شاعری ودیعت الٰہی ہے لیکن علم عروض انسانی ایجاد ہے تاہم بہت سے شعرا کو یہ علم نہیں آتا لیکن وہ اپنے مصرعوں کو گنگنا کے وزن میں کر لیتے ہیں‘ اس علم کی اہمیت اور افادیت سے انکار ممکن نہیں۔ ان خیالات کا اظہار معروف شاعر و ادیب احمد باقی پوری نے کراچی کی ادبی تنظیم بزم محبان ادب اور اسلوب انٹرنیشنل لاہور کے اشتراک سے لاہور میں ہونے والے مشاعرے کے موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ دبستانِ پنجاب نے اردو کی ترویج و ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ شعرائے کرام اب گل و بلبل کے افسانوں کے بجائے زندگی سے مربوط شاعری کر رہے ہیں تاہم تنقیدی معیار بہتر نہ ہونے کے سبب اچھی تخلیقات کا فقدان ہے۔ محبانِ ادب کی چیئرپرسن نے کہا کہ کراچی میں شاعری کا معیار بہتر ہے‘ ہم اپنی تنظیم کے پلیٹ فارم سے کراچی کے ادبی منظر نامے میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ ہم اپنی شاعری کے ذریعے محبتوں کو پروان چڑھائیں کہ یہ ہمارا اسلامی فریضہ بھی ہے اور شاعری کا غیر تحریر شدہ منشور بھی یہی ہے کہ شعرائے کرام معاشرے کی بہتری کے لیے کام کریں۔ اسلوب انٹرنیشنل کے بانی اکمل حنیف نے کہا کہ ہر شہر کے اپنے مسائل ہیں‘ شاعر بھی معاشرے کا نباض ہوتا ہے‘ وہ اپنے داخلی مشاہدات کے ساتھ ساتھ زمانے کے حالات اور واقعات بھی نظم کرتا ہے‘ وہ ہمیں بہتر راستے پر چلنے کی ہدایت کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ شعرائے کرام کی افادیت قائم ہے جو معاشرہ اس علمی و ادبی ادارہ سے انحراف کرتا ہے وہ ترقی نہیں کرسکتا۔ مشاعرے کے مہمانانِ خصوصی میں ڈاکٹر غافر شہزاد کے علاوہ ڈاکٹر شاہدہ دلاور بھی شامل تھیں س موقع پر احمد باقی پوری‘ ڈاکٹر اختر شاد‘ ڈاکٹر یونس خیال‘ عنبرین صلاح الدین‘ سجاد بلوچ‘ عمار اقبال‘ ضیا حسین‘ افضل پارس‘ آفتاب خان‘ یوسف علی یوسف‘ مسعود خان ارحم‘ سیدہ تسنیم بخاری‘ صادق فدا اور کشور عروج نے اپنا کلام نذرِ سامعین کیا۔