ملک میں کورونا وباء کو دو سال ہونے کو ہیں، فروری 2020ء سے کورونا نے اہلِ پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ والد صاحب بھی کورونا میں مبتلا ہوکر خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ لیکن خدا کا اپنا نظام ہے، جب والد صاحب کو کورونا ہوا تو اُن کی خدمت کے دوران کسی اور کو بھی کورونا ہوجانا چاہیے تھا، لیکن نہیں ہوا، حالانکہ ماسک پہننے اور ہاتھ دھونے کے سوا کوئی احتیاط نہیں تھی، لوگوں میں مسلسل اس بیماری کی علامات دیکھ رہا تھا، کئی بار ایسا لگا اور مجھے یقین ہوگیا کہ اب مجھے بھی کورونا ہوگیا ہے، لیکن ٹیسٹ کے بعد معلوم ہوا کہ نہیں ہوا۔ لیکن اب کورونا اومیکرون ہو ہی گیا اور لگ گیا۔ اس وقت مجھے سب سے زیادہ فکر اپنی والدہ سمیت اہلِ خانہ کی تھی اور اُن سب کی جن سے میں اس ایک ہفتے کے دوران ملتا رہا ہوں۔ میں یہ سوچتا رہا کہ آخر یہ بیماری مجھے کیسے لگ گئی جب کہ میں ”نفسیاتی“ حد تک احتیاط کرتا تھا، ماسک پہنتا، بار بار ہاتھ سینی ٹائز کرتا، وغیرہ وغیرہ… لیکن بہرحال لگ گیا، اور پھر اہلیہ اور چھوٹی بیٹی بھی نہیں بچے۔ ایک طرح کی عجیب کیفیت تھی، ڈپریشن تھا بھی اور نہیں بھی، یا احتیاط اور پریشانی کو ڈپریشن کا نام دے دیں۔ احتیاط بھی کی، لیکن عملی طور پربہت زیادہ ممکن نہیں تھی۔ مجھے یہ فکر تھی کہ اگر مجھے کورونا ہے تو خدانخواستہ اب تک یہ میری فیملی میں منتقل ہوچکا ہوگا۔ اس کے علاوہ ہر وقت ماسک پہننا اور احتیاطاً ہاتھ دھوتے رہنا… یہ ایک الگ پریشانی تھی۔ بحیثیتِ مجموعی تو وائرس کی یہ نئی قسم اب تک اتنی زیادہ مہلک اور جان لیوا ثابت نہیں ہوئی جس کا خطرہ تھا، اس نے مجھے دو، تین دن زیادہ پریشان کیا جس کی وجہ میرا سینہ پہلے سے بہت خراب ہونا تھا، لیکن جس تیز رفتاری سے اس کا پھیلاؤ ہورہا ہے، وہ ایک پریشان کن امر ضرور ہے۔ اس ویرینٹ کی علامات کیا ہیں یہ ایک مشکل سوال ہے… کیونکہ نزلہ، زکام، کھانسی کی شکایات سرد موسم میں ویسے ہی عام ہوتی ہیں اور یہی اس کی علامات ہیں۔ کووڈ ایپ نے سیکڑوں افراد سے یہ سوال کیا کہ ان میں کورونا کی کیا علامات ظاہر ہوئیں؟ اور بعد میں ان کو کون سے وائرس کی تشخیص ہوئی؟ ماہرین نے اعداد و شمار کا جائزہ لے کر بتایا کہ کسی کو بھی ان پانچ اہم علامات پر نظر رکھنی چاہیے جن میں ناک کا بہنا، سر درد، تھکاوٹ، گلے میں خراش اور چھینکیں آنا شامل ہیں۔ اگر یہ علامات ظاہر ہوں تو فوری طور پر اپنا ٹیسٹ کروانا چاہیے تاکہ کورونا وائرس کی تشخیص اور تصدیق ہوسکے، جس کے بعد ہی یہ معلوم کیا جا سکے گا کہ وائرس کی کون سی قسم نے متاثر کیا ہے۔ اور اگر کسی کو کورونا ہوا ہے تو اُسے دماغی افعال کے ساتھ نفسیاتی… اور کسی کو نہیں بھی ہوا ہے تو اسے نفسیاتی مشکل کا سامنا ضرور ہوتا ہے۔ کورونا کے منفی اثرات میں دماغ کے متاثر ہونے کی کئی خبریں منظرعام پر آتی رہتی ہیں، سائنس دان دنیا کو اس سے خبردار کرتے ہوئے وسیع پیمانے پر تحقیق پر زور دے رہے ہیں۔ پروفیسر اویندا ناتھ اور دیگر ماہرین نے ذائقے و سونگھنے کی حس میں خرابیٍ، دردِ سر، فالج، دماغی سوزش جیسی عام علامات کے ساتھ ساتھ عصبی سوزش، دماغی شریانوں میں خرابی اور امنیاتی رجحان کی دماغ دشمنی جیسے دیرپا اثرات کا بھی عندیہ دیا ہے۔ اس کے علاوہ نیند میں خلل، تھکاوٹ، توجہ میں کمی، ڈپریشن، ازخود امنیاتی حملے اور دیگر امراض کو بھی کووڈ کے اثرات میں شامل کیا گیا ہے۔ ان کیفیات کا دورانیہ طویل بھی ہوسکتا ہے۔ پروفیسر اویندا کے مطابق ہر شخص میں کیفیات کی شدت مختلف ہوسکتی ہے، لیکن طویل کووڈ اثرات والے مریض ان کیفیات میں گرفتار نظر آتے ہیں۔
اسی تناظر میں ہم نے ماہر امراضِ دماغ و پروفیسر آف نیورولوجی ڈاکٹر عبدالمالک سے رابطہ کیا۔ آپ سر درد اور اس سے متعلق بیماریوں کے سند یافتہ پہلے پاکستانی نیورولوجسٹ ہیں، یونیورسٹی آف کوپن ہیگن سے ہیڈایک ڈس آرڈرز میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ہوئی ہے۔ آپ سے جب پوچھا کہ کیا کورونا دماغ کو براہِ راست متاثر کرسکتا ہے؟ اس پر آپ کا کہنا تھا کہ کووڈ کی وجہ سے یقینی طور پر دماغی امراض ہر مریض میں تو نہیں ہوتے مگر ایک قابلِ ذکر تعداد کو مختلف قسم کے نیورولوجیکل مسائل ہوجایا کرتے ہیں۔
اسی طرح جب یہ پوچھا کہ پاکستان میں کورونا وائرس سے ذہنی صحت کس طرح متاثر ہورہی ہے؟ تو آپ کا کہنا تھا کہ ذہنی صحت و دماغی مسائل میں عمومی طور پر سردرد، بے چینی، خوف، نیند کے مسائل، دورے، جھٹکے (مرگی)، فالج کے ساتھ ساتھ ذائقے و سونگھنے کی حس میں خرابی، اعصابی کمزوری اور جسم میں پٹھوں کے درد کی شکایات زیادہ پائی جاتی ہیں۔ کورونا کے دماغی اثرات کے ساتھ نفسیاتی اثرات بھی ہیں جن میں تشویش، خوف، غُصہ، مایوسی،ہسٹریا، بےچینی، اداسی، گھبراہٹ، غیر یقینی صورت حال شامل ہیں۔
سماء کے رپورٹر اور صحت کے مسائل پر گہری و عمیق نظر رکھنے والے صحافی حامد الرحمٰن کی ایک رپورٹ کے مطابق:
”کورونا وائرس کے نتیجے میں نوجوان خاص طور پر شادی شدہ خواتین زیادہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہوئی ہیں، جس کے نتیجے میں گھریلو جھگڑوں میں بھی اضافہ ہوا ہے، کورونا وائرس کے نتیجے میں لوگوں کے جذبات میں تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں، خودکشی کرنے کی کوششوں کے رجحان میں بھی اضافہ ہوگیا، لوگوں نے خودکشی کے نتیجے میں بدقسمتی سے اپنی زندگیاں بھی ختم کیں، اور خود کو مارنے کا سوچنے والوں میں اضافہ بھی ہوا ہے۔ این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی میں کورونا وبا کے دوران نفسیاتی امراض میں 35 سے 40 فیصد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، اسی طرح ورلڈ بینک کے تعاون سے کراچی میں ذہنی امراض پر کی جانے والی تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ 18 سے 29 سال کی خواتین میں مردوں کے مقابلے میں نفسیاتی امراض کی شرح ڈیڑھ گنا زیادہ تھی“۔
اس سارے پس منظر میں ڈاکٹر عبدالمالک کا کہنا ہے کہ ”دماغی مسائل وقت کے ساتھ ٹھیک ہوجاتے ہیں، یہ مستقل نہیں رہتے، لیکن اس کے لیے ذہنی و جسمانی طور پر متحرک ہونا پڑتا ہے، اچھی خوراک لینی پڑتی ہے جس کے نتیجے میں چیزیں بہتر ہونے لگتی ہیں۔“
اس وقت لوگ بڑی تعداد میں کورونا وائرس کا شکار ہورہے ہیں جس کے ساتھ سماجی اور نفسیاتی پہلو جڑے ہوئے ہیں، ایسے میں ان سوالات کی اہمیت بڑھ جاتی ہے کہ مریض کی جسمانی طور پر تندرستی کے بعد نفسیاتی صورت حال کیا ہوتی ہے اور ایک مریض کب تک نارمل ہوتا ہے یا نہیں ہوتا؟بدقسمتی سے ہمارے ہاں تحقیق کا شعبہ ناپید ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمارے پاس کوئی حتمی اعداد و شمار بھی نہیں ہیں جن سے معلوم ہوسکے کہ اب تک جو لوگ کورونا کا شکار ہوئے ہیں اُن کی ذہنی و نفسیاتی صورتِ حال کیا ہے۔ اس پر حکومت اور ریاست کو توجہ دینے کی ضرورت ہے، کیونکہ ہمارے یہاں پہلے ہی سماجی، معاشی اور کئی دوسری وجوہات کی وجہ سے ذہنی امراض کے مریضوں میں اضافہ ہورہا ہے جن کی تعداد میں اب کورونا کی وجہ سے روزانہ کی بنیاد پر اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے جو تشویش ناک صورت بھی اختیار کرسکتا ہے۔