’’مشرقی پاکستان‘‘ کو ’’بنگلہ دیش‘‘ کا روپ دھارے نصف صدی بیت گئی مگر قوم کو آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ پاکستان ٹوٹنے کے اسباب کیا تھے؟ اس سانحے کے مجرموں کا سراغ لگایا گیا اور نہ انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کا اہتمام ہوا… روزنامہ ’’جسارت‘‘ نے اپنی قومی ذمے داری سمجھتے ہوئے آج سے ربع صدی قبل3 دسمبر 1995ء کو لاہور میں ایک اہم مجلس مذاکرہ کا اہتمام کیا جس میں ممتاز قومی، سیاسی اور صحافتی شخصیات نے اظہار خیال کیا۔ سابق وفاقی وزیر قانون محترم ایس ایم ظفر کے سوا مذاکرہ کے تمام مقررین اب اپنے خالق حقیقی کے حضور پیش ہو چکے ہیں تاہم انہوں نے ربع صدی قبل جن خیالات کا اظہار کیا وہ آج بھی ہمارے لیے چشم کشا اور رہنمائی کا ذریعہ ہیں، غور و فکر کا بہت سا سامان اپنے اندر رکھتے ہیں اور ملک کے محفوظ و روشن مستقبل کی راہیں ہمیں سجھاتے ہیں۔ میزبانی کے فرائض ممتاز صحافی اور تجزیہ نگار عطا الرحمن صاحب نے ادا کیے جو اس وقت ’’جسارت فورم لاہور‘‘ کے صدر تھے۔ ’’گاہے گاہے باز خواں ایں قصہ پارینہ را‘‘ کے طور پر اس مذاکرہ کی رو داد قسط وار ’’جسارت‘‘ کے قارئین کی نذر ہے۔
شرکائے مذاکرہ
٭پروفیسر عبدالغفور احمد: نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان
٭میجر جنرل (ر) رائو فرمان علی: مشرقی پاکستان کے آخری گورنر کے فوجی مشیر
٭ایس ایم ظفر: سابق وزیر قانون، متحدہ پاکستان
٭ڈاکٹر صفدر محمود: مورخ، مصنف، سابق پرنسپل ایڈمنسٹریٹیو اسٹاف کالج لاہور
عبدالکریم عابد: تجزیہ نگار، کالم نویس، سابق ایڈیٹر روزنامہ ’’جسارت‘‘
جسارت: سقوط مشرقی پاکستان میں ہماری سیاسی نا کامی کے ساتھ ساتھ حقیقت یہ ہے کہ ہماری فوجی ناکامی کا بھی بہت بڑا حصہ تھا جس کی وجہ سے ہمارے 90 ہزار فوجی بھی قید ہوئے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ ہتھیار ڈالنے اور دشمن کا قیدی بن جانے والوں کی سب سے بڑی تعداد تھی۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کے گورنر کے مشیر (ریٹائرڈ) میجر جنرل رائو فرمان علی سانحہ مشرقی پاکستان کے وقت اہم کردار ادا کر رہے تھے وہ وسیع فوجی تجربہ اور بے پناہ فوجی بصیرت رکھتے ہیں۔ انہوں نے چشم دید حالات کی روشنی میں سانحہ مشرقی پاکستان کے اسباب و اثرات سے ان الفاظ میں آگاہ کیا:
جنرل رائو فرمان علی خان: میں مارشل لا لگنے کے بعد گورنر ہائوس میں سول افیئرز کا انچارج تھا تاکہ مارشل لا ریگولیشنز کے مطابق حکومت چلتی رہے میری ملٹری ذمہ داری یہ تھی کہ صدر کو اطلاع دیتا رہوں کہ حالات کس نہج پر جا رہے ہیں۔ یہ غلط فہمی ہے کہ میں جنرل نیازی کا نمبر دو تھا اسی غلط فہمی کے باعث جنگ کے آخری دنوں میں ’’جنرل فرمان کے نام پیغام‘‘ کا اشتہار بھی فضا سے پھینکا گیا حالانکہ فوجی امور سے میرا کوئی تعلق نہ تھا۔ جنرل نیازی ایک آدھ دن نظر نہ آئے تو بی بی سی نے دس گیارہ دسمبر کو یہ خبر نشر کر دی کہ وہ مغربی پاکستان چلے گئے ہیں اور جنرل فرمان نے چارج سنبھال لیا ہے حالانکہ میں چھٹے نمبر پر تھا۔
ہم دراصل مشرقی پاکستان کو اپنی کالونی سمجھتے تھے اب بھی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو گیا یعنی ہماری حکومت وہاں ختم ہو گئی گویا ہم وہاں حاکم تھے اور وہ محکوم بطور کالونی ہم ان پر اپنے سیاسی خیالات بھی مسلط کرتے رہتے، پیریٹی کا فار مولا بھی ان پر مسلط کیا گیا تھا جسے انہوں نے قبول نہیں کیا تھا بلکہ مجبوراً تسلیم کیا تھا پاکستان کے سیاسی ڈھانچے میں ایک تضاد تھا۔ مشرقی پاکستان والے سیاسی قوت کا استعمال کرنا چاہتے تھے تو ہم مغربی پاکستان والے مارشل لا مسلط کر دیتے تھے میں فوج کو بدنام نہیں کر رہا بلکہ مغربی پاکستان کے لوگ اس کا مطالبہ کرتے تھے جیسا کہ اب بھی بعض لوگ کر رہے ہیں۔ جمہوریت اچھی چیز ہے مگر جس کو جمہوریت کا نام دیں وہ جمہوریت نہیں ہو جاتی یہ کہنا غلط ہے کہ مشرقی پاکستان نے ’’پیریٹی‘‘ قبول کر لی تھی۔
پاکستانی قومیت کی اصل بنیاد ’’اسلام‘‘ تھی مگر ہم ایک قوم نہ بن سکے کیونکہ یہ خیال مغرب اور مشرق میں حاوی ہو گیا کہ پاکستان اقتصادی آزادی اور ہندوئوں کے معاشی غلبے سے نجات کے لیے بنایا گیا ہے دوسرے صوبائی و علاقائی نیشنلزم کا عروج ہو گیا اور مشرقی پاکستان والے کہنے لگے کہ اسلام ہی ہمیں ملانے والی قوت ہے تو افغانستان کو اپنے ساتھ کیوں نہیں ملا لیتے۔ اس طرح ہم نے پاکستان کی اساس کو نقصان پہنچایا اب بھی ’’اسلام‘‘ کو نظر انداز کرنے کے نتیجے میں علاقائیت پھیلے گی۔
مشرقی پاکستان کو اداروں میں مناسب نمائندگی بھی نہ دی گئی۔ فوج اور سروسز میں ان کا عمل دخل نہ ہونے کے برابر تھا۔ اس میں مغربی پاکستان کا زیادہ قصور نہ تھا جتنا قدیم حالات کا جن کے باعث مشرقی پاکستان کے علاقے میں ہندو کا غلبہ تھا اور مسلمان بالکل بے بس تھے مگر آزاد ہو کر کوئی ماضی کے حالات نہیں دیکھتا مثلاً کراچی کے بارے میں پنجاب اندرون سندھ اور سرحد کے بزرگ کہتے ہیں کہ اردو بولنے والے تمام اداروں پر قابض تھے اب یہ قبضہ نہیں رہا تو وہ بگڑ گئے ہیں مشرقی پاکستان میں بھی پرانے لیڈر علی گڑھ کے تعلیم یافتہ تھے اور پورے ہند کے تناصر میں ملک گیر سوچ رکھتے تھے مگر آزادی کے بعد ایسے لیڈر آ گے آ گئے جو مقامی سطح پر سوچتے تھے انہوں نے فضل القادر چودھری اور صبور خان جیسے بڑے بڑے لوگو کو ہرایا جیتنے والوں کی سوچ بھی مقامی اور ماحول بھی مقامی تھا اس طرح صوبائیت آگے بڑھی اور وہ ہم سے دور ہوتے گئے ۔
مغربی مصنفین نے لکھا ہے کہ دو حصوں میں تقسیم پاکستان جن کے درمیان ایک ہزارمیل طویل دشمن کا علاقہ تھا، اس غیر معمولی صورتحال کے ازالے کے لیے ایسی سوچ کی ضرورت تھی جو اس کو کائونٹر کر سکے اور یہ ڈی سینٹر لائزیشن ہو سکتی تھی مگر ہم نے مضبوط مرکز پر زور دیا۔ اس زمانے میں بھی جنرل پیرزادہ نے مجھ سے پوچھا تو میں نے کہا تھا کہ آپ محل کی تلاش میں ہیں جھونپڑی مل رہی ہے، اسے لے لیں، کمزور مرکز کے ذریعے رشتہ قائم رکھیں۔ آہستہ آہستہ یہ پھر مضبوط ہو سکتا ہے۔ اب بھی مضبوط مرکز کا بھوت دماغوں پر سوار ہے جس کی وجہ سے مسائل حل نہیں ہو رہے۔
مشرقی اور مغربی پاکستان کے لیے دفاعی حکمت عملی یہاں کی بنائی ہوئی تھی کہ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان کے ذریعے کیا جائے گا۔ یہ کہنا تو آسان ہے مگر اس پر عمل مشکل کام تھا کیوں کہ آپ کے وسائل محدود ہیں آپ یا مشرقی پاکستان میں یا مغربی پاکستان میں مضبوط رہ سکتے تھے کیوں کہ ان دنوں کشمیر یا کمیونزم کے خطرات کے باعث مغربی پاکستان میں زیادہ فوج کی ضرورت تھی اگر ہم زیادہ فوج مشرقی پاکستان میں رکھتے تو امریکا کوئی مدد دینے کو تیار نہ تھا کیونکہ اس طرح آپ ثابت نہ کر سکتے تھے کہ آپ کمیونزم کے خلاف محاذ پر ہیں۔ یوں بھی فوج زیادہ تر مغربی پاکستان ہی کی تھی ان حالات میں پیش بندی کی ایک ہی صورت تھی کہ جونہی مشرقی پاکستان کے خلاف ہندوستان نے فوج جمع کی تھی ہم اسی وقت یہاں سے حملہ کر دیتے مگر حملہ اس وقت ہوا جب مشرقی پاکستان میں ہماری فوج کی کمر ٹوٹ چکی تھی۔
یہ کہنا بھی غلط ہے کہ لڑائی صرف بارہ‘ چودہ روز ہوئی یہ لڑائی زیادہ عرصہ ہوئی اس میں شہید ہونے والوں کی تعداد بھی 1965 ء کی جنگ سے زیادہ تھی اور ایسی یونٹیں بھی تھیں جنہوں نے اس دوران ایک محاذ سے دوسرے محاذ تک جانے کے لیے چار پانچ ہزار میل سفر کیا اس طرح ہماری فوج بہت تھک چکی تھی۔
ہندوستان میں ان دنوں جو امریکی سفیر تھے ان کی یہ تھیوری بھی تھی کہ مغربی پاکستان مشرقی حصہ سے نجات پا لے تو اس کی اقتصادی حالت بہتر ہو جائے گی اس نے بھی اس وقت کے ہمارے حکمران ٹولے کی سوچ پر اثر ڈالا۔ منصوبہ بندی کمیشن کے دو بڑے صاحبان ایم ایم احمد اور ایک اور صاحب نے بھی اس کی توثیق کی۔ یہ افواہ یا الزام بھی ہے کہ چونکہ مشرقی پاکستان میں ایک بھی قادیانی نہ تھا اس لیے ان کا خیال تھا کہ ان کے مذہب کی ریاست اگر وجود میں آتی ہے تو اس میں مشرقی پاکستان رکاوٹ بن سکتا ہے اس لیے انہوں نے بھی اس خیال کی تائید کی۔
ایک پہلو اور بھی ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی جنگ کے بغیر کیوں نہ ہوئی میں اور ایڈمرل احسن نے لکھ کر تجویز بھی دی کہ پہلے ریفرنڈم کرا لیا جائے کہ کہ وہ علیحدگی چاہتے ہیں یا نہیں اس طرح علیحدگی کی کلاز ہی ختم ہو جاتی جیسے کیوبا میں 50.73 کی اکثریت نے علیحدگی کے خلاف رائے دے دی ہے۔ مشرقی پاکستان میں تو بہت اچھے مسلمان تھے صرف چند لیڈر ٹائیں ٹائیں کر رہے تھے ورنہ عوام تو اب بھی پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔ علیحدگی تو ان لوگوں کی بے ہودہ سوچ کا نتیجہ ہے جنہوں نے لڑائی مسلط کی اور جن کا یہ کہنا ہے کہ اگر میز پر علیحدہ ہوتے تو ہمیں یہ نقصان برداشت کرنا پڑتا اور رحمن سبحان کے مطالبہ کے مطابق ہمیں 72 ہزار کروڑ روپے ادا کرنے پڑتے جو ہم نے اسلام آباد، نیوی، فضائیہ، واپڈا اور اسی طرح کی دوسری مدات پر خرچ کیے تھے۔ اس طرح گویا اس وقت کا حکمران ٹولہ خوش ہو گیا کہ ہم نے 72 ہزار کروڑ روپے بچا لیے ہیں۔
آپ نے بھی کہا اور عام طور پر بھی کہا جاتا ہے کہ جس پر مجھے افسوس ہے کہ نوے ہزار فوجیوں نے ہتھیار ڈالے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ان 90 ہزار میں اس دن پیدا ہونے والا بچہ بھی شامل تھا مشرقی پاکستان میں کل 32 بٹالین فوج تھی جن کی تعداد 45 ہزار بنتی ہے رینجرز کو بھی شامل کر لیا جائے تو بھی یہ تعداد 54 ہزار بنتی ہے باقی گرفتار شدگان میں سویلین، بہاری اور فوج کے تحفظ میں آنے والے تمام لوگ 90 ہزارمیں شامل تھے لیکن فوج کو نفسیاتی دھچکے لگانے کے لیے مسلسل پروپیگنڈہ کیا جاتا رہا تاکہ فوج کو زیادہ سے زیادہ بدنام کیا جا سکے۔ ہتھیار انگریزوں نے، جاپانیوں نے اور روسیو ں نے بھی ڈالے اور 6,6 لاکھ کی تعداد میں ڈالے مگر کسی فوج کی اس قدر بدنام نہیں کیا گیا ہماری عادت ہے کہ کسی کو ڈھال بنا کر تمام الزام اس پرڈال کر فارغ ہو جاتے ہیں۔
دوسرا احساس یہ بھی ہے کہ اگر مذاکرات کے ذریعے علیحدگی ہوتی تو سارے بہاری یہاں آ جاتے جو یقینا آ جاتے کیونکہ یہ ان کا ملک ہے تیسرے یہ ہوتا کہ فوج کا اثر قائم رہتا مگر فوج کو ایسا مارنا چاہا گیا کہ یہ سر نہ اٹھا سکے اور مکمل طور پر سول غلبہ ہو حالانکہ بعض اوقات جمہوری آمریت مارشل لا سے بھی بدتر ہوتی ہے‘ ہٹلر اور مسولینی جمہوری طریقوں ہی سے منتخب ہو کر آئے‘ یہ تین وجوہ تھیں جن کے باعث میز پر مشرقی پاکستان کے بحران کا حل تلاش نہ کیا جا سکا۔
میں اس بات کی تائید کرتا ہوں کہ ہم نے سانحہ مشرقی پاکستان سے کچھ سبق نہیں سیکھا بلکہ اس کے حقائق کو توڑ مروڑ کر اپنے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا مثلاً یہ کہا جاتا ہے کہ مشرقی پاکستان بہت زیادہ فاصلے پر ہونے کی وجہ سے فوج مؤثر کردار ادا نہیں کر سکی۔ یہاں کراچی قریب ہے اس لیے یہاں وہ حالات پیدا نہیں ہو سکتے میں نے اس وقت تحریری طور پر تجویز بھیجی تھی کہ اقتدار مجیب کو دے دیا جائے‘ وہ اسلام آباد پہنچ کر آمر بن جائے گا اور مشرقی پاکستان میں پائی جانے والی نفرت اس طرح سیاسی موت مر جائے گی۔ مگر بدقسمتی سے میری بات مانی نہیں گئی۔
یہ درست ہے کہ ہندو سے زیادہ مضبوط اور بہادر ہونے کا تصور ہماری قومی نفسیات میں شامل ہے‘ لیکن شیر بہت بہادر ہوتا ہے مگر جب اس کو گولی لگتی ہے تو اس کی بہادری ڈھیر ہو جاتی ہے۔ ریڈ انڈینز امریکیوں کے مقابلے میں بہت بہادر تھے مگر ان کے پاس صرف تیر تھے جب کہ امریکیوں کے پاس رائفلیں تھیں۔ یہ بحث اپنی جگہ کہ انسان سپیریئر ہے یا مشین۔ مشرقی پاکستان میں ہمارے پاس ایف 86 طیارے تھے جو مغربی پاکستان میں مسترد کیے جا چکے تھے ان کا بھی صرف ایک اسکواڈرن وہاں بھیجا گیا جب کہ پورے مشرقی پاکستان میں ہمارے لیے صرف ایک ائر پورٹ تھا۔ 2200 میل کا طویل محاذ تھا اس کا مقابلہ چھمب جوڑیاں سے کراچی تک کے پورے محاذ سے کریں تو یہ 300 میل ہے۔ جس میں کم از کم بارہ ڈویژن انفنٹری، دو آرمڈ ڈویژن تھے ہر ایک کے پاس پانچ، پانچ رجمنٹ تھیں۔ مشرقی پاکستان میں کہنے کو تو تین ڈویژن تھے مگر توپ خانہ صرف ایک ڈویژن کے پاس تھا` ٹینک موجود نہ تھے- پہلے دن کے بعد ہوائی جہاز بھی بے کار ہو گئے تھے` یہاں سے جو دو ڈویژن ہوائی جہازوں پر مشرقی پاکستان گئے تھے ان کے پاس صرف رائفلیں تھیں۔ اس سارے اسلحہ کو 2800 میل طویل محاذ پر تقسیم کریں۔ میرا تعلق لڑنے والی فوج سے نہ تھا صرف آرٹلری کے کمانڈر کی حیثیت سے پلاننگ کی تھی لیکن میرے نزدیک یہ کہنا قطعی غلط ہے کہ مشرقی پاکستان میں فوج کو شکست ہوئی۔ ان حالات کو دیکھا جانا چاہیے جن میں یہ صورت حال رونما ہوئی، فوج کو ہمیشہ انگوٹھے کے نیچے رکھنے کے لیے یہ تک کہا گیا کہ فوجی جرنیلوں کے دماغوں میں بھوسہ بھرا ہوا ہے‘ اس طرح جتنی بے عزتی ممکن تھی کی گئی۔ بھارت کو بھی معلوم تھا کہ تمام ادارے کمزور کیے جا چکے ہیں‘ صرف فوج کو کمزور کر دیا جائے اور عوام کی نظروں میں کمتر ہو جائے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ فوج ختم تو ملک بھی ختم۔
یہ بھی کہا گیا کہ 200 بنگالی دانش وروں کو قتل کیا گیا یہ نہیں پوچھا گیا کہ یہ لوگ کب اور کہاں مرے؟ کس نے مارے؟ کیسے مارے؟ تیس لاکھ بنگالی بھائیوں کو مارنے اور دو لاکھ خواتین کی آبروریزی کے الزامات بھی لگائے گئے۔ اس ضمن میں بھی کہنا چاہوں گا کہ 54 ہزار لوگ تمام کے تمام قتل اور آبروریزی میں لگ جائیں اور شب و روز یہی کام کرتے رہیں تو بھی یہ اعداد شمار غلط ثابت ہوں گے پھر جب ہم سب جنگی قیدی بنے تو طبی معائنے کے بعد ہم سب کو مکمل طور پر فٹ قرار دیا گیا جس سے ان الزامات کے لغو ہونے کے بارے میں بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان محرکات کو دور کریں جن سے نفرت جنم لیتی ہے ایک طبقہ خود کو دوسرے سے برتر مخلوق نہ سمجھے، کسی پر ظلم نہ کیا جائے، ادارے چلائے جائیں لیکن جمہوریت یعنی حقیقی جمہوریت پر توجہ دی جائے، کوشش کی جائے کہ جس نظریہ یعنی اسلام پر ملک بنا تھا اس پر چلیں اگر ہم نے اقتصادیات پر زور نہ دیا تو ہم ختم ہو جائیں گے مگر اقتصادیات کو قومیت کی اساس نہیں بنا سکتے کوشش کی جائے کہ ہم ایک قوم بن جائیں۔
جسارت: جنرل صاحب! آخری پندرہ دنوں میں مشرقی پاکستان میں فوج کو درپیش حالات کیا تھے اس پر کچھ روشنی ڈالیں گے؟
جنرل رائو فرمان علی: فوجی لڑائی ایک ماحول میں لڑی جاتی ہے جس میں سیاسی صورت حال اہم کردار ادا کرتی ہے۔ مشرقی پاکستان میں جو سیاسی صورت حال بنائی گئی اس میں وہاں کا بچہ بچہ مغربی پاکستان کے خلاف ہو گیا اور مغربی پاکستان کی فوج کے بھی خلاف ہو گیا اس ماحول میں مشرقی پاکستان میں ہمارے فوجی تنہا رہ گئے تھے اور انتہائی مشکل حالات میں لڑ رہے تھے۔ لڑائی کی رپورٹ اگرچہ روزانہ آتی تھی مگر صحیح حالات کمانڈر ہی جان سکتے تھے۔ چین سے کچھ امید کی جا سکتی تھی مگر اس نے کہا کہ ہماری سرحد پر چالیس روسی ڈویژن فوج بیٹھی ہے کیوں کہ بھارت کا روس سے دوستی کا معاہدہ ہو چکا تھا اس لیے چین خود خطرے میں تھا۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ لڑائی کے بجائے مشرقی پاکستان سے مذاکرات کریں۔
3 دسمبر کی شام ہمیں تار ملا کہ مغربی پاکستان پر حملہ کر دیا گیا ہے‘ یہ حملہ فوجی لحاظ سے غلط تھا لیکن سیاسی لحاظ سے اس میں کوئی جارحیت نہ تھی کیوں کہ مشرقی پاکستان میں بھارت حملہ کر چکا تھا۔
جسارت: انہی حالات میں آپ نے اقوام متحدہ کو ایک تار بھیجا کہ پاکستانی فوجیوں کا تحفظ کیا جائے‘ اس وقت سیاسی فیصلہ کیوں نہ کیا گیا؟
جنرل رائو فرمان علی: اس تار میں تحفظ کی نہیں سیاسی حل تلاش کرنے ہی کی بات تھی۔ حالات بہت زیادہ خراب تھے اور اس تار میں یہ حل دیا گیا تھا کہ مشرقی پاکستان کے نمائندے حکومت پاکستان کے گورنر کے تحت حکومت بنا لیں، 9 اور 10 دسمبر تک سیاسی حل تلاش کیا جا سکتا تھا کیوں کہ دشمن کو آپ کی اندرونی کمزوری کا علم نہیں ہو سکا تھا۔ اسی دوران جنرل نیازی کو یہ تار ملا کہ ہتھیار ڈال دیں۔
جسارت: کیا ہتھیار ڈالنے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن موجود نہیں تھا؟
جنرل فرمان علی: جب تار پہنچا تو میں اور جنرل شریف نے کہا کہ یہ اجازت ہے ہتھیار ڈالنے کا حکم نہیں اس وقت تین آپشن تھے۔
-1 اقوام متحدہ کے ذریعے حل۔
-2آخری دم تک لڑائی۔
-3ہتھیار ڈال دیے جائیں۔
ہم نے کہا کہ سپاہیوں کو آخری دم تک لڑائی کی اجازت دے دیں اس پر جنرل نیازی نے کہا کہ جنرل یحییٰ خان سے بات کر کے شام کو بتائوں گا۔ شام کو انہوں نے بتایا کہ میں نے بات کی ہے چوں کہ مغربی پاکستان کے محاذ پر بھی حالات خراب ہیں اگر مغربی پاکستان میں فتح ہو رہی ہوتی تو کوئی وجہ نہ تھی کہ ہتھیار ڈالتے۔ (جاری ہے)