وقت کا سفر

197

”میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ آج تمہاری بلی زخمی ہو جائے گی۔“عدیل نے سلیم کو بتایا تو سلیم نے بات کو ٹالتے ہوئے کہا:”ضروری تو نہیں کہ تمہارا ہر خواب ہی سچ ہو۔“
عدیل خاموش ہو گیا۔
دوست اس کے خواب پر یقین نہیں کرتے تھے۔وہ صرف یہ کہتے تھے کہ جو تم خواب دیکھتے ہو اتفاقاً ویسا ہو جاتا ہے۔ وہ دونوں اپنے اپنے گھر چلے گئے اور اس بات کو تو بھول ہی گئے۔شام کو کھیل کے بعد جب وہ گھر پہنچا تو پتا چلا کہ اس کی بلی گلی میں تیزی سے گزرتی ہوئی موٹر سائیکل کی زد میں آ کر زخمی ہو گئی ہے۔
سلیم بہت شرمندہ تھا کہ اس نے عدیل کی بات کا یقین نہ کیا۔اس نے عدیل سے معافی مانگی۔آج سارے بچے بہت خوش تھے۔ان کے اسکول کا ایک گروپ میوزیم دیکھنے جا رہا تھا۔
عدیل اور سلیم بھی ان میں شامل تھے۔عدیل نے سلیم کو بتایا کہ مجھے خواب میں ایک پرانے پتھر کے نیچے ایک چابی نظر آ رہی ہے۔
کچھ دیر بعد سب کے ساتھ عدیل اور سلیم میوزیم پہنچ گئے اور پتھر تلاش کرنے لگے۔اچانک عدیل نے ایک پتھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:”یہ وہ پتھر ہے“۔دونوں نے مل کر پتھر ہٹایا تو دیکھا وہاں ایک چابی دبی ہوئی نظر آئی۔جب عدیل نے چابی اُٹھائی تو تیز طوفانی ہوا چلنے لگی اور پرنسپل سارے بچوں کو بلانے لگے تاکہ کوئی بچہ گم نہ ہو جائے۔
عدیل اور سلیم وہ دروازہ تلاش کرنے لگے جس کی یہ چابی تھی۔ایک جانب انھیں ایک پرانا دروازہ نظر آیا۔دروازے میں چابی لگتے ہی دروازہ کھل گیا۔وہ اندر داخل ہوئے تو دروازہ خود بہ خود بند ہو گیا۔وہ آگے چل پڑے۔
چلتے چلتے شام ہو گئی۔
وہ ایک گاؤں میں پہنچے۔وہاں پر ایک گھر کا دروازہ بجایا اور ایک آدمی باہر آیا اور اس نے عجیب لباس پہن رکھا تھا۔وہ ان دونوں کو اندر لے گیا اور ان سے سوال کرنے لگا کہ وہ کہاں سے آئے ہیں۔جب دونوں نے اس آدمی کو بتایا تو وہ حیران رہ گیا اور کہا:” وہ اپنے زمانے سے سو سال پچھلے دور میں آ گئے ہیں۔“
مجبوراً وہ دونوں وہاں رہنے لگے۔وہ روزانہ دروازہ تلاش کرنے کے لئے جنگل میں ضرور جاتے تھے۔اس طرح دو سال گزر گئے۔
ایک دن عدیل نے خواب میں پھر وہی دروازہ دیکھا اور جلدی عدیل کو بتایا۔پھر وہ دونوں اسی راستے پر آ گئے تو دیکھا کہ سامنے دروازہ موجود تھا۔
وہ بہت خوش ہوئے، لیکن پھر اُداس بھی ہوئے کہ پتا نہیں ان کے گھر والے کس حال میں ہوں گے۔وہ تو ان کے آنے کی اُمید ختم کر چکے ہوں گے،لیکن جب وہ دروازہ کھول کر باہر آئے تو دیکھا کہ ابھی استاد صاحب بچوں کو بلا کر ایک جگہ جمع کر رہے تھے۔طوفان ختم ہو چکا تھا،وہ خوش ہوئے اور بچوں میں شامل ہو گئے۔

حصہ