آپؐ کی سیرتِ مبارکہ کے کسی ایک پہلو کو بھی اجاگر کرنا، اسے اپنے قلم کی دسترس میں لانا مجھ ناچیز کے بس کی بات نہیں۔ جتنا پڑھتی جاتی ہوں ہر مرتبہ ایک روشن پہلو منعکس ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے میرے نبیؐ کی ذات ِاقدس کو جس طرح خوبیوں سے منور کیا ہے، کائنات کی کوئی ہستی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ زندگی گزارنے کے تمام معاملات کے بارے میں رہنمائی آپؐ کی سیرت ِمبارکہ سے حاصل کی جا سکتی ہے سبحان اللہ۔ صرف عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ رحمت للعالمین اور محسنِ انسانیت کے درجے پر آپؐ کی ذاتِ اقدس کا متعین ہونا بے شک آپؐ کا ہی حق ہے… آپؐ کی شخصیت کا ہر پہلو، ہر سنت، اور ہر حدیث قابلِ عمل ہے ہر طبقے، ہر عمر کے انسان کے لیے۔ غریب، امیر، کسان، مزدور ، تاجر، میاں بیوی، اولاد، مسافر… غرض ہر شخص کے لیے اللہ پاک کی طرف سے راہِ ہدایت اور زندگی کو سنوارنے کا ذریعہ ہے۔ میں ناچیز یہاں صرف ’’طب ِنبویؐ‘‘ پر لکھنے کی جسارت کروں گی۔ ’’طب‘‘ یعنی حفظانِ صحت اور بیماریوں سے بچانے کے اصول و ضوابط…
آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے آپؐ نے حفظانِ صحت کے جن اصولوں سے امت ِ مسلمہ کو روشناس کروایا آج دورِ جدید اس پر حیران ہے۔ طویل تحقیق و جستجو، تجربات اور سالہا سال کی تگ و دو کے بعد صحت کے جو اصول سائنس نے دریافت کیے ہیں وہ تو آج سے تقریباً ساڑھے چودہ سو سال پہلے ہی دریافت کرلیے گئے تھے۔ یہ سب میرے رب کی قدرت ہے، جس نے اپنے آخری نبیؐ کو تمام تر خوبیوں سے آراستہ کرکے اس جہاں کے لیے ’’نمونہ‘‘ بنایا، جن کی رہنمائی دنیا و آخرت کو سنوارنے کا ذریعہ ہے۔
حفظانِ صحت کے لیے آپؐ نے ’’صفائی کو نصف ایمان کہا‘‘ ہے۔ شریعتِ اسلامیہ نے ہر عبادت کے لیے صفائی لازم اور شرط رکھی ہے۔ طہارت و پاکیزگی کے جو اصول و ضوابط اسلام نے مرتب کیے ہیں ان کی صحیح عکاسی آپؐ کی ذاتِ اقدس سے ہوتی ہے۔ یہی وہ اصول وضوابط ہیں جو پاکیزہ اور صاف معاشرے کے لیے اوّلین شرط ہیںٍ اور جن پر عمل پیرا ہو کر انسان بہت سی بیماریوں اور تکلیفوں سے بچ سکتا ہے۔ غسل کرنا، مسواک کرنا، کھانا کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھونا، کھانا کھانے کے بعد کلی کرنا، بالوں میں کنگھی کرنا اور سنوارنا، ناخن کاٹنا، صاف ستھرا لباس پہننا وغیرہ کے علاوہ گھر کو، بستر کو صاف رکھنا، سونے سے پہلے برتنوں کو ڈھانپنا (کورکرنا) وغیرہ کی تاکید فرمائی۔ بخاری و مسلم کی حدیث ِمبارکہ ہے کہ آپؐ جب بیدار ہوتے تو اپنے دہنِ مبارک کو مسواک سے صاف کرتے تھے۔ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ مسواک منہ کو پاکیزہ کرنے والی اور رضائے الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہے۔ (نسائی)
آپؐ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مسواک کرنے کا مشورہ دیتے تھے۔ دانتوں کی صفائی کی خاص تاکید فرمائی۔ آج جدید سائنس اس حقیقت سے متفق ہے کہ کھانے کو صحیح طریقے سے ہضم کرنے کے لیے مضبوط دانت ضروری ہیں، اور کھانا صحیح ہضم ہونا بہت سی تکالیف سے بچاتا ہے۔ اسی طرح میرے نبیؐ نے پانی پینے سے متعلق فرمایا: ٹھیر ٹھیر کر اور تین سانس میں پانی پیا جائے، اور سانس بھی پانی کے برتن میں نہ خارج کی جائے۔
ایک مرتبہ آپؐ صحابہ کرام کو پانی پینے کے آداب بتا رہے تھے کہ برتن میں پانی پینے کے لیے لیں تو پینے سے پہلے بسم اللہ پڑھیں، پھر ٹھیر ٹھیر کر تین سانس میں پانی بیٹھ کر پئیں۔ وہاں سے ایک یہودی کا گزر ہوا، وہ بھی کونے میں کھڑا ہوگیا اور آپؐ کی گفتگو سننے لگا۔
رات میں جب وہ یہودی سونے لگا تو اُسے پیاس لگی، اُس نے بیوی سے پانی مانگا۔ بیوی نے جب اُسے پانی کا کٹورا دیا تو اُسے ہمارے نبیؐ کی بات یاد آگئی، وہ چارپائی پر بیٹھ گیا کہ نبیؐ کے طریقے سے پانی پینے کا فائدے دیکھے (یقیناً اس نے یہی سوچا ہوگا)۔ بے اختیار اس کی نظر کٹورے کے اندر پڑی، اُس نے دیکھا کہ اس پانی میں ایک زہریلا بچھو ہے۔ اس نے کٹورا فوراً دور پھینک دیا اور صبح آپؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام لے آیا (واقعہ کا مفہوم)۔ دین ِاسلام کے ہر حکم و اصول کے پیچھے مصلحت و حکمت پوشیدہ ہے۔
وبا اور بیماریوں سے بچنے کے لیے آپؐ نے امت ِمسلمہ کو جو اہم اصول بتائے ہیں آج ساری دنیا ان کی تائید کرنے پر مجبور ہے۔
ارشادِ نبویؐ ہے کہ کسی بستی میں تم سنو کہ وہاں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی ہے تو وہاں نہ جائو، اور جہاں تم رہتے ہو اگر وہاں پھوٹ پڑے تو اپنی بستی سے نکل کر نہ بھاگو۔ (بخاری، مسلم)
اس حدیثِ مبارکہ میں حکیمانہ سوچ و عمل، انسان کو دوسری کی بھلائی (یعنی انہیں بیماری سے محفوظ رکھنے) اور اپنی بھلائی (اپنے آپ کو بیماری سے محفوظ رکھنے) کی حکیمانہ تعلیم دی گئی ہے، سبحان اللہ۔ آج جدید تحقیقات اور تجربات کی روشنی میں پوری دنیا کے مفکر اور سائنس دان اس اصول کی تاکید اور نصیحت کرتے ہیں اور اسے ضروری امر سمجھا جاتا ہے۔
کھانے پینے کے آداب و اصول پر غور کیا جائے تو ہر اصول، ہر طریقہ طب کے لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے، اور یہ اصول آج مہذب سوسائٹی میں فخر سے استعمال کیے جارہے ہیں۔ نفاست سے نہ صرف کھانا بنانا بلکہ نفاست سے بیٹھ کر آرام سے کھانا کہ برابر بیٹھے ہوئے شخص کو بھی آواز نہ پہنچے۔ اگر ایک تھال میں دو تین آدمی شرکت کررہے ہوں تو صرف اپنے سامنے والے حصے سے کھانا لینا تاکہ دوسروں کے حصے میں آپ کا ہاتھ نہ لگے۔ اور کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے کی تاکید فرمائی گئی ہے۔ چمچ کے بجائے ہاتھ سے کھانے کی افادیت سے بھی ہم سب واقف ہیں۔ آپؐ زیادہ پیٹ بھر کر کھانا کھانا پسند نہیں فرماتے تھے۔ آپؐ کا ارشاد ہے کہ معدہ کے تین حصے کیے جائیں، ایک حصہ غذا کے لیے، ایک حصہ پانی کے لیے، اور ایک حصہ سانس کی آمد و رفت کے لیے۔ بے شک آج ہم سب جانتے ہیں کہ زیادہ و بے جا کھانے اور بسیار خوری کی وجہ سے بندہ بہت سی بیماریوں میں مبتلا ہوسکتا ہے۔
آپؐ جن چیزوں کو کھانا پسند فرماتے اور دوسروں کو بھی کھانے کی تاکید فرماتے تھے اُن اشیاء کی اہمیت ہم پر واضح ہوتی جارہی ہے۔ آپؐ نے شہد، جو، کلونجی، لوکی، گوشت، نمک وغیرہ کو پسند فرمایا۔ آج جو لوگ ان قدرتی اشیاء کو استعمال کررہے ہیں وہ ان کی افادیت سے واقف ہیں۔ کورونا کی پہلی لہر آئی تو میں باقاعدگی سے اپنی فیملی کو شہد، کلونجی، ادرک اور دارچینی کا قہوہ دیتی رہی، الحمدللہ رب العزت نے بڑا کرم کیا… ایک مرتبہ مناسکِ حج کے بعد مجھے فلو (نزلہ، زکام، بخار) ہو گیا، جو اس قدر شدید نوعیت کا تھا کہ بستر سے اٹھا نہیں جا رہا تھا۔ میرے سب ساتھی تمام نمازوں کی ادائیگی و طواف کے لیے باقاعدگی سے جاتے لیکن میں مجبور تھی۔ ایک دن تو اسی طرح گزارا، اگلے دن سب کے جانے کے بعد میں کمرے میں تنہا بے سدھ پلنگ پر لیٹی ہوئی تھی، بے اختیار اپنی بے بسی پر رونے لگی… الٰہی دوبارہ اس در پر نہ جانے کب آنا نصیب ہو، میں کنویں کے پاس ہوتے ہوئے پیاسی ہوں۔ فوراً ہمت کرکے اٹھی، سامنے میز پر ناشتے کی ٹرے میں شہد کی بوتل نظر آئی، ہمت کرکے گلاس میں گرم پانی لیا اور دو چمچے بھر کر شہد ملا کر بسم اللہ و درود پڑھ کر پی لیا۔ سبحان اللہ… چند لمحوں میں میرے جسم میں توانائی آگئی۔ غسل کیا، ایک گلاس مزید شہد کا پانی پیا اور عبایا پہن کر حرم کی طرف چل پڑی جو دس بارہ منٹ کے فاصلے پر تھا۔ ظہر کی نماز پڑھی، طواف کیا، نوافل ادا کیے۔ عبداللہ (بیٹا) مجھے ہوٹل کے کمرے میں نہ پاکر پریشان ہوگیا، فون کیا۔ میں نے اُسے تسلی دی کہ میں یہاں حرم پاک میں موجود ہوں تو وہ حیران ہوگیا۔ بھاگتا ہوا میرے پاس پہنچا کہ آپ ایسی حالت میں کیسے آئیں؟ مجھے فون کرکے بلالیتیں، میں آپ کو لینے آجاتا۔
اس مختصر سے واقعے کو میں بار بار دہراتی ہوں کہ اللہ نے میرے نبیؐ کو جو کچھ عطا فرمایا امتِ مسلمہ کو دینے کے لیے، سبحان اللہ اس میں مصلحت و حکمت پوشیدہ ہے جس پر عمل کرنا بے حد ضروری ہے۔ آپؐ سادہ کھانا، سادہ صاف ستھرا لباس پسند فرماتے تھے۔ جو لوگ میرے نبیؐ کی سنت پر عمل کرتے ہیں یقیناً وہ نہ صرف اپنی زندگی کو آسان بناتے ہیں بلکہ مستفید بھی ہوتے ہیں۔ رب العزت ہم سب کو نبیؐ کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین ثم آمین۔