’’انگڑائی‘‘

233

شفق کی رنگت نکھار بن کے
فضاء میں ایسے کھلی ہوئی ہے
غم والم کے ہزار موسم
مسرتوں میں بدل رہے ہیں
یہ خوش گمانی نہ ہے یہ دھوکہ
خزاں رتوں کے طویل عرصے
گلوں کی نکہت میں ڈھل رہے ہیں
بھٹکنے والے سب ہی مسافر
یقیں کے رستوں کا بھید پاکر
بس ایک جانب کو چل رہے ہیں
بکھرنے والے سنبھل رہے ہیں
دل ونظر میں فقط خدا ہے
اسی کے صدقے سے دل ملا ہے
عطا پہ اس کی ہر اک فدا ہے
جو وسعتوں کا گزر ہوا ہے
تو الفتوں کا بھی در کھلا ہے
بدلتا منظر جو دکھ رہا ہے
ہدایتوں کا یہ معاملہ ہے
خدائے رحماں کا آسرا ہے
بشارتوں کا یہ سلسلہ ہے
یہ آسرا ہی تو ابتدا ہے
نئ کرن کا جو در کھلا ہے

حصہ