برادرانِ اسلام! پچھلے خطبے میں آپ کے سامنے انفاق فی سبیل اللہ (یعنی راہِ خدا میں خرچ کرنے) کے عام احکام بیان کر چکا ہوں۔ اب میں اس حکم کے دوسرے حصے کی تفصیلات بیان کرتا ہوں جو زکوٰۃ سے متعلق ہے‘ یعنی جسے فرض کیا گیا ہے۔
زکوٰۃ کے متعلق تین احکام
-1 زکوٰۃ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں تین جگہ الگ الگ احکام بیان فرمائے ہیں:
-1 سورہ بقرہ میں فرمایا ’’جو پاک مال تم نے کمائے ہیں اور جو پیداوار ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالی ہے اس میں سے راہِ خدا میں خرچ کرو۔‘‘ (البقرہ۔ 267:2)
’’اس کی پیداوار جب نکلے تو اس میں سے کھائو اور فصل کٹنے کے دن اللہ کا حق نکال دو۔‘‘ (الانعام۔ 141:6)
یہ دونوں آیتیں زمین کی پیداوار کے متعلق ہیں اور فقہائے حنفیہ فرماتے ہیں کہ خودرَو پیداوار مثلاً لکڑی اور کھانس اور بانس (واضح رہے کہ موجودہ دور میں لکڑی اور بانس خودرَو پیداوار نہیں ہیں‘ بلکہ آمدنی کا بڑا ذریعہ ہیں۔ ہزاروں ایکڑ اراضی پر مشتمل لکڑی کے جنگلات اپنی بہار دکھا رہے ہیں اور بانس کی کاشت بھی بہت بڑے پیمانے پر کی جاتی ہے۔ فقہائے اسلام کو اس پیداوار کے متعلق بھی رہنمائی کرنی چاہیے۔ گھاس کو (گھانس‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔) کے سوا باقی جتنی چیزیں غلّہ‘ ترکاری اور پھلوں کی قسم سے نکلیں ان سب میں سے اللہ کا حق نکالنا چاہیے۔ حدیث میں آتا ہے کہ جو پیداوار آسمانی بارش سے ہو اس میں اللہ کا حق دسواں حصہ ہے اور جو پیداوار انسان کی اپنی کوشش یعنی آب پاشی سے ہو اس میں اللہ کا حق بیسواں ہے اور یہ حصہ پیداوار کٹنے کے ساتھ ہی واجب ہوجاتا ہے۔
-3 اس کے بعد سورۃ توبہ میں آتا ہے ’’جو لوگ سونے اور چاندی جو جمع کرکے رکھتے ہیں اور اس میں سے راہِ خدا میں خرچ نہیں کرتے ان کو درد ناک عذاب کی خوش خبری دے دو۔ اس دن کے عذاب کی جب ان کے اس سونے اور چاندی کو آگ میں تپایا جائے گا اور اس سے ان کی پیشانیوں اور ان کے پہلوئوں اور پیٹھوں پر داغا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ ہے وہ مال جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا۔ لو‘ اب اپنی سمیٹی ہوئی دولت کا مزا چکھو۔‘‘ (التوبہ۔ 35:9)
زکوٰۃ کی فرضیت:
-4ذیل کی آیات میں زکوٰۃ کی فرضیت کا حکم بیان کیا گیا ہے:
’’یہ صدقات تو دراصل فقیروں اور مسکینوں کے لیے ہیں اور اُن لوگوں کے لیے جو صدقات کے کام پر مامورہوں اور اُن کے لیے جن کی تالیفِ قلب مطلوب ہو۔ نیز یہ گردنوں کے چھڑانے اور قرض داروں کی مدد کرنے میں اور راہِ خدا میں اور مسافر نوازی میں استعمال کرنے کے لیے ہیں۔ ایک فریضہ ہے اللہ کی طرف سے‘ اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور دانا و بینا ہے۔‘‘ (التوبہ۔ 60:9)
-5 ’’اے نبیؐ! تم ان کے اموال میں سے صدقہ (فرض زکوٰۃ) لے کر انہیں پاک کرو اور (نیکی کی راہ میں) انہیں بڑھائو۔‘‘ (التوبہ۔ 103:9)
ان پانچوں آیتوں سے معلوم ہوا کہ جو مال جمع کیا جائے اور بڑھایا جائے اور اس میں سے راہِ خدا میں صَرف نہ کیا جائے وہ ناپاک ہوتا ہے۔ اس کے پاک کرنے کی صورت صرف یہ ہے کہ اس میں سے خدا کا حق نکال کر اس کے بندوںکو دیا جائے۔
حدیث میں آتا ہے کہ جب سونا اور چاندی جمع کرنے والوں پر عذاب کی دھمکی آئی تو مسلمان سخت پریشان ہوئے‘ کیوں کہ اس کے معنی یہ ہوتے تھے کہ ایک درہم بھی اپنے پاس نہ رکھو‘ سب خرچ کر ڈالو۔ آخر کار حضرت عمررضی اللہ عنہ‘ حضو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور قوم کی پریشانی کا حال عرض کیا۔ آپؐ نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کو تم پر اسی لیے فرض کیا ہے کہ باقی اموال تمہارے لیے پاک ہو جائیں۔
ایسی ہی روایت حضرت ابو سعیدؓ خدری سے مروی ہے کہ حضورؐ نے فرمایا کہ جب تو نے اپنے مال میں سے زکوٰۃ نکال دی تو جو حق تجھ پر واجب تھا وہ ادا ہو گیا۔
آیات مذکورۂ بالا میں تو صرف زمین کی پیداوار ، سونے اور چاندی کی زکوٰۃ کاحکم ملتا ہے لیکن احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تجارتی مال‘ اونٹ‘ گائے اور بکریوں پر بھی زکوٰۃ ہے۔
چند اشیا کا نصابِ زکوٰۃ:
-1 چاندی کا نصاب : دو سو درہم یعنی 52½ (ساڑھے باون تولے کے قریب ہے۔
-2 سونے کا نصاب: 7½ (ساڑھے سات) تولے۔
-3 اونٹ کا نصاب: 5 اونٹ۔
-4 بکریوں کا نصاب: 40 بکریاں۔
-5 گائے کا نصاب: 30 گائیں۔
-6 اور تجارتی ما کا نصاب: 52½ (ساڑھے باون) تولے چاندی کے بقدر مالیت۔ جس شخص کے پاس اتنا مال موجود ہو اور اس پر سال گزر جائے تو اس میں سے چالیسواں حصہ زکوٰۃ کا نکالنا واجب ہے۔ چاندی اور سونے کے متعلق حنفیہ فرماتے ہیں کہ اگر یہ دونوں الگ الگ بقدرِ نصاب نہ ہوں‘ لیکن دونوں مل کر کسی ایک کے نصاب کی حد تک ان کی قیمت پہنچ جائے تو ان میں سے بھی زکوٰۃ نکالنی واجب ہے۔
زیورات پر زکوٰۃ:
سونا اور چاندی اگر زیور کی صورت میں ہوں تو حضرت عمرؓ اورحضرت ابن مسعودؓ کے نزدیک ان کی زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہے اور امام ابو حنیفہؒ نے یہی قول لیا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ:
-1 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو عورتوں کے ہاتھ میں سونے کے کنگن دیکھے اور پوچھا کہ کیا تم زکوٰۃ نکالتی ہو؟ ایک نے عرض کیا ’’نہیں۔‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’کیا تو پسند کرے گی کہ قیامت کے روز ان کے بدلے آگ کے کنگن تجھے پہنائے جائیں۔‘‘
-2 اسی طرح حضرت ام سلمہؓ سے مروی ہے کہ میرے پاس سونے کی پازیب تھی۔ میں نے حضورؐ سے پوچھا ’’کیا یہ کنز ہے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’اگر اس میں سونے کی مقدار نصابِ زکوٰۃ تک پہنچتی ہے اور اس میں سے زکوٰۃ نکال دی گئی تو یہ کنز نہیں ہے۔‘‘
ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سونا چاندی اگر زیور کی شکل میں ہوں تب بھی اسی طرح زکوٰۃ فرض ہے جس طرح نقد کی صورت میں ہونے پر ہے‘ البتہ جواہر اور نگینوں پر زکوٰۃ نہیں ہے۔
زکوٰۃ کے مسحقین:
قرآن مجید میں زکوٰۃ کے آٹھ حق دار بیان کیے گئے ہیں جن کی تفصیل یہ ہے:
-1 فقرا:
یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس کچھ نہ کچھ مال تو ہو‘ مگر ان کی ضرورت کے لیے کافی نہ ہو۔ تنگ دستی میں گزر بسر کرتے ہوں اور کسی سے مانگتے نہ ہوں۔ ابن عباسؓ، امام زہریؒ، امام ابو حنیفہؒ، حسن بصریؒ، ابوالحسن کرخیؒ اور دوسرے بزرگوں نے فقیر کی یہی تعریف فرمائی ہے۔
-2 مساکین:
یہ بہت تباہ حال لوگ ہیں جن کے پاس اپنی تن کی ضروریات پوری کرنے لیے بھی کچھ نہ ہو۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایسے لوگوں کو بھی مساکین میں شمار فرماتے ہیں جو کمانے کی طاقت رکھتے ہوں مگر انہیں روزگار نہ ملتا ہو۔
-3 عاملین علیہا:
ان سے مراد وہ لوگ ہیں جنہیں اسلامی حکومت زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے مقرر کرے۔ ان کو زکوٰۃ کی مد سے تنخواہ دی جائے گی۔
-4 مؤلفۃ القلوب:
ان سے مراد وہ لوگ ہیں جن کو اسلام کی حمایت کے لیے یا اسلام کی مخالفت سے روکنے کے لیے روپیہ دینے کی ضرورت پیش آئے۔ نیز ان میں وہ نو مسلم بھی داخل ہیں جنہیں مطمئن کرنے کی ضرورت ہو۔ اگر کوئی شخص اپنی کافر قوم کو چھوڑ کر مسلمانوں میں آملنے کی وجہ سے بے روزگار یا تباہ حال ہو گیا تو تب تو اس کی مدد کرنا مسلمانوں پر ویسے ہی فرض ہے‘ لیکن اگر وہ مال دار ہو‘ تب بھی اسے زکوٰۃ دی جاسکتی ہے تاکہ اس کا دل اسلام پر جم جائے۔ جنگِ حنین کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مالِ غنیمت سے نو مسلموں کو بہت مال دیا‘ حتیٰ کہ ایک ایک شخص کے حصے میں سو‘ سو اونٹ آئے۔ انصار نے اس کی شکایت کی تو حضورؐ نے فرمایا کہ یہ لوگ ابھی ابھی کفر سے اسلام میں آئے ہیں‘ میں ان کے دل کو خوش کرنا چاہتا ہوں۔ اسی بنا پر امام زہریؒ نے مولفۃ القلوب کی تعریف یوں بیان کی ہے کہ جو عیسائی یا یہودی یا غیر مسلم اسلام میں داخل ہوا ہو‘ اگرچہ وہ مال دار ہی کیوں نہ ہو۔
-5 فی الرّقاب:
اس سے مطلب یہ ہے کہ جو شخص غلامی کے بند سے چھوٹنا چاہتا ہو اس کو زکوٰۃ دی جائے تاکہ وہ اپنے مالک کو روپیہ دے کر اپنی گردن غلامی سے چھڑالے۔ آج کل کے زمانے میں غلامی کا رواج نہیں ہے‘ اس لیے میراخیال ہے کہ جو لوگ جرمانہ ادا نہ کرسکنے کی وجہ سے قید بھگت رہے ہوں ان کو زکوٰۃ دے کر رہائی حاصل کرنے میں مدد دی جا سکتی ہے۔ یہ بھی فی الرقاب کی تعریف میں آجاتا ہے۔
-6 الغارمین:
ان سے مراد وہ لوگ ہیں جو قرض دار ہوں‘یہ مطلب نہیں ہے کہ آدمی کے پاس ہزار روپیہ ہو اور وہ سو روپے کا قرض دار ہو تو اس کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے‘ بلکہ مطلب یہ ہے کہ جس پر اتنا قرض ہو کہ اسے ادا کرنے کے بعد اس کے پاس مقدارِ نصاب سے کم مال بچتا ہو اسے زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔ فقہائے کرام نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جو شخص اپنی فضول خرچیوں اور بدکاریوں کی وجہ سے قرض دار ہوا ہو اس کو زکوٰۃ دینا مکروہ ہے کیوںکہ پھر وہ اس بھروسے پر اور زیادہ جرأت کے ساتھ بدکاریاں اور فضول خرچیاں کرے گا کہ زکوٰۃ لے کر قرض ادا کر دوں گا۔
-7 فی سبیل اللہ:
یہ عام لفظ ہے جو تمام نیک کاموں پر استعمال ہوتا ہے‘ لیکن قاص طور پر اس سے مراد دینِ حق کا جھنڈا بلند کرنے کی جدوجہد میں مدد کرنا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زکوٰۃ لینا کسی مال دار آدمی کے لیے جائز نہیں‘ لیکن اگر مال دار آدمی جہاد کے لیے مدد کا حاجت مند ہو تو اسے زکوٰۃ دینی چاہیے اس لیے کہ ایک شخص اپنی جگہ مال دار سہی‘ لیکن جہاد کے لیے جو غیر معمولی مصارف ہوتے ہیں ان کو وہ محض اپنے مال سے کس طرح پورا کر سکتا ہے۔ اس کام میں زکوٰۃ سے اس کی مدد کرنی چاہیے۔
-8 ابنُ السبیل (یعنی مسافر):
اگرچہ مسافر کے پاس کے وطن میں کتنا ہی مال ہو‘ لیکن حالتِ مسافر میں اگر وہ محتاج ہے تو اسے زکوٰۃ دینی چاہیے۔
زکوٰۃ کسے دی جائے اور کسے نہیں؟
اب یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ یہ آٹھ گروہ جو بیان ہوئے ہیں ان میں سے کس شخص کو کس حال میں زکوٰۃ دینی چاہیے اور کس حال میں نہ دینی چاہیے۔ اس کی بھی تھوڑی سی تفصیل بیان کر دیتا ہوں:
-1 کوئی شخص اپنے باپ یا اپنے بیٹے کو زکوٰۃ نہیں دے سکتا۔ شوہر اپنی بیوی کو اور بیوی اپنے شوہر کو بھی زکوٰۃ نہیں دے سکتی۔ اس میں فقہا کا اتفاق ہے۔ بعض فقہا یہ بھی فرماتے ہیں کہ ایسے قریبی عزیزوںکو زکوٰۃ نہیں دینی چاہیے جن کا نفقہ تم پر واجب ہو یا جو تمہارے شرعی وارث ہوں‘ البتہ دور کے عزیز زکوٰۃ کے حق دار ہیں‘ بلکہ دوسروں سے زیادہ حق دار ہیں‘ مگر امام اوزاعیؒ فرماتے ہیں کہ زکوٰۃ نکال کر اپنے ہی عزیزوں کو نہ ڈھونڈتے پھرو۔
-2 زکوٰۃ صرف مسلمان کا حق ہے۔ غیر مسلم کا حق نہیں ہے۔ حدیث میں زکوٰۃ کی تعریف یہ آئی ہے کہ ’’وہ تمہارے مال داروں سے لی جائے گی اور تمہارے ہی فقیروں میں تقسیم کر دی جائے گی۔‘‘ (متفق علیہ) البتہ غیر مسلم کو عام خیرات میں سے حصہ دیا جاسکتا ہے‘ بلکہ عام خیرات میں یہ تمیز کرنا اچھا نہیں ہے کہ مسلمان کو دی جائے اور کوئی غیر مسلم مدد کا محتاج ہو تو اس سے ہاتھ روک لیا جائے۔
-3 امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ فرماتے ہیں کہ ہر بستی کی زکوٰۃ اسی بستی کے غریبوں میں تقسیم ہونی چاہیے۔ ایک بستی سے دوسری بستی میں بھیجنا اچھا نہیں ہے۔ اَلا یہ کہ وہاں کوئی حق دار نہ ہو یا دوسری جگہ کوئی ایسی مصیبت آگئی ہوکہ دور و نزدیک کی بستیوں سے مدد پہنچنی ضروری ہو۔ جیسے سیلاب یا قحط وغیرہ۔ قریب قریب یہی رائے امام مالکؒ اور امام سفیان ثوریؒ کی بھی ہے‘ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ زکوٰۃ بھیجنا ناجائز ہے۔
-4 بعض بزرگوں کا خیال ہے کہ جس شخص کے پاس دو وقت کے کھانے کا سامان ہو اسے زکوۃ نہ لینی چاہیے۔ اس معاملے میں ایک چیز تو ہے قانون اور دوسری چیز ہے درجۂ فضیلت۔ ان دونوں میں فرق ہے۔ درجۂ فضیلت تو یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہوسلم نے فرمایا:
-1 جو شخص صبح و شام کی روٹی کا سامان رکھتا ہو‘ وہ اگر سوال کے لیے ہاتھ پھیلاتا ہے تو اپنے حق میں آگ جمع کرتا ہے۔
-2 دوسری حدیث میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ میں اس کو پسند کرتا ہوں کہ ایک شخص لکڑیاں کاٹے اور اپنا پیٹ بھرے‘ بہ نسبت اس کے کہ سوال کے لیے ہاتھ پھیلاتا پھرے۔
-3 تیسری حدیث میں ہے کہ جس کے پاس کھانے کو ہو یا جو کمانے کی طاقت رکھتا ہو اس کا یہ کام نہیں ہے کہ زکوٰۃ لے‘ لیکن یہ اولوالعزمی کی تعلیم ہے۔
رہا قانون تو اس میں ایک آخری حد بتانی ضروری ہے کہ کہاں تک آدمی زکوٰۃ لینے کا حق دار ہو سکتا ہے۔ سو وہ دوسری حدیثوں میں ملتا ہے۔ مثلاً آپؐ نے فرمایا ’’سائل کا حق ہے‘ اگرچہ وہ گھوڑے پر سوار آیا ہو۔‘‘ (ابو دائود)
(باقی صفحہ نمبر10 )
-2 ایک شخص نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میرے پاس دس روپے ہیں کیا میں مسکین ہوں؟ آپ نے فرمایا ’’ہاں۔‘‘
-3 ایک مرتبہ دو آدمیوں نے آخر حضورؐ سے زکوٰۃ مانگی۔ آپؐ نے نظر اٹھا کر غور سے دیکھا پھر فرمایا ’’اگر تم لینا چاہتے ہو تو میں دے دوں گا‘ لیکن اس مال میں غنی اور کمانے کے قابل ہٹے کٹے لوگوں کا حصہ نہیں ہے۔
ان سب احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص بقدرِ نصاب مال سے کم رکھتا ہو‘ وہ فقرا کے ذیل میں آجاتا ہے اور اسے زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ زکوٰۃ لینے کا حق دراصل اصلی حاجت مندوں ہی کو پہنچتا ہے۔
زکوٰۃ کے لیے اجتماعی نظام کی ضرورت:
زکوٰۃ کے ضروری احکام میں نے بیان کر دیے ہیں‘ لیکن ان سب کے ساتھ ایک اہم اور ضروری چیز اور بھی ہے جس کی طرف میں خاص طور پر توجہ دلانا چاہتا ہوں کیوں کہ مسلمان آج کل اس کو بھول گئے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ اسلام میں تمام کام نظامِ جماعت کے ساتھ ہوتے ہیں۔ انفرادیت کو اسلام پسند نہیں کرتا۔ آپ مسجد سے دور ہوں او ر الگ نماز پڑھ لیں تو ہو جائے گی‘ مگر شریعت تو یہی چاہتی ہے کہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھیں۔ اسی طرح نظامِ جماعت نہ ہو تو الگ الگ زکوٰۃ نکالنا اور خرچ کرنا بھی صحیح ہے‘ لیکن کوشش یہی ہونی چاہیے کہ زکوٰۃ کو ایک مرکز پر جمع کیا جائے تاکہ وہاں سے وہ ایک ضابطے کے ساتھ خرچ ہو۔ اسی چیز کی طرف قرآن مجید میں اشارہ فرمایا گیا ہے۔ مثلاً فرمایا ’’اے نبیؐ! تم ان کی اموال میں سے صدقہ (یعنی فرض زکوٰۃ) لے کر انہیں پاک کرو اور (نیکی کی راہ میں) انہیں بڑھائو۔‘‘ (التوبہ۔ 103:9)
یعنی اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ آپ ان سے زکوٰۃ وصول کریں۔
مسلمانوں سے یہ نہیں فرمایا کہ تم زکوٰۃ نکال کر الگ الگ خرچ کر دو۔ اسی طرح عاملین زکوٰۃ کا حق مقرر کرنے سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ زکوٰۃ کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا امام اس کو باقاعدہ وصول کرے اور باقاعدہ خرچ کرے۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’یعنی مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے مال داروں سے زکوٰۃ وصول کروں اور تمہارے فقرا میں تقسیم کروں۔‘‘ (بخاری‘ مسلم)
اسی طریقے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کا عمل بھی تھا۔ تمام زکوٰۃ حکومتِ اسلامی کے کارکن جمع کرتے تھے اور مرکز کی طرف سے اس کو تقسیم کیا جاتا تھا۔ آج اگر اسلامی حکومت نہیں ہے اور زکوٰۃ جمع کرکے باضابطہ تقسیم کرنے کا انتظام بھی نہیں ہے تو آپ علیحدہ علیحدہ اپنی زکوٰۃ نکال کر شرعی مصارف میں خرچ کر سکتے ہیں‘ مگر تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ زکوٰۃ جمع کرنے اور تقسیم کرنے کے لیے ایک اجتماعی نظام بنانے کی فکر کریں‘ کیوں کہ اس کے بغیر زکوٰۃ کی فرضیت کے فوائد ادھورے رہ جاتے ہیں۔ (جاری ہے)