سراج منیر کا انٹریو قسط (2)

308

یہی نئی اور اپنی باتیں آپ آئندہ صفحات میں پڑھیں گے۔
ایک وضاحت: انٹرویو کو فیتے سے لفظ بہ لفظ نقل کرنے کی کوشش میں گفتگو جا بجااُلجھائو کا شکار ہوگئی تھی۔ اس ایڈیشن میں گفتگو میں روانی برقرار رکھنے کے لیے حشو و زوائد کو اس طرح کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اصل معنی و مفہوم متاثر نہ ہو۔
طاہر مسعود: ہر عہد کو چند سوالات کا اور ہر عہد کے ادب کو بھی چند سوالات کا سامنا ہوتا ہے۔ آپ کے خیال میں اس وقت جو ادب ہے ہمارا، اس کے سامنے سب سے بڑا یا سب سے اہم سوال کیا ہے؟
سراج منیر: آج کے عہد کا سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ انسان کیا ہے؟ زمانہ قدیم میں مذہب اور اس کے پیدا کردہ معاشرے میں انسان کا ایک واضح تصور تھا اور اس کے وجود کی تمام سطحوں کی معرفت الگ الگ موجود تھی۔ عہد جدید میں ہوا یہ ہے کہ اثرات کو چھوڑ دیجیے الگ، بہرحال نتیجہ یہ نکلا ہے کہ انسان کی اپنی شناخت اور اس کا اپنا تشخص پھر کائنات میں اس کی حیثیت اور انسان سے طاقت ور اگر قوتیں ہیں تو کیا ان قوتوں سے اس کا تعلق اور اس کے اعتبار سے اس کا مقام، گویا انسان کی بنیادی شناخت کی بازیافت آج کے ادب کا سب سے بڑا سوال ہے۔
طاہر مسعود: ہمارا جو ادب ہے یا جو ہمارے ادیب لکھ رہے ہیں تو ان کے تخلیق کردہ ادب میں ان سوالات کی بازگشت سنائی دیتی ہے؟
سراج منیر: ایک تو صورت ہے عالمی ادب کی۔ اس میں قصہ یہ ہے کہ انسان کی شناخت ہر جگہ ایک ہی پہلو اور ایک ہی اعتبار سے کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ جن چیزوں کو ہم کہتے ہیں کہ وہ Socio-Political مسائل کا ادب ہے یا یہ کہ مختلف فلسفیانہ نظریات کے تحت پیدا ہورہا ہے، دنیا میں الگ الگ تحریکیں اور رویں ہیں تو وہ بھی بنیادی طور پر انسان کو ہی تلاش کررہی ہیں لیکن ان کی بنیادی خامی یہ ہے کہ انہوں نے انسان کی ایک پہلے سے Definition اور اس کی حدود متعین کررکھی ہیں۔ اگر کوئی چیز کم ہوجائے تو تلاش کی شرط یہ ہے کہ اسے ہر ممکن جگہ پر تلاش کیا جائے نہ یہ کہ اس کا ایک دائرہ پہلے متعین کرلیا جائے اور اس کے اندر تلاش کیا جائے۔ تو آج کے پورے عالمی ادب کی جو صورت حال ہے، اس میں دو باتیں ہیں۔ ایک تو بہت سا ادب، یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ جھوٹا ادب پیدا ہورہا ہے۔ وہ جھوٹا ادب ان تجارتی مقاصد کے ساتھ وابستہ ہے جو فکری اور نظریاتی تحریکوں کے مفادات میں پیدا ہوئے ہیں اور ان سے مفادات وابستہ ہوئے ہیں اور انفارمیشن کا جو ایک نیٹ ورک پوری دنیا میں کام کررہا ہے، اس انفارمیشن نیٹ ورک کا جو تجارتی aspeet ہے وہ ایک خاص طرح کے ادب سے متاثر ہے۔
طاہر مسعود: یہ عالمی سطح پر ہے؟
سراج منیر: عالمی سطح پر اور ظاہر ہے کہ پاکستان میں یا اردو ادب میں، اس میں کوئی استثنا نہیں ہے۔ یہ ادب Imitate کرتا ہے اور ان سوالوں کو جن سے Genuine ادب پیدا ہوا کرتا ہے لیکن اس ادب کے اندر روح نہیں موجود۔ یہ ہے ہر جگہ۔ اس کے ساتھ ہی کچھ ایسا Genuine ادب ہے جو انسان کے سچے روحانی بحران سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ روحانی بحران جو ہے وہ ہر جگہ کارفرما ہے اور اس نے مغرب میں بھی مختلف طریقوں سے Express کیا ہے لیکن مغرب میں چوں کہ دوسرے Mediums of expression بھی بہت نمایاں اور مضبوط ہیں لہٰذا وہاں ہم صرف ادب تک محدود نہیں رہ سکتے۔ مثلاً وہاں پینٹنگ میں بہت کام ہوا ہے … تو بنیادی Creative Urge یا بنیادی Creative سوال جو ہے وہ ہے ہی انسان کی شناخت کا، اور ہمارے ہاں بھی جب ادب انسانی Elements سے متعلق ہوتا ہے جو اس شناخت میں اس کی مدد کرسکتے ہیں تو وہ Genunineہوتا ہے اور جب ان سے غیر متعلق ہو کر وہ اس فکری اور فلسفیانہ ایک جو… بنا ہوا ہے اور ایک مرکز بنا ہوا ہے، اس کے مفادات میں، اس کے تابع ہو ئے پیدا ہونا شروع ہوتا ہے تو اس وقت وہ اپنی انسانی Significance جو ہے، اس سے محروم ہوجاتا ہے۔
طاہر مسعود: اچھا وہ کون سے عناصر ہیں جو ہمارے سابقہ ادب میں تھے جن کی موجودگی کی وجہ سے ایک بڑا ادب Create ہوا اور اب ان کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہمارے ادب کی جو قدوقامت ہے، وہ گھٹ گئی یا یہ کہ اس سطح کا ادب پیدا نہیں ہوپارہا۔
سراج منیر: دیکھیے آر کی ٹیکچر میں ایک بات کہی جاتی ہے کہ زمانہ قدیم کا یعنی تہذیبوں کی Peaks پر جب آرکی ٹیکچر پیدا ہوا ہے تو وہ جب اپنا معبد بناتے تھے یا اپنا قلعہ بناتے تھے یا اپنا مکان بناتے تھے تو وہ اپنی پوری کائنات بناتے تھے۔ ایک پوری Cosmos کو دوبارہ Create کرتے تھے، چھوٹے پیمانے پر Integrated Vision سے یہ چیز پیدا ہوتی ہے۔ یہی معاملہ ادب کا ہے کہ ادب کی قوت کا تعلق کائنات کے اس تصور سے ہے جو بنیادی طور سے اس ادب کو Motivate کرتا ہے تو اگر انسان کو اپنی کائنات کی وسعتیں معلوم ہیں، ان وسعتوں سے پیدا ہونے والی ذمہ داری کا شعور ہے تو اس کا ادب لازماً بہت بڑا ادب ہوگا کیوں کہ وہ تناسب رکھتا ہے، بلکہ کائنات کی جگہ ہمیں لفظ حقیقت استعمال کرنا چاہیے کہ ادب کمزور یا مضبوط ہوتا ہے تصور حقیقت کی وسعت اور حدود کی نسبت سے اور اس میں موثر ہونے کا نظام اس تصور حقیقت سے پیدا ہونے والی ذمہ داری کے ذریعے وجود میں آتا ہے۔ اس کی Understanding ایک عملی Responsibility بھی قبول کرتی ہے، یعنی اگر کوئی بات اس کی سمجھ میں آتی ہے تو وہ سمجھ میں آنا اس پر عمل واجب کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایمان، تفکر اور تعقل کے ذریعے دنیا کی مختلف تہذیبوں نے انسانوں کے عملی تہذیبی نظام پیدا کیے۔ آج کی صورت حال یہ ہے کہ وجود کے اسکیل پہ انسان کی حیثیت متعین نہیں ہے۔ لہٰذا آج Fragmentary ادب پیدا ہورہا ہے اور اسی لیے اس کی قوت جو ہے وہ منقسم ہے۔ یہاں آکے ہم اس سوال کی طرف پہنچ جاتے ہیں جس کی طرف بہت بھرپور طریقے پر ہمارے اردو ادب میں سلیم احمد نے اشارہ کیا… یعنی کسری آدمی کا پیدا کیا ہوا ادب اپنے موثرات کی حیثیت سے کسری اور اس اعتبار سے قوت میں بہت کم ہوتا ہے Intergrated Vision کا زوال ہے۔ یہ جو کائنات کا ایک مکمل Vision ہے اس کے زوال سے پیدا ہونے والا ادب کمزور ادب ہے۔
طاہر مسعود: تو جو صورت حال اس وقت ہے جس کی آپ نے نشان دہی کی ہے تو ان حالات میں ادب کے مستقبل یا ادب کے امکان کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے کہ کیا اس کا کوئی امکان ہے؟
سراج منیر: سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں یہ چیز طے کرنی پڑیں گی۔ ایک تو یہ کہ ہم کیا سمجھتے ہیں کہ ادب کیوں پیدا ہوا۔ اس کی کیا ضرورت ہے؟ اور انسان کے وجود میں اس کا تعلق کس عنصر سے ہے؟ اگر تو اس کا تعلق انسانی وجود کے کسی ایسے عنصر سے ہے جو زمان و مکاں میں آکے مرجاتا ہے تو ادب مرجائے گا۔ موجودہ ٹیکنالوجی میں ادب کے زندہ رہنے کا کوئی سوال نہیں، لیکن اگر ادب کا تعلق انسانی وجود میں کسی ایسے عنصر سے ہے جو اس کی فطرت کا لازمہ ہو تو ظاہر ہے کہ جب تک انسان زندہ ہے، ادب زندہ رہے گا۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ ادب انسانی فطرت کے اس لازمانی عنصر سے متعلق ہے جسے ہم اصطلاح میں آرزو کا نام دیتے ہیں اور دنیا کے وہ معاشرے جو سسٹم بناتے ہیں اور تجارتی یا فکری سسٹم میں انسان کو جکڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ بنیادی طور پر آرزو کو فنا کرنے والے ادارے ہیں، لہٰذا ایسے معاشروں میں ادب کی Genuine پیداوار کی ضرورت بڑھ جاتی ہے۔ اس صورت حال میں اگر انسان کو کوئی چیز بچا سکتی ہے تو وہ ادب ہے۔ یہ بات پہلے بھی کہی گئی ہے کہ عہد جدید میں انسان کو صرف حسن بچا سکتا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ انسانی فطرت کا وہ Element بچا سکتا ہے انسان کو جو اس کی فطرت کا لازمہ ہو اور اس کی موجود کیفیت سے ماورا لے جانے میں مدد کرے اور وہ Element آرزو ہے۔ لہٰذا وہ ادب جو آرزو سے پیدا ہوگا وہی ادب اس وقت وسیع پس منظر میں انسان کی تقدیر کے سلسلے میں موثر ثابت ہوگا۔
طاہر مسعود: وہ صورت حال جس کی آپ نے وضاحت کی، اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ادب کا جو ایک رول تھا معاشرے میں وہ اب باقی نہیں رہا۔ اور اس کے جو اسباب آپ نے بتائے ہیں اس سے ایک بات اور یہ ظاہر ہوتی ہے کہ اس صورت حال میں ہمارے ادیبوں پر بہت زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ تو آپ کے خیال میں ہمارے جو ادیب ہیں وہ کیا ان مسائل سے اسی درجے میں باخبر ہیں؟ اور کیا ان ذمہ داریوں کو وہ کماحقہ، پورا کرنے کی کوشش کررہے ہیں یا ان مسائل سے لاتعلق ہو کر چھوٹی چھوٹی اپنی گروہ بندیوں اور چپقلشوں میں اور سیاستوں میں ملوث ہیں؟
سراج منیر: بہت کم لوگ ان مسائل کا اندازہ رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ادبی گروہ بندیوں نے انسانوں کو نعرے کی غذا پہ زندہ رکھنے کی ایک لت ڈال دی ہے اور یہ کسی خاص اس سے متعلق نہیں ہے۔ بلکہ عمل اور ردعمل کے اس نظام میں ایسا ہوا ہے کہ ادیب مختلف نعروں کے سحر اور حصار میں آتے چلے گئے ہیں اور نعرے کے حصار میں یا فارمولے کے حصار میں آنے کے بعد وہ بے کار ہوجاتے ہیں۔ مثلاً ایک بات جس کو لوگ بہت فخر سے بیان کرتے ہیں کہ ادب زندگی کا عکاس ہے۔ ادب زندگی کا آئینہ ہے۔ اب اس میں پہلی بات تو آپ دیکھیے کہ ادب کو زندگی سے منجملہ اولین کاٹ کے رکھا گیا ہے۔ گویا کہ ادب زندگی کا حصہ نہیں ہے بلکہ اس سے الگ Situate ہو کے، اس سے الگ واقع ہو کے زندگی سے کوئی رشتہ رکھتا ہے۔ اگر ادب زندگی کا عکاس ہو بھی تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زندگی اور اس کے First Hand تجربے کی موجودگی میں ہم ادب کو یہ فریضہ عکاسی کا کیوں سونپیں۔ اس کی تخلیق کی ضرورت کیا ہے؟ ادب زندگی کا عکاس نہیں ہے بلکہ زندگی میں ٹھہر جانے اور اپنے Pattren اور Crystalize کرنے میں اور اپنی فصیلوں کو سنگین بنادینے کا جو رجحان ہے، ادب آرزو کے ذریعے ان رجحانات کو توڑنے کے اوپر آجاتا ہے۔ جب ہم کہتے ہیں اوپر آجاتا ہے تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ انسانی زندگی کی ادنیٰ قدروں سے ادب ہمیشہ انسانی زندگی کی اعلیٰ قدروں کی طرف جاتا ہے۔ بعض صورتیں ایسی ہوتی ہیں کہ ادب کو اس بات کا شعور نہیں ہوتا کہ وہ کس مقصد کے لیے کام کررہے ہیں۔ کہیں کہیں معلوم ہوتا ہے۔ بہتر صورت وہ ہوتی ہے جہاں ادیب کو یہ معلوم نہ ہو کہ وہ کس مقصد کے لیے کام کررہا ہے اور وہ ادب کے ذریعے کن اعلیٰ انسانی اقدار کو پروان چڑھا رہا ہے۔ اصل میں ادب کو برباد کرنے میں ضرورت سے زیادہ دانش وری کا ہاتھ ہوتا ہے کہ مقاصد کی تحلیل اور ان کی فلسفیانہ بندشیں اتنی صفائی سے کرلی گئی ہیں کہ ادب کے اسرار کا اور ادب کی یعنی ایک نئے تجربے کے ایک نئے علاقے کو دریافت کرنے کا کوئی جواز اس کے پاس نہ ہو۔ چناں چہ آپ دیکھیے کہ اٹھارہویں صدی کے بعد دنیا کے معاشرے عموماً Idealogy پہ Survive کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ نظریات پہ Survive کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان فلسفیانہ Systems کے ذریعے زندگی کو Organize کیا جائے جو انسان کی پے چیدہ نفسیاتی تہوں کے اصرار کو نہیں سمجھتیں۔ چناں چہ اس کی وجہ سے یہ ہوا کہ فلسفیانہ Systems نے انسانی زندگی میں اسرار کا اور نامعلوم کا اور آرزو کے موضوع کا جو عنصر تھا، اس کو کاٹ کر الگ کردیا۔ اس کو کاٹ کر الگ کردینے کے بعد انہوں نے ایک حسابی آدمی تو پیدا کردیا لیکن غیر حسابی آدمی کے بدلے میں انہوں نے چھپی ہوئی اور دبی ہوئی خواہشات کا ایک پورا ایسا نظام پیدا کردیا ہے جس سے آج کی دنیا سب سے زیادہ Threatended ہے اور سب سے زیادہ نقصان کا اندیشہ اسی پہلو سے ہے بلکہ خود انسانی زندگی کے اس Planet کے وجود کو خطرہ ہے۔ یہ ہوا ہے اور ادیبوں میں، سچی بات یہ ہے کہ اگر ہم اردو کے ادیبوں کی بات کریں تو کم سے کم لوگ آپ کو ملیں گے جو ان مسائل پہ سوچتے ہیں۔ آپ کے علم میں ہے عام طور پر لوگوں نے کچھ کلیئے وضع کرلیے ہیں اور وہ کلیئے دراصل وہ تصورات ہیں جو اٹھارہ سال کی عمر میں ان ادیبوں کے ذہن میں واضح ہوگئے اور آج تک وہ اس گنبد میں بند ہیں۔ ان کے نزدیک فائن آرٹ اور انسان اور ادب میں فرق ہے۔ سلیم احمد ایک بات کہا کرتے تھے کہ میں بار بار اپنے آپ کو بناتا ہوں، توڑتا ہوں اور اس سے پھر دوبارہ اپنی تعمیر کرتا ہوں۔ اس کے بغیر انسان کے جو اسرار ہیں وہ ادب میں ظاہر ہو نہیں سکتے۔ اگر آدمی اپنا ایک مجسمہ بنا کر اس کی پرستش کرنا شروع کردے تو یہ ایک Vague صورت حال تو ہوگی، شاید اس کے اخباری دنیا میں کوئی معنی بھی ہوں لیکن ادب میں، ادب کے اسرار میں یا انسانی معنویت کی تخلیقی تفتیش میں اس کے کئی معنی نہیں ہیں۔ اس تخلیقی تفتیش میں تو ہمہ وقت نئے Domains کو دریافت کرنا پڑے گا اور اس کے لیے ہمارے ادیب بہت کم رہ جاتے ہیں۔
طاہر مسعود: تو آخر نجات کیا ہے؟
سراج منیر: نصب العین کا قاعدہ۔ اب ہم ادب کے دائرے سے باہر نکلتے ہیں۔ معاشرے، انسانی معاشرے بہرحال نصب العین کے ذریعے Survive کرتے ہیں اور نصب العین کی غذا پہ پل کے جوان ہوتے ہیں۔
طاہر مسعود: بے معنویت سے ادب پیدا نہیں ہوتا؟
سراج منیر: نہیں پیدا ہوتا۔
سراج منیر: تو مغرب میں وہ پورا ادب جو بے مقصدیت ہی سے پیدا ہوا، اس کے بارے میں کیا کہیں گے آپ؟
سراج منیر: جو معیار ہمارے سامنے ہیں ان معیاروں کی روشنی میں اس ادب کی حیثیت انسانوں کی باطنی کیفیات پر ایک گواہ سے زیادہ نہیں ہے۔ یعنی Absurdist ادب جو ہے، وہ ان معنوں میں تو بہت Genuine ہے کہ وہ جن روحانی کیفیات کو بیان کررہا ہے وہ روحانی کیفیات کتنی عذاب کی کیفیات ہیں۔ آپ دیکھیے Absurdist ادب کا پورا منظرنامہ جو ہے وہ بنیادی طور پر ایک جہنم کا منظرنامہ ہے اور جن Idealogies کے ذریعے، تاریخ کی جن کروٹوں کے ذریعے یہ پورا System پیدا ہوا ہے اس پر گواہی صرف ادب کی ہے تو Absurdism کا بلکہ اس پورے System کا جس سے گویا Absurdism پیدا ہوئی، سلطانی گواہ ہے۔
(باقی صفحہ نمبر 12)
طاہر مسعود: ابھی آپ نے خود اپنی گفتگو میں ادب کے آئینہ ہونے کا ادب کے اپنے معاشرے کی عکاسی کرنے کا ذکر کیا تو اگر انسان کی اپنی باطنی صورت حال جس سے وہ گزر رہا ہے، اگر اس کا تخلیق کردہ ادب اس کی گواہی دے یا اس کی اگر عکاسی کرے تو اگر وہ ادبی لحاظ سے ایک بلند درجہ رکھتا ہو تو اس کی کوئی اعلیٰ ادبی حیثیت ہوگی کیا؟
سراج منیر: دیکھیے ایک تو صورت یہ ہے کہ آپ ادب کا وہ تصور قائم رکھیں جو پیدا ہوتا ہے اس امر سے کہ ادب زندگی کا عکاس ہے۔ وہ جزوی طور پر اپنا فریضہ سرانجام دے رہا ہے لیکن ایک بڑے تصور کائنات میں اس کی Validity کچھ نہیں ہوگی۔ سچی بات یہ ہے کہ وہ سوائے اس کے ہمیں کچھ نہیں بتارہا کہ انسان ایک جہنم میں ہے۔ اگر مقصد کا کوئی تصور اور نصب العین کی کوئی گواہی موجود نہ ہو تو اس صورت حال میں اس ادب کی کوئی Validity نہیں۔ ہمیں سارتر، کامیو اور دوستو فیسکی اتنے بڑے ناموں سے ڈرنا نہیں چاہیے۔ ہمیں یہ کہہ دینا چاہیے کہ ان کی اپنی صورت حال میں خود اس کا ایک Limtied Role ہے لیکن ادب کا ایک بڑا جو معاشرتی تصور ہے اس میں اس کی حیثیت ایک قابل قدر دستاویز سے زیادہ نہیں۔
طاہر مسعود: اس کا مطلب یہ ہے کہ جو ادب ایک اعلیٰ تصور حقیقت کو بیان کرتا ہو، اس کا جو مرتبہ یا جو منصب ہے وہ اس ادب سے زیادہ ہے۔
سراج منیر: کہیں زیادہ ہے… کہیں زیادہ ہے۔
طاہر مسعود: موجودہ جو حالات ہیں عالمی سطح پر یا جن مسائل سے ہم گزر رہے ہیں تو ان مسائل کی موجودگی میں کیا اس تصور حقیقت کی وضاحت میں یا اس کی ترجمانی میں کوئی ادب لکھنا ممکن ہے؟
سراج منیر: ادب کے ذمے یہ کام ہی نہیں کہ وہ اس تصور حقیقت کی وضاحت کرے۔ یہ مذہب کا کام ہے کہ وہ اس تصور حقیقت کی وضاحت کرے۔ ادب کا کام یہ ہے کہ وہ انسان میں کسی نامعلوم حقیقت جو مذہب کے ذریعے آتی ہے یا تہذیبوں کے ذریعے پروان چڑھتی ہے، اس کی تہوں کی تلاش کی آرزو باقی رکھے۔ باقی ادب جن معنوں میں ہم استعمال کررہے ہیں، دیکھیے ایک بات اور یہاں میں عرض کردوں کہ جب ہم کہتے ہیں فلاں چیز ادب ہے یا نہیں تو اس میں ایک جدید اصول ہے۔ آپ کے علم میں ہے کہ عموماً کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ چیز Non-poetic ہے یا یہ چیز Non-ereative ہے، یہ قول فیصل کا بیان ہے۔ چوں کہ انسانی وجود خود بہت تہہ دار ہے لہٰذا اس کے Discipline کے بہت سے معیارات ہیں تو ایک ادنیٰ پیمانہ یہ بھی ہے۔ جیسے قرآن میں آتا ہے کہ فلاں قسم کے لوگ جیسے بھیڑ بکریاں ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر ہیں… تو یہ ان کے انسان ہونے کا بہ اعتبار حقیقت انکار کیا گیا ہے ورنہ Biologically تو وہ انسان ہیں۔ اسی طرح یہ بات ممکن ہے کہ ادب اپنی Biology کے اعتبار سے تو ادب ہو لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے ادب نہ ہو۔ حقیقت کے اعتبار سے ادب وہی ہے جو انسان کی فطرت میں آرزو کا اُبھارے۔ کیوں کہ انسانی فطرت کے بنیادی عناصر میں آرزو کے علاوہ کوئی اور ایسا Element نہیں ہے جس کے لیے ادب کی ضرورت ہو۔
طاہر مسعود: جب آپ ’’آرزو‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے آپ کی کیا مراد ہوتی ہے؟
سراج منیر: اس سے مراد ہوتی ہے اپنی موجودہ صورت حال سے باہر نکل کر دیکھنے کی خواہش۔
طاہر مسعود: یہ آرزو باقی نہیں ہے۔
سراج منیر: جس کی طرف اقبال نے اشارہ کیا۔ سینہ راز و آباد کن… تو مراد یہ ہے کہ وہ جو پراسرار کیفیت ہے جسے آرزو کہتے ہیں وہ ہے کیا؟ وہ ہے یہی کہ انسان جس صورت حال میں بھی ہے اس صورت حال سے بلند ہونے کی خواہش اور چوں کہ ایک اتنی بڑی حقیقت کو آدمی Attemptکرتا ہے جو بالمقصد اس کی گرفت میں آنے والی نہیں ہے، لہٰذا آرزو ایک ایسی چیز ہے جو کبھی Exhaust نہیں ہوتی۔ جس طرح معرفت کی تکمیل کبھی نہیں ہوتی، اسی طرح آرزو کی بھی تکمیل نہیں ہوتی۔ کہتے ہیں کہ جانور اور انسان میں فرق یہ ہے کہ انسان Transcend کرسکتا ہے اپنی موجودہ صورت حال کو۔ اس سے باہر نکل سکتا ہے۔ اس سے باہر نکلنے کی خواہش کسی خیر کی خواہش ہی ہوگی۔ تو اہم چیز ادب کے لیے یہ نہیں ہے کہ وہ تصور حقیقت کی وضاحت کرے۔ یہ کام تہذیب کے دوسرے ادارے کرتے ہیں بلکہ اس کا کام یہ ہے کہ وہ اس تصور حقیقت کے لیے Motivated رکھے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ انسانی فطرت سے قریب تر ہوجائے۔ فطرت انسانی پر اگر اپنی بنیاد رکھے ادب تو اس سے Genuine کوئی چیز ہو ہی نہیں سکتی۔
طاہر مسعود: یعنی موجودہ صورت حال سے باہر نکلنے کی خواہش!
سراج منیر: ہر موجود صورت حال سے باہر نکلنے کی خواہش۔
طاہر مسعود: ہر موجودہ صورت حال سے باہر نکلنے کی خواہش۔ یہ خواہش تو موجود ہے لیکن ہمارے…
سراج منیر: (قطع کلامی کرتے ہوئے) وہ خواہش نہیں، خیال ہے۔ خیال ہے، نعرہ ہے۔ چوں کہ ادب وہ آرزو ہے تو وہ اس کے مقابل ایک صورت حال پیدا کردے گی۔ دیکھیے! ہمارے ہاں شعر کی اصطلاح میں ’’جنوں‘‘ کا لفظ ہے۔ ٹھیک ہے نا… تو آج کے ادب میں خیالات کی تو بہت بھرمار ہے، جس چیز کی کمی ہے وہ چیز ہے جنوں… اس لیے نہیں کہ آدمی اور Ideal کا رشتہ باقی نہیں رہا۔ چناں چہ ہوتا کیا ہے اگر آدمی موجود ہو اور Ideal موجود نہ ہو تو Frustration پیدا ہوتی ہے۔ پچھلے پچیس تیس سال کے ادب میں آپ دیکھیے کہ کتنا ادب ذات کے Frustration سے یا آشوب کے ذریعے تخلیق کیا گیا ہے۔ کتنے ادب کی بنیاد اس پر ہے تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ چوں کہ فطرت انسانی آرزو سے محروم نہیں ہوسکتی اور ادب فطرت انسانی کے بنیادی تقاضوں سے ہٹ چکا ہے اور Ideal کا فطرت سے تعلق منقطع ہوچکا ہے، لہٰذا ادب پیدا کرنے کے لیے ایک ہی مواد باقی رہ گیا ہے اور وہ ہے انفرادی آشوب۔
(جاری ہے)

حصہ