انہی مسائل کے پیش نظر ہم نے بات چیت کی غرض سے مشہور گائناکالوجسٹ ڈاکٹر عذرا جمیل سے رابطہ کیا۔ ڈاکٹر عذرا جمیل نے سندھ میڈیکل کالج سے طب کی ڈگری لی، بعدازاں گائنی کے شعبے کی مزید اسناد حاصل کیں۔ سندھ گورنمنٹ قطر اسپتال میں تدریسی شعبے سے منسلک رہیں۔ گزشتہ بائیس سال سے الخدمت اسپتال میں بطور ماہرِ نسواں (گائناکالوجسٹ) خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ ڈاکٹر عذرا جمیل سے کی گئی گفتگو قارئین کے لیے پیش خدمت ہے۔
جسارت میگزین: پاکستان میں خواتین میں کون سے امراض عام ہیں اور ان کی وجوہات کیا ہیں؟
ڈاکٹر عذرا جمیل: ذیابیطس، بلند فشارِ خون، جوڑوں کی تکالیف… غرض کون سے عوارض ہیں جو خواتین میں نہیں! اینیمیا (خون کی کمی کا مرض) عام ہے اور یہ دیگر امراض کا بالواسطہ سبب بھی ہے۔ مدافعتی نظام کا کمزور ہونا اور مختلف اقسام کے انفیکشن بھی اینیمیا کے باعث ہیں۔ میرا خیال ہے کہ آج کل ہر چوتھے گھرانے میں ذیابیطس پائی جاتی جاتی ہے، نتیجتاً موٹاپا بڑھ رہا ہے۔ آپ کو بھی معلوم ہے کہ پاکستان پسماندہ ملک ہے۔ صحتِ عامہ کے لیے بجٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ بجٹ کا ایک فیصد سے بھی کم حصہ صحت کے شعبے پر خرچ ہوتا ہے۔ غربت کی لکیر سے نچلا طبقہ تو صحت کے اخرجات ازخود برداشت نہیں کرسکتا، اسی لیے وہاں خواتین کی صحت پر توجہ کم اور مسائل زیادہ ہیں۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ پڑھا لکھا طبقہ بھی صحت و معالجہ کو سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ خواتین جب تک ہنگامی صورتِ حال سے دوچار نہ ہوجائیں، معالج سے رابطہ نہیں کرتیں۔ ادویہ کے بجائے روایتی گھریلو ٹوٹکوں پر انحصار کرنا عادت بن گیا ہے۔ خواتین محض زبان کے ذائقے کو مدنظر رکھتے ہوئے غذائی چارٹ بناتی ہیں۔ انہیں اس بات کی فکر نہیں ہوتی کہ غذا ضرورت کے تحت کھائی جائے۔ بہت سی خواتین مرض کا تدارک کرنا ہی نہیں چاہتیں لیکن جب بہت برا حال ہوتا ہے تو ڈرپ بخوشی لگوا لیتی ہیں۔
جسارت میگزین: ویکسین کے حوالے سے عموماً اندیشے پائے جاتے ہیں (ہارمونز کا بدلنا، ڈی این اے کی تبدیلی وغیرہ)، اس میں کتنی حقیقت ہے؟
ڈاکٹر عذرا جمیل: اس بات میں کوئی صداقت نہیں، محض غیر حقیقی مفروضے ہیں۔ بہرحال جب بھی ویکسی نیشن کی جاتی ہے تو اس کے اثرات فوری تو سامنے نہیں آتے، نہ ہی اب تک کوئی ایسا کیس رپورٹ ہوا جو پریشان کن ہو۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق یہ ویکسین ہر لحاظ سے محفوظ ہے۔ ماہواری و عرصۂ رضاعت یا دیگر عوارض میں مبتلا خواتین بلا خوف و خطر لگوا سکتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں سنی سنائی باتوں پر بہت جلد یقین کر لیا جاتا ہے جیسے بہت سے گھرانوں میں زچہ کو ڈیلیوری کے بعد گرم چیزیں کھلانے سے گریز کیا جاتا ہے، حالانکہ میڈیکل نکتہ نظر سے بالکل ممانعت نہیں۔ سمجھانے کے باوجود خواتین سب کی سنتی ہیں ماسوائے معالج کے۔
جسارت میگزین: ویکسی نیشن کے باوجود وائرس سے متاثر ہونے کے کتنے امکانات ہوتے ہیں؟
ڈاکٹر عذرا جمیل: یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ ایسا نہیں ہے کہ ویکسین لگوانے سے وائرس سے متاثر نہیں ہو سکتے، البتہ خدشہ کم ہوجاتا ہے، کیوں کہ اینٹی باڈیز جسم میں بن جاتی ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے اگر آپ نے فلو کی ویکسی نیشن کروائی، اس کے بعد اگر فلو ہوگا تو اثرات پہلے کی نسبت کم ہوں گے۔
جسارت میگزین: کیا یہ بات درست ہے کہ غیر حاملہ خواتین کے مقابلے میں حاملہ خواتین میں کووڈ سے متاثر ہونے کا خطرہ بڑھتا ہے؟
ڈاکٹر عذرا جمیل: ویسے تو کووڈ دونوں کے لیے برابر خطرناک ہے، لیکن بڑی عمر کی خواتین کو زیادہ خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ حمل کوئی بیماری تو نہیں ہے۔ ا گر حاملہ خاتون بلند فشارِ خون، ذیابیطس یا کسی اور مرض میں مبتلا ہے تو پھر ہم کہہ سکتے ہیں کہ وائرس جلد اثرانداز ہو سکتا ہے۔
جسارت میگزین: کووڈ 19 حاملہ خواتین میں پیچیدگیوں کا سبب بنتا ہے؟
ڈاکٹر عذرا جمیل: بالکل، پیچیدگی تو ہوگی کیوں کہ کووڈ نظامِ تنفس کو متاثر کرتا ہے اور حاملہ خواتین میں سانس کی تکالیف، کھانسی، سانس کی رفتار کا اوپر نیچے ہونا عام بات ہے۔ ظاہری طور پر پھر وائرس کا بوجھ حاملہ خواتین کو مشکل میں ڈال سکتا ہے۔
جسارت میگزین: دورانِ حمل خاتون وائرس کا شکار ہو جائے تو کیا کرنا چاہیے؟
ڈاکٹر عذرا جمیل: دیکھیں اس میں علامات بہت اہم ہیں۔ اگر کوئی حاملہ خاتون وائرس کا شکار ہوگئی ہے تو اس کی حالت کو جانچا جاتا ہے۔ اس کے مطابق ہی اقدامات کرنے پڑتے ہیں، جیسے معمولی علامات میں ہم مریضہ کو آئسولیشن تجویز کرتے ہیں، کھانے پینے میں احتیاط برتنے کا مشورہ دیتے ہیں، جس سے کھانسی بڑھتی ہو وہ نہ لیں وغیرہ۔
جسارت میگزین: ویکسین سے زچہ و بچہ دونوں کو منفی نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، اس میں کتنی حقیقت ہے؟
ڈاکٹر عذرا جمیل: فی الحال تو اس کے متعلق حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ دورانِ حمل ہیپاٹائٹس سمیت دیگر ویکسین بھی لگائی جاتی ہیں، مگر اب تک ان کے منفی اثرات سامنے نہیں آئے۔ بالکل اسی طرح کووڈ کی ویکسین ہے۔ بالفرض ان خدشات کو درست مان بھی لیا جائے اور آگے جاکر پتا چلتا ہے کہ سو میں سے تین یا چار بچے اثرانداز ہوئے، ان حالات میں ویکسین نہ لگانے سے خاتون جان سے گزر جانے کا خطرہ رکھتی ہے تو ظاہر سی بات ہے ویکسین دی جائے گی۔ خطیر تناسب کے پیش نظر کسی کی جان خطرے میں ڈالنا کوئی دانش مندی تو نہیں۔
جسارت میگزین : آج کل بچوں کی پیدائش نارمل کی نسبت آپریشن سے زیادہ ہورہی ہے، اس کی وجوہات کیا ہیں ؟
ڈاکٹر عذرا جمیل: اس کی دو وجوہات ہیں، پہلی یہ کہ معالجین حد درجہ پریکٹس میں مصروف رہتے ہیں اس لیے چاہتے ہیں کہ جلد از جلد یہ کام بخوبی انجام پا جائے۔ اس کے علاوہ پیچیدگی کی صورت میں معالج کو ہراساں کیا جانا بھی اہم وجہ ہے۔ اسی لیے ڈاکٹرز بھی آپریشن کا شارٹ کٹ اپنا رہے ہیں۔ دوسری جانب بیس فیصد مریض اہلِ خانہ سمیت آپریشن کی طرف مائل نظر آتے ہیں، ہماری خواتین سہل طرزِ زندگی ، ورزش کی کمی، ناقص غذا، کام سے بھاگنے، جسمانی تگ و دو کے فقدان کے سبب نارمل ڈیلیوری کے دوران زیادہ تکلیف کا سامنا کرتی ہیں۔
جسارت میگزین :آپریشن سے قبل سُن کرنے کے لیے جو انجکشن لگایا جاتا ہے اُس کے منفی اثرات ہوتے ہیں یا نہیں؟ اگر ہوتے ہیں تو خواتین کو منفی اثرات سے بچنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟
ڈاکٹر عذرا جمیل: یہ spinal anesthesia ہوتا ہے جسے عرفِ عام میں کمر کی سوئی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کے کوئی منفی اثرات نہیں ہوتے، صرف وقتی تکلیف ہوتی ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے گوشت میں کوئی سوئی لگادی جائے، بالکل اسی طرح کمر کی ہڈی کے درمیان چھوٹا سا خلا ہوتا ہے، اس کے اندر باریک سی سوئی چبھوئی جاتی ہے، جس کا کوئی منفی اثر نہیں۔ ہمارے ہاں جن خواتین کا وزن زیادہ ہو، یا پہلے سے ہی کمر کے درد میں مبتلا ہوں، یا آپریشن کی طویل مدت گزرنے کے بعد بھی ہر قسم کے کمر درد کو اس انجکشن سے جوڑ دیا جاتا ہے جو کہ سراسر غلط اور مفروضات پر مبنی بات ہے۔
ڈاکٹر عذرا جمیل: نئی شادی شدہ لڑکیاں جو پہلی دفعہ ماں بننے کے مراحل سے گزر رہی ہیں، ان کو نارمل ڈیلیوری کے لیے کیا کرنا چاہیے؟
ڈاکٹر عذرا جمیل: میں بارہا اس بات پر زور دیتی ہوں کہ خواتین خاص طور پر بچیوں کو لائف اسٹائل تبدیل کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ محنت اور کام سے کترانا عادت سی بن گئی ہے۔ ورکنگ وومن شاید وقت کی قلت کے باعث خود پر توجہ نہیں دے پاتیں، مگر جو بچیاں مناسب رہن سہن اور وزن رکھتی ہیں، ڈاکٹرز کی ہدایات پر عمل کرتی ہیں اور جسمانی طور پر متحرک ہوتی ہیں میں نہیں سمجھتی انہیں نارمل ڈیلیوری میں کسی مشکل کا سامنا ہوسکتا ہے۔ ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کا تعلق محض جسمانی طور پر متحرک رہنے سے کسی حد تک تو ہوسکتا ہے، لیکن 100فیصد نہیں۔ ذہنی طور پر خود کو تکلیف کے لیے تیار کرنا بھی بہت اہم ہے۔ ہر کسی کی درد برداشت کرنے کی صلاحیت مختلف ہوتی ہے۔ بعض تکالیف برداشت کرلیتی ہیں اور بعض کی برداشت نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے، لہٰذا اس کے لیے اپنے معالج سے رابطے میں رہیں اور ان کی ہدایات کے بغیر کوئی فیصلہ ہرگز نہ لیں۔
جسارت میگزین: خواتین کو صحت مند رہنے کے لیے کیا مشورے دیں گی؟
ڈاکٹر عذرا جمیل: عموماً خواتین صحت کے معاملے میں غفلت برتتی ہیں۔ سب سے پہلے تو اُن سے یہی کہوں گی کہ ان کی صحت میں کوئی مسئلہ ہے، اس بات کی فکر کرنی چاہیے۔ صحت کے ضمن میں اگر خرچا کرنا پڑے تو ضرور کریں، صحت کو اوّلین ترجیح دیں۔ یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ خواتین صحت مند ہوںگی تو معاشرہ صحت مند ہوگا۔ خواتین سہل طرزِ زندگی سے اجتناب برتیں، سونے جاگنے کے اوقات مقرر کریں، مناسب، بھرپور اور صحت مند غذا کا استعمال معمول بنائیں۔ دودھ، دالیں، انڈا، گوشت غذا میں شامل کریں۔ پھلوں اور سبزیوں کے جوسز کے بجائے جتنا کھایا جائے اتنا ہی فائدہ مند ہے۔ صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھیں، ذرا سی بے احتیاطی سے انفیکشن کا شکار ہوسکتی ہیں۔ صاف پانی دستیاب نہ ہو تو پانی ابال کر پئیں، خرابیِ صحت کی صورت میں معالج کو ضرور چیک کروائیں اور ان کے مشوروں پر عمل کریں۔