شعرو شاعری

445

انشا اللہ خاں انشا
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
نہ چھیڑ اے نکہت باد بہاری راہ لگ اپنی
تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بے زار بیٹھے ہیں
خیال ان کا پرے ہے عرشِ اعظم سے کہیں ساقی
غرض کچھ اور دھن میں اس گھڑی مے خوار بیٹھے ہیں
یہ اپنی چال ہے افتادگی سے ان دنوں پہروں
نظر آیا جہاں پر سایۂ دیوار بیٹھے ہیں
کہیں ہیں صبر کس کو آہ ننگ و نام ہے کیا شے
غرض رو پیٹ کر ان سب کو ہم یک بار بیٹھے ہیں
نجیبوں کا عجب کچھ حال ہے اس دور میں یارو
جسے پوچھو یہی کہتے ہیں ہم بے کار بیٹھے ہیں
نئی یہ وضع شرمانے کی سیکھی آج ہے تم نے
ہمارے پاس صاحب ورنہ یوں سو بار بیٹھے ہیں
کہاں گردش فلک کی چین دیتی ہے سنا انشاؔ
غنیمت ہے کہ ہم صورت یہاں دو چار بیٹھے ہیں

امیر مینائی
اچھے عیسیٰ ہو مریضوں کا خیال اچھا ہے
ہم مرے جاتے ہیں تم کہتے ہو حال اچھا ہے
تجھ سے مانگوں میں تجھی کو کہ سبھی کچھ مل جائے
سو سوالوں سے یہی ایک سوال اچھا ہے
دیکھ لے بلبل و پروانہ کی بیتابی کو
ہجر اچھّا نہ حسینوں کا وصال اچھا ہے
آ گیا اس کا تصور تو پکارا یہ شوق
دل میں جم جائے الٰہی یہ خیال اچھا ہے
آنکھیں دکھلاتے ہو جوبن تو دکھاؤ صاحب
وہ الگ باندھ کے رکھّا ہے جو مال اچھا ہے
برق اگر گرمئ رفتار میں اچھی ہے امیرؔ
گرمیِ حسن میں وہ برق جمال اچھا ہے
باقی صدیقی
داغِ دل ہم کو یاد آنے لگے
لوگ اپنے دیئے جلانے لگے
کچھ نہ پا کر بھی مطمئن ہیں ہم
عشق میں ہاتھ کیا خزانے لگے
یہی رستہ ہے اب یہی منزل
اب یہیں دل کسی بہانے لگے
خود فریبی سی خود فریبی ہے
پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے
اب تو ہوتا ہے ہر قدم پہ گماں
ہم یہ کیسا قدم اٹھانے لگے
اس بدلتے ہوئے زمانے میں
تیرے قصّے بھی کچھ پرانے لگے
رخ بدلنے لگا فسانے کا
لوگ محفل سے اٹھ کے جانے لگے
ایک پل میں وہاں سے ہم اٹھّے
بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے
اپنی قسمت سے ہے مفر کس کو
تیر پر اڑ کے بھی نشانے لگے
ہم تک آئے نہ آئے موسم گل
کچھ پرندے تو چہچہانے لگے
شام کا وقت ہو گیا باقیؔ
بستیوں سے شرار آنے لگے

امجد اسلام امجد
کہاں آ کے رکنے تھے راستے کہاں موڑ تھا اسے بھول جا
وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ جو نہیں ملا اسے بھول جا
وہ ترے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں
دلِ بے خبر مری بات سن اسے بھول جا اسے بھول جا
میں تو گم تھا تیرے ہی دھیان میں تری آس تیرے گمان میں
صبا کہہ گئی مرے کان میں مرے ساتھ آ اسے بھول جا
کسی آنکھ میں نہیں اشکِ غم ترے بعد کچھ بھی نہیں ہے کم
تجھے زندگی نے بھلا دیا تو بھی مسکرا اسے بھول جا
کہیں چاک جاں کا رفو نہیں کسی آستیں پہ لہو نہیں
کہ شہیدِ راہِ ملال کا نہیں خوں بہا اسے بھول جا
کیوں اٹا ہوا ہے غبار میں غمِ زندگی کے فشار میں
وہ جو درد تھا ترے بخت میں سو وہ ہو گیا اسے بھول جا
تجھے چاند بن کے ملا تھا جو ترے ساحلوں پہ کھلا تھا جو
وہ تھا ایک دریا وصال کا سو اتر گیا اسے بھول جا

بشیر بدر
آنکھوں میں رہا دل میں اتر کر نہیں دیکھا
کشتی کے مسافر نے سمندر نہیں دیکھا
بے وقت اگر جاؤں گا سب چونک پڑیں گے
اک عمر ہوئی دن میں کبھی گھر نہیں دیکھا
جس دن سے چلا ہوں مری منزل پہ نظر ہے
آنکھوں نے کبھی میل کا پتھر نہیں دیکھا
یہ پھول مجھے کوئی وراثت میں ملے ہیں
تم نے مرا کانٹوں بھرا بستر نہیں دیکھا
یاروں کی محبت کا یقیں کر لیا میں نے
پھولوں میں چھپایا ہوا خنجر نہیں دیکھا
محبوب کا گھر ہو کہ بزرگوں کی زمینیں
جو چھوڑ دیا پھر اسے مڑ کر نہیں دیکھا
خط ایسا لکھا ہے کہ نگینے سے جڑے ہیں
وہ ہاتھ کہ جس نے کوئی زیور نہیں دیکھا
پتھر مجھے کہتا ہے مرا چاہنے والا
میں موم ہوں اس نے مجھے چھو کر نہیں دیکھا

ایوب خاور
ضبط کرنا نہ کبھی ضبط میں وحشت کرنا
اتنا آساں بھی نہیں تجھ سے محبت کرنا
تجھ سے کہنے کی کوئی بات نہ کرنا تجھ سے
کنج تنہائی میں بس خود کو علامت کرنا
اک بگولے کی طرح ڈھونڈتے پھرنا تجھ کو
روبرو ہو تو نہ شکوہ نہ شکایت کرنا
ہم گدایانِ وفا جانتے ہیں اے درِ حسن
عمر بھر کارِ ندامت پہ ندامت کرنا
اے اسیرِ قفسِ سحرِ انا دیکھ آ کر
کتنا مشکل ہے ترے شہر سے ہجرت کرنا
پھر وہی خار مغیلاں وہی ویرانہ ہے
اے کف پائے جنوں پھر وہی زحمت کرنا
صورتِ ماہ منیر اب کے سرِ بام آ کر
ہم غریبوں کو بھی کچھ رنج عنایت کرنا
جمع کرنا تہ مژگاں تجھے قطرہ قطرہ
رات بھر پھر تجھے ٹکڑوں میں روایت کرنا
کام ایسا کوئی مشکل تو نہیں ہے خاورؔ
مگر اک دستِ حنا رنگ پہ بیعت کرنا

افتخار عارف کےپسندیدہ اشعار
مرا خوش خرام بلا کا تیز خرام تھا
مری زندگی سے چلا گیا تو خبر ہوئی
…٭…
خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے
ایسی تنہائی کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے
…٭…
قابل اجمیری کے اہم اشعار
ہم بدلتے ہیں رخ ہواؤں کا
آئے دنیا ہمارے ساتھ چلے
خیالِ سود نہ اندیشہ زیاں ہے ابھی
چلے چلو کہ مذاقِ سفر جواں ہے ابھی
رکا رکا سا تبسم، جھکی جھکی سی نظر
تمہیں سلیقہ بے گانگی کہاں ہے ابھی
سکونِ دل کی تمنا سے فائدہ قابل
نفس نفس غمِ جاناں کی داستاں ہے ابھی
تضادِ جذبات میں یہ نازک مقام آیا تو کیا کرو گے
میں رو رہا ہوں تو ہنس رہے ہو میں مسکرایا تو کیا کرو گے
…٭…

مشیرکاظمی
پھول لے کر گیا آیا روتا ہوا
بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں
قبر اقبال سے آرہی تھی صدا
یہ چمن مجھ کو آدھا گوارہ نہیں
……
شہر ماتم تھا اقبال کا مقبرہ
تھے عدم کے مسافر بھی آئے ہوئے
خون میں لت پت کھڑے تھے لیاقت علی
روح قائد بھی سر کو جھکائے ہوئے
کہہ رہے تھے سبھی کیا غضب ہوگیا
یہ تصور تو ہرگز ہمارا نہیں
……
سرنگوں تھا قبر پہ مینار وطن
کہہ رہا تھا کہ اے تاجدار وطن
آج کے نوجواں کو بھلا کیا خبر
کیسے قائم ہوا یہ حصارِ وطن
جس کی خاطر کٹے قوم کے مرد و زن
ان کی تصویر ہے یہ مینارا نہیں
……
کچھ اسیران گلشن تھے حاضر وہاں
کچھ سیاسی مہاشے بھی موجود تھے
چاند تارے کے پرچم میں لپٹے ہوئے
چاند تارے کے لاشے بھی موجود تھے
میرا ہنسنا تو پہلے ہی اک جرم تھا
میرا رونا بھی ان کو گوارہ نہیں
کیا فسانہ کہوں ماضی و حال کا
شیر تھا میں بھی اک ارض بنگال کا
شرق سے غرب تک میری پرواز تھی
ایک شاہین تھا میں ذہن اقبال کا
ایک بازو پہ اڑتا ہوں میں آج کل
دوسرا دشمنوں کو گوارہ نہیں
……
یوں تو ہونے کو گھر ہے سلامت رہے
کھینچ دی گھر میں دیوار اغیار نے
ایک تھے جو کبھی آج دو ہو گئے
ٹکڑے کر ڈالا دشمن کی تلوار نے
گھر بھی دو ہو گئے در بھی دو ہو گئے
جیسے کوئی بھی رشتہ ہمارا نہیں
……
کچھ تمہاری نزاکت کی مجبوریاں
کچھ ہماری شرافت کی مجبوریاں
تم نے روکے محبت کے خود راستے
اس طرح ہم میں ہوتی گئیں دوریاں
کھول تو دوں میں راز محبت مگر
تیری رسوائیاں بھی گوارہ نہیں
……
وہ جو تصویر مجھ کو دکھائی گئی
میرے خون جگر سے بنائی گئی
قوم کی ماؤں بہنوں کی جو آبرو
نقشہ ایشیاءمیں سجائی گئی
موڑ دو آبرو یا وہ تصویر دو
ہم کو حصوں میں بٹنا گوارہ نہیں
……
پھول لے کر گیا آیا روتا ہوا
بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں
قبر اقبال سے آرہی تھی صدا
یہ چمن مجھ کو آدھا گوارا نہیں
…٭…

حصہ