’’مشرقی پاکستان‘‘ کو ’’بنگلہ دیش‘‘ کا روپ دھارے نصف صدی بیت گئی مگر قوم کو آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ پاکستان ٹوٹنے کے اسباب کیا تھے؟ اس سانحے کے مجرموں کا سراغ لگایا گیا اور نہ انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کا اہتمام ہوا… روزنامہ ’’جسارت‘‘ نے اپنی قومی ذمے داری سمجھتے ہوئے آج سے ربع صدی قبل3 دسمبر 1995ء کو لاہور میں ایک اہم مجلس مذاکرہ کا اہتمام کیا جس میں ممتاز قومی، سیاسی اور صحافتی شخصیات نے اظہار خیال کیا۔ سابق وفاقی وزیر قانون محترم ایس ایم ظفر کے سوا مذاکرہ کے تمام مقررین اب اپنے خالق حقیقی کے حضور پیش ہو چکے ہیں تاہم انہوں نے ربع صدی قبل جن خیالات کا اظہار کیا وہ آج بھی ہمارے لیے چشم کشا اور رہنمائی کا ذریعہ ہیں، غور و فکر کا بہت سا سامان اپنے اندر رکھتے ہیں اور ملک کے محفوظ و روشن مستقبل کی راہیں ہمیں سجھاتے ہیں۔ میزبانی کے فرائض ممتاز صحافی اور تجزیہ نگار عطا الرحمن صاحب نے ادا کیے جو اس وقت ’’جسارت فورم لاہور‘‘ کے صدر تھے۔ ’’گاہے گاہے باز خواں ایں قصہ پارینہ را‘‘ کے طور پر اس مذاکرے کی پانچویں اورآخری قسط آپ کی قارئین کی نذر ہے۔
شرکائے مذاکرہ
٭پروفیسر عبدالغفور احمد: نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان
٭میجر جنرل (ر) رائو فرمان علی: مشرقی پاکستان کے آخری گورنر کے فوجی مشیر
٭ایس ایم ظفر: سابق وزیر قانون، متحدہ پاکستان
٭ڈاکٹر صفدر محمود: مورخ، مصنف، سابق پرنسپل ایڈمنسٹریٹیو اسٹاف کالج لاہور
عبدالکریم عابد: تجزیہ نگار، کالم نویس، سابق ایڈیٹر روزنامہ ’’جسارت‘‘
جسارت: مشرقی پاکستان کے سانحہ سے کوئی اور سبق … سیکھا ہو یا نہ سیکھا ہو مگر ایک بات ضرور ہماری سمجھ میں آ گئی کہ اس سانحہ کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ 1970ء تک ہم کسی متفقہ آئین تک نہیں پہنچ سکے تھے یا کم از کم اسے برقرار نہیں رکھ سکے تھے چنانچہ ایک ایسا آئین 1973ء میں متفقہ طور پر تیار کیا گیا جس نے دس سال تک مارشل لاء کے جھٹکے بھی سہے لیکن وہ اپنی جگہ قائم رہا۔ اس آئین کی تیاری میں اس وقت کی قومی اسمبلی کے رکن پروفیسر غفور احمد نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان نے بنیادی کردار ادا کیا۔ پروفیسر غفور احمد نے جسارت فورم کے مذاکرے میں اپنے صدارتی خطاب میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب و اثرات کے موضوع پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی، جو درج ذیل ہے۔
پروفیسر عبدالغفور احمد: پاکستان ٹوٹنے سے ملک پر قیامت گزر گئی قیام پاکستان پر جتنی خوشی ہوئی تھی اس سے کہیں زیادہ صدمہ اس کے دو لخت ہونے پر ہوا۔ مجھے یاد ہے کہ یہ غیر متوقع خبر سننے کے بعد لوگ دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے اور اس دن گھروں میں چولہے ٹھنڈے رہے۔ لیکن دسمبر 71ء کا یہ سانحہ اچانک رونما نہیں ہوا۔ 24 سال سے اندرونی اور بیرونی دشمن رات دن اس کے لیے سازشیں کر رہے تھے امت مسلمہ کے لیے سقوط مشرقی پاکستان اسپین میں مسلمانوں کے زوال سے بڑا المیہ تھا اس المیے کو اب 24 سال بیت چکے ہیں اور اب پھر باقی ماندہ پاکستان کی سالمیت کے خلاف سازشیں اپنے عروج پر ہیں۔ جسارت نے یہ سیمینار منعقد کر کے وقت کی ایک اہم ضرورت کو پورا کیا ہے تاکہ پوری قوم دسمبر کے اس مہینے میں غور کرے کہ سقوط مشرقی پاکستان کی اہم وجوہ کیا تھیں؟ اس کے بڑے ذمہ دار کون تھے اور اس سے سبق سیکھیں کہ ہم موجودہ پاکستان کے تحفظ کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔
بنگال کے مسلمان پاکستان کے پر جوش حامی تھے وہاں اکثریت میں ہونے کے باوجود مسلمانوں پر ہندوئوں کا تسلط تھا، تعلیم تجارت، صنعت اور ساہو کار سب پر ہندو قابض تھے یہی وجہ تھی کہ وہاں کے مسلمان ہندوؤں سے نفرت کرتے تھے اور اسی بناء پر پاکستان کی حمایت کا ان کا عالم یہ تھا کہ انہوں نے اپنے صوبے سے لیاقت علی خان مرحوم اور مولانا شبیر احمد عثمانی کو منتخب کرایا۔ برصغیر کے مسلمانوں کے اس عزم اور قائد اعظم کی مدبرانہ سیاست کی بدولت پاکستان چند برس میں حاصل ہو گیا ۔
زبردست تحریک کی موجودگی میں انگریز حکمرانوں اور رہنمائوں کے لیے ممکن نہ رہا تھا کہ وہ قیام پاکستان کے مطالبے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیں اس لیے ان کی بھر پور مخالفت اور گاندھی کے یہ کہنے کے باوجود کہ ’’پاکستان میری لاش پر بنے گا‘‘ 14 اگست 1947ء کو پاکستان وجود میں آگیا لیکن بھارت نے پاکستان کا مطالبہ تو تسلیم کر لیا لیکن ایک دن کے لیے بھی پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا اور پہلے ہی دن سے اسے توڑنے کے جتن شروع کر دیئے اگست 1947ء میں، میں بھارت میں تھا وہاں ہندو کھلے عام کہہ رہے تھے کہ پاکستان چند دنوں یا مہینوں کا ہے اور جلد خوشامد کر کے پھر ہمارے پائوں میں آ جائے گا لیکن اتنے بڑے دشمن ہمسایہ ملک کے باوجود پاکستان بنا اور 24 سال پورا پاکستان قائم رہا اور سقوط مشرقی پاکستان کا سانحہ 24 سال بعد ہوا۔ مسلمانوں پاکستان کے لیے پاکستان بہت بڑا چیلنج تھا وہ اس بات سے وقف تھے کہ ان کا پڑوسی ملک دشمنی پر آمادہ ہے پھر اس حقیقت سے بھی آگاہ تھے کہ مشرقی پاکستان تین اطراف میں بھارت سے ملا ہوا ہے اور ان دونوں کی 300 میل لمبی سرحد ہے۔ چوتھی جانب خلیج بنگال ہے۔ مغربی پاکستان سے فاصلہ 1600 کلو میٹر دوری کا ہے۔ ہندو تاجر، صنعتکار اور ساہو کار مشرقی پاکستان سے بغیر کسی وجہ کے نقل مکانی کر گئے اور بہت بڑا معاشی و اقتصادی خلا زندگی میں پیدا ہو گیا لیکن یہ عجیب بات تھی کہ تعلیم سے متعلق افراد نے نقل مکانی نہیں کی اور اپنے عہدوں پر فائز رہے۔ مغربی پاکستان کی بھی بھارت سے طویل سرحد ملتی تھی بھارت نے پاکستان کے اثاثے بھی روک لیے خزانہ بالکل خالی تھا سرکاری دفاتر میں اسٹیشنری تک موجود نہ تھی۔ مہاجرین لاکھوں کی تعداد میں بے سروسامانی کے عالم میں آئے تھے اور ان کی آباد کاری کا مسئلہ در پیش تھا۔ مغربی پاکستان سے بھی ہندو صنعت کار تاجر چلے گئے اور یہاں بھی مشرقی پاکستان جیسا خلا پیدا ہوا۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کی اس جغرافیائی کیفیت کے علاوہ دونوں حصوں میں زبان ثقافت اور رہن سہن بھی بالکل مختلف تھا ان دو حصوں کو جوڑنے والی چیز اسلام سے وابستگی میں تھی۔ پاکستان بننے کے بعد جو مشکلات پیش آئیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ قائد اعظم کی مدبرانہ سیاست کے باعث سات سال کی پر امن جدوجہد کے نتیجے میں ملک تو مل گیا لیکن دو باتوں کی طرف توجہ دینے کا موقع قائد اعظم کو نہ مل سکا اولاً نئی مملکت کی تعمیر کا کوئی واضح پروگرام اور نقشہ نہیں تھا اور ثانیاً یہ کہ مسلم لیگ کو اس وقت مخلص دیانتدار، آزمودہ کار اور آزمائش سے گزرے ہوئے افراد پر مشتمل قیادت میسر نہ آ سکی۔ خرابی کی داغ بیل پاکستان بنتے ہی اس وقت پڑ گئی جب برطانوی سامراج کے تربیت یافتہ ناقابل اعتماد بے وفا اور قومی شعور سے عاری طالع آزما افراد ہوس مال اور حصول اقتدار کی خاطر مسلم لیگ میں شامل ہو گئے یہ ایسے لوگ تھے جن کا لباس، زبان اور باقی سب کچھ انگریز کی نقالی پر مشتمل تھا اور یہ ذہنی طور پر انگریز کے غلام تھے۔ قائد اعظم جلد رخصت ہو گئے اور اقتدار پر سول بیورو کریسی قابض ہو گئی۔ لیاقت علی خان مرحوم کے قتل کے بعدافسر شاہی کا ایک فرد غلام محمد ملک کا گورنر جنرل بن گیا اس سول بیورو کریسی میں مشرقی پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر تھا لہٰذا افسران مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان جاتے تھے اور ان کا رویہ ایسا نہیں تھا جو مشرقی پاکستان کے لوگوں کے دل جیت سکتا وہاںکے لوگوں کو ایسا محسوس ہوا کہ اب گورے کی جگہ کالے انگریز ان پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ افسر شاہی کے رویے نے مشرقی پاکستان کے مسلمانوں میں یہ احساس پیدا کیا کہ حکمرانی میں ہمارا کوئی حصہ نہیں ہے اور دل کی یہ دوری جغرافیائی دوری سے بھی زیادہ بعید ہو گئی۔ اسی دوران ہندو جو تاک لگائے بیٹھے تھے انہوں نے اپنا کام کیا۔ تعلیم گاہوں خصوصاً ڈھاکا یونیورسٹی کو انہوں نے اپنا مرکز بنا لیا بنگلہ زبان اور بنگلہ قومیت کے فلسفہ کو ذہنوں میں جاگزیں کیا جو اس سے ظاہر ہے کہ پاکستان بننے کے صرف سات ماہ بعد قائد اعظم مارچ 1948ء میں ڈھاکا یونیورسٹی گئے اور اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان کی واحد قومی زبان اردو ہو گی تو پورا ہال مخالفت میں نعروں سے گونج اٹھا۔ سیاست میں یہ تبدیلی اور قائد اعظم کے سامنے ایسا اظہار مخالفت آنے والے طوفان کی پہلی علامت تھا پھر سول بیورو کریسی کے ساتھ فوج بھی ملکی معاملات میں دخیل ہونا شروع ہو گئی۔ جب سول حکومت نے عوامی جذبات کو کچلنے کے لیے فوج کو استعمال کیا تو فوج کو اس بات کا موقع مل گیا کہ ملکی معاملات میں مداخلت کرے۔ فوج میں بھی مشرقی پاکستان کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر تھی۔ اس وقت یہ فلسفہ پیش کیا جاتا تھا کہ فوج کے لیے فوجی نسل ضروری ہے اور پنجاب میں بھی صرف چند اضلاع ہی سے لوگ فوج میں بھرتی کئے جاتے تھے چنانچہ اس بات نے مشرقی پاکستان سے فوج میں بھرتی کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کر دی اس طرح اقتدار کے اصل سرچشمے سول اور فوجی بیورو کریسی میں مشرقی پاکستان کی عدم شرکت نے محرومی کے اس احساس کو مزید تیز کر دیا۔
مغربی پاکستان سے جو تاجر اور صنعت کار مشرقی پاکستان گئے ان کا رویہ بھی غیروں جیسا تھا ان کے اصل مقاصد الا ماشاء اللہ دولت سمیٹنا، بلیک مارکیٹنگ اور ذخیرہ اندوزی تھے اور وہ بھی مشرقی پاکستان کے لوگوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ اس طرح ابتداء ہی سے سیاسی انتشار اور معاشی نا انصافی نے ملک کے دونوں حصوں کے درمیان فاصلوں کو جنم دینا شروع کر دیا۔ چند ایسے واقعات ہوئے جو مشرقی پاکستان پر بجلی بن کر گرے۔ گورنر جنرل غلام محمد نے 1953ء میں خواجہ ناظم الدین کو وزیر اعظم کے عہدے سے برطرف کر دیا تو مغربی پاکستان میں اس کے خلاف کوئی آواز بلند نہیں کی گئی۔ پھر جنرل اسکندر مرزا کو مشرقی پاکستان کا گورنربنا کر بھیج دیا گیا اس طرح ملک اور صوبہ دونوں مشرقی پاکستان کی قیادت سے محروم کر دیے گئے۔
اکتوبر1958ء میں شب خون مار کر مارشل لاء نافذ کر دیا گیا اور جنرل ایوب نے ملک کی باگ دوڑ سنبھال لی۔ یہاں سے عسکری تباہی کا بھی آغاز ہو گیا۔ اسکندر مرزا کو ملک کا صدر بنا دیا گیا اس قیادت میں بھی مشرقی پاکستان کا کوئی حصہ نہ تھا۔ 1965ء کی جنگ میں سترہ روز تک مشرقی پاکستان اسلام آباد سے کٹا رہا اس دوران وہاں تنہائی اور عدم تحفظ کا احساس تھا۔ وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے یہ کہہ کر کہ بھارت نے چین کے ڈر سے مشرقی پاکستان پر حملہ نہیں کیا، اس خیال کو تقویت دی کہ خطرے کے وقت مغربی پاکستان، مشرقی پاکستان کی کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ جنوری 1966ء میں معاہدہ تاشقند ہوا اس نے بھی حکومت کے خلاف نفرت میں اضافہ کیا۔ جولائی 1966ء میں بھٹو نے کابینہ سے علیحدگی اختیار کی اور بعد میں الگ پارٹی بنا لی۔مارچ 1969ء میں یحییٰ خان نے اقتدار پر قبضہ کر کے اکتوبر 1970ء میں انتخابات کرانے کا اعلان کر دیا۔ اس سے قبل پاکستان کو دولخت کرنے کی سازشیں پروان چڑھ چکی تھیں۔
70ء کے انتخابات میں عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں 162 میں سے 160 نشستیں جیت لی تھیں اور قومی اسمبلی کے 313 کے ایوان میں اسے اکثریت حاصل ہو گئی تھی۔ پیپلز پارٹی نے مغربی پاکستان میں 81 نشستیں جیتیں اس نے اپنا کوئی نمائندہ برائے نام بھی مشرقی پاکستان میں کھڑا نہیں کیا تھا۔ ان انتخابات نے ثابت کیا کہ عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں قومی پارٹیاں نہیں بلکہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی پارٹیاں ہیں ان دونوں کا جیتنا ظاہر ہے کہ ملکی سالمیت کے حق میں نہ تھا اس سے مشکل مرحلہ انتقالِ اقتدار کا تھا لیکن 1971ء کے آغاز ہی سے سازشیں شروع ہو گئیں۔ 3 جنوری کو یحییٰ خان نے اعلان کیا کہ مجیب وزیر اعظم ہوں گے۔ 17 جنوری کو المرتضیٰ میں یحییٰ کی بھٹو سے ملاقات ہوئی۔ 27 سے 29 جنوری تک بھٹو مجیب مذاکرات ہوتے رہے۔ 30 جنوری کو انڈین ایئر لائنز کے فوکر طیارہ کے اغوا کا ڈرامہ ہوا جسے 3 فروری کو لاہور میں نذر آتش کر دیا گیا یہ بات قابل فہم نہیں کہ ہوائی اڈے پر حفاظتی انتظامات کے باوجود طیارے کو کیسے جلا دیا گیا یہ اصل میں سوچی سمجھی سازش تھی چنانچہ 4 فروری کو بھارت نے مشرقی پاکستان کے لیے اپنی فضائی سے پروازوں پر پابندی عائد کر دی۔ 3 مارچ کو یحییٰ خان نے ڈھاکا میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا لیکن بھٹو نے اعلان کیا کہ جو ڈھاکا جائے گا اس کی ٹانگیں توڑ دیں گے۔ یکم مارچ کو یحییٰ خان نے یہ اجلاس تا حکم ثانی ملتوی کرنے کا اعلان کر دیا جس کے خلاف 2 مارچ کو ڈھاکا میں اور تین مارچ کو پورے مشرقی پاکستان میں ہڑتال ہوئی۔ اجلاس ملتوی کرنا بھی سازش ہی کا حصہ تھا جس کے بعد ڈھاکا میں مجیب کے جلسے میں باقاعدہ بنگلہ دیش کا پرچم لہرایا گیا۔خرابی بسیار کے بعد پھر یحییٰ خان نے اعلان کیا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس 25 مارچ کو ہو گا جس پر مجیب نے 7 مارچ کو جلسہ عام میں چار نکاتی مطالبات پیش کیے اور بیورو کریسی کو ہدایت کی کہ حکومت پاکستان سے تعاون نہ کیا جائے۔ اس وقت مشرقی پاکستان میں تمام بنگالی افسران مجیب الرحمن کے ساتھ تھے چناں چہ جب ٹکا خان گورنر بن کر ڈھاکا گئے تو چیف جسٹس نے اُن سے حلف لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ مجیب کا حکم ہے کہ جب تک اقتدار منتقل نہ ہو‘ کوئی تعاون نہ کیا جائے۔ مکتی باہنی تشکیل دی گئی جس میں ہندو بھی شامل تھے جسے بھارت میں تربیت دی گئی۔ فوج اور سول بیورو کریسی بھی ساتھ تھی چناں چہ مسلمانوں کی تاریخ میں ایسی لرزہ خیز وارداتیں ہوئیں کہ بنگالی مسلمانوں نے ہندوئوں کے ساتھ مل کر غیر بنگالی مسلمان مردوں، عورتوں، بوڑھوں اور بچوں کو قتل کیا۔
سقوطِ مشرقی پاکستان میں بیرونی قوتوں میں بھارت، روس اور امریکا نے اہم کرادار ادا کیا۔ اندرون ملک اس کے بڑے کردار یحییٰ، مجیب اور بھٹو تھے۔ اس سانحے کے زخم تاحال مندمل نہیں ہو سکے۔ آج بھی سول بیورو کریسی اور بدعنوان عناصر ملک پر قابض ہیں‘ آج طالع آزما سیاسی رہنما اور جماعتیں حصولِ اقتدار اور مال کے لیے سب کچھ کرنے پر آمادہ ہیں۔ قوم آج بھی بے حس اور خوابیدہ ہے اور اغراض کی دلدل میں پھنسی ہوئی ہے۔
آج پھر ملک 71ء جیسے خطرات سے دو چار ہے۔ کراچی کا مسئلہ انتہائی سنگین حالات و جذبات کا شکار ہے وہاں بھی فوج نہیں تو نیم فوجی دستے اور پولیس شہریوں کو ظلم اور زیادتیوں کا شکار بنا رہی ہے حکومت تعصب برت رہی ہے اس لیے کہ وہاں سے ووٹ نہیں ملتے وہاں عدم شرکت کا احساس ہے، بے یقینی کی کیفیت ہے مجرم قانون نافذ کرنے والوں کی گرفت میں نہیں آتے معزز شہری پولیس اور رینجرز کے رحم و کرم پر ہیں۔ پاکستان کو پھر خطرات لاحق ہیں‘ اس بچے ہوئے پاکستان میں بھی پاکستان کے پرچم کو نذر آتش کیا گیا، یہاں بھی ملک توڑنے کی باتیں کی جاتی ہیں لیکن عدل، انصاف اور اسلام کے زریں اصولوں پر عمل کے بجائے پھر اُسی غلطی کو دہرایا جاتا ہے کہ عوامی جذبات کو قوت سے دبا دیا جائے۔ یہ ملک عوام نے بنایا ہے‘ عوام ہی بچا سکتے ہیں‘ انہی کا فرض ہے کہ نیند سے بیدار ہوں اور ملک و قوم کو آنے والے خطرات سے بچائیں جو ان کے دروازے پر دستک کے رہے ہیں۔