ہم زندگی میں بھلے ہی لاکھ تنہائی پسند ہوں لیکن ذہنی طور پر ہردم وحشی افکار کے ریوڑ میں رہتے ہیں۔ خیالات کی بھیڑ، خدشات کا ہجوم ہمیں گھیرے رہتاہے۔ ہماری ذات ایک کباڑیئے کے پراگندہ گودام کی طرح ہوتی ہے جہاں قیمتی شے گندگی کے ڈھیر میں دبی ہوتی ہے۔ ہمارے اپنائے ہوئے کسی خیال سے لے کر مال تک، تمنا سے لے کر خدشات تک، جو چیزیں ہم نے سینت سینت کر رکھی ہوئی ہیں اس نے ہماری ذات کو کچل رکھا ہے۔ جہاں ہر اضافی چیز کے ساتھ ’’اچھی امید‘‘ کا ٹیگ لگا ہوا ہے کہ یہ چیز ایک دن کام آئے گی۔ یا پھر ’’خوف‘‘ کا ٹیگ کہ اس کے چھن جانے سے ہم اندر سے خالی ہوجائیں گے۔ اکثر سامان تو کسی اشتہار سے مرعوب ہوکر یا لالچ کے فریب میں آکر ہم خرید لاتے ہیں۔ زیادہ تر خریدی تو وہ ذلت کے داغ ہوتے ہیں جو ہمارے قوتِ فیصلہ کی ہار اور بیچنے والے کی مکاری کے سبب ہم اپناتے ہیں۔ گھر لانے کے بعد سوائے احساسِ حماقت و حسرت کچھ نہیں بچتا۔
حسرتوں کا ہوگیا اس قدر دل میں ہجوم
سانس رستہ ڈھونڈھتی ہے آنے جانے کے لیے
(جگر جالندھری)
میرے نزدیک سامان کی ہزار شکلیں ہیں۔ روحانی، فکری، بدنی بلکہ زندگی کے ہر گوشے سے جڑا ایک رویہ۔ زندگی کا کوئی گوشہ ہو جیسے روحانیت کا‘ جہاں ہم اپنے پیر یا گرو سے کرامتوں کی اُمید اور اسے ترک کرنے پر بدشگونی یا بددعا کا دھڑکا۔ ایسے ہی مسلک اور عقیدے کے اختیار کرنے کا معاملہ ہے، ادبی رجحانات و ترجیحات کا بھی، مالی وسائل کو برتنے اور صرف کرنے کا، سماجی زندگی گزارنے اور جینے کا، بدن کے تقاضے‘ جو کھانے سے لے کر کسرت تک اور پھر گرہستی میں شادی کے تصور سے لے کر شادمانی کے ہر تصورتک ہم اکٹھا کردہ خیالات کے بوجھ تلے دبے رہتے ہیں۔ جس کے سبب ہم سب انتخاب کی قوتیں ہم کھو رہے ہیں۔ سیدھی سی بات ہے کہ کسی رہ گزر پر اگر کوئی روڑے اٹکائے تو نیا مسافر، نیا خیال اور نئی چیز کی جگہ کہاں ہوگی۔ یہاں سے ترجیحا ت میں ٹکرائو ہوگا۔ ذہنی بحران کے سبب فیصلہ کی قوت قربان ہوگی۔ گھر میں زیادہ سامان یا کباڑ ہو تو بدن راہ بناتے بناتے تھک جاتاہے۔ اسی طرح ذہن میں ردی خیالات کا کہرام ہو تو ذہن سوچوں سے ہلکان ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مقصد کھل کر ہماری زندگی کے ساتھ نہیں چلتا۔ اب تو زندگی کا ایک سادہ تصور بھی ہماری دنیا سے دور ہو رہا ہے۔ ایک تصور، ایک محبوب مقصد، ایک راستہ اور ایک منزل نہ ہونا دراصل یہ زندگی سے مشرکانہ برتائو ہے۔ شرک کی پہچان یہ ہے کہ وہ بندے کی عظمت کو گھٹا کر مٹی میں رگڑ دیتی ہے۔ اپنے ہی کیچڑسے خدا تراشنے پر لگا کر اس سے بندگی کروا دیتی ہے۔ ایکائی کے انتخاب کو چھوڑ کر جب ہم کثرت کی خدائی کو قبول کرتے ہیں تو ہمارا مزاج کباڑیوں سا ہو جاتا ہے۔ ہماری آنکھ روشن مقاصد سے چوک جاتی ہے۔ زندگی میں مقاصدکی شفافیت اسے کہتے جسے ہم آنکھ بند کرکے اپنے تصور سے دیکھ سکتے ہوں۔ اس سے گھٹے جذبات میں وضاحت کا نور ہوگا۔ اس سے انفرادیت کا بانکپن بنا رہے گا۔ کیوں کہ ہم ریوڑ پسند نہیں بلکہ سراپا شعور ی انتخاب کی راہ کے مسافر رہیں گے۔
میں اس لیے ہجوم کا حصہ نہیں بنا
سورج کبھی نجوم کا حصہ نہیں بنا
( شاہد ماکلی )
انفرادیت اور انتخاب کے سبب ہم جذبات کو اپنے شعور کا ساتھی بنا سکتے ہیں۔ آس پاس کے دنیا میں ملنے جھلنے والوں میں انتخاب یا رد کرنے میں الجھن نہیں ہوگی۔ حسن فطرت کو اپنی تمناوں میں شریک کر سکتے ہیں۔ اس کی پرکھ کا آسان طریقہ یہ ہے کہ کسی خوف کی گھڑی میں یہ دیکھنا کہ اپنے قدم راہ شوق میں تھم گئے یا بڑھتے رہے۔ قدروں کو پامال کرتی گھڑیوں میں پرکھ لینا کہ ہم کس کے ساتھ ہیں۔ بلکہ ہمیشہ یوں تصور کرنا کہ زندگی کے رہ گزر میں راستہ کے ایک جانب آپ برائیوں کے کیمپ کو اور دوسری جانب بھلائیوں کے پڑائو دیکھتے ہیں۔ راستہ چلتے ہوئے لڑکھڑا کر بہکنا تو ممکن ہے لیکن یہ دیکھ لینا کہ کس کیمپ میں ہم دیر تک اور دور تک ان کے ہمراہ رہے۔ اس انتخاب کی آزادی کی نعمت سے جو بہرور ہوئے، ان تمام مہم جوئوں نے اپنے اقدامات سے پہلے اپنے تصور کی دنیا دیکھ لی اور ایک شعوری ہجرت کرکے ایک پراگند ہ ماحول سے امکانات کی نئی زمینوں میں پناہ لے لی۔ اگرہم اپنی راہوں کو پرانے خیالات کے کباڑ کے سبب آگے صاف نہ دیکھ پائیں تو گنجلک سے گنجائش تک کا سفر ناممکن ہوگا۔ اگر ہم زندہ رہنے کا حسین تصور چاہتے ہیں تو گنجان کو سنسان بنانا ہوگا‘ اپنے سر کو شور شرابوں سے بچانا ہوگا‘ ہجوم ِتمنا سے اپنی جان کو نکالنا ہوگا۔ ذہن و دل میں اتنی بھیڑ ہوگی تو تنہا محبوب ایک مقصد اور اکیلے رب کو کہاں بھر پور جگہ مل سکے گی۔ بلکہ ہم تو رب سے مانگی ہوئی دعائوں کی بھیڑ میں اپنی ترجیحات بھی بھول جاتے ہیں۔ اس لیے بھی اللہ تعالیٰ ہمیں ہماری روح پر انکشاف بھی نہیں کرتا۔
ہر شخص دوڑتا ہے یہاں بھیڑ کی طرف
پھر یہ بھی چاہتا ہے اْسے راستا ملے
(وسیم بریلوی)
خواہشوں کی بھیڑ کو اگر ہم ٹھوک بجا کردیکھیں تو یہ سب ہمارے وہ ٹالے ہوئے فیصلے ہوتے ہیں جو ڈھیر بن کر ہماری راہیں روکتے ہیں۔ یہ سب وہ کَل کلاتی تمنائیں ہیں جو گزرے ہوئے کل کا ردّی مال ہے۔ باسی غذا روح کو تعفن سے بیمار کرتی ہے۔ تازہ خیال سے اپنے وجود کو تازگی دینا ہوگا۔ اگر ہماری مٹھیوں میں کل کی اُٹھائی ہوئے ریت ہوگی تو آج کا موتی ہمارے ہاتھوں کیسے جگہ بنا سکے گا۔ جو ڈھیر ہاتھ لگے گا وہ تذبذب کاکیچڑ ہوگا۔ جب تک ہم اپنے ہاتھ کی پرانی مٹی نہیں جھٹکیں گے تو نئے خواب کے موتی جگہ نہیں لے سکیں گے۔ آپ پل بھر کے لیے اپنے اس تجربے کو یاد کی روشن سطح پر لائیں جہاں آپ نے کسی کباڑ کو اپنی زندگی سے الگ کردیا تھا۔ پل بھر کی دیر بھی نہ ہوئی ہوگی کہ وہ کباڑ آپ کے ذہن سے ایک بوجھ کی طرح اتر گیا ہوگا۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ وہ کباڑ آپ کے کشادہ گودام میں نہیں تھا بلکہ وہ آپ کے پورے وجود پر تھا۔ اسی طرح اگر ہم اپنی ذات سے ایک وہم نکالیں‘ ایک وسوسا گھٹا کر دیکھیں۔ ایک کمزوری جو بہت آسانی سے دور ہوسکتی ہے‘ ایک کلمہ خیر کو کہہ کردیکھیں تو زندگی اتنی ہلکی ہوگی کہ اپنی زندگی کے مقاصد کو پانے کے لیے کسی ماہر نفسیات کے گھر پھیری لگانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ جس طرح ایک کٹیا کا کباڑ اس کے مکینوں پر گراں ہوتا ہے اس طرح انسانی ہجوم بھی کباڑ سے کم نہیں۔ ان کی بے شخصیت آبادیاں بھی ردّی مال ہے۔ ان کی نفسیات کیا ہے؟ وہی جو بھیڑ کی ہوتی ہے۔ بات بات پر مشتعل ہونا، انفرادیت کا قتل کرنا۔ بھیڑسے الگ ہونے پر راہیں بند کرنا۔
بھیڑ میں جب تک رہتے ہیں جوشیلے ہیں
الگ الگ ہم لوگ بہت شرمیلے ہیں
(شارق کیفی)
ایک بڑا علمی نکتہ یاد آیا جب علامہ اقبالؒ نے اٹلی میں موسولینی سے ملاقات پر اس کو جو نصیحت کی تھی۔ جسے سن کر موسولینی ہوش اُڑگئے تھے اور تفصیل پوچھنے پر اقبالؒ نے کہا تھا کہ میں نے تو بس ایک حدیث کا مرکزی خیال تمہارے لیے ایک دانشوری کا تحفہ سمجھ کر دے دیا۔ اقبالؒ نے کہا تھا کہ ’’اپنے شہروں کی آبادی کی حد متعین کردو کیوں کہ شہروں کی بڑھتی ہوئی آبادیاں خیرکی قوتوں کو ختم کردیتی ہیں اور شر کے سرچشموں کو بڑھا دیتی ہیں۔‘‘ یعنی جو فکر ذہن کو کثرت سے کباڑ بنا دے وہی آبادی بھی شہروں کو وحشتوں کا جنگل بنا سکتی ہے کیوں کہ زندگی توازن کا نام ہے۔ توازن اگر ایک پلڑے میں رکھے کباڑ کو کم کرنے سے آتا ہے تو دوسرے پلڑے میں رکھا رب کا نور خود بہ خود جھک جھک آپ کا وقار بلند کرتا رہے گا۔ اگر ہم اپنے ذہن سے فکروں کو، دل سے خدشوں کو، بدن سے چربی یا امراض کو، علم سے لغویات کو، عقیدے سے خرافات کو، مال سے اصراف کو، جذبات کو ہیجانات سے اور فیصلوں کو تحفظات سے کم کرنا شروع کردیں تو دیکھنا زندگی میں کون سا رنگ ابھرتا ہے۔ زندگی کیسے انبیاؑ کی دعائوں کی مانگی ہوئی تعبیر نظر آتی ہے۔