شفق کی رنگت نکھار بن کے
فضاء میں ایسے کھلی ہوئی ہے
غم والم کے ہزار موسم
مسرتوں میں بدل رہے ہیں
یہ خوش گمانی نہ ہے یہ دھوکہ
خزاں رتوں کے طویل عرصے
گلوں کی نکہت میں ڈھل رہے ہیں
بھٹکنے والے سب ہی مسافر
یقیں کے رستوں کا بھید پاکر
بس ایک جانب کو چل رہے ہیں
بکھرنے والے سنبھل رہے ہیں
دل ونظر میں فقط خدا ہے
اسی کے صدقے سے دل ملا ہے
عطا پہ اس کی ہر اک فدا ہے
جو وسعتوں کا گزر ہوا ہے
تو الفتوں کا بھی در کھلا ہے
بدلتا منظر جو دکھ رہا ہے
ہدایتوں کا یہ معاملہ ہے
خدائے رحماں کا آسرا ہے
بشارتوں کا یہ سلسلہ ہے
یہ آسرا ہی تو ابتدا ہے
نئ کرن کا جو در کھلا ہے