کراچی اور کراچی والا ،سید شاہد ہاشمی کے اختصاریے

311

وطنِ عزیز میں شہریوں کو درپیش مسائل پرہم اکثر نوحہ کناں رہتے ہیں خصوصاً کراچی کی تباہی و بربادی پر۔ہزاروں برس کے انسانی تجربات اورمسلسل تمدنی اِرتقا کے نتیجے میں ساری دنیا اختیارات و فرائض کی نچلی سطح پر منتقلی کے کامیاب تجربے سے مستفید ہو رہی ہے۔ بڑے شہروں اور ضلعوں/ کاؤنٹیز کے لیے خود مختار و با اختیار بلدیاتی حکومتوں کا نِظام وجود میں لایا گیا ہے۔ ‏عوام کی روز مرہ زندگی سے متعلق بیشتر کام شہری اور ضلعی حکومتوں کے حوالے کر دیے گئے ہیں۔ ‏یہ اُمور اور اِن سے وابستہ انتظامی و مالیاتی اختیارات بھی اِنہی کے سپرد ہوتے ہیں۔
‏اسکول ایجوکیشن‘ پولِیسِنگ‘ اَربَن ٹرانسپورٹ، بلڈنگ کنٹرول، ٹائون پلاننگ کے شعبےٗ سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے دائرۂ کار و اختیار میں ہوتے ہیں۔ اِن کاموں کی انجام دہی کے لیے وہ ٹیکس بھی لگاتی ہیں۔ مگر بدقسمتی سے ہمارا ملک تاحال، جاگیردارانہ سوچ، مزاج اور کلچر سے آزاد نہیں ہوسکا اس لیےیہ ذہنیت کسی کو کچھ دینا نہیں جانتی‘ صرف لینا جانتی ہے۔ ہرشے کا اِرتکاز چاہتی ہےٗ مال کا، طاقت کا، اقتدار کا، اختیارات کا ارتکاز وفاقِ پاکستان کے بے شمار اختیارات صوبوں کو مل گئے ہیں۔ مگر صوبائی حکومتیں دنیا بھر میں رائج ضلعی حکومتوں کے اختیارات بھی سلب کرتی جا رہی ہیں۔ سندھ کی حکومت (جو طویل عرصے سے، ایک مخصوص پارٹی کی تحویل میں ہے اور نہ جانے کتنی نسلوں تک رہے گی) ”وڈیرہ شاہی‘‘ نفسیات کی کلاسیکل مثال ہے۔ ‏اِس حکومت نے تو کراچی میں کچرا اٹھانے کا کام بھی بلدیہ کراچی سے لے لیا۔
رواں صدی کی پہلی دہائی کا شہری/ ضلعی حکومتوں کا کامیاب اور مفید تجربہ اور نظام برباد کر دیا ہے۔ ‏پہلی دہائی کا وہ سِٹی/ ڈسٹرکٹ گورنمنٹ سسٹم پورے ملک بشمول سندھ اور کراچی بڑا کامیاب و کارآمد اور ثمر آور ثابت ہوا۔ ‏مگر نئی حکومتوں نے وہ پورا بلدیاتی نظام ہی اُدھیڑ کر یا لپیٹ کر رکھ دیا۔ ‏صوبہ سندھ نے اُس کی جگہ خاص کر کراچی کو ایک ناقص اور ناکارہ نظام دیا۔
اب اِس کا حل کیاہے؟
-1 پورے ملک میں اُسی ’’سِٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ‘‘ سسٹم کا فوری اِحیا۔
-2اُس پورےسسٹم کو لازمی اور مکمل دستوری تحفظ دینا۔
-3 بلدیاتی انتخابات کا جَلد، بروقت، باقاعدہ اور تسلسل سے اِنعقاد۔
-4 ضلعی/ شہری حکومتوں کو سونپےگئے اختیارات کے مطابق ضروری وسائل کی فراہمی۔
-5 ارکانِ اسمبلی کی مداخلت پر پابندی۔
رواں صدی کی پہلی دہائی والے ”سِٹی/ ڈسٹرکٹ گورنمنٹ” سسٹم کے اِحیا کے بعد:
-1 فرائض و اختیارات اور وسائل نچلی سطح پر اُتریں گے

Devolution of Duties, Power and Resources
ہوگا۔
2۔ شہریوں کی روز مرّہ زندگی میں سہولت اور آسانی پیدا ہوگی۔
-3 نئے صوبے بنانے کی آواز بھی مدھم پڑ جائے گی۔ ان شاء اللہ۔
مگر ناگزیر ہے کہ اِس سسٹم کو برداشت کیا جائے‘چلنے دیا جائے اور اِس کے ساتھ چالاکیاں نہ کی جائیں اور نہ ہی اِس کے پَر تراشے جائیں۔
…٭…
پی پی پی کے چیئرمین بِلاول بھٹو زرداری نے کراچی شہرکے مہماتی دورے میں فرمایا ہے کہ اب کراچی کے معاملات’’جیالے‘‘ چلائیں گے اور یہاں کے مسائل ”پی پی پی‘‘ حل کرے گی۔
‏شاید وہ بھول رہے ہیں کہ سندھ پر اُن کی حکومت کچھ وقفوں کے ساتھ اُن کی پیدائش سے پہلے سے چلی آ رہی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری صاحب کی تعلیم و تربیت باہر ہوئی ہے۔ ‏لہٰذا بجا طور پر توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ’’دیہی، وڈیرانہ اور متعصب‘‘ ذہن‘ رویوں اور طرزِ سیاست و حکومت سے بلند ہو کر اور ‏اپنی پارٹی کو اِس تنگ ذہنی سے نکال کر سب کو ساتھ لے کر چلنے والے ایک نئے دَور کا آغاز کریں گے۔
‏پیپلز پارٹی کے اہلِ دماغ و دانش اور قیادت کو سوچنا چاہیے کہ سندھ کی اتنی بڑی ’’مُہاجرسندھی‘‘ کمیونٹی’’پی پی پی‘‘سے کیوں ڈرتی اور بِدکتی ہے؟ اور یہ کہ اُن کے دل و دماغ کیسے جیتے جاسکتے ہیں؟ آپ مان ہی لیجیے کہ ’’مُہاجرسندھی‘‘ سندھ کے ویسے ہی مستقل باشندے ہیں جیسے عرب سے آنے والے ’’سیّد۔‘‘
بلاول بھٹو زرداری صاحب! اپنی پارٹی، حکومت اور ساتھیوں کی سوچ، پالیسی اور اِقدامات میں تبدیلی لائیں اور یہ تسلیم کروائیں کہ:
الف۔’’مُہاجرسندھی‘‘ بھی ویسے ہی اُن کے’’اپنے‘‘ ہیں جیسے’’بلوچ سندھی‘‘یا ’’قدیم سندھی۔‘‘
ب۔ ’’مہاجرسندھی‘‘ اکثریت والے شہروں کو نہ تو ’’غیر‘‘ سمجھنا ہے نہ ہی اُنھیں ’’فتح‘‘ کرنا ہے۔
…٭…
‏کراچی کی بات ہوتی ہے تو بہت سے لوگ اِسے ایک خاص کمیونٹی سے منسوب سمجھ لیتے ہیں۔ ‏اِس کی فلاح و بہبود کا موضوع ہو تو اِسے ’’تعصب‘‘ قرار دیتے ہیں۔ ‏ایک باوقار‘ بااختیار اور باوسیلہ شہری حکومت کے مطالبے میں سے’’تقسیمِ سندھ‘‘ کا نکتہ نکال لیتے ہیں۔ آخر کیوں؟ سُنیے! ‏’’کراچی والا‘‘ کون ہے؟ ‏ہر وہ شخص اور گھرانا ”کراچی والا‘‘ ہے جو:
-1 قیامِ پاکستان سے قبل یہاں رہتا بستا تھا۔
-2 جنوبی ایشیا سےترکِ وطن کر کے آیا اور کراچی کو اپنا مستقل ٹھکانا بنا لیا۔
-3 سندھ بھر سے آتا اور یہیں بس جاتا ہے۔
-4 پورے مُلک سے آکر کراچی کو اپنا مستقر (جائے قرار) بنا لیتا ہے۔
-5 جس کا نام ’’مردم شماری‘‘ رجسٹر میں کراچی کی فہرست میں لکھا ہے۔
-6 جس کا ووٹ کراچی میں درج ہے۔
‏درجِ بالا کسی بھی کٹیگری میں آنے والا فرد اور گھرانا۔۔ ”کراچی والا‘‘ ہےKarachiite ہے۔ کراچی کی تعمیر و ترقی اور فلاح و بہبود کی بات، سب کی بات ہے، اِس میں سب کا بَھلا ہے۔ ‏

حصہ