نمائشی نیکیاں

282

خد ا نے ہمیں دو آنکھیں اور دو کان دیے ہیں لیکن نظریہ نبھانے میں ہم اکثر دنیا کو آنکھ مار کردیکھتے ہیں۔ اس سے مزاج کی شوخی اور طبعیت کے الہڑ پن کا تو پتا چل سکتا ہے لیکن وسعتِ نظری ’’کانی گردانی‘‘ جاتی ہے۔ بھینگا زاویہ دراصل ایک بہکا ہوا آئینہ ہے جو ہر منظر کو بہکا دیتا ہے۔ جس طرح ایک ٹانگ پر چلنے سے نہ منزل ملتی ہے اور نہ ایک ہاتھ سے گتھم گتھا ہونے میں حریف پیٹھ تھپکتا ہے بلکہ رسوا کن داو سے پچھاڑ دیتا ہے۔ اس سادہ سی سچائی کے باوجود ایک متوازن طرز زندگی ہمارے شعور کی سرحدوں سے دور رہتی ہے۔ یہ بھی زندگی سے ایک طرح کا مشرکانہ بٹوارہ ہے کہ ہم نے بھی ویجٹیرین اور نان ویجٹیرین کی طرح تعلیم بھی اندھے کی ریوڑیوں کی چھانٹ لی پھر بانٹ لی۔ جن لوگوں نے دینی تعلیم کو اپنا کر دنیاکو ٹھوکر ماردی تو نتیجتاً دنیا نے اس سے زیادہ حقارت سے ٹھوکر ماری ہے۔ ان کی نظر میں جیسے خدا صرف دوزخ کی رسوائیوں کا مالک ہے جنت کی رعنائیوں کا خالق نہیں جب کہ یہ دنیا جنت بھی اور دوزخ بھی ہے۔
’’نیکی کر دریا میں ڈال‘‘ کی بنیاد چاہے جتنی اہم ہو لیکن ’’نیکی کر اور نیکی پر آمادہ کر‘‘ بھی کم اہم نہیں ہے۔ جب کہ یہ تو صرف رب جانتا ہے کہ نیکیاںنیتوں کی اساس پر اپنی وقعت رکھتی ہیں۔ نیت صاف ہو تو ’’پھول ہی پھول ورنہ مٹی دھول۔‘‘ اس لیے زمانے میں ہر اچھائی چھا جاتی ہے اور اپنے نتائج کی سوغات نیکو کارکو دے جاتی ہے۔ یہ معاملہ بھی ایک اللہ اور ہر عبداللہ کے درمیان طے ہوتا ہے۔ وہ بھی اس کے اپنے قریۂ جاں کی سرحدوں میں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایک اچھے معاشرے میں خیر فروغ رعنائیوں کا چلن، حسن و احسان کی اداوں کا خرام ناز۔ بھلائیوں کا سر اٹھا کر چلنا کوئی جادوئی اور مقناطیسی اثر نہیں رکھتا ہے کہ نہیں جسے دیکھ کر ایک رکا ہوا معاشرہ ترغیب و تحریک پاکر اس قافلۂ خیر میں شامل ہو جائے۔ یقینا رکھتا ہے۔ اس کا نور پھیلتا ہے۔ اس کی خوش بو روح تک اترتی ہے‘ اس کا خوش آہنگ نغمہ روم روم میں اترتا ہے۔دینی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو کچھ نمازیں سرّی ہیں کچھ جہری ہیں۔ اذان بلند ہے تو ذکر خاموش ہے۔ قرآن میں اس کے جزوی اشارے بھی ملتے ہیں۔
’’جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں رات اور دن ’’چھپا کر‘‘ اور ظاہر خرچ کرتے ہیں تو ان کے لیے اپنے رب کے ہاں اجر ہے۔‘‘ (سورہ بقرہ 274)
اور کہیں اجازت بھی دی گئی کہ ’’اگر تم خیرات ظاہر کر کے دو تو بھی اچھی بات ہے۔‘‘ (سورہ بقرہ۔271) اس کے باوجود آج زمانے میں نہ افراد اور نہ گھرانے نیکیوں کی پہچان بن سکے۔ ایسے کتنے افراد یا گھرانے اس بات پر مشہور ہیں کہ یہ لوگ ایک یتیم کو پال رہے ہیں۔ اس گھر کا بڑا لڑکا اپنے خون کا عطیہ دے کر اس کی قیمت بھی وصول کرتا ہے اور غیر مسلم لڑکی کو پڑھا رہا ہے۔ کسی رہائشی بلڈنگ والے سب مل کر ایک بڑھیا کا مشترک علاج کرواتے ہوں۔ کوئی کتاب دوست گھر اقراء کی تمنائوں کی گونج والا مزاج رکھتا ہو۔ کتنے لوگ ہنر سکھانے والے ہیں۔ کوئی ایک گھنٹہ مفت ٹیوشن پڑھاتا ہو۔ کوئی مارشل آرٹ سکھاتا ہو۔ اپنے گھرکی شادی میں کسی غریب کی شادی کا انتظام کرتا ہو۔ ایک زمین یا فارم خریدکر کسی گھرانے یا ادارے کو اس کا ایک کونہ خیرات میں دے دے۔ دوڑ اور سائیکل ریس میں حصہ لیتا ہو۔ جانے کیو ں مسلم ادارے ایسا کوئی کام نہیں کرتے جس سے دوسرے کی تمنائوں میں ہم شریک ہوسکیں۔ ہماری وضع قطع ہی نہیں بلکہ سماجی غم بھی سب سے الگ ہوگئے ہیں۔
ہر بستی میں ایک دیوار پرایک بڑا بورڈ یا اشتہار آویزاں ہونا چاہیے کہ جہاں نیکیوں کو اعزاز ملتا ہے۔ ایثار کی سرخی بنے‘ قربانی کی تحریک بنیں۔ اچھائیوں کو اعتبار آئے۔ چاہیے ایک ننھا سے بچہ بھی اپنی پاکٹ منی کا حصہ دے تو وہ اس دن کا ہیرو ہوگا۔ جب معاشرے میں اقدار کی سرخیاں اخبار کی زینت بنیں گی تو مکار سیاست دانوں کی مکروہ خبریں حاشیہ سے ابھر نہ سکیں گی۔ مجھے یاد ہے ایک مسلم ملک کی وزیر اعظم کی پریڈ میں گھوڑا بدک گیا تو شہ سرخی بنی تھی اور اس دن اخبار میں ایثار و قربانیاں، جدت و تحقیق کی ساری خبریں حکیموں کی طیش میں لانے والی دوائوں کے حاشیے میں تھیں۔
نیکیاں چھپانے کی عادت اتنی شدت اختیار کرگئی ہے کہ ماحول ہمارے لیے سازگر نہیں ہو رہا ہے۔ نیکیوں سے خود کو منسوب کرنے کا کلچر ختم ہوچکا ہے۔ چھپ چھپا کر قرآن پڑھا جاتا ہے۔ آج گھروں سے قرآن کی تلاوت کی آوازیں نہیں آتیں۔ ہاں قرأت کے یوٹیوب، ٹی وی پروگرام چلتے رہتے ہیں۔ پہلے قرآن کی تلاو ت کے لیے کسی فن کار یا قاری ہونا ضروری نہیں تھا۔ بس اپنے اپنے ذوق سے رب کی کتاب کی محبت میں ایک سادہ سی مستی و لحن میں گھرگونجتے رہتے تھے۔ سادہ ذہنوں کی سچی آواز کا رس کانوں میں اترجاتا تھا۔ پھر اس گھر کی یہ نیکی ہی اس کی سماجی پہچان ہوجاتی تھی۔ مالی مدد کے سلسلے میں ہم نے دیکھا کہ جب مستقل چھپا کے دینے سے گھرکے کئی افراد گمراہ ہوجاتے ہیں۔ جُل اور فریب کے حربے اپنانے ہیں۔ انھیں جب پتا چلتا ہے کہ دینے والاکسی سے نہیں کہے گا تو وہ ہر ایک سے مدد لیتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگ خاندان اور سماج میں ہوتے ہیں۔ دینی منصوبوں خاص طور سے مرشد کا بھی یہی حال ہے‘ وہ خوش بخت کبھی کسی سے نہیں کہے گا کہ اس ماہ میرے پاس اتنے لاکھ کا چندہ ہوا اور میرے مرید نے مجھ پر اتنا کچھ لٹا یا۔ ایسی چھپی، خفیہ نیکیاں گمراہیوں کو سرنگیں ہیں جس کی کمین گاہوں میں خوش پوش کمینے لوگ دبکے رہتے ہیں۔ یہ ایک سماجی دیمک ہے‘ انھیں پہلے ہی مرحلے میں روندنا اور آگ کی تپش بتا دینا ضروری ہے۔
جذبوں کے تبادلے سے نیکی کا فروغ ہوتا ہے۔ نیکیاں فن و ہنر کے پیکر میں بھی ڈھلتی ہیں تو حسن کی تجسیم ہوتی ہے۔ تب کہیں تاج محل سی ایک ایسی حسین یاد گار زمین پر دائمی نقش چھوڑ جاتی ہے۔ یہ بھی ایک سماجی خیر کی جلوہ سامانی تھی تب پورے برصغیر میں قحط و بھوک سے نمٹنے کے لیے بادشاہِ وقت نے اپنے تمناؤں کی صورت گری کے لیے اپنی دنیا کے تما م ہنرمندوں، مزدورں اور محتاجوں کے مسائل کو وسائل سے جوڑ دیا۔ پھر بھوک بھی مٹی اور تاج محل کو دوام بھی ملا۔ معیاری فکر ہمیشہ تجربات و محسوسات کی ایک الگ دنیا ساتھ رکھتی ہے۔ نیکیوں کی شہرت کا اجالا برائیوں کے اندھیرے مٹا کر اس کا روپ رنگ بدل دیتا ہے۔ اس کا طرز تپاک، اس کی شہرت، اس کاشرف مثال بنتا ہے جیسے کہ غزوۂ تبوک کی مالی اپیل پرصحابہ رضی اللہ عنہم کی انجمن میں ایثار کی ایسی فضا چلی کی نبیٔ رحمت ؐ کی بستی میں نیکی کرنے والوں میں مسابقت کا رنگ اترا۔ باہر کی دنیا کی پاکی اندر کی دنیا بھی بدل سکتی ہے۔ ورنہ دنیا صرف صوفیوں کے کدو میں ’’حق ہو‘‘ کے ضربوں پرمطمئن ہوجاتی ہے۔ اہلِ نظر نئی بستیاں آباد نہیں کرتے۔ نیکیوں کی شہرت، تدابیر کی شہرت ہے، یہ ہماری منفرد شناخت پر اصرار کرتی ہے۔ اسی طرح اگر شادیوں کی سادگی کی شہرت ہو جائے تو سادگی ہی معیارِ مسرت ہوگا۔ معیاری شادی کا روپ رنگ سب اسی سے لیں گے۔ لوگوں کے طعنوں کی فکر سے بے نیاز‘ ہر امداد میں محبت دیتا ہوا پیام عام ہوگا۔
میں سوشل میڈیا کو امکانات سے روشن دیکھتا ہے۔ جب کہ ہماری سوشل میڈیا پر سرگرمی عالمی استعاروں میں نہیں ڈھلی۔ ہماری باتیں گھریلو ٹوٹکوں اور نیم حکیموں کے کشتوں کی زبان میں ہوتی ہیں۔ اس لیے عالمی توجہ ہماری نیکیوں پر کم کم توجہ دیتی ہے۔ ہم یہ جان لیں کہ ہم صرف کام نہیں کرتے بلکہ ہر کام سے تہذیبی توسیع کی تدبیر تراشتے ہیں۔ ہمارے اقدامات کو وسعت اتنی ہی ملتی ہے جتنی ہماری تدبیروں کی وسعت ہے۔ اس لیے آگے بڑھ کر اپنی نیکیوں کی عظمت دنیا کو بتائیں کیوں کہ بلندی کے جہاز صرف نمائش کے لیے نہیں ہوتے۔ یہ منزلوں کے لیے اُڑان بھرتے ہیں۔ ان بلندیوں پر نظریہ ساز لوگ بھی ہوتے ہیں… مگر توازن کی شرط کو ہر لمحہ ملحوظ رکھنا پڑتا ہے۔
اگر نمائش میں ریا کی راہیں سرنگ بناکرآتی ہیں تو چھپی ہوئی اچھائیاں شناخت کو ترستی ہیں۔ اس متاع گم گشتہ کو سماج کی روشن سطح تک لانا بھی ضروری ہے اس لیے زندہ قومیں نیکی کے فروغ میں حکمت ِعملی اور عصر شناسی سے کام لیتے ہوئے اپنے نظریات کے ہدف پر نشانے باندھتی ہے۔

حصہ