عقیلہ: اللہ کا شکر ہے سارے کام خیرو خوبی سے نمٹ گئے۔ آج دونوں بیٹوں کا ولیمہ تھا… الحمدللہ۔
وہ سارے کاموں سے فارغ ہوکر بستر پر آکر لیٹ گئی۔ تمام مہمان جو دو دن سے اُس کے گھر میں مقیم تھے، جا چکے تھے۔ اس نے گھڑی دیکھی، رات کے دو بج رہے تھے۔ اس نے اپنے کشادہ اور خوبصورت کمرے کو دیکھا اور آنکھیں بند کرکے لیٹنے کی کوشش کی۔ اس کے لبوں پر پھر الحمدللہ کی سرگوشی تھی… شکر ہے میرے مولا ،تُو بے شک مشکلات کے بعد آسانیاں عطا کرتا ہے۔
پھر سوچوں کے دھارے اسے بہت پیچھے لے گئے۔
٭…٭
یہ خبر اس کے اوپر بجلی بن کر گری… بے شک سہیل ایک دولت مند گھرانے کا چشم و چراغ تھا۔ عالیشان محل نما گھر، گاڑی، سبھی کچھ تھا۔ لیکن دولت مند باپ کا بگڑا ہوا بیٹا… اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر دوستوں کے ساتھ موج مستی میں مشغول رہتا… باپ کا بڑا کاروبار تھا جو اس کا باپ اپنے کارندوں کی مدد سے چلا رہا تھا۔ جبکہ عقیلہ اعلیٰ تعلیم یافتہ، خوبصورت، بڑے باپ کی بیٹی تھی۔ اسے خود سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس کے ماں باپ اِس رشتے پر راضی کیسے ہوگئے ہیں؟ سوائے دولت کے وہ لڑکا اس کی برابری کے بالکل لائق نہ تھا۔ شاید دور پرے کی رشتے داری کی وجہ سے یہ رشتہ کردیا گیا تھا۔
لیکن اب سوائے رب پر بھروسے کے اُس کے پاس کوئی راستہ نہ تھا… شاید اس کی رفاقت سے وہ شخص راہِ راست پر آجائے۔
شادی کے بعد چند دن تو دعوتوں، ملنے جلنے میں گزر گئے… لیکن جیسے جیسے دن گزرتے جا رہے تھے اُس کے شوہر کی مصروفیات اور نت نئے رنگ ڈھنگ کھلتے جارہے تھے۔ وہ (سہیل) بری صحبت کی تمام عیاشیوں میں گھرا ہوا شخص اپنی ان تمام برائیوں کو ماڈرن دور کی ضروریات کہتا، کہ یہ سب امیر گھرانوں کا معمول ہے… یعنی یہ ’’عیاشیاں، رنگ رلیاں‘‘ اس کی زندگی کی پہچان ہیں… وہ تو یہ سوچ کر اس گھر میں آئی تھی کہ اپنے حسنِ سلوک سے سہیل کو تبدیل کردے گی، اُس پر اُس کی ادھوری تعلیم مکمل کرنے کے لیے زور دے گی… لیکن ایسا ممکن نہ تھا، جب بھی وہ اُس کو کوئی نصیحت کرتی گھر میں ایک فساد برپا ہوجاتا۔ سونے پہ سہاگہ سہیل کی ماں بھی بیٹے کا ساتھ دیتی اور بہو کو ہی برا بھلا کہتی۔ ان حالات نے عقیلہ کو بھی چڑچڑا کردیا۔ آئے دن شوہر اور ساس سے لڑائی جھگڑا۔ اس نے چاہا کہ بچوں کی وجہ سے ہی خاموشی سے دن گزار دے، لیکن اب اسے لگ رہا تھا کہ اس کے شوہر کے رنگ ڈھنگ کی وجہ سے اس کے بچے بھی بگڑ سکتے ہیں۔ اس نے شوہر کو سمجھانے کی بہت کوشش کی، بچوں کا واسطہ دیا۔ لیکن معاملہ مزید بگڑتا گیا۔ ساس سسر کے انتقال کے بعد اس کے گھر والوں نے دیکھا کہ سہیل تو تمام دن نشے میں دھت رہتا ہے، نہ اسے کاروبار سے دلچسپی ہے، نہ گھر والوں سے… لہٰذا عقیلہ کو ایک الگ چھوٹا مکان لے کر وہاں منتقل کردیا۔ ماہانہ خرچہ بھائی اسے دے جاتے کہ اس سے گزارا کرو… عقیلہ کے لیے یہ ایک نئی آزمائش تھی… اس نے دیوروں سے درخواست کی کہ ماہانہ خرچہ سہیل کے بجائے اسے دیا جائے تاکہ وہ گھر اور بچوں کی ضروریات پوری کرسکے… کیونکہ سہیل کے ہاتھ میں جو پیسہ آتا، وہ شراب و نشے میں اڑا دیتا۔
٭…٭
راحیلہ: میری دوست تم نے اپنی کیا حالت بنالی ہے! تم ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی ہو، جو ہوچکا وہ ہوچکا، اب لکیر پیٹنے کے بجائے آگے کی سوچو… میرا مطلب ہے اپنے نصیب کا رونا رونے کے بجائے اپنے بیٹوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دو، ان کے مستقبل کا سوچو۔
عقیلہ: کیا سہیل سے طلاق لے لوں؟ پھر جو ماہانہ خرچہ مجھے مل رہا ہے اس سے بھی ہاتھ دھو لوں؟
راحیلہ: میں یہ کب کہہ رہی ہوں…! تم سہیل بھائی کو اُن کے حال پر چھوڑ دو، اب اُن کی واپسی ناممکن ہے، لیکن اپنے بچوں کا سوچو۔ پڑھی لکھی ہو، سمجھ دار ہو، سب کچھ ممکن ہے۔ ملازمت نہیں کرسکتیں تو گھر پر ٹیوشن وغیرہ بھی پڑھا سکتی ہے۔ تمہارے بچے کچھ بن گئے تو تمہارا بڑھاپا بھی سکون سے گزرے گا، یہ بچے ہی تمہارا سہارا بنیں گے۔
ہمت کرو، کچھ بھی مشکل نہیں۔ میرا رب کہتا ہے کہ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے۔ اللہ تمہاری مشکلات بھی ختم کرے گا… مجھے تو یوں لگتا ہے کہ تم سہیل بھائی کی وجہ سے نہ صرف اپنی زندگی بلکہ بچوں کی زندگی بھی برباد کردو گی۔
٭…٭
وہ رات کو سوئی تو راحیلہ کی باتیں اس کے ذہن پر ہتھوڑے برسا رہی تھیں کہ ’’تم سہیل بھائی کی وجہ سے نہ صرف اپنی، بلکہ بچوں کی زندگی بھی برباد کردو گی۔‘‘
راحیلہ نے کچھ غلط بھی نہیں کہا تھا، اس نے واقعی سہیل کی وجہ سے بچوں کی طرف سے بھی غفلت برتی تھی۔ ’’نہیں، اب ایسا نہیں ہوگا، میں پڑھی لکھی ہوں، مجھے اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے سوچنا ہوگا، ورنہ وہ بھی باپ کے راستے پر چل پڑیں گے‘‘۔ وہ ایک نئے جذبے سے اٹھی۔ ’’بے شک مشکلات کے بعد آسانی ہے، میرے رب نے غلط تو نہ کہا ہوگا۔‘‘
اس نے اپنی ساری توجہ بچوں کی تعلیم و تربیت کی طرف مبذول کردی۔ اسکول کے بعد مولانا صاحب بچوں کو قرآن بھی پڑھانے آنے لگے۔ اس نے نہ صرف خود نماز کی پابندی شروع کردی بلکہ بچوں کو بھی اس طرف راغب کیا۔ گھر، گھرداری، بچوں کی تعلیم و تربیت، ٹیوشن… یہ سب اگرچہ اسے تھکا دیتے، لیکن اس نے نوٹ کیا کہ اب اسے فرصت ہی نہیں کہ وہ سہیل کی وجہ سے روتی یا واویلا کرتی رہے… دوسری طرف شراب نوشی نے سہیل کے پھیپھڑوں کو ناکارہ کردیا تھا، اور اُس کی موت کی وجہ سے وہ بیوہ، اور بچے یتیم ہوگئے تھے، لیکن اس کی زندگی کے معاملات اور گزر بسر بہتر طریقے سے ہورہی تھی۔ سہیل جو رقم شراب میں گنوا دیتا تھا اب وہ بھی اس کے بچوں کی تعلیم میں کام آرہی تھی۔
بڑا بیٹا ذیشان تعلیم کے ساتھ ساتھ تبلیغی جماعت کے درس وغیرہ بھی اٹینڈ کرنے لگا، جس کا نمایاں اثر اس کی زندگی میں بھی نظر آنے لگا۔
بے شک میرے رب نے غلط نہیں فرمایا، مشکلات کے بعد آسانیاں ہیں، شرط یہ ہے کہ اپنے رب کی طرف رجوع کرلو۔
آج دونوں بیٹے برسرِ روزگار اور ماں کا سہارا ہیں۔ عقیلہ، جس کی زندگی میں گھپ اندھیرے تھے، جو سمجھ رہی تھی کہ اب سب کچھ ختم ہے، روشنی کی کوئی کرن نہیں… آج ہر گھڑی اپنے رب کے آگے سربسجود ہے کہ بے شک اس کا رب بڑا منصف ہے، وہ اپنے بندوں کو ضرور آزماتا ہے، لیکن وہی تو ہے جو سب کرسکتا ہے… مشکلات، آزمائشوں اور ہر تکلیف کو دور کرسکتا ہے۔