دور اندیشی

230

رقیہ بیگم: (بڑے دکھ وافسوس سے) ساری زندگی آپ نے پردیس میں محنت مشقت کی۔ یہ آشیانہ بنایا کہ سب مل کر اس چھت تلے اتفاق سے رہیں گے۔ کرائے کے گھر سے نجات ملے گی۔ مگر… یہ چاروں بیٹے… کیا کہوں ان کی بیویوں کے لیے… ہر وقت لڑائی جھگڑا۔ شوہروں کے کان بھرتی ہیں۔ شام کو آتے ہیں تو ایک کا منہ اِس طرف، تو دوسرے کا اُس طرف۔
احمد صاحب: صحیح کہہ رہی ہو رقیہ بیگم۔ سوچا تو یہی تھا کہ چاروں بیٹوں کے ساتھ بڑھاپا آسانی سے گزر جائے گا۔ پردیس میں بیوی بچوں سے دور روکھی سوکھی کھاکر رقم بچائی تھی کہ بڑھاپا سُکھ سے گزر جائے گا۔ لیکن یہ نالائق… لگتا ہے ایک چھت تلے مل کر رہنا نہیں چاہتے۔
…٭…
شمیم: (شوہر سے) ارسلان میں تو تنگ آگئی ہوں روز روز کے لڑائی جھگڑے اور فساد سے… اور… عشرت بھابھی کے طعنے، کہ میرے میاں گھر میں سب سے زیادہ خرچہ دے رہے ہیں۔ ارسلان… تو اُن کی کمائی بھی تو سب سے زیادہ ہے، پھر اُن کا صرف ایک ہی بیٹا ہے جبکہ ہمارے دو بچے ہیں، اگر زیادہ خرچہ دے رہے ہیں تو احسان تو نہیں کررہے ہیں شاکر بھائی… اور اس مکان میں سنا ہے انہوں نے بھی ابا کو کچھ رقم دی تھی ( میاں کی طرف دیکھ کر)۔ کل عشرت بھابھی فون پر اپنی ماں کو بتا رہی تھیں… دیکھو ارسلان اللہ تمہارے ماں باپ کو سلامت رکھے، ان کے بعد بڑے فساد ہوںگے… دوسری طرف شعیب اور عزیر بھائی کی بیویاں بھی… خیر چھوڑو… ایک بات آپ سے کہوں؟
ارسلان: (سوالیہ انداز میں) کیا…؟ کیا کہنا چاہتی ہو؟
شمیم: ارسلان … اماں تمہیں سب سے زیادہ چاہتی ہیں۔ میرا مطلب ہے کہ یہ وقت ہے ہمارے پاس… ابھی سے اگر مکان کا بٹوارا ہوجائے۔ کیونکہ میں تو ان سب کے تیور دیکھ رہی ہوں، یہ نہ ہو کہ ہم ہاتھ مَلتے رہ جائیں۔ اماں کو کسی طرح راضی کرو… یہ مکان فروخت کرکے سب کو حصے دے دیں۔ اس حصے میں کچھ ملا کر دو کمروں کا اپارٹمنٹ لے لیں گے۔ آخر ہمیں بھی تو اپنے بچوں کے بارے میں سوچنا چاہیے۔
…٭…
ارسلان: اماں یہ برابر والے اسد صاحب ملے تھے، کہہ رہے تھے کہ اگر آپ یہ مکان ہمارے ہاتھ بیچیں تو ہم آپ کو مارکیٹ سے زیادہ قیمت دیں گے۔
اماں: لیکن بیٹا ہم تو مکان نہیں بیچ رہے ہیں (شوہر کو دیکھتے ہوئے)۔
شوہر (احمد صاحب): انہیں کس نے کہا کہ ہم مکان بیچ رہے ہیں؟
ارسلان: بابا کہا تو کسی نے نہیں… اصل میں وہ اپنا مکان بڑا کرنا چاہتے ہیں، دونوں مکان ملا کر ایک بڑا گھر بنانا چاہ رہے ہیں۔ (باپ کی طرف دیکھ کر) ابا اس گھر کی قیمت سے وہ ہمیں بیس لاکھ زیادہ دینے کو تیار ہیں، اگر ہم کوشش کریں گے تو کچھ اور بھی بڑھا سکتے ہیں۔
عزیر: (کمرے میں داخل ہوتے ہوئے) بھئی یہ کس مکان کی بات ہورہی ہے؟
ارسلان: بھائی، اصل میں اسد صاحب ہمارا مکان خریدنا چاہ رہے ہیں اور مارکیٹ سے زیادہ پیسے دینے کو بھی تیار ہیں، میں تو ابا سے کہہ رہا ہوں موقع اچھا ہے، بلکہ ہم دس بارہ لاکھ کا مزید مطالبہ کرسکتے ہیں۔
عزیر کی اپنے تمام بھائیوں سے آمدنی کم تھی، اسے بھی مستقبل میں یہی خدشہ لاحق تھا، لہٰذا اس نے اور اس کی بیوی نے بھی ارسلان کا ساتھ دیا۔
…٭…
مکان کا سودا ہوگیا، سب کے حصے میں25,25لاکھ آگئے۔ شاکر کے پاس اپنی اچھی خاصی پونجی تھی، اس نے تو سب سے پہلے آس پاس ہی ایک اپارٹمنٹ خرید لیا۔
…٭…
شاکر: تیسری منزل کا مکان ہے، اماں ابا کے لیے بڑی مشکل ہوجائے گی۔
نسیمہ: اماں ابا تو شاید کبھی کبھار ہی آئیں گے۔ ویسے ان کا دل تو ارسلان کے ساتھ ہی لگتا ہے، زیادہ تر تو وہیں رہیں گے۔
…٭…
شمیم: ارسلان کچھ ہوا؟ میرا مطلب ہے ایک مہینہ ہے، مکان کا قبضہ اسد صاحب کو دینا ہے۔ تمہارے بھائیوں نے بڑی عقل مندی سے اپنی جان چھڑا لی، ایک نے کہا کہ تیسری منزل کا مکان ملا ہے اماں ابا کو چڑھنے اترنے میں تکلیف ہوگی، دوسرے نے اپنی کم آمدن کا رونا شروع کردیا، اور تیسرے نے کہا کہ اپارٹمنٹ بہت چھوٹا ہے آخر اماں ابا کس کے ساتھ رہیں گے؟ دیکھو مجھے تو کوئی اعتراض نہیں، لیکن… وہ جو آپ اگلی گلی میں پہلی منزل کا مکان دیکھ کر آئے تھے بڑا خوبصورت ہے، اگر وہ ہم لے لیں…
ارسلان: بڑا مہنگا ہے۔ بینک میں جو جمع پونجی ہے… تمہیں تو معلوم ہے۔ دوسری شام والی نوکری سے جو تنخواہ ملتی ہے وہ تو میری پوری کوشش ہوتی ہے جمع کروا دوں بینک میں۔ لیکن سب مل ملا کر بھی، کھینچ تان کر، بلکہ شاید تمہیں زیور بھی بیچنے پڑیں تو انتظام ہوسکتا ہے۔ لیکن خالی مکان سے کیا ہوگا…! میرا مطلب ہے سامان، فرنیچر وغیرہ کا انتظام کیسے ہوگا؟
شمیم : ارسلان ایک آئیڈیا ہے۔ اگر اماں ابا سے کچھ رقم… مکان میں سے ان کو بھی تو حصہ ملا ہے، وہ اس کا کیا کریں گے؟ بعد میں تو نہ جانے کیا ہو۔ آپ ابا سے بات کرکے دیکھیں۔
…٭…
ارسلان: اماں کوشش میں لگا ہوا ہوں کہ کوئی ڈھنگ کا مکان مل جائے، مجھے اپنے سے زیادہ آپ دونوں کی فکر ہے (اماں کی طرف دیکھ کر)۔ ایک مکان اگلی گلی میں دیکھا ہے، پہلی منزل ہے، مکان بھی نیا اور ہوادار ہے، گرائونڈ فلور تو بِک (فروخت) گیا ہے۔ پہلی منزل کا خالی ہے۔
اماں: پھر بیٹا دیر کیوں کررہے ہو؟
ارسلان: دراصل اماں! رقم کم پڑ رہی ہے، میرے پاس جو جمع پونجی تھی،اور شمیم کے زیور وغیرہ ملا کر بھی پوری نہیں پڑ رہی۔ چلیں میں دیکھتا ہوں، کہیں سے پندرہ بیس لاکھ کا قرضہ مل جائے۔ ویسے ہے تو مشکل۔
…٭…
احمد صاحب: رقیہ بیگم! تم ارسلان کی بات کا مطلب سمجھ گئی ہو نا…؟
رقیہ بیگم: ہاں… لیکن ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔ آپ یہ رقم ارسلان کو دے دیں، ارسلان اور اس کی بیوی پھر بھی ہم دونوں کا خیال رکھتے ہیں۔ وہ تینوں تو…(رقیہ بیگم نے آنکھوں میں آئے آنسو چھپانے کی کوشش کی)
احمد صاحب صاحب: صحیح کہہ رہی ہو… پال پوس کر جوان کیا… اپنی جوانی ان کی خاطر گنوا دی… لیکن جو حالات سامنے آرہے ہیں انہیں دیکھتے ہوئے میں پوری رقم ارسلان کے حوالے نہیں کروں گا… کچھ رقم اپنے پاس رکھنی ہوگی، نہ جانے آگے…
…٭…
شمیم: اماں! آپ کو مکان کیسا لگا؟ ابا اور آپ کی خاطر یہ قدم اٹھایا ہے۔ بس انہیں تو آپ دونوں کی فکر تھی کہ میں بھائیوں کی طرح اماں ابا کو تنہا نہیں چھوڑ سکتا۔
بہو کی بات پر دونوں میاں بیوی مسکرائے۔
بیٹا اللہ آپ لوگوں کو سدا خوش رکھے۔
…٭…
رقیہ بیگم: (شوہر کے ہاتھ سے دودھ کی تھیلی لے کر) یہ کیا لے کر آئے ہیں؟
احمد صاحب: اٹھو بیگم، یہ کچھ بسکٹ اور پھل ہیں۔
شکر ہے دو وقت کی روٹی تو مل جاتی ہے۔
لیکن… اور ہاں یہ تمہاری دوائیاں بھی… ختم ہوگئی تھیں، لیتا ہوا آیا ہوں۔
رقیہ بیگم: شکر الحمدللہ
احمد صاحب: (سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے) شکر الحمدللہ…؟؟
رقیہ بیگم: آپ مجھ سے زیادہ عقل مند اور دوراندیش ہیں۔ اس رقم میں سے پانچ لاکھ آپ نے اپنے پاس رکھ لیے تھے… جبکہ میں تو ارسلان کو یہ بھی دینا چاہ رہی تھی۔آج وہ رقم کام آرہی ہے۔ شکر الحمدللہ… جب تک زندگی ہے یہ رقم کافی ہے۔

 

بیداری
مہران کی سوہنی وادی کے
ایوان میں اندھی نگری کے
دھرتی کے اجارہ داروں نے
قانون یہ کیسا پاس کیا
اس شہر کے کوچے کوچے میں
ہر شہری کو بے آس کیا
ہر بستی کو ناراض کیا
یہ شہر جو اپنی محنت کے
پھل سارے وطن کو دیتا ہے
اک ماں کی طرح سے بن کے سخی
حصّہ یہ تھوڑا لیتا ہے
(آغوش میں سب کو لیتا ہے)
لیکن یہ کس کی سازش سے
بس ایک قلم کی جنبش سے
صدیوں کے وظیفہ خواروں نے
جمہور کے سب غداروں نے
آئین کو ہے پامال کیا
اور اس کے روشن چہرے پہ
اک داغِ تعصب ڈال دیا
ایسے میں اٹھے کچھ دیوانے
حقداروں کو حق دلوانے
مشکل میں ڈال کے تن من دھن
بیدار ذہن فولاد بدن
راہوں میں ڈٹ کے بیٹھے ہیں
کس عزم جواں سے نکلے ہیں
اے شہر یہ تیرے بیٹے ہیں
حرمت کے امیں خدمت میں دھنی
الفت کے جری محنت میں غنی
گفتار سے یہ کردار تلک
للکار سے یہ انکار تلک
ہتھیار سے سج کر آئے ہیں
آرام کو تج کر آئے ہیں
منظر یہ سب نے دیکھا ہے
اخلاص کو ان کے پرکھا ہے
موسم کی شدت سہتے ہوئے
سرما کی بھری برساتوں میں
جو مثل چٹان تھے ڈٹ کے کھڑے
سنسان سی کالی راتوں میں
ہونٹوں پہ حق کا نعرہ تھا
کلمے کا علم تھا ہاتھوں میں
یہ محنت کش یہ اہلِ ہنر
یہ اہل قلم یہ چارہ گر
مزدور ترے مجبور ترے
محصور ترے غیوّر ترے
یہ قلب ترا یہ ترا جگر
ظالم کے آگے سینہ سپر
یہ تیرے دریدہ آنچل کو
عزت سے اوڑھانے آئے ہیں
تحریک چلی بیداری کی
مجبوروں کی مختاری کی
محروموں کی خودداری کی
کچھ رنگ ونسل کی بات نہیں
بالکل بھی زبان اور ذات نہیں
اے شہر یہ تیرے چہرے سے
ہر داغ مٹانے آئے ہیں
دھشت کے اجارہ داروںسے
جمہور کے سب غداروں سے
یہ تجھ کو چھڑانے آئے ہیں
سر تیرا اٹھانے آئے ہیں

 

حصہ