صبح سویرے اٹھیں ورزش کریں

483

ڈپریشن ،اینگزائٹی اور ذہنی پریشانی میں مبتلا افراد دل کی بیماری کا شکار ہوسکتے ہیں ،کولیسٹرول ،شوگر ،بلڈ پریشر اور تمباکو نوشی دل کی بیماری کا باعث ہیں،ماہر امراض قلب ڈاکٹر فواد فاروق سے خصوصی گفتگو
پاکستان سمیت دنیا بھر میں دل کے امراض میں اضافہ ہورہا ہے۔ ڈاکٹر اس مرض کو ’’خاموش قاتل‘‘ کے عنوان سے بھی پکارتے ہیں۔ ڈاکٹر فواد فاروق قومی ادارہ برائے امراضِ قلب میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ دردِ دل رکھنے اور لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے والے ڈاکٹر ہیں۔ یو ٹیوب پر امراضِ قلب کے حوالے سے اُن کی ویڈیوز معلومات افزا ہوتی ہیں۔ دل کے امراض کی مختلف اقسام اور مختلف مراحل ہیں، ہم نے ڈاکٹر صاحب سے اس مرض کی وجوہات اور علاج پر تفصیلی گفتگو کی ہے جو نذر قارئین ہے۔
جہانِ اعصاب: دل بے قابو کیوں ہوجاتا ہے؟
ڈاکٹر فواد فاروق: دل کے بے قابو ہونے کے مختلف مدارج ہیں، مختلف قسمیں ہیں۔ بے قابو اس انداز میں بھی ہوسکتا ہے کہ اس کی دھڑکن میں کوئی اتار چڑھائو آرہا ہو۔ بے قابو ہونے کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ اس کے پٹھے کمزور ہوجائیں، اس کی نالیوں میں تنگی آجائے، اس کے والز خراب ہوجائیں، اس کے پردوں میں سوراخ ہوجائے.. اور اس کی مختلف وجوہات ہیں۔
جہانِ اعصاب: دل کی بیماریوں کی اہم وجوہات کیا ہیں؟
ڈاکٹر فواد فاروق: پیدائشی طور پر یا افزائش کے دوران کے نقائص بھی ہوتے ہیں۔ جب بچہ اپنی ماں کے پیٹ میں بن رہا ہوتا ہے اُس وقت کچھ ایسے افزائشی نقص ہوجاتے ہیں جو بظاہر اُس وقت نظر نہیں آتے۔ بس کچھ علامتیں ایسی ظاہر ہوتی ہیں جن سے یہ شبہ ہونے لگتا ہے کہ شاید اس بچے کے دل میں کچھ نقص ہوسکتا ہے، اور اس کی تشخیص کے لیے آج کل اس طرح کے الٹرا سائونڈ تک ہونے لگے ہیں کہ بچے کا پیٹ کے دوران ہی الٹراسائونڈ کرکے اندازہ لگالیا جاتا ہے۔ اسی طرح پھر جب بچہ بڑا ہو تو اس میں مختلف نوعیت کے انفیکشن ہوسکتے ہیں جو دل کو متاثر کردیں، اور یہ ہمارے ہاں بڑا عام ہے جسے ہم ریمیٹک ہارٹ ڈیزیز (Rheumatic Heart Disease) کہتے ہیں جو دل کے والز کو متاثر کرسکتی ہے۔ اس کے علاوہ بچوں میں بھی دھڑکنے کے مسائل ہیں۔ ان کے الیکٹریکل سسٹم میں خرابی کے باعث ان کی دھڑکن کم یا زیادہ ہونا۔ پھر تھوڑا بڑے لوگوں میں آجائیں تو دل کی نالیوں کی بیماریاں.. اور عام طور پر لوگ جسے واقعی دل کی بیماریاں سمجھتے ہیں وہ اسّی نوّے فیصد ہوتی بھی وہی ہیں، یعنی دل کی نالیوں میں تنگی آنا، جو مختلف مراحل میں بیماری دیتی ہے۔ انجائنا، اٹیک اور پھر اچانک دل کا فیل ہوجانا… یہ تو موٹی موٹی بیماریاں ہوئیں۔ اس کے علاوہ دل کے عضلات اور پٹھوں کی بیماریاں ہیں۔ دل کے الیکٹریکل سسٹم جس کا بچوں میں ذکر کیا، یہ بڑوں میں بھی ہوسکتی ہے کہ دل کی دھڑکن کا ایک دم سے کم ہونا یا بہت زیادہ ہونا۔ یہ مکمل خاکہ بنتا ہے دل سے متعلق بیماریوں، وجوہات اور اقسام کا۔
جہانِ اعصاب: پہلے دل کی بیماری امیروں کا مسئلہ تصور کیا جاتا تھا، لیکن اب تو یہ امیر غریب سبھی کا مسئلہ بن چکا ہے۔ آخر دل کے مریضوں میں اضافے کے اسباب کیا ہیں؟
ڈاکٹر فواد فاروق: جی، یہ بات ٹھیک ہے۔ یہ اصل میں طرزِ زندگی پر منحصر ہے۔ پہلے غریب کی زندگی میں مشقت بہت زیادہ تھی، کھانا پینا بہت زیادہ نہیں تھا، روکھی سوکھی کھا کر گزارا ہوجاتا تھا اور دن بھر مشقت بھی کرنی پڑتی تھی۔ لیکن جو آرام دہ زندگی امیروں کی تھی اب وہ تقریباً سب نے ہی اپنا لی ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ غربت بہت ہے، مہنگائی بہت ہے، لیکن آج کے غریب کے طرزِ زندگی کا بھی آپ کسی امیر سے موازنہ کرسکتے ہیں۔ طرز زندگی کی تبدیلی نے اِسے امیر غریب ہی نہیں بلکہ بوڑھوں سے جوانوں میں، اور اب تو نوجوانوں تک پہنچادیا ہے۔ خاص طور پر ہمارے کلچر اور ماحول میں تو بہت ہی خراب طرزِ زندگی ہے۔ آپ دیکھیں کہ ہمارے یہاں کھانے پینے کے حوالے سے کوئی پرہیز نہیں، ورزش کی عادت نہیں، تمباکو نوشی عام ہے، سونے جاگنے کی کوئی ترتیب نہیں.. یہی وجہ ہے کہ دل کی بیماریاں عام ہورہی ہیں اور بڑی تیزی سے امیر، غریب، جوان، بوڑھے سب میں پھیلتی جارہی ہیں۔
جہانِ اعصاب: کیا ذہنی و دماغی طور پر پریشان شخص میں بھی دل کی بیماری ہونے کے امکانات ہوتے ہیں؟
ڈاکٹر فواد فاروق: ذہنی دبائو بالواسطہ نہیں بلکہ بلاواسطہ آپ کو دل کا بیمار بنادیتا ہے۔ جب آپ ذہنی طور پر بیمار ہوتے ہیں تو آپ میں امید کم ہوجاتی ہے، اور جب انسان میں امید کم ہو اور وہ مایوسی کی زندگی گزار رہا ہو تو اس میں بے توجہی پیدا ہوتی ہے، اور یہ سبب آپ کو ایک صحت مند زندگی گزارنے نہیں دیتا۔ بے توجہی یا ڈپریشن یا اینگزائٹی کچھ بھی کہہ لیں.. اس میں آپ اپنی روٹین سیٹ نہیں کرپائیں گے، آپ خود پر اور اپنی غذا پر توجہ نہیں دے پائیں گے، لوگوں سے تعلقات بھی بہتر نہیں ہوں گے.. اور یہ تمام چیزیں ذریعہ بنتی ہیں ایک اچھی ذہنی صحت کا.. اور ذہنی صحت جسمانی صحت کے لیے بہت ضروری ہے۔ لامحالہ ذہنی طور پر پریشان، ڈپریسڈ یا اینگزائٹی میں مبتلا ایک آدمی دل کی بیماری کا شکار ہوگا۔
جہانِ اعصاب: انجائنا،ہارٹ اٹیک اور ہارٹ فیل میں فرق کیا ہے؟
ڈاکٹر فواد فاروق: انجائنا ابتدا ہے، آپ کے دل کی نالیوں میں تنگی آہستہ آہستہ بڑھنا شروع ہوئی، بڑھتے بڑھتے اب نوعیت ایسی ہوگئی کہ آپ بیٹھے ہوئے ہیں یا ہلکی مشقت کا کام کررہے ہیں تو آپ کو اتنا مسئلہ نہیں ہوگا، لیکن جیسے ہی آپ نے تھوڑا زیادہ چلنے کی کوشش کی یا کوئی بھی مشقت طلب کام کیا، یا آپ کو غصہ آگیا تو دل کی نالی کی یہ تنگی خون کو روکنے کے باعث بنے گی، جب کہ دل کو خون کی زیادہ مقدار چاہیے۔ تو ہوگا یہ کہ آپ کو دل پر بوجھ محسوس ہوگا، اور جیسے ہی آپ اس کیفیت سے نکلیں گے تو یہ بوجھ بھی ختم ہوجائے گا۔ یہ ابتدائی اسٹیج ہے ہارٹ اٹیک کا.. یعنی نالیاں اب پکنا شروع ہوگئیں اور اس کیفیت میں آنا شروع ہوگئیں کہ جب بھی آپ ضرورت سے زیادہ کام کررہے ہیں تو خون کے بہائو میں رکاوٹ آرہی ہے اور اس کے نتیجے میں دل کو خون کی فراہمی متاثر ہوتی ہے تو دل میں درد محسوس ہوتا ہے، اور جیسے ہی فراہمی بحال ہوئی آپ ٹھیک ہوگئے۔ پانچ سات منٹ اور کبھی کبھی دس سے پندرہ منٹ یہ کیفیت رہی اور آپ ٹھیک ہوگئے۔ اس مرحلے کے بعد خدانخواستہ تنگی کے باعث نالیوں کی اندرونی تہہ پر زخم آیا جس کے نتیجے میں وہاں چھوٹا سا بھی جو لوتھڑا بنے گا تو مزید تنگی پیدا ہوگی اور نالی تقریباً سو فیصد بند ہوجائے گی۔ اس صورت میں یہ نہیں کہ صرف وقتی طور پر خون رکا ہے بلکہ مستقلاً خون اس حصے سے گزرنا بند ہوجائے گا، اور جس لمحہ خون کی فراہمی بند ہوگی آپ کے سینے میں زبردست درد شروع ہوجائے گا، اور یہ دبائو مستقل رہے گا۔ پندرہ منٹ، آدھا گھنٹہ اور گھنٹوں چلے گا اور اس کی شدت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ پندرہ سے بیس منٹ بعد ہی آدمی اسپتال کا رخ کرتا ہے۔ لیکن کچھ لوگوں میں… جن میں شوگر کے مریض یا بڑی عمر کے افراد شامل ہیں… اس کی شدت اتنی زیادہ نہیں ہوتی، لیکن بہرحال یہ اٹیک کا باعث بنتا ہے۔ انجائنا میں چلنے پھرنے میں تکلیف ہورہی تھی، جب بیٹھے ہوئے تھے تو ٹھیک تھے، حالانکہ ایک دم سے بیٹھے بیٹھے درد سینے میں آیا اور پورے سینے میں پھیل رہا ہے، بازوئوں میں جارہا ہے، پسینہ آگیا ہے۔ یہ اٹیک بن گیا۔ اب بار بار اگر اٹیک ہوتے رہیں تو دل آہستہ آہستہ متاثر ہوتا جائے گا۔ پہلے ایک حصے پر اٹیک آیا، پھر دوسرے حصے پر آیا۔ کبھی کبھار پہلا اٹیک ہی اتنا شدید ہوتا ہے کہ وہ دل کو خاصا کمزور کردیتا ہے۔ یعنی دل کی حرکات و سکنات متاثر ہوجاتی ہیں۔ تیسرا مرحلہ کہلاتا ہے ہارٹ فیلیر کا… یعنی دل پر بار بار اٹیک کی صورت میں اپنے کام سے کم کام کرنے کی کیفیت آجاتی ہے، اس کو ہارٹ فیل ہونا کہتے ہیں۔
جہانِ اعصاب: ان تینوں کی علامات میں بہت زیادہ فرق ہے؟
ڈاکٹر فواد فاروق: انجائنا یہ ہے کہ وقتی طور پر چلنے پھرنے یا مشقت سے سینے میں درد ہوتا ہے، آپ بیٹھ جاتے ہیں تو ٹھیک ہوجاتا ہے۔ اٹیک کا درد ایک دم سے شروع ہوتا ہے اور چلتا رہتاہے۔ ہارٹ فیلیر یہ ہے کہ دل کمزور ہوگیا اور اس کی کمزوری کے بعد مختلف علامات ہوسکتی ہیں، اس میں اگر آپ نے مستقل دوائیں نہیں لیں تو دل کی کمزوری کے باعث پھیپھڑوں میں پانی آنے لگتا ہے اور سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ ہارٹ فیلیر کی علامات میں سانس کا زیادہ ہوجانا، بے ہوش ہوجانا، یعنی اگر دل آگے پمپ نہیں کر پائے گا تو آپ بے ہوش ہوسکتے ہیں۔ پیچھے اس کے خون جمع ہوجائے تو ایسے میں دیگر اعضا پر غیر معمولی دبائو پڑتا ہے، شدت بڑھنے لگتی ہے۔ اس طرح ان تینوں کی الگ الگ علامات ہیں۔
جہانِ اعصاب: انسانی جسم کے لیے چربی ایک ضروری چیز ہے۔ بیس سال کی عمر تک چربی نشوونما میں کام آتی ہے، لیکن اس کے بعد یہ چربی جمع ہوکر خون کی نالیوں میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہے۔ ایسے کیوں ہوتا ہے؟
ڈاکٹر فواد فاروق: اسے ہم طبی اصطلاح میں چربی انٹیک اور چربی کے جذب ہونے کا توازن کہتے ہیں، کہ آپ کتنا کچھ کھا پی رہے ہیں اور کتنا کنزیوم کررہے ہیں۔ بیس پچیس سال کی عمر وہ ہوتی ہے جس میں آپ کی افزائش ہورہی ہوتی ہے، آپ کے عضلات اور ہڈیوں سمیت ہر عضو کو بہت سی چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے اور خود آپ بھی بہت زیادہ متحرک ہوتے ہیں، اور جس قسم کی بھی غذا لے رہے ہوتے ہیں وہ کنزیوم ہورہی ہوتی ہے، مگر پچیس سال کی عمر کے بعد جب آپ کی گروتھ رک گئی، آپ کی فزیکل ایکٹیویٹی بھی کم ہوگئی تو پھر آپ کو کیلوریز کا حساب رکھنا پڑتا ہے کہ آپ دن میں کتنی کیلوریز لے رہے ہیں اور کتنا کنزیوم کررہے ہیں، اور اگر اس میں توازن نہیں ہوگا مثلاً آپ غذائیت زیادہ لے رہے ہیں اور اس کا استعمال کم کررہے ہیں تو یہ جسم میں اضافی چربی کی صورت میں جمع ہونا شروع ہوجاتی ہے جو صرف ایک جگہ نہیں بلکہ پورے جسم میں جمع ہوتی ہے، اور اس کا ظاہری اثر پیٹ پر محسوس ہوتا ہے۔ جس آدمی کا بھی پیٹ بڑھنا شروع ہوگیا تو سمجھ لیں کہ اسی لحاظ سے جسم کے دیگر اعضا پر بھی چربی جمنا شروع ہوگئی۔ جگر اور گردے پر بھی اس کے اثرات ہوتے ہیں۔ جس طرح قربانی کا جانور ذبح کریں تو جو بھی فربہ جانور ہوگا اس کے تمام اعضا پر ہی چربی ہوگی۔ انسان کے جسم میں بھی اسی تناسب سے چربی بڑھنے لگتی ہے۔
دل کے اندر نالی میں چربی والا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ جس کے جسم میں چربی کی مقدار زیادہ ہو، اُس کے دل کی نالیوں میں بھی چربی ہو۔ ہاں موٹاپا خطرے کی ایک علامت ہوسکتا ہے، مثلاً اگر آپ کے جسم میں چربی زیادہ ہے تو آپ کے دل کی نالیوں میں بھی چربی ہونے کا امکان بڑھ جائے گا، کیونکہ یہ اضافی چربی صرف دل کے امراض میں نہیں بلکہ شوگر، بلڈ پریشر اور کولیسٹرول کا نظام درست نہ ہونے کی صورت میں بھی موٹاپے سے تعلق رکھتی ہے۔
جہانِ اعصاب: کولیسٹرول کو عام طور پر ہارٹ اٹیک کی بنیادی وجہ تصور کیا جاتا ہے، ایک تحقیق نظر سے گزری جس میں تھا کہ یہ کوئی بڑی یا بنیادی وجہ نہیں ہے، آپ کیا کہتے ہیں؟
ڈاکٹر فواد فاروق: تحقیق کو سمجھنا اور اس کو لاگو کرنا… عام آدمی کی سطح اس کو سمجھنے کے لیے نہیں ہوتی، اور ہمارے ہاں تو اس کی مکمل آزادی ہے کہ آدمی چاہے کچھ بھی بول دے۔ یہ صرف ایک تحقیق تھی کہ بہت زیادہ عمر رسیدہ لوگوں میں یعنی پینسٹھ سال سے زائد عمر کے لوگوں میں اگر کولیسٹرول کی مقدار بڑھی ہوئی ہے اور ہم بہت زیادہ تیز دوائوں سے اسے کنٹرول نہ بھی کریں تو زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ یہ عام سمجھنے والی بات ہے کہ پینسٹھ سال تک جو ہونا تھا وہ ہوچکا، اب آپ اس کو ٹھیک کرنے کے لیے دوائیاں دیں گے تو اس سے اتنا زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔ چونکہ مرض تو پیدا ہوچکا جس پر قابو پانے کے لیے پچیس تیس سال کی عمر سے اپنی ہر چیز کو قابو کرنے کی ضرورت تھی چاہے وہ کولیسٹرول ہو۔ کولیسٹرول، شوگر، بلڈپریشر، موروثی اور تمباکو نوشی… یہ پانچ بنیادی وجوہات دل کی بیماری کا باعث بنتی ہیں۔
جہانِ اعصاب: کیا خواتین میں دل کے دورے کی علامات مردوں کے مقابلے میں کم ہوتی ہیں؟ اور کتنی مختلف ہوتی ہیں؟
ڈاکٹر فواد فاروق: عموماً اتنا زیادہ فرق نہیں ہے، لیکن چونکہ خواتین فوکس نہیں
ہوتیں تو ان کی علامتیں دورے کے دوران بھی مکس ہوتی ہیں۔ کیونکہ فوکس نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنی اصل شکایت نہیں بتا پارہی ہوتی ہیں اس وجہ سے اپنی بیماری کے بارے میں بھی ٹھیک طرح سے بتا نہیں پاتیں۔ بس اتنا ہی فرق ہے کہ نوجوان خواتین میں اس کے خطرات مردوں کے مقابلے میں نسبتاً کم ہیں۔
جہانِ اعصاب: دل کے امراض کی تشخیص کیسے ہو، بنیادی ٹیسٹ کیا ہے؟
ڈاکٹر فواد فاروق: یہ منحصر ہوتا ہے علامتوں پر۔ اگر کسی کو کوئی علامت نہیں ہے تو پھر ہم دل کی بیماریوں سے زیادہ یہ ڈھونڈتے ہیں کہ اس شخص میں خطرات کی علامات ہیں یا نہیں ہیں؟ اگر ہیں تو ان کا علاج کیا جائے۔ پھر علامتوں کے حوالے سے پہلے بھی ذکر کیا کہ سینے پر درد، دبائو، سانس کا پھولنا اور بے ہوشی… یہ چند موٹی موٹی علامتیں ہیں۔ لیکن ان کی دل کی بیماریوں کے علاوہ بھی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں، تو پھر اس کا اندازہ لگانا پڑتا ہے کہ سینے کا درد ہے تو کس نوعیت کا ہے، کہاں ہورہا ہے، اور پھر اگر شبہ والی بات ہوتی ہے تو ہم اسٹریس ٹیسٹ کرتے ہیں جو ای سی جی کے بعد کیا جاتا ہے۔ چونکہ ای سی جی میں بھی بعض علامات کا پتا نہیں چلتا تو ایسے لوگوں میں اسٹریس ٹیسٹ، ای سی پی یا دوسری نوعیت کے ٹیسٹ کرتے ہیں جس سے پتا لگایا جاسکے کہ جو علامات ہیں یہ واقعی دل کے امراض کے باعث ہیں؟ دوسرے وہ لوگ ہیں جن میں یہ بات واضح ہے کہ انہیں دل کا مسئلہ ہے، اس صورت میں ہم انہیں ڈائریکٹ انجیو گرافی کا ٹیسٹ کراتے ہیں۔ یہ وہ ٹیسٹ ہیں جو دل کی نالیوں سے متعلق امراض میں کرائے جاتے ہیں۔ اگر کسی کو دل کے حوالے سے دیگر نوعیت کے امراض ہیں مثلاً دل کے اسٹرکچر میں کوئی مسئلہ ہے، پیدائشی نقائص ہیں، دل کمزور ہے ایسے لوگوں کے لیے ایکو ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی اسپیشلائزڈ ٹیسٹ ہیں جو اس بات پر منحصر ہیں کہ مرض کس نوعیت کا ظاہر ہورہا ہے۔
جہانِ اعصاب: لوگ انجیو گرافی سے گھبراتے ہیں اور مرنے کا خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
ڈاکٹر فواد فاروق: دراصل ضرورت اس بات کی ہے کہ معالجین مریض کو ٹھیک سے سمجھائیں کہ یہ ٹیسٹ کیوں ضروری ہے۔ کیونکہ جتنا خوف انہیں ٹیسٹ کا ہے اُس سے زیادہ خوف تو انہیں اس مرض کا ہونا چاہیے جو اندر موجود ہے۔ وہ بھی تو جان لیوا ہے اور کسی بھی وقت جان لے سکتا ہے۔ تو ایسا کیوں نہ کیا جائے کہ مرض آنے سے پہلے ہی اس کی شدت کا اندازہ کرکے اس کا علاج کرلیا جائے! انجیو گرافی آج کل اتنا سادہ ٹیسٹ ہے جو ہاتھ سے زیادہ تر مریضوں میں کیا جارہا ہے، اور پندرہ سے بیس منٹ میں پتا چل جاتا ہے کہ نالیوں میں کیا مسئلہ ہے۔ تو اس میں گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، نہ ہی کسی قسم کی جان لیوا پیچیدگی ہے۔ ہاں ایک ایسے مریض میں اگر انجیوگرافی کی جارہی ہے جو ایک شدید اٹیک کے ساتھ آیا ہے، جس کا مرض پہلے ہی بہت بڑھا ہوا ہے، تو ایسی صورت میں انجیوگرافی کے دوران انجیوگرافی سے نہیں بلکہ مرض کی شدت کی وجہ سے کبھی کبھار مریض جان لیوا پیچیدگیوں کا شکار بھی ہوجاتا ہے جو ایک بالکل الگ نوعیت ہے۔
جہانِ اعصاب: بائی پاس سرجری اور انجیو پلاسٹی ایک طریقہ علاج ہے، کیا اس کے بغیر بھی دل کی بیماری کا علاج کیا جاسکتا ہے؟
ڈاکٹر فواد فاروق: یہ ساری باتیں سائنس کی بنیاد پر عام انداز میں اس طرح سے سمجھنے کی ہیں کہ جو انجیوگرافی کی جاتی ہے اُس کی بنیادی وجہ بھی یہی ہوتی ہے کہ آپ کی بیماری کی شدت کا اندازہ ہوجائے۔ اب اس کا فیصلہ انجیوگرافی کے نتائج پر ہوتا ہے۔ اگر انجیوگرافی میں مرض کی علامات ابتدائی نوعیت کی نکلیں تو اب یہ معاملہ دوائوں سے حل ہوگا، کہ نہ انجیو پلاسٹی کی ضرورت ہے نہ بائی پاس کی۔ اگر درمیانے درجے کا مسئلہ درپیش ہوا تو اسٹنٹ لگا کر اس تنگی کو دور کیا جاسکتا ہے۔ ایک نالی یا دو نالیوں میں مسئلہ ہو تو ڈاکٹر انجیوپلاسٹی کا مشورہ دے مرض کی نوعیت کے حساب سے۔ لیکن اگر تنگی اتنی شدید ہے کہ تینوں نالیوں میں پھیلی ہوئی ہے اور بہت زیادہ ہے تو اس کا حل بائی پاس ہوتا ہے۔ یہ تمام طریقہ ہائے علاج انسان نے اپنی تحقیق اور اس کے نتائج سے ہی سیکھے ہیں۔ آپ جب گاڑی ٹھیک کرانے جاتے ہیں تو کس پر بھروسا کرتے ہیں؟ مکینک پر ہی کرتے ہیں نا! ایسا تو نہیں ہوتا کہ وہ کہے تیل ڈالنے کی ضرورت ہے اور آپ کہیں کہ نہیں میں پانی سے چلا لوں گا! لیکن صحت کے معاملے میں ہم یہی کرتے ہیں کہ جو اس کا ماہر ہے اُس کی بات نہیں سنیں گے، مگر گلی میں کھڑے ہوئے اس آدمی کی بات مان لیں گے جو کہے گا کہ یہ شربت پی لو تمہارے دل کی نالیوں کی تنگی دور ہوجائے گی۔
جہان اعصاب: جو لوگ دل کے مرض میں مبتلا ہوجاتے ہیں… کسی کی انجیوپلاسٹی ہوئی ہوتی ہے کسی کی سرجری، اس کے بعد وہ کیسی زندگی گزاریں؟
ڈاکٹر فواد فاروق: وہ بالکل ایک عام آدمی کی طرح زندگی گزار سکتے ہیں۔ تھوڑا سا خیال اس بنیاد پر زیادہ رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ دوائوں کا استعمال مستقل رکھنا ہے، اور پھر طرزِ زندگی جس طرح عام آدمی کو بدلنا چاہیے، وہ انہیں بھی بدلنا چاہیے۔ ذرا سی بھی کوئی علامت ہو تو ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔ عملی زندگی میں وہ تمام چیزیں کرسکتے ہیں جو ایک عام آدمی کرسکتا ہے۔
سوال: کیا کورونا دل کے امراض کی شدت میں اضافہ کرسکتا ہے؟
ڈاکٹر فواد فاروق: کورونا اگر دل کے مریض کو ہوجائے گا تو کورونا کی اپنی شدت بھی بہت زیادہ ہوگی، کیونکہ پہلے سے ہی آپ کا دل کمزور ہے، پھر کورونا کی وجہ سے بھی عضلات کمزور ہوسکتے ہیں، تو ان دو وجوہات سے کورونا سے دل کے امراض میں پیچیدگی ہوسکتی ہے۔
جہانِ اعصاب: دل کی بے چینی کو راحت اور سکون میں کیسے بدلا جاسکتا ہے؟ آپ کا لوگوں کے لیے کیا مشورہ ہے؟
ڈاکٹر فواد فاروق: اس سوال کا تو جواب ایک آیت میں آجاتا ہے کہ الابذکر اللہ تطمئن القلوب(آگاہ ہو جائو کہ دلوں کا اطمینان تو اللہ کے ذکر میں ہے) اطمینان صرف اسی طرح حاصل ہوتا ہے کہ وہ آج کے دن میں رہنا سیکھے، اپنے اوپر بھرپور توجہ رکھے۔ اور یقین مانیے کہ جو اصول دین نے زندگی گزارنے کے دیئے ہیں وہ آپ کو صرف روحانی طور پر صحت مند نہیں رکھتے بلکہ جسمانی صحت کے بھی ضامن ہیں۔ صبح سویرے اٹھیں، ورزش کریں، غذا میں خیال برتیں، وزن نہ بڑھنے دیں، سگریٹ نوشی نہ کریں، سال چھ مہینے میں ایک چیک اپ کرالیں کہ آپ کو بلڈپریشر، شوگر کا مرض تو نہیں ہوگیا ہے؟ اور اگر خدانخواستہ ہے تو کسی اچھے معالج سے مشورہ کرکے اس پر قابو پانے کی کوشش کریں تو اِن شاء اللہ دل کی بیماریوں سے بھی بچیں رہیں گے۔

حصہ