عادت کے بدلنے میں جو مشقت لگتی ہے اس کی اذیت کا بھی احساس نہیں ہوتا جیسے کوئی پہاڑوں کی بلندیوں پر پہنچنے پر اپنے پھٹے جوتوں کی قیمت یاد کرکے نہیں روتا۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
قول ِ رسول رحمتؐ ہے کہ ’’ وہ کام اس کے لیے آسان ہے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ۔‘‘ یعنی مشکل ترین کام بھی اس انسان کے لیے سہولت بخش ہے جو اس کی ذات و صفات کا حصہ بن جائے۔ عادت کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ وہ سرگرمی جو مستقل سوچے یا بلا سوچے کرتے رہیں تو ہماری شخصیت کا لازمی حصہ بن جاتی ہے۔ چاہے وہ کوئی عمل ہو، خیال کی لہر ہو یا مستقل رویہ۔ سہولت پسند ذہن بڑی آسانی سے کسی بھی ظاہری دل کشی کو اپناتا ہے اور وہی بات اس کے لیے یا تو لت بن جاتی ہے یا برکت بن جاتی ہے۔ اگر وہ بری عادت ہے تو وہ اس کی ذات کو ترقی دینے کے بجائے ٹھٹھرا دیتی ہے۔ اس عادت کے بوجھ کو ڈھوتے ہوئے عادی شخص اپنی زندگی گزارتا ہے۔ انسان یا تو اچھی عادات کا گل دستہ ہوتا ہے یا بری عادات کی گندی نالی کا کیڑا۔ ہر نقصان دہ رویہ پہلے پہل انسان کے دماغ کو ایک غلط پٹی پڑھاتا ہے۔ جس سے اس کا ذہن بدلتا ہے، پھر من بدلتا ہے اور آخر میں چال چلن تک بدل جاتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے ہم کبھی خود سے یہ سوال نہیں کرتے کہ اس رویہ، عمل یا خیال کی ’’کیا ضرورت‘‘ ہے۔ اس عادت سے ذہنی، بدنی، مالی یا روحانی کیا فائدہ ہے؟ کیا وہ عادات کو کسی نبی نے اپنایا ہے؟ کیا وہ کسی الہامی کتاب میں رب کا حکم بن کر اترا ہے؟ کیا اس سے ہماری زندگی کی کسی جہت میں بہتری ہوئی ہے؟ اس طرح سے سادہ سے سوالوں سے کوئی مثبت جواب ابھرے تو اس پر غور کیا جاسکتا ہے۔ خود کو عادتوں کو کٹہرے میں کھڑا کرکے سوال کریں۔ جذبات ، احساسات کی جھڑی لیں ورنہ عادات تو خرافات کا مجموعہ ہوتی ہیں۔ عادت کو روکا نہ گیا تو وہ دھیرے دھیرے زندگی ضرورت بن جاتی ہے۔
بری عادت کی تبدیلی اندرونی فتح کا نام ہے۔ بگڑی عادت۔ ضبط نفس کی کمی کا شاخسانہ ہے۔ یہ فکری گمراہیوں کے سبب زندگی میں داخل ہوتی ہیں۔ عادت کبھی اپنے ہی، گھر، قبیلہ اور قومی سلسلے سے بھی زندگیوں میں داخل ہوتی ہے۔ یہ سب شعور کے ذمہ ہے کہ چھان پھٹک کر اپنایئے یا عقل کی کسوٹی پر اسے رد کرے۔
اسٹیفن کووے نے کہا ’’علم، ہنر خواہش کا سنگم ہوتو ایک اچھی عادت بنتی ہے۔ ‘‘
اب فقط عادتوں کی ورزش ہے
روح شامل نہیں شکایت میں
عادتوںمیں ڈوبے شخص کا کبھی وہ حال ہوتا ہے جیسے وہ زنجیروں میں بندھا ہوا قیدی ہے جو آزادی پانے کو ایڑیاں رگڑ رہا ہو۔ دیواروں سے سر پھوڑ رہا ہو۔ حبسِ دوام کاٹ رہا ہو۔ اس کا وجود ان بندھنوں کو توڑنے میں خون میں ڈوبا اور زخموں سے چور ہو۔ اپنی ہی عادتوں کے آگے وہ خود کی عزائم بھری دنیا کھو چکا ہو۔ ارادے اپنے اثر گم کرچکے ہوں۔ اندر سے ٹوٹا ہوا شخص جو اپنی نگاہوں میں اتنا ذلیل ہو چکا ہو کہ عزتِ نفس کا مطلب بھول گیا۔ اپنی ہی ذات کا اکرام فراموش کر گیا۔ ایسی روحانی بیماروں کے ذکر پر کتنے منظر ہماری نگاہوں کے آگے گھوم جاتے ہیں۔ مجھے بچپن کا ایک دل دہلانے واقعہ یاد ہے۔ ایک شخص جو مڈل کلاس گھرانے کا سادہ مزاج فرد تھا۔ ہم نے اس کو اس حالت میں دیکھا جو غموں سے چور رہتا تھا۔ پھر جانے کیا ہوا اس کو کسی بدبخت نے کوئی بدترین اور سستی سی شراب کا عادی بنا دیا۔ اس کی زندگی اس کی بیٹیوں کی شادی نہ ہونے کے سبب سے جڑے مسائل میں گھری ہوئی تھی۔ ایک رات حالتِ نشے میں وہ چیختا جاتا تھا کہ ہے کوئی جو میری بیٹی سے شادی کرلے‘ ہے کوئی جو میری بیٹی کو اپنے گھرانے کی بہو بنا دے۔ وہ آوازیں لگاتا اور روتا جاتا تھا۔ اس کی آواز سے سہمے ہوئے لوگ اپنے گھر کے دروازے بند کر لیتے تھے۔ جانے وہ کس بستی کا تھا۔ ہم نے اس کو اپنی بستی سے گزرتے دیکھا تھا۔ جانے اس کے ساتھ کیا معاملہ ہوا۔ اس کی آواز پر لوگوں کے تبصرے شروع ہوجاتے تھے۔ کوئی جہیز کی فرسودہ عادات پرکوستا۔ کوئی اس شخص کی بدقسمتی کو نشانہ بناتا اور اکثر لوگ اس کی نشے کی بری عادت پر اس پر مزید لعنت بھیجتے۔
بری عادت بھی بڑی عجب شئے ہے۔ کبھی ڈر پوک آدمی کو سفاک شوہر بنا دیتی ہے۔ کسی محتاط بندے کو جواری تو کسی نوجوان کو اپنی عادتوں کی لت کے سبب اپنی تعلیم تمنائوں سے کھیلنے اور اپنی ہی زندگی برباد کرنے والابنا دیتی ہے۔ عادت کے ہزاروں روپ رنگ ہیں۔ ہمیں اپنی اپنی زندگی کا گوشوارہ بنانا چاہیے اور ایک بری عادت کو ایک بھلی عادت سے بدلنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جیسے کوئی کوئلہ دے کر ہیرا خرید لے۔ وہ لوگ جو اقدامات کے بجائے ردعمل کے عادت ہوتے ہیں وہ بھی ایک طرح کی لت کا شکار رہتے ہیں۔ ہم میں سے ہزاروں وہ ہیں جو بے سبب، بے کار اور بے نتیجہ سرگرمیوں والی عادات میں گھرے رہتے ہیں۔
ایک زندگی نوازنے والی حدیث ہے’’ آدمی کے اسلام کا حسن یہ ہے کہ وہ لایعنی کو ترک کردے۔‘‘اسی سبب شخصیت ساز ادارے اس فکر میں کارگاہیں چلاتے ہیں۔ جفاکشی کی مہمات سے لوگوں کو گزارتے ہیں کہ تاکہ لوگ آزمودہ رویوں کو اپنا کر انھیں عادتِ حسنہ کا مالک بن جائیں۔ ذرا سی کوشش سے زندگی بہتر عادات کا ایک حسین گوشوارہ بن سکتی ہے جس سے زندگی جنت نشان ہوسکتی ہے۔ جیسے وعدہ کی پابندی، وقت کا پاس، صبح خیزی، مستقل کسرت، تسلسل سے صبح کی سیر، متوازن غذا کا استعمال، مزاج کی برہمی پر قابو پانا، غصہ کو ٹالنا، ذہنی تنائو کو پرسکون رہ کر چین حاصل کرنا وغیرہ۔ ایک عادت کی تنصیب 21 سے 90 دن کی مشق میں مکمل ہوتی ہے۔ ایک بڑی اخلاقی قدر کو قابل عمل بنا کر اپنی شخصیت کا حصہ بنانے میں دلیل کی توانائی، منطق کی طاقت، نفسیاتی معلومات کا ذخیرہ اور قابل ِ اعتبار انداز گفتگو سے کسی زندہ دل شخص کو سمجھایا جاتا ہے تب اس کو خود شناسی کی احساس ہوتا۔ آزادیٔ عمل کی طاقت پر یقین بڑھتا ہے۔ اپنی ذات کو نئی فکر اور بہتر ہنر سے نئی عادت کی سوغات دینے سے ایک لت ایک برکت میں بدل جاتی ہے۔ عادت کے بدلنے میں جو مشقت لگتی ہے اس کی اذیت کا بھی احساس نہیں ہوتا جیسے کوئی پہاڑوں کی بلندیوں پر جا پہنچنے پر اپنے پھٹے جوتوں کی قیمت یاد کرکے نہیں روتا۔