رضیہ کی بہو

408

’’رضیہ باجی تمہاری بہو تو کالی ہے پہلے دن تو کسی اداکارہ سے کم نہ تھی یہ دو ماہ میں ایسا کیا ہوا کہ اصلیت سامنے آ گئی دوسروں کی بہو بیٹیوں پر تو بڑی باتیں کیا کرتی تھیں اب بتاؤ خود کیسی بہو لائی ہو سب میک اپ کا کمال تھا چمڑی پر رنگ روغن کرنے سے کچھ دیر کے لیے تو حسینہ کا روپ دھارا جاسکتا منہ دھونے کے بعد سارے راز کھل جاتے ہیں۔‘‘
’’ارے کیا پاگلوں جیسی گفتگو کررہی ہے تو اپنی زبان سنبھال!خبردار جو ایک لفظ بھی اور بولا ہو میری بہو کے بارے میں کچھ کہنے سے پہلے اپنے گھر میں جھانک لے اپنی شکل بھی غور سے دیکھ لے لگتا ہے تجھے آئینے کے سامنے گیے خاصی دیر ہو چکی ہے بڑی آئی انجمن کہیں کی!آئندہ خیال رکھیو۔‘‘
’’ہائے ہائے رضیہ آپا سچی بات پر اس قدر آگ بگولہ ہونے کی کیا ضرورت ہے اور پھر میں نے کیا غلط کہا ہے؟‘‘
’’یہ سچ ہے؟ تو اپنی آنکھوں کا علاج کروا لے لگتا ہے تیرے دل کی کالک آنکھوں تک آن پہنچی ہے تبھی تو تجھے میری بہو کالی دیکھ رہی ہے۔‘‘
’’ارے رضیہ آپا بات کا بتنگڑ نہ بناؤ مان لو کہ تمہاری بہو کی رنگت واقع کالی ہے اگر ایسا نہیں اور کئی مرض ہے تو پھر اس کا علاج کرواؤ کسی جلدی کے ڈاکٹر سے رجوع کرو یا پھر اصل بات بتاؤ کہ صاف رنگت کیسے کالی ہوئی۔‘‘
’’دیکھ شکیلا اگر تجھے معلوم ہی کرنا تھا تو سیدھے طریقے سے پوچھتی یہ جلی کٹی باتیں کرنے کی کیا ضرورت ہے میرا بلڈ پریشر ہائی کر نے کی کیا پڑی تھی۔‘‘
’’اچھا معاف کر دو میں نے تو ویسے ہی پوچھ لیا جو کہا اسے جانے دو چھوڑو اب تو بتا دو۔‘‘
’’کیا بتاؤں گیس کا مسئلہ چل رہا ہے اس لیے لکڑیوں پر کھانا پکانا پڑ رہا ہے آگ جلانے کے لیے باقاعدہ جنگ کرنی پڑتی ہے دھوئیں کی وجہ سے گھر کی دیواریں تک کالی ہوچکی ہیں ایسے میں انسانی جلد کیسے اپنی اصل رنگت میں رہ سکتی ہے چہرے اور ہاتھوں کی جلد زیادہ متاثر ہو رہی ہے ظاہر ہے ایسے میں ہر شخص کی رنگت میں فرق آئے گا ہی ،بس یہی کچھ میری بہو کے ساتھ بھی ہوا ہے اب اس پر طعنہ دینے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘
’’نہیں نہیں رضیہ آپا میں نے کوئی طعنہ دیا ہے اور نہ ہی کوئی طنزیہ بات کی ہے میں نے ویسے ہی بات کی تھی خیر چھوڑو یہ بتاؤ آخر کب تک یہ مسئلہ کا حل ہوگا میرے کہنے کا مطلب ہے کہ گیس کا یہ بحران کب تک چلے گا پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا مجھے اب تک یاد ہے ہمارے گھر گیس کا کنکشن لگے تقریباً 50 برس ہو چکے ہیں گیس کی بندش تو دور کی بات کبھی گیس پریشر میں بھی کوئی کمی نہیں ہوئی نہ جانے کیسی حکومت ہے،مہنگائی،بے روزگاری،تعلیم و صحت سمیت ہر میدان میں ناکام ثابت ہوئی ہے اپنی نااہلی دوسروں پر ڈالنے کے سوا کچھ نہیں کررہی خدا جانے کیا بنے گا کون ان مسائل سے عوام کی جان چھڑائے گا۔‘‘
’’شکیلا ان سے امید نہ رکھ ان کے پاس تو صرف باتیں بگھارنے کے علاؤہ کچھ نہیں جتنے منہ اتنی باتیں ہیں اور تو اور اس ملک کے تجزیہ نگار اور سیاسی پنڈت بجائے اچھی تجاویز دینے کے عجیب باتیں کر رہے ہیں کوئی کہتا ہے کہ پاکستان میں گیس کی مقامی پیداوار ملکی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہے کسی کو بیرون ملک سے درآمد کی جانے والی گیس پر کرپشن اور بدانتظامی نظر آرہی ہے کسی کے نزدیک پاکستان میں گیس کا بحران شدید تر ہونے کی بڑی وجہ اس شعبے میں منظر عام پر آنے والے تنازعات فوری نوعیت کے فیصلوں میں تاخیر طویل مدتی منصوبہ بندی نہ ہونے کے ساتھ فیصلہ سازی کا فقدان دکھائی دے رہا ہے۔
کوئی انفراسٹرکچر کے بارے میں گردان کرتے ہوئے بتا رہا ہے کہ ملک میں اس وقت 13315 کلومیٹر طویل ٹرانسمیشن لائن، 149715 کلومیٹر ڈسٹری بیوشن اور 39612 کلو میٹرسروس گیس پائپ لائن کا نیٹ ورک ہے جو ملک میں ایک کروڑ سے زیادہ صارفین کو گیس فراہمی کے کام آتا ہے چونکہ بیس، تیس برسوں میں ملک میں گیس کی طلب اس کی رسد سے بڑھ گئی ہے اس لیے مقامی طور پر گیس کی پیداوار میں کمی آئی اور پاکستان کو 2015 میں گیس درآمد کرنا پڑی ادارہ شماریات اپنی سنانے میں مصروف ہے یعنی ادارہ شماریات کے مطابق پاکستان میں 18-2017 تک گیس کی مقامی پیداوار 1458935 ایم ایم سی ایف ٹی تھی جس میں مسلسل کمی دیکھی جا رہی ہے اور یہ گذشتہ مالی سال تک 962397 ایم ایم سی ایف ٹی تک گر چکی ہے جبکہ پاکستان میں یومیہ چار بلین کیوبک فیٹ کی ضرورت ہے جس میں سے 2.8 بلین کیوبک فیٹ مقامی ذرائع سے پیدا ہوتی ہے تو 1.2 بلین کیوبک فیٹ درآمد کی جاتی ہے،کوئی اس مسئلہ پر یوں لب کشائی کرتے ہوئے یعنی مستقبل قریب میں آنے والے بحران کا ذکر کرتے ہوئے یوں ڈرا رہا ہے کہ موجودہ سردی کے سیزن میں گیس کی زیادہ قلت کی بڑی وجہ جو اب تک سامنے آئی ہے وہ گیس کی عالمی قیمتیں ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کو کچھ درآمدی گیس کے ٹینڈر منسوخ کرنا پڑے یہی وجہ ہے کہ اگلے دو مہینوں میں گیس کی کمی بہت زیادہ ہو گی کیونکہ پاکستان لانگ ٹرم معاہدوں پر گیس حاصل کر لے گا لیکن اسپاٹ کارگو اتنے مہنگے ہیں کہ انھیں برداشت کرنا مشکل ہو گا،شکیلا اب تو ہی بتا کہ ایسے میں ایک عام شہری کیا کرے۔‘‘
رضیہ آپا نے جو کہا اس پر شکیلا نے جو بھی جواب دیا یا ان کے درمیان ہونے والی گفتگو کا کیا نتیجہ نکلا مجھے اس سے کیا میں تو اتنا جانتا ہوں کہ گیس بحران پر ان کی جانب سے کی جانے والی ایک ایک بات سچ ہے میں خود بھی جانتا ہوں کہ کراچی شہر خاص طور پر یہاں کے صنعتی علاقوں میں اس سے پہلے کبھی بھی ایسے حالات نہ تھے، گیس لوڈ شیڈنگ کیا ہوتی یا پریشر میں کمی کسی چڑیا کا نام ہے یہاں کے رہنے والے اس سے ناواقف تھے لیکن موجودہ حکمرانوں کی نااہلی نے کراچی والوں پر بھی یہ عذاب مسلط کر دیا جس سے مستقبل میں بھی چھٹکارا حاصل کیے جانے کے آثار دکھائی نہیں دیتے میرے نزدیک تو یہ اقدام ٹینکر مافیا،قبضہ مافیا کے بعد کراچی والوں کو سلنڈر مافیا کے حوالے کیے جانے کے مترداف ہے۔

حصہ