اکھ دیا بجھ گیا

191

فرزانہ عظیم کو مرحومہ کہتے ہوئے زبان ساتھ نہیں دے رہی۔ وہ علاقہ نیوکراچی کی رکنِ جماعت تھیں اور بہت پرانی رکنِ جماعت۔ وہ اپنے رب کی پسندیدہ بندی تھیں، ان کے ہر عمل سے محسوس ہوتا تھا کہ وہ بہت زیادہ خوفِ خدا رکھنے والی خاتون ہیں۔ میرا اُن سے تعلق بہت پرانا نہیں تھا، گزشتہ تین سال سے میرا اُن سے ربط رہا۔ میں اس سے پہلے علاقہ ناظم آباد میں رہتی تھی۔ اکثر کسی بڑے پروگرام میں وہ نظر آجاتی تھیں۔ ان کے چہرے پر ہمیشہ نرم سی مسکراہٹ ہوتی تھی۔ مسکراہٹ چہرے کو جاذبِ نظر بنادیتی ہے، اس لیے وہ ہمیشہ مجھے اچھی لگیں۔ لیکن جب میں ان کے علاقے میں شفٹ ہوئی تو ان سے بہت زیادہ تعلق ہوگیا۔ وہ چوں کہ جماعت کی گاڑیوں کی انچارج بھی تھیں اس حوالے سے ان سے رابطہ رہتا تھا۔ کبھی گاڑی چاہیے، کبھی نہیں چاہیے،کسی کو اِدھر سے لینا ہے،کسی کو اُدھر سے لینا ہے، کسی نے منع کردیا، پھر ان کو فون کہ ادھر گاڑی نہیں بھیجنی۔ کسی کو اچانک لینا ہے، اس کے لیے اُن کو فون کیا۔ یعنی ہر لمحہ وہ الرٹ رہتی تھیں اور اس سے بڑی بات یہ کہ وہ ہر معاملہ خوش مزاجی سے نمٹاتیں۔ ڈرائیور حضرات اکثر ترش مزاجی سے بھی بات کرلیتے، لیکن ان کا ہمیشہ نرم مزاجی ہی خاصا رہا۔ وہ بہت اچھی صحت کی حامل خاتون نہیں تھیں، پیروں کی تکلیف تو میں نے ہمیشہ اُن کی دیکھی۔ وہ اکثر تکلیف میں ہوتی تھیں لیکن کبھی ان کی زبان سے شکوہ نہیں سنا۔ ان کے اوپر ذمے داریوں کا انبار تھا۔ الخدمت کے کام ہوں یا انڈسٹریل ہوم چلانے کی ذمہ داری، کسی کے راشن کا انتظام کرنا ہو، یا کسی کی فیسوں کا انتظام…گاڑی کی فراہمی کی ذمے داری بھی ان کی تھی۔ ان سب ذمے داریوں کے ساتھ ساتھ کہیں کلاس لے رہی ہیں تو کہیں درس دینے جارہی ہیں۔ اکثر بڑے پروگراموں کی اناؤنسمنٹ کرنے کی ذمے داری بھی ان کی ہوتی۔ ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا، شعری ذوق بھی کمال کا تھا۔ اقبال کے شعروں سے وہ محفل کو گرما دیتی تھیں۔ تربیتی کلاسیں بھی لیتیں۔ غرض یہ کہ وہ اپنی ذات میں انجمن تھیں۔ ہر ایک ان سے محبت کرتا تھا۔ ان کا خاندان بھی وسیع تھا، وہ کسی کی خالہ تھیں تو کسی کی پھوپھی۔ بھانجیاں، بھتیجیاں، یہاں تک کہ خاندان بھر کی بہو بیٹیاں… ہر ایک سے محبت کا معاملہ۔ پھر وہ لڑکپن سے ہی جمعیت اور پھر جماعت کی سرگرم رکن رہیں۔ دین سے محبت کرنا بھی انہوں نے خاندان کو سکھایا، اللہ کی راہ میں خرچ کرنا بھی۔ خاندان والوں سے اعانت جمع کرکے اچھی خاصی رقم جماعت اسلامی کے بیت المال میں جمع کراتی تھیں۔ ان کے خاندان کے سب لوگ جماعت کے سرگرم کارکن، یعنی دین کے حوالے سے سب کی بڑی اچھی تربیت کی۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت محبت کرتی تھیں۔ سیرت کے پروگرام بہت محبت سے کرواتیں۔ مجھے یاد ہے تھوڑا ہی عرصہ پہلے نعتیہ مشاعرہ کراچی کے تحت ہونا تھا۔ میں نے اپنے افراد کو لے جانے کے لیے اُن سے گاڑی کی بات کی تو کہنے لگیں کہ نعتیہ مشاعرہ ہے، میرا بھی دل چاہ رہا ہے کہ جاؤں۔ انہوں نے اپنی ساری مصروفیات اور اپنے پاؤں کی تکلیف بھول کر مشاعرے میں شرکت کی اور آکر بہت محبت سے بتایا۔ وہ خود بھی بہت سادہ مزاج کی تھیں اور اپنے گھر والوں کی بھی اسی طرح تربیت کی۔ ان کا گھر بہت سادہ تھا، آج کل کے زمانے کی کوئی آسائش نہیں تھی۔ ہر ایک ان سے محبت کرتا تھا کیوں کہ وہ تھیں ہی محبت کے لائق۔ ہر فرد یہ محسوس کرتا تھا کہ وہ اس سے ہی محبت کرتی ہیں۔
ان کے جنازے کے موقع پر لوگوں کا ازدحام، اور ہر ایک کو دکھی دیکھ کر یہی محسوس ہوا کہ وہ لوگوں میں بہت مقبول تھیں۔ کوئی فرد یہ کہہ رہا تھا کہ مجھے تحریک میں لانے والی فرزانہ باجی تھیں، کوئی کہہ رہا تھا مجھ سے رکنیت کا فارم انہوں نے بھروایا، میری تربیت کرنے والی یہ تھیں۔ ان کی میت کو دیکھ کر، ان کے چہرے پر سکون دیکھ کر مجھے لگا کہ ایسے ہی لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے نفسِ مطمئنہ کہا ہے۔ وہ ایک جنتی خاتون تھیں۔ میری دعا ہے کہ ان کے انتقال کی صورت میں جماعت اسلامی اور ہمارا جو نقصان ہوا ہے اللہ اسے جلد از جلد پورا کرے اور ہمیں اُن کا بہترین نعم البدل عطا کرے۔ ان کی اولادوں کو ان کے لیے بہترین صدقۂ جاریہ بنائے اور ان کا سہارا بن جائے، اور ہم سب کو بھی ان کے راستے پر چلنے والا بنائے اور جنت میں ہم سب کو ان کا ساتھ نصیب فرمائے، آمین۔

حصہ