چھوٹے دکاندار بدحال

264

”یااللہ! سلامتیِ ایمان، سلامتیِ جان رکھیو۔ کبھی بھی کسی کا محتاج نہ کیجیو۔ یااللہ اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرما۔ یااللہ بھوک و افلاس سے محفوظ رکھیو“۔
بچپن میں جب علاقے کی مسجد میں نماز پڑھنے جایا کرتے، خاص طور پر فجر کی نماز کے بعد بڑے بوڑھے ہاتھ بلند کرکے گڑگڑاتے ہوئے ہمیشہ یہی دعا مانگتے۔ اگر کوئی اور دعائیں مانگی جاتیں تو وہ بے روزگاروں کے لیے روزگار، کاروبار میں ترقی اور رزقِ حلال میں برکت سے متعلق ہوا کرتیں۔ گھر کے بزرگ، خاص طور پر خواتین بچوں کو دل لگا کر کام کرنے اور فضولیات سے بچنے کا درس دیتیں۔ اُس زمانے میں ہر دوسرا شخص یا تو اچھی تعلیم حاصل کرنے کی جستجو کرتا، یا پھر کسی بھی پیشے یا چھوٹے کاروبار سے منسلک ہوکر اپنے گھر کی کفالت کے فرائض انجام دینے لگتا۔ یوں پاکستان میں نہ صرف تعلیمی میدان میں، بلکہ کاروباری سرگرمیوں میں بھی غیر معمولی ترقی ہونے لگی جس سے لوگوں کی زندگی میں بہتری کے نمایاں اثرات مرتب ہونے لگے۔ اس معاشی تبدیلی کے پیچھے جہاں تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں کا کردار تھا، وہیں چھوٹے دکان داروں کا بھی بڑا اہم حصہ رہا۔ ایسے ہی ایک چھوٹے کاروباری ہمارے دوست بھی ہیں جو گزشتہ پانچ دہائیوں سے شادی بیاہ کے لیے تیار کیے جانے والے شرارے، غرارے اور ساڑھیاں بنانے کے ساتھ ساتھ ان پر لگائے جانے والے میٹریل کی دکان بھی کرتے ہیں۔ طاہر بھائی چونکہ انتہائی نفیس شخصیت کے مالک اور خاصے مہمان نواز ہیں، اس لیے میں اکثرو بیشتر اُن کی دکان پر چلا جاتا ہوں۔ گھریلو مصروفیات کے باعث بہت عرصے تک اُن سے نہ مل سکا، اگر یہ کہا جائے کہ میں دو ڈھائی سال بعد ملا تو غلط نہ ہوگا۔ خیر میں جوں ہی اُن کی دکان پر پہنچا، دکان کا آدھا شٹر بند تھا، جس سے اندازہ ہوا کہ طاہر بھائی شاید نماز کو گئے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں تھا، پڑوس کی دکان سے معلوم کرنے پر پتا چلا کہ یہ اُن کا روز کا معمول ہے، طاہر بھائی دکان کھولتے ہیں اور آدھا شٹر گراکر نہ جانے کہاں غائب ہوجاتے ہیں! پڑوسی دکان دار کی بات سن کر مجھے تشویش ہوئی، میں نے فوراً موبائل فون پر رابطہ کیا، اور پندرہ منٹ میں ہی وہ دکان پر آگئے۔ ایک دوسرے کا حال احوال پوچھنے کے بعد ہم گپ شپ کرنے لگے۔ اس سے پہلے کہ مزید گفتگو کرتے، میں نے ان سے پوچھا:
”کیا بات ہے، آج کل دکان پر وقت نہیں دیتے، خیریت تو ہے؟“
طاہر بھائی نے یک دم جواب دیا: ”ہاں بس ایسا ہی ہے۔“
”کیوں بھئی! تم تو وقت کے پابند تھے، آندھی آئے یا طوفان… تمہاری دکان کبھی بند نہ ہوئی۔ آخر ایسا کیا ہوا جو غائب رہتے ہو؟“
”چھوڑو یار کوئی اور بات کرو۔ اپنے بارے میں بتاؤ اتنا عرصہ کہاں غائب رہے؟“
”یہ بات میں کیسے چھوڑ دوں! بھائی پہلے تم مجھے بتاؤ کہ یہ کیا چکر ہے!“
”کیا بتاؤں، کاروبار نہیں ہے، جب گاہک نہ ہو تو دکان پر ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے سے بہتر ہے کچھ ایسا کیا جائے جس سے دو پیسوں کا آسرا ہوجائے، بس اسی چکر میں بھاگ دوڑ کرتا رہتا ہوں۔“
”لیکن تمہارا کام تو اچھا تھا، اب تمہاری باتوں سے ناامیدی اور ندامت چھلک رہی ہے!“
”ہاں کسی زمانے میں یہ کاروبار اچھا تھا، اب مہنگائی کی وجہ سے لوگوں نے شادی بیاہ کے ملبوسات پر بھی بھاری کام کرانا چھوڑ دیا ہے، ایسے حالات میں عام گاہک کہاں سے خریداری کرسکتا ہے! اس لیے یہ کاروبار تقریباً ختم ہی ہوچکا ہے۔ میری چھوڑو، جب سے یہ حکومت آئی ہے چھوٹے کاروباری تو تباہ ہوکر رہ گئے ہیں، صرف بڑے گروپس اور بلڈرز کی چاندی ہے۔ ہماری حالت تو یہ ہے کہ صبح سے شام تک صرف مکھیاں ہی مار رہے ہیں۔ تم یقین مانو غربت نے کمر توڑ کر رکھ دی ہے، سمجھ میں نہیں آتا کیا کروں، کس طرح اپنے اور اپنے خاندان کے لیے دو وقت کی روٹی پیدا کروں! بڑھتی ہوئی مہنگائی نے زندگی اجیرن کردی ہے۔ تم اندازہ لگاؤ ایک کلو آٹا 70 روپے تک پہنچ گیا ہے اور ملاوٹ کے بغیر گھی 400روپے فی کلو۔ چینی، گوشت، دالیں اور دیگر اشیائے خور و نوش کی قیمتیں دن بدن بڑھ رہی ہیں۔ ہم یہ سارے اخراجات کس طرح پورے کریں! بس اللہ کا ہی آسرا ہے۔ حکومت تو اپنی کرپشن اور لوٹ مار میں لگی ہوئی ہے۔ جھوٹے وعدے اور دعوے سن سن کر کان پک چکے ہیں۔ یہ ملک اناڑیوں کے سپرد کردیا گیا ہے، کسی کو بھی عوام کی فکر نہیں۔ حکمران طبقہ مزے میں ہے۔ کبھی آدھی روٹی کھانے اور کبھی چینی کم استعمال کرنے کے مشورے دیے جارہے ہیں۔ کبھی صحت کارڈ، تو کبھی انکم سپورٹ کارڈ کے نام پر بے وقوف بنایا جارہا ہے۔ ساری قوم کو اے ٹی ایم کارڈ بنایا جارہا ہے۔ مجھے لگتا ہے جلد ہی ماضی کی طرح راشن کارڈ بنانے کے احکامات بھی جاری ہونے والے ہیں، جبکہ ان کی اپنی عیاشیوں میں کوئی کمی نہیں آرہی۔ مہنگائی سے تو ہم جیسا غریب متاثر ہوا ہے، متوسط طبقے کی حالت بھی اب انتہائی خراب ہوچکی ہے، یہ طبقہ بھی غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ اشیائے ضروریہ کے نرخ روز بڑھ رہے ہیں۔ جن کی اپنی چھت نہیں اُن کے حالات تو اور زیادہ خراب ہیں۔ مکان کے کرایوں میں گزشتہ ایک سال میں بڑا اضافہ ہوچکا ہے۔ اشیائے خور و نوش پر اٹھنے والے اخراجات ہر خاندان کے دُگنے ہو چکے ہیں۔ بچوں کو پڑھانا بھی ممکن نہیں رہا۔ سرکاری درس گاہوں کی حالتِ زار تو پہلے ہی خراب تھی۔ اگر دیکھنا ہو تو کسی بھی پرائیویٹ اسکول میں جاکر دیکھیں جہاں بچوں کی ایک بڑی تعداد مہنگے سے سستے اسکولوں میں شفٹ ہورہی ہے۔ لوگ اب فیس دینے کی بھی سکت نہیں رکھتے۔ عام آدمی پہلے 30 فیصد رقم اشیائے خور و نوش کی خرید پر صرف کرتا تھا، اب50 فیصد سے زائد خرچ کرتا ہے۔ باقی ضروریاتِ زندگی مثلآً بجلی کے بل، دوائیوں کی خریداری سمیت زندگی کی گاڑی چلانے کے لیے دیگر لوازمات کی ایک لمبی فہرست ہے، جس کا روزمرہ کی بنیاد پر عام آدمی کو سامنا ہے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے ملک کے لاکھوں نوجوان تعلیم حاصل کرنے کے باوجود بے روزگار ہیں۔ ایسے نوجوان معاشی تنگ دستی کے باعث تیزی کے ساتھ جرائم کرنے، انتہا پسندی کی جانب راغب ہونے، یا پھر خودکشی کرنے پر مجبور ہیں جو کسی بھی ملک اور معاشرے کے لیے انتہائی خطرناک بات ہے۔“
طاہر بھائی کی زبانی چھوٹے دکان داروں کے معاشی و کاروباری حالات کا سن کر انتہائی دکھ ہوا، جبکہ ان کی جانب سے کی جانے والی باتوں یا یوں کہیے کہ ملک میں بڑھتی مہنگائی اور بے روزگاری کے باعث ایک عام شہری کی کسمپرسی کی داستان سن کر جی بھر آیا۔ طاہر بھائی کی ایک ایک بات سولہ آنے درست ہے۔ ملک میں مہنگائی، بے روزگاری اور لاقانونیت عروج پر پہنچ چکی ہیں اور حکمران سب اچھا ہے کی گردان کرنے میں مصروف ہیں۔ اس ظلم و زیادتی کے خلاف اور اپنے جائز حقوق کے لیے عوام کو آواز بلند کرنی ہوگی۔ آخر کب تک ہم اس اشرافیہ کی جانب سے دکھائے جانے والے حسین خوابوں کے سحر میں جکڑے رہیں گے! قوم کو وڈیروں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے گھر کی لونڈی بنے اس رائج نظام کے خلاف اپنے اور اپنی آنے والی نسلوں کے بہترین مستقبل کے لیے اٹھ کھڑا ہونا ہوگا۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہماری ذمے داری ہے کہ ہم میں سے جنہیں رب نے دیا ہے انہیں چاہیے کہ وہ اپنے اردگرد رہنے والے لوگوں کی خبر گیری کریں۔ جو لوگ پریشانی کا شکار ہیں، خاص طور پر وہ گھرانے جو کسی کے سامنے دست ِسوال دراز کرنے سے عاجز وقاصر رہتے ہیں اور ایسے حالات میں بھی اپنے رشتے داروں،پڑوسیوں اور دوستوں سے مدد نہیں مانگتے اُن کے حالات کا ضرور جائزہ لیں، ان کے اچھے لباس اور مسکراتے چہروں سے دھوکے میں نہ آئیں بلکہ اُن کی ضروریات کا خاموشی سے مداوا کریں، کیونکہ اپنی ضروریات کا اظہار کرنے والے لوگ تو کچھ نہ کچھ کہیں نہ کہیں سے حاصل کرلیتے ہیں مگر ایسے گھرانے اپنی عزت بچانے کی خاطر اپنے گھروں میں قید ہوکر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
آخر میں اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ خدا ہمارے حکمرانوں کو وہ دل عطا فرمائے جو غریبوں کے درد میں دھڑکے، اور ایسی آنکھوں سے نوازے جن سے ملک میں بڑھتی غربت، بے روزگاری اور بھوک و افلاس سے بلکتے بچے دکھائی دیں۔

حصہ