خالدہ حسین کا انٹریو(آخری قسط)

397

طاہر مسعود: ہم نے کہانی لکھنے کی نئی تکنیک مغرب سے مستعار لی ہے۔ مثلاً شعور کی رو۔ تو ایسی صورت میں یہ دعویٰ کس حد تک بجا ہوگا کہ ہماری کہانیاں مغرب میں لکھی جانے والی کہانیوں سے بہتر یا اس کے ہم پلہ ہیں؟
خالدہ حسین: مختلف لکھنے والے شعوری طور پر شعور کی رو کو اپناتے ہیں اور کچھ کے پاس تجربہ اسی طرح وارد ہوتا ہے۔ ان دونوں کے لکھنے میں بہت فرق ہوگا۔ یہ سوچنا کہ لکھنے کی تکنیک باہر سے آئی ہے، درست نہیں ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ لکھنے میں خلوص ہے کہ نہیں۔ منٹو کا افسانہ ’’پھندنے‘‘ دیکھیے۔ یہ شعور کی رو کی تکنیک میں لکھا گیا ہے۔ اسے پڑھ کر کہیں محسوس نہیں ہوتا کہ لکھنے والے نے اسے شعوری طور پر لکھا ہے۔ ہمیں برا وہاں محسوس ہوتا ہے جہاں لکھنے والے پر تکنیک حاوی ہوتی دکھائی دیتی ہے۔
طاہر مسعود: ’’پھندنے‘‘ کے حوالے سے یاد آیا۔ میں گزشتہ دنوں ایک تنقیدی مضمون پڑھ رہا تھا جس میں اس سوال پر خاصی بحث کی گئی ہے کہ اردو فکشن کو حقائق کے یک رخے منطقی بیان کے بجائے ایک داخلی تخلیقی تجربے میں منتقل کرنے کی کوششوں کا آغاز کب ہوا۔ اس سلسلے میں چند نقاد منٹو کا نام لیتے ہیں اور ساتھ ہی اس کے افسانے ’’پھندنے‘‘ کا حوالہ دیتے ہیں جب کہ مضمون نگار نے قرۃ العین حیدر کے افسانوں کا مجموعہ ’’شیشے کا گھر‘‘ کا ذکر کیا ہے۔ آپ کی کیا رائے ہے؟
خالدہ حسین: منٹو کا افسانہ ’’پھندنے‘‘ موجود ہے جو ظاہر ہے پہلے لکھا گیا ہے۔ البتہ میرا خیال ہے قرۃ العین حیدر نے اسے باقاعدہ ایک رجحان کی شکل دی ہے۔ یوں غور کریں تو کلاسیکی ادب میں سجاد حیدر یلدرم کے انشائیے بھی شعور کی رو کی تکنیک میں لکھے گئے محسوس ہوتے ہیں لیکن اسے ’’فیشن آف دی ڈے‘‘ کی صورت قرۃ العین حیدر ہی نے بخشی ہے۔
طاہر مسعود: ترقی پسند تحریک سے تمام تر اختلافات سے قطع نطر یہ بات بہرحال طے ہے کہ اردو افسانے کو جتنی مقبولیت 36ء میں ملی پھر نہ مل سکی۔ تحریک پر زوال کیا آیا اردو افسانے پر بھی زوال آگیا۔ یہاں تک کہ نیا افسانہ نامقبول افسانہ بن کر رہ گیا۔ آپ کے خیال میں اس کے کیا اسباب ہیں؟
خالدہ حسین: اس کا ایک بنیادی سبب افسانہ نگار میں بہت زیادہ اوریجنل بننے کی خواہش کا ہونا بھی ہے۔ لکھنے والا بہت زیادہ اوریجنل بننے کی کوشش کرے تو وہ کامیاب ہوسکتا ہے یا ناکام۔ ناکامی کی صورت میں افسانہ نامقبول ہوجاتا ہے۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ ادیب اور قاری میں بہت بعد آچکا ہے ہمارے یہاں سنجیدہ ادب کے قارئین کی تعداد کم ہے۔ یہ تفریحی ادب کا زمانہ ہے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ ڈائجسٹ اور مگیزین ٹائپ چیزیں پڑھنے کے لیے مل جائیں اور ان کی کمی نہیں۔ ایک بڑا طبقہ ادب کو محض دلچسپی کے لیے پڑھتا ہے۔ سنجیدگی سے ادب کا مطالعہ کرنے والے بھی موجود ہیں۔ نیا افسانہ نامقبول ہے تو کوئی بات نہیں اور پھر مقبولیت اور نامقبولیت کا کوئی خاص معیار نہیں ہے۔ بیسٹ سیلر ہمیشہ بہترین ادب نہیں ہوتا اور بہترین ادب کے لیے مقبولیت کی شرط لازمی نہیں ہے (سوچنے کے بعد)
نہ سہی گر مرے اشعار میں معنی نہ سہی
ویسے افسانے کو نہ سمجھا جائے تو حوصلہ شکنی تو ہوتی ہے۔ لکھنے والا اپنے لکھے ہوئے لفظ پر اعتماد رکھتا ہے اور وقت فیصلہ کردیتا ہے کہ کون سی چیز اچھی تھی۔
طاہر مسعود: وقت سے آپ کی کیا مراد ہے آنے والے لوگ؟ کیا وہ لوگ آج کے لوگوں سے مختلف ہوں گے؟
خالدہ حسین: جب ادب نسل در نسل پڑھا جاتا ہے تو زندہ تحریریں سامنے آجاتی ہیں اور لکھنے والے کو اس کا صلہ مل جاتا ہے۔ ادب کے بارے میں فوراً فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ اس میں زندہ رہنے کی قوت ہے یا نہیں؟
طاہر مسعود: تقسیم کے بعد اردو افسانے میں دو رجحانات اُبھرکر سامنے آتے ہیں۔ ان میں ایک کی نمائندگی انتظار حسین اور دوسرے کی انور سجاد کرتے ہیں۔ آپ ان دونوں رجحانات میں سے خود کو کس سے زیادہ قریب پاتی ہیں؟
خالدہ حسین: (ہنس کر) یہ تو آپ لڑانے والی بات کررہے ہیں۔
طاہر مسعود: بس تھوڑا سا سچ بولنے کی ضرورت ہے۔
خالدہ حسین: میں قرۃ العین حیدر اور انتظار حسین کو زیادہ جینوئن محسوس کرتی ہوں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انور سجاد یا بلراج مین رابرا لکھ رہے ہیں۔ وہ اپنے تجربے کے اعتبار سے صحیح لکھ رہے ہیں۔ مجھے انور سجاد کی ابتدائی کہانیاں بہت اچھی لگی ہیں جس میں انہوں نے بیماریوں کو سمبل بنایا تھا۔ انتظار حسین نے جاتک کتھائیں لکھی ہیں یہ میرے تجربے سے باہر کی چیزیں ہیں۔ ان سے مجھے کوئی association محسوس نہیں ہوتی اور ادب کا مطالعہ اس کے بغیر ناممکن ہے۔ ممکن ہے انتظار حسین کے نزدیک یہ ایک بڑا تجربہ ہو۔
طاہر مسعود: دیکھا گیا ہے کہ بعض افسانہ نگار افسانے میں کرافٹ کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں جس کی وجہ سے تھیم یا خیال پیچھے رہ جاتا ہے۔ اس معاملے میں آپ کا رویہ کیا ہے؟
خالدہ حسین: میں ان دونوں چیزوں کو الگ کرکے نہیں دیکھتی۔ تجربے کے ساتھ فارم اور تھیم ڈھلتی چلی جاتی ہے۔ میرا طریقہ کار یہ ہے کہ میں کہانی لکھنے کے بعد اسے کئی دفعہ پڑھتی ہوں۔ اگر مجھے محسوس ہو کہ کہانی کے تسلسل میں کمی ہے تو میں اسے ضائع کردیتی ہوں۔ علاوہ ازیں کئی چیزیں ایسی ہیں جو داخلی تجربے میں نہیں آتیں۔ مثلاً بہت سی تھیم میرے ذہن میں اور بہت سی چیزیں میرے مشاہدے میں آتی ہیں لیکن میں سمجھتی ہوں کہ اس کا میری شخصیت سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس لیے میں اسے نہیں لکھ پاتی۔ پچھلے دنوں میرے ذہن میں ایک امیر گھرانے کی ایک سوشل ورکر خاتون پر کہانی لکھنے کا خیال آیا۔ یہ خاتون غریبوں، مفلسوں اور ناداروں سے ہمدردی کی باتیں کرتی ہیں لیکن معیار زندگی کے اعتبار سے ان کا شمار طبقہ امرا میں ہوتا ہے۔ یہ ایک چلتا پھرتا کردار ہے، ایک ہیپو کریٹ کا کردار۔ اس کردار کے بارے میں کوئی بھی شخص ناول لکھ سکتا ہے… لیکن چوں کہ اس کا میری شخصیت سے کوئی تعلق نہیں بنتا تھا اور نہ ہی میرے داخلی تجربے سے۔ اس لیے میں نے اس تھیم پر کوئی کہانی نہیں لکھی۔
طاہر مسعود: آپ نے یہ کیسے جان لیا کہ آپ اس کردار کو اپنی کہانی کا موضوع نہیں بناسکتیں؟
خالدہ حسین: مجھے الہامی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ کردار میرے احساس کے دائرے کے اندر نہیں ہے اور اس میں میرا خاص تخلیقی رنگ نہیں آئے گا۔ یوں تو میں دومنٹ میں اس کے بارے میں کہانی لکھ سکتی ہوں۔ میں نے ریڈیو کے لیے بہت دنوں تک سات سات منٹ کی کہانیاں لکھی ہیں۔ اصل کہانی جو میری ذات کے ساتھ تعلق رکھتی ہے وہ میں نہیں لکھ سکوں گی۔ دنیا کا سب سے مشکل کام لکھنا ہے۔
طاہر مسعود: راجندر سنگھ بیدی نے کہیں لکھا ہے کہ افسانہ نگار بننے کے لیے برسوں کی ریاضت کی ضرورت ہے تب جا کر افسانہ نگار کو راستے میں پڑے ہوئے پتھر بھی اپنی کہانیاں سناتے ہیں۔ غالباً بیدی صاحب نے افسانہ لکھنے والوں کو ایک افسانہ نگار کی زندگی بسر کرنے کی طرف متوجہ کیا ہے۔ میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا افسانہ لکھنے کے لیے عام طریقے سے زندگی بسر کرنے کے بجائے عمل کی دنیا میں بھی افسانہ نگار کا رویہ اختیار کرنا ضروری ہوتا ہے؟
خالدہ حسین: آپ نے میری بہت دکھتی ہوئی رگ چھیڑی ہے۔ ایک خاتون لکھنے والی شخصیت اور معاشرے میں ایک فرد کی حیثیت سے اس کی شخصیت میں ہمیشہ تصادم رہتا ہے۔ میری سمجھ میں کبھی نہیں آیا کہ کیا ایک لکھنے والی محض ایک لکھنے والی ہے؟ یا وہ معاشرے کی ایک ذمہ دار بھی ہے۔ ایک ہائوس وائف بھی ہے؟ یا یہ سب تصورات ہیں جو زندگی کو توڑ پھوڑ دیتے ہیں۔ ایسی عورت کے کردار کو ایک عنوان ملنا چاہیے۔ میں سوچتی ہوں مجھے لکھنے والی ہونا چاہیے یا نہیں؟ کیا میں معاشرے کی ذمہ دار فرد بن جائوں اور خوش اسلوبی سے اپنے فرائض ادا کروں۔ کیا ایک رائٹر کو بہت سی چیزیں چھوڑ دینی چاہئیں؟ لکھنے کو ہر چیز پر ترجیح دینی چاہیے؟ ان سارے تضادات سے سوالات سے مجھے مسلسل اذیت ہوتی ہے شاید افسانہ لکھا بھی اس وقت جاتا ہے جب یہ تضاد اپنی انتہا پر پہنچ جاتا ہے۔ کم از کم میں اسی اذیت کی وجہ سے لکھتی ہوں۔
طاہر مسعود: عموماً ادب لکھنے والوں کو کہا جاتا ہے کہ وہ ہر چیز پر لکھنے کو ترجیح دیں اور ادب لکھنے کا کام ایسا خطرناک ہے کہ اگر ساری دنیاوی اور مادی خوشیاں تج کر عمر بھر لکھتے رہیں تو بھی اس بات کی ضمانت موجود نہیں ہے کہ آپ زندہ ادب تخلیق کرلیں گے؟
خالدہ حسین: لیکن میں پوچھتی ہوں کہ کیا یہ ضروری ہے کہ ایک رائٹر دنیاوی اعتبار سے ناکام ہو؟ وہ ابنارمل زندگی بسر کرے تبھی وہ اچھا رائٹر بن سکتا ہے۔ اگر ایک رائٹر اپنے معاشرے کی ذمہ داریاں نہیں نبھاتا تو اعتراض کیا جاتا ہے اور اگر نبھاتا ہے تو تخلیقی صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں۔
طاہر مسعود: اس کنفیوژن کا کوئی حل بھی ہے؟
خالدہ حسین: اس کا کوئی حل نہیں ہے۔ میں تو اسی اذیت میں لکھتی ہوں ورنہ شاید نہ لکھتی۔ اپنے بارے میں مجھے یقین ہے کہ میں مس فٹ ہوں۔ لکھنے کے شعبے میں بھی اور معقول لوگوں میں بھی۔ لکھنے والوں کا اپنا ماحول ہے، اپنا کلچر، اپنا رسم و رواج ہے۔ میں ان سے قطعی دور ہوں۔ دنیا دار لوگ ہیں، ان کے درمیان بیٹھتی ہوں تو وہاں بھی خود کو مس فٹ پاتی ہوں۔ شاید یہ میرا پیدائشی نقص ہے۔ مجھے اپنا بچپن یاد ہے۔ میں کہانیاں پڑھتی تھی، کہانیاں سوچتی تھی۔ اسی میں زندہ رہتی تھی۔ بچپن کے واقعات مجھے اب تک ہانٹ کررہے ہیں۔ تخلیق کا اصل سرچشمہ بچپن کے ابتدائی تجربات ہوتے ہیں۔ کچھ تو لوگوں کا اپنے ماضی کے ساتھ گہرا تعلق بھی ہوتا ہے لیکن ماضی کا تعین کس طرح کریں گے؟ ہر گزرنے والا لمحہ ماضی بن جاتا ہے۔ ہر چیز جو گزر جاتی ہے بہت فیسی نیٹ کرتی ہے۔
طاہر مسعود: لکھنے والے مستقبل کے بارے میں کیوں نہیں سوچتے؟
خالدہ حسین: مجھے نہیں معلوم۔ مجھے ماضی اچھا لگتا ہے۔ شاید اس لیے کہ ماضی سے خواب وابستہ ہوتے ہیں۔ خواب کے تجربات زیادہ فیسی نیٹ کرتے ہیں۔ فیسی نیشن ادب کا بہت بڑا عنصر ہے۔
طاہر مسعود: کیا افسانے کا دلچسپ ہونا ضروری ہے؟
خالدہ حسین: دلچسپی مختلف لوگوں کے لیے مختلف ہوسکتی ہے۔ ہر شخص کے لیے ایک ہی افسانہ دلچسپ نہیں ہوسکتا۔ اس کے باوجود میرا خیال ہے کہ نئے افسانے کو غیر دلچسپ نہیں ہونا چاہیے۔ ادب کو دلچسپ تو ضرور ہونا چاہیے لیکن ادب کو دلچسپ بنانے کے لیے مختلف قسم کے حربوں کا استعمال غلط ہے۔
طاہر مسعود: کیا آئندہ ناول لکھنے کا ارادہ ہے؟
خالدہ حسین: مجھ سے بہت سے لوگوں نے کہا کہ تمہاری کہانیاں پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ تم ناول بھی لکھ سکتی ہو۔ پہلے یہ خیال نہیں آیا تھا لیکن اب آگیا ہے اور اس طرح کہ اس کے نتیجے میں، میں نے کوئی کہانی نہیں لکھی ہے۔ میں نے ناول کا پہلا باب لکھنا شروع کردیا ہے۔ معلوم نہیں لکھا بھی جائے گا یا نہیں۔ لکھنا میرے اپنے اختیار سے باہر کی چیز ہے۔ کیفیت طاری ہو تو لکھ سکتی ہوں ورنہ نہیں لکھ سکتی۔ ہر چیز کے لکھنے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ یہ آخری چیز ہے اور اب میں نہیں لکھ سکوں گی۔
طاہر مسعود: ناول کا آئیڈیا کیا ہے؟
خالدہ حسین: ناول کا پورا پلان میرے ذہن میں نہیں ہے۔ میں کہانیاں کسی پلان کے تحت نہیں لکھتی لیکن ناول کے لیے پلان بنانا پڑے گا۔ پہلا باب اس لیے لکھنا شروع کردیا ہے تا کہ پابند ہوجائوں۔
طاہر مسعود: ’’پہچان‘‘ کے بعد دوسرا مجموعہ کب آئے گا؟
خالدہ حسین: میرا دوسرا مجموعہ ایک سال کے اندر ’’دروازہ‘‘ کے عنوان سے منظر عام پر آجائے گا۔ اس میں میری تئیس چوبیس کہانیاں شامل ہیں۔ میں نے اپنی بہت سی کہانیاں ضائع کردی ہیں۔
طاہر مسعود: آخری اور روایتی سا سوال کہ اردو اور بدیسی ادب کے کن افسانہ اور ناول نگاروں نے آپ کو متاثر کیا؟
خالدہ حسین: جی میں نے اردو ادب کا تاریخ وار مطالعہ کیا ہے اور تقریباً سب ہی کو پڑھا ہے۔ میں برصغیر کے لکھنے والوں میں سب سے زیادہ قرۃ العین حیدر سے متاثر ہوئی۔ بدیسی ادب میں روسی اور جرمن افسانہ نگار زیادہ اچھے لگے۔ روس میں چیخوف، دوستو فیسکی، ٹالسٹائی، ترگنیف وغیرہ۔ جرمن میں کافکا، ہرمن ہیسے، ٹامس مان اور فرنچ میں البیئر کامیو، امریکا میں فاکنر اچھا لگتا ہے۔

حصہ