ہمارے محلے میں کئی فنکار بستے ہیں۔ آتے جاتے لوگوں سے چھیڑ چھاڑ کرنا، مزاحیہ آوازے کسنا، اور ہر دوسرے شخص کا نام بگاڑنا ان کے مشاغل میں شامل ہے۔ چند نوجوانوں کی آن حرکات و سکنات کو شاید ہی کوئی پسند کرے، لیکن یہ من موجی اپنی اس عادت کو بدلنے کے لیے تیار نہیں۔ گوکہ ان کی جانب سے کی جانے والی حرکتیں ان کے اپنے تئیں تفریح کے زمرے میں آتی ہیں، مگر یہ اچھی بات نہیں۔ خیر انہی نوجوانوں نے ہمارے محلے سے کچھ دور رہائش پذیر ایک شخص کا نام ”ٹینشن“ رکھا ہے، جس کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ موصوف کے ذہن پر ہر وقت پریشانی سوار رہتی ہے۔ ندیم کے بقول: ”ٹینشن“ نہ تو خود سکون سے رہتا ہے، نہ ہی دوسروں کو رہنے دیتا ہے، سوال گندم کا پوچھا جائے تو جواب چنا دیتا ہے، کوئی بھی ذی شعور انسان اس کے پاس چند منٹ بھی بیٹھنے کو تیار نہیں، دماغ کی دہی بنانے میں ماسٹر ہے۔ ندیم کا کہنا ہے کہ اگر میری اس بات پر کسی کو یقین نہ ہو تو وہ خود مل کر دیکھ لے کہ وہ کتنا سر پکاؤ ہے۔
ندیم کی باتیں سن کر میرے دل میں بھی عارف بھائی عرف ”ٹینشن“ سے ملنے کی خواہش جاگنے لگی، اور ہم اُس سے ملنے جاپہنچے۔ ندیم کو میرے ساتھ دیکھ کر اُس نے پہلے تو کچھ نہ کہا، لیکن تھوڑی دیر بعد اپنی خاموشی توڑتے ہوئے بولا ”ندیم تُو یہاں سے جا، تیرا میرا کیا تعلق! جا اپنے چھچھورے گروپ کے ساتھ بیٹھ، یہاں تیرا کیا کام!“
”ٹینشن“ کی جانب سے انتہائی سنجیدگی سے ادا کیے گئے اس جملے نے مجھے حیران کردیا، کیونکہ وہ ٹھنڈے مزاج کا دکھائی دے رہا تھا۔ خیر میری سفارش پر اس نے کچھ دیر کے لیے ندیم کو بھی ہمارے درمیان رہنے کی اجازت دے دی، یا یوں کہیے کہ وہ اسے کچھ دیر کے لیے برداشت کرنے کو تیار ہوگیا۔ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ کسی کا نام بگاڑنا اچھی بات نہیں، اس لیے میں نے اُسے ”عارف بھائی“ کے نام سے مخاطب ہوئے اس کی طبیعت کے بارے میں پوچھا۔ میرے سوال پر اس نے واقعی ندیم کی جانب سے لگائے گئے الزامات کے عین مطابق کچھ یوں جواب دیا:
”یہاں کا سب سے بڑا مسئلہ فراہمی و نکاسیِ آب ہے، پینے کے لیے پانی دستیاب نہیں، اور یہاں کے گلی کوچوں کے ساتھ مرکزی سڑکیں بھی اُبلتے گٹروں کے غلیظ اور بدبودار پانی سے تالاب کا منظر پیش کرتی ہیں، علاقے کی گلیوں اور سڑکوں سے گزرنے کا مطلب اپنے کپڑے ناپاک کرنا ہے، اسی لیے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اپنے اپنے دروازوں کے سامنے مٹی ڈلوانے کا کام شروع کررکھا ہے، ہم انتہائی پریشان ہیں اور یہ سب کرنے پر مجبور ہیں۔“
عارف کے اس جواب پر میں ششدر رہ گیا۔ میں نے ایک مرتبہ پھر اپنا سوال دہراتے ہوئے کہا: ”شہر کے حالات اور خستہ حالی تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، تم اپنے بارے میں بتاؤ۔“
جس پر وہ نان اسٹاپ کچھ یوں بولتا چلا گیا:
”بلدیاتی اداروں کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر، بلکہ زیرو ہے۔ جبکہ علاقے کی حالت منتخب نمائندوں کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہاں ایک نہیں بلکہ سارے ہی نااہل ہیں۔ ہر ادارے میں کرپشن عروج پر ہے۔ جنہیں بازپرس کرنی ہے وہ کرپٹ افسران پر بہت زیادہ مہربان اور ان پر اعتماد کرتے ہیں۔ اربابِ اختیار عوامی منصب پر فائز آفسران کی غیر قانونی حرکتوں اور کرپشن کو نظرانداز کرتے رہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ علاقے کی جانب جاتی مرکزی سڑک کی تمام اسٹریٹ لائٹس ایک عرصے سے خراب ہونے کے باعث بند پڑی ہیں، متعدد بار نشاندہی کے باوجود کبھی کسی نے کوئی سنجیدگی دکھائی اور نہ ہی کوئی نوٹس لیا گیا۔ عوام کا کام تو عوامی مسائل سے آگاہ کرنا ہوتا ہے، مگر جب کوئی ذمے دار اس سے چشم پوشی کرے تو کیا کیا جائے! پورا علاقہ کسی گاؤں کا منظر پیش کرتا ہے۔ شاید گاؤں بھی اس سے بہتر ہو۔ اگر کراچی کے انفرااسٹرکچر پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ ماضی میں یہاں ہر علاقے میں چھوٹے، جبکہ شہر میں بڑے بڑے نالے ہوا کرتے تھے۔ یوں برساتی پانی ان نالوں سے ہوتا ہوا ملیر ندی، لیاری ندی، گجر نالہ اور دیگر میں گرتا تھا۔ اور جہاں تک استعمال شدہ پانی کے نکاس کا معاملہ ہے اُس کے لیے سیوریج سسٹم خاصا بہتر تھا، جبکہ اس کے برعکس اب سیوریج کی لائنیں بند پڑی ہیں۔ کراچی… جو تیزی کے ساتھ پھیلتا ہوا شہر ہے، جہاں صرف اندرون سندھ سے ہی نہیں بلکہ پورے ملک سے لوگ بڑی تعداد میں آتے ہیں… بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث یہاں کے مسائل میں بھی تیزی کے ساتھ اضافہ ہوتا جارہا ہے۔“
میں ”ذرا ٹھیرو، ذرا ٹھیرو“ کی گردان کرتا رہا، مگر وہ کہاں رکنے والا تھا! بس پھر کیا تھا، خاموشی سے سننے میں ہی عافیت جانی۔ وہ انتہائی جذباتی انداز میں کہہ رہا تھا:
”پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہونے کے باوجود کراچی گندگی اور سیوریج زدہ نظام سے اٹا پڑا ہے۔ گندگی اور مچھروں کی بہتات کے باعث یہاں کے باسی مختلف موذی امراض کا شکار ہیں۔ ہر محلے، ہر گلی کے نکڑ اور چوراہے پر کچرے کے ڈھیر دکھائی دیتے ہیں، جبکہ کراچی سے منتخب ہونے والے اراکینِ اسمبلی اور بلدیاتی نمائندے ہمیشہ کی طرح بے بسی کا ہی رونا روتے نظر آتے ہیں۔ سندھ کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی ہے جو شہر کراچی پر حکمرانی کا خواب تو دیکھتی ہے مگر جب کراچی کے مسائل کا رونا رویا جائے تو مسائل حل کرنے کے بجائے اپنی تمام تر ذمے داری بلدیاتی اداروں پر ڈال دیتی ہے۔ بات سیدھی سی ہے کہ سندھ حکومت اگر کراچی کے مسائل کا حل چاہتی ہے تو بلدیاتی اداروں کو اختیارات دے، خاص طور پر نئے منظور کردہ بلدیاتی بل کو جو کہ ایک کالا قانون ہے، فوری طور واپس لے، اور نچلی سطح تک نہ صرف اختیارات دے بلکہ فنڈز بھی فراہم کرے، تاکہ عوام کی مشکلات اور پریشانیوں کا سدباب ہوسکے۔“
عوام کی پریشانیوں اور مشکلات کا تفصیل سے خلاصہ کرنے کے بعد اب وہ خاموش ہوگیا۔ مجھے لگا جیسے بتانے کے لیے کوئی بات نہ بچی ہو۔ اس دوران ندیم مسلسل اشارے کرتا رہا۔ وہ چاہتا تھا کہ میں مزید سوالات کروں۔ وہ محظوظ ہورہا تھا، اسے کیا خبر کہ عارف سے متعلق میری رائے اس سے مختلف ہوچکی ہے۔ میں کچھ دیر بیٹھنے کے بعد وہاں سے نکل پڑا، اور ہم اپنے محلے کی جانب چل پڑے۔ راستے بھر ندیم کی ہنسی نہ تھمی۔ وہ لوگوں کے سامنے مجھے عارف کے خلاف بطور گواہ پیش کرنا چاہتا تھا۔ وہ عارف کی باتوں کو محض تفریح کا ذریعہ سمجھ رہا تھا۔ عارف کی باتوں کی ہنسی اڑانے والے ندیم کو کیا خبر کہ عارف کی باتیں اُس کی اِس شہر سے محبت کا منہ بولتا ثبوت ہیں، اُس کا دل یہاں کے شہریوں کے ساتھ دھڑکتا ہے، وہ دردِ دل رکھنے والا ایک ایسا شخص ہے جو اس شہر کے مسائل کو اپنا مسئلہ سمجھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ برسوں سے نظرانداز کیے جانے اور مسلسل کی جانے والی حق تلفیوں کے غم نے اُس کی ذہنی کیفیت پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ اس حالت میں بھی وہ کچھ کر گزرنے کی خواہش رکھتا ہے۔ لیکن کچھ لوگ اسے نفسیاتی، پاگل اور ٹینشن جیسے نام دیتے پھر رہے ہیں۔ یہی ہمارا المیہ ہے، یعنی خود کچھ نہیں کرنا، اور جو کوشش کرے اُسے مجنوں، دیوانہ جیسے القابات سے نوازنا۔ انہیں کیا خبر کہ جن لوگوں میں کچھ کر گزرنے کی خواہش ہوتی ہے وہی ہمارا اثاثہ ہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ جو شہر کبھی تجارتی، کاروباری، صنعتی اور سیاسی سرگرمیوں کا محور ہوا کرتا تھا وہ مسائل اور پریشانیوں کا گڑھ بن چکا ہے، یوں محسوس ہوتا ہے جیسے مختلف مافیاؤں کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔ حالات و ماحول کی ناسازی نے آج یہاں کے نوجوانوں کو گوشہ نشینی پر مجبور کردیا ہے۔ جس شہر کا دامن وسیع تھا وہ آج اپنی بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف ہے۔ جہاں کے نوجوان نصابی و ہم نصابی سرگرمیوں میں مشغول رہا کرتے تھے، اور ساری دنیا میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا کرتے تھے انہیں بے حد عدم تحفظ میں مبتلا کرکے محض زندہ رہنے کی جدوجہد کرنے پر مجبور کردیا گیا ہے، جس سے ان نوجوانوں کی زندگیوں پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے جب نوجوانوں کے خواب ٹوٹ جائیں اور وہ بے سمت و بے منزل ہونے لگیں تو ایسے معاشرے میں ایک نہیں ہزاروں عارف بیدار ہوا کرتے ہیں، پھر ایسی جماعت وجود میں آیا کرتی ہے جو اپنا حق مانگنے کے بجائے چھین لینے کی راہ پر گامزن ہوجاتی ہے۔ اس سے پہلے کہ نوجوانوں کا انقلاب دستک دے، حکمرانوں کو چاہیے کہ اپنی سمت درست کرلیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ اس شہر کے نوجوان اپنی جان دینے سے بھی دریغ نہ کریں۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو تباہی کے سوا کچھ نہ بچے گا۔