کتاب کی فریاد

میں ایک کتاب ہوں اور اپنے ماضی کو یاد کرکے بہت خوش ہوتی ہوں کہ کیا زمانہ تھا جب ہمیں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا تھا۔میں دلچسپ کہانیاں بھی سناتی،دین کی باتیں بتاتی،سائنسی معلومات سے آگاہ کرتی۔
اچھی شاعری سناتی۔میں انھیں ماضی میں بھی لے جاتی اور مستقل میں بھی پہنچا دیتی۔میں تحقیق کرکے ہمیشہ سچی بات بتاتی تھی۔آج کل انٹرنیٹ کی طرح نہیں،جہاں بظاہر معلومات کا طوفان آیا ہوا ہے۔اس طوفان میں حقیقت پکڑنا مشکل ہے۔
پہلے ہر محلے میں ایک لائبریری ہوا کرتی تھی۔
آنکھوں کو خراب کرنے والا انٹرنیٹ نہیں تھا،اس لئے بچوں اور نوجوانوں کی بینائی اچھی تھی اور ان میں ادبی ذوق بھی تھا۔ٹچ موبائل نے تو نئی نسل سے راتوں کی نیند اور دن کا سکون چھین لیا ہے۔
آج وقت کی اہمیت کا بھی اندازہ نہیں رہا،نہ کسی کو اپنے نقصان کا ہوش ہے۔
ویسے بھی آپ علم بیزار اور کھیل پسند لوگ ہیں۔یہ آپ کا قومی مزاج بن گیا ہے۔
انٹرنیٹ ایجاد کرنے والوں نے تو ہم سے یعنی کتابوں سے ناتا نہیں توڑا۔وہاں ہماری اب بھی عزت ہے۔کوئی نئی کتاب آنے والی ہوتی ہے تو ہزاروں کاپیاں محفوظ کروا لی جاتی ہیں۔
کتاب مقبول ہو تو قلم کار مالا مال ہو جاتا ہے۔(ہیری پوٹر کی مصنفہ ناول لکھنے سے پہلے ایک مفلس عورت تھی۔ان کا ناول اتنی تعداد میں فروخت ہوا کہ وہ مال دار ہو گئی)۔
دوسری طرف وہ نیٹ کے نقصانات سے بھی واقف ہیں،اس لئے انھوں نے دفتری کاموں کے علاوہ اپنے ہاں اس کا استعمال محدود کر دیا ہے،خاص طور پر بچوں کی صحت کی خاطر اس کے استعمال کا دورانیہ بہت کم کر دیا ہے،کیونکہ وہ قومیں باشعور ہیں،وہ صرف ضرورت کے وقت ہی انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔
ان آلات سے جو تابکاری خارج ہوتی ہے،پورے انسانی جسم کے لئے مضر ہے۔جب کہ کاغذ پر چھپی ہوئی کتاب سے صحت کو کوئی خطرہ نہیں ۔لہٰذا اپنے پاؤں پر کلہاڑی نہ ماریے۔
خدارا ہمیں پڑھیے اور روحانی سکون حاصل کیجیے۔ہم ہی وہ کتابیں ہیں،جنہوں نے آج دنیا کو ترقی یافتہ بنایا۔ہمارے قریب آئیے۔ہم ہی آپ کے سچے دوست ہیں۔