زکوٰۃ کی حقیقت

برادرانِ اسلام! پچھلے خطبے میں بیان کر چکا ہوں کہ نماز کے بعد اسلام کا سب سے بڑا رکن زکوٰۃ ہے اور یہ اتنی بڑی چیز ہے کہ جس طرح نماز سے انکار کرنے والے کو کافر ٹھرایا گیا ہے اسی طرح زکوٰۃ سے انکار کرنے والوں کو بھی نہ صرف کافر ٹھرایا گیا بلکہ ان پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بالاتفاق جہاد کیا۔
اب میں آج کے خطبے میں آپ کے سامنے زکوٰۃ کی حقیقت بیان کروں گا تاکہ آپ کو معلوم ہو کہ یہ زکوٰۃ دراصل ہے کیا چیز ہے اور اسلام میں اس کو اتنی اہمیت کیوں دی گئی ہے۔
اللہ کا تقرب کیسے حاصل ہوتا ہے؟
عقل و دانش کا امتحان:
آپ میں سے بعض لوگ تو ایسے سیدھے سادھے ہوتے ہیں جو ہر کس و ناکس کو دوست بنا لیتے ہیں اور کبھی دوست بناتے وقت آدمی کو پرکھتے نہیں کہ وہ واقعی میں دوست بنانے کے قابل بھی ہے یا نہیں۔ ایسے لوگ دوستی میں اکثر دھوکا کھا جاتے ہیں اور بعد میں ان کو بڑی مایوسیوں کا سامنا ہوتا ہے۔ لیکن جو عقل مند لوگ ہیں وہ جن لوگوں سے ملتے ہیں ان کو خوب پرکھ کر‘ ہر طریقے سے جانچ پڑتال کرکے دیکھتے ہیں پھر جو کوئی ان میں سے سچا‘ مخلص‘ وفادار آدمی ملتا ہے صرف اسی کو دوست بناتے ہیں اور بے کار آدمیوں کو چھوڑ دیا کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ سب سے بڑھ کر حکیم و دانا ہے۔ اُس سے یہ امید کیسے کی جاسکتی ہے کہ وہ ہر کس و ناکس کو اپنا دوست بنا لے گا‘ اپنی پارٹی میں شامل کر لے گا اور اپنے دربار میں عزت اور قربت کی جگہ دے گا۔ جب انسانوں کی دانائی و عقل مندی کا تقاضا یہ ہے کہ وہ بغیر جانچے اور پرکھے کسی کو دوست نہیں بناتے تو اللہ‘ جو ساری دانائیوں اور حکمتوں کا سرچشمہ ہے‘ ناممکن ہے کہ وہ جانچنے اور پرکھنے کے بغیر ہر ایک کو اپنی دوستی کا مرتبہ بخش دے۔ یہ کروڑوں انسان‘ جو زمین پر پھیلے ہوئے ہیں‘ جن میں ہر قسم کے آدمی پائے جاتے ہیں‘ اچھے اور برے‘ سب کے سب اس قابل نہیں ہو سکتے کہ اللہ کی پارٹی میں‘ اس حزب اللہ میں شامل کر لیے جائیں جسے اللہ تعالیٰ دنیا میں اپنی خلافت کا مرتبہ اور آخرت میں تقرب کا مقام عطا کرنا چاہتا ہے۔ اللہ نے کمال درجہ حکمت کے ساتھ چند امتحان‘ چند آزمائشیں‘ چند معیار جانچنے اور پرکھنے کے لیے مقرر کر دیے ہیں کہ انسانوں میں سے جو کوئی ان پر پورا اترے‘ وہ تو اللہ کی پارٹی میں آجائے اور جو ان پر پورا نہ اترے وہ خود بخود اس پارٹی سے الگ ہو کر رہ جائے اور وہ خود بھی جان لے کہ اس پارٹی میں شامل ہونے کے قابل نہیں ہوں۔
یہ معیار کیا ہیں؟ اللہ تعالیٰ چونکہ حکیم و دانا ہے اس لیے سب سے پہلا امتحان وہ آدمی کی حکمت و دانائی کا ہی لیتا ہے۔ یہ دیکھتا ہے کہ اس میں سمجھ بوجھ بھی ہے یا نہیں؟ نرا احمق تو نہیں ہے؟ اس لیے کہ جاہل اور بے وقوف کبھی دانا اور حکیم کا دوست نہیں بن سکتا۔ جوشخص اللہ کی نشانیوںکو دیکھ کر پہچان لے کہ وہی میرا مالک اور خالق ہے‘ اس کے سوا کوئی معبود‘ کوئی پروردگار‘ کوئی دعائیں سننے اور مدد کرنے والا نہیں ہے‘ اور جو شخص اللہ کے کلام کو سن کر جان لے کہ یہ میرے مالک ہی کا کلام ہے کسی اور کا کلام نہیں ہوسکتا‘ اور جو شخص سچے نبی اور جھوٹے مدعیوں کی زندگی‘ ان کے اخلاق‘ ان کے معاملات‘ ان کی تعلیمات‘ ان کے کارناموں کے فرق کو ٹھیک ٹھیک سمجھے اور پہچان جائے کہ نبوت کا دعویٰ کرنے والوں میں سے فلاں ذاتِ پاک تو حقیقت میں خدا کی طرف سے ہدایت بخشنے کے لیے آئی ہے‘ اور فلاں دجّال ہے‘ دھوکا دینے والا ہے۔ ایسا شخص دانائی کے امتحان میں پاس ہو جاتا ہے‘ اور اس کو انسانوں کی بھیڑ بھاڑ سے الگ کرکے اللہ تعالیٰ اپنے پارٹی کے منتخب امیدواروں میں شامل کر لیتا ہے‘ باقی جو لوگ پہلے ہی امتحان میں فیل ہو جاتے ہیں‘ ان کو چھوڑ دیا جاتا ہے کہ جدھر چاہیں بھٹکتے پھریں۔
اخلاقی قوت کی آزمائش:
اس پہلے امتحان میں جو امیدوار کامیاب ہو جاتے ہیں‘ انہیں پھر دوسرے امتحان میں شریک ہونا پڑتا ہے۔ اس دوسرے امتحان میں آدمی کی عقل کے ساتھ اس کی اخلاقی طاقت کو بھی پرکھا جاتا ہے۔ یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس آدمی میں سچائی اور نیکی کو جان کر اسے قبول کر لینے اور اس پر عمل کرنے کی اور جھوٹ اور بدی کو جان کر اسے چھوڑ دینے کی طاقت بھی ہے یا نہیں؟ یہ اپنے نفس کی خواہشات کا‘ باپ دادا کی تقلید کا‘ خاندانی رسموں کا‘ دنیا کے عام خیالات اور طور طریقوں کا غلام تو نہیں ہے؟ اس میں یہ کمزوری تو نہیں ہے کہ ایک چیز کو خدا کی ہدایت کے خلاف پاتا ہے اور جانتا ہے کہ وہ بری ہے‘ مگر پھر بھی اسی کے چکر میں پڑا رہتا ہے اور دوسری چیز اس کو جانتا ہے کہ خدا کے نزدیک وہی حق اور پسندیدہ ہے‘ مگر اس پر بھی اسے قبول نہیں کرتا؟ اس امتحان میں جو لوگ فیل ہو جاتے ہیں‘ انہیں بھی اللہ تعالیٰ اپنی پارٹی میں لینے سے انکار کر دیتا ہے اور صرف ان لوگوں کو چنتا ہے جن کی تعریف یہ ہے کہ ’’جو کوئی طاغوت کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لے آیا‘ اس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں۔‘‘ (البقرہ: 256:2)
یعنی خدا کی ہدایت کے خلاف جو راستہ اور جو طریقہ بھی ہو‘ اُسے وہ جرأت کے ساتھ چھوڑ دیں‘ کسی چیز کی پروا نہ کریں اور صرف اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کے لیے تیار ہو جائیں خواہ اس پر کوئی ناراض ہو یا خوش۔
اطاعت و فرماں برداری کی پرکھ:
اس امتحان میں جو لوگ کامیاب نکلتے ہیں اُن کو پھر تیسرے مرتبے کا امتحان دینا پڑتا ہے۔ اس درجے میں اطاعت اور فرماں برداری کا امتحان ہے۔ یہاں حکم دیا جاتا ہے کہ جب ہماری طرف سے ڈیوٹی کی پکار بلند ہو تو اپنی نیند قربان کرو اور حاضر ہو۔ اپنے کام کاج کا حرج کرو اور آئو۔ اپنی دلچسپیوں کو‘ اپنے فائدوں کو‘ اپنے لطف اور تفریح کو چھوڑو اور آکر فرض بجا لائو۔ گرمی ہو‘ جاڑا ہو‘ کچھ ہو‘ بہرحال جب فرض کے لیے پکارا جائے تو ہر مشقت کو قبول کرو اور دوڑتے ہوئے آئو۔ پھر جب ہم حکم دیں کہ صبح سے شام تک بھوکے پیاسے رہو اور اپنے نفس کی خواہشات کو روکو‘ تو اس حکم کی پوری پوری تعمیل ہونی چاہیے خواہ بھوک پیاس کی کیسی ہی تکلیف ہو‘ اور چاہے لطیف کھانوں اور مزے دار شربتوں کے ڈھیر ہی سامنے کیوں نہ لگے ہوں‘ جو لوگ اس امتحان میں کچے نکلتے ہیں اُن سے بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ تم ہمارے کام کے نہیں ہو۔ انتخاب صرف ان لوگوں کا ہوتا ہے جو اس تیسرے امتحان میں پکے ثابت ہوتے ہیں کیوں کہ صرف انہی سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ خدا کی طرف سے جو قوانین ان کے لیے بنائے جائیں گے اور جو ہدایات ان کو دی جائیں گی‘ وہ خفیہ اور علانیہ‘ فائدے اور نقصان‘ راحت اور تکلیف ہر حال میں ان کی پابندی کرسکیں گے۔
مالی قربانی کی جانچ:
اس کے بعد چوتھا امتحان مال کی قربانی کا لیا جاتا ہے۔ تیسرے امتحان کے کامیاب امیدوار ابھی اس قابل نہیں ہوئے کہ خدا کی ملازمت میں باقاعدہ لے لیے جائیں۔ ابھی یہ دیکھنا ہے کہ کہیں وہ چھوٹے دل کے پست ہمت‘ کم حوصلہ‘ تنگ ظرف تو نہیں ہیں؟ ان لوگوں میں سے تو نہیں ہیں جو محبت اور دوستی کے دعوے تو لمبے چوڑے کرتے ہیں‘ مگر اپنے محبوب اور دوست کی خاطر جب گرہ سے کچھ خرچ کرنے کا وقت آتا ہے تو کہتے ہیں کہ ’’گرزر طلبی سخن دریں ست۔‘‘ (اگر تو دولت مانگتا ہے تو بات اسی میں ہے۔) ان کا حال اس شخص کا سا تو نہیں ہے جو زبان سے تو ماتا جی ماتا جی کہتا ہے اور ماتا جی کی خاطر دنیا بھر سے جھگڑا بھی لیتا ہے‘ مگر جب وہی ماتا جی اس کے غلے کی ٹوکری یا اس کی سبزی کے ڈھیر پر منہ مارتی ہے تو لٹھ لے کر ان کے پیچھے دوڑتا ہے اور مار مار کا ان کی کھال اڑا دیتا ہے؟ ایسے خود غرض‘ زرپرست‘ تنگ دل آدمی کو تو معمولی درجے کا عقل مند انسان بھی دوست نہیں بناتا اور ایک بڑے دل والا انسان اس قسم کے ذلیل آدمی کو اپنے پاس جگہ دینا بھی پسند نہیں کرتا۔ پھر بھلا وہ بزرگ و برتر خدا‘ جو اپنے خزانے ہر آن اپنی بے حد و حساب مخلوق پر بے حد و حساب طریقے سے لٹا رہا ہے‘ ایسے شخص کو اپنی دوستی کے قابل کب سمجھ سکتا ہے جو خدا کے دیے ہوئے مال کو خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہوئے بھی جی چراتا ہو؟ اور وہ خدا‘ جس کی دانائی و حکمت سب سے بڑھ کر ہے‘ کس طرح اس انسان کو اپنی پارٹی میں شامل کر سکتا ہے جس کی دوستی و محبت فقط زبانی جمع خرچ تک وہ اور جس پر کبھی بھروسا نہ کیا جاسکتا ہو؟ پس جو لوگ اس چوتھے امتحان میں فیل ہو جاتے ہیں ان کو بھی صاف جواب دے دیا جاتا ہے کہ جائو‘ تمہارے لیے اللہ کی پارٹی میں جگہ نہیں ہے‘ تم بھی ناکارہ ہو اور تم اس عظیم الشان خدمت کا بار سنبھالنے کے قابل نہیں ہو جو خلیفہ الٰہی کے سپرد کی جاتی ہے‘ اس پارٹی میں تو صرف وہ لوگ شامل کیے جاسکتے ہیں جو اللہ کی محبت پر جان‘ مال‘ اولاد‘ خاندان‘ وطن‘ ہر چیز کی محبت کو قربان کردیں۔
’’تم نیکی کے مقام کو نہیں پاسکتے جب تک کہ وہ چیزیں خدا کی راہ میں قربان نہ کرو جن سے تم کو محبت ہے۔‘‘ (آل عمران۔ 92:3)
حِزبُ اللہ کے لیے مطلوبہ اوصاف
-1 تنگ دل نہ ہوں:
اس پارٹی میں تنگ دلوں کے لیے جگہ نہیں ہے۔ اس میں تو صرف وہی لوگ داخل ہو سکتے ہیں جن کے دل بڑے ہیں۔ ارشاد ہوا ’’جو لوگ دل کی تنگی سے بچ گئے وہی فلاح پانے والے ہیں۔‘‘ (الحشر 9:59)
-2 فراخ حوصلہ ہوں:
یہاں تو ایسے فراخ حوصلہ لوگوں کی ضرورت ہے کہ اگر کسی شخص نے ان کے ساتھ دشمنی بھی کی ہو‘ ان کو نقصان اور رنج بھی پہنچایا ہو‘ ان کے دل کے ٹکڑے بھی اُڑا دیے ہوں‘ تب بھی وہ خدا کی خاطر اس کے پیٹ کو روٹی اور اس کے تن کو کپڑا دینے سے انکار نہ کریں اور اس کی مصیبت کے وقت میں اس کی مدد سے دریغ نہ کریں۔ اس بارے میں فرمایا گیا:
’’تم میں سے جو خوش حال اور صاحب مقدرت لوگ ہیں‘ وہ اپنے عزیزوں اور مساکین اور خدا کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کی مدد سے ہاتھ نہ کھینچ لیں‘ بلکہ چاہیے کہ ان کو معاف کریں اور درگزر کریں‘ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں بخشے؟ حالانکہ اللہ بڑا بخشنے والا اور رحم کرنا والا ہے۔ (النور 22:24) (یہ آیت اس موقع پر نازل ہوئی تھی جب حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک عزیز نے آپ کی صاحب زادی ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر الزام لگانے میں حصہ لیا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ نے اس ناروا حرکت سے ناراض ہو کر اس کی مالی مدد بند کر دی تھی۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت ابوبکرؓ کانپ اٹھے اور انہوں نے کہا کہ میں اپنے خدا کی بخشش چاہتا ہوں اور اس شخص کی پھر مدد شروع کر دی جس نے ان کو اس قدر سخت روحانی اذیت پہنچائی تھی۔)
-3 عالی ظرف ہوں:
یہاں ان عالی ظرف لوگوں کی ضرورت ہے جو ’’محض خدا کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم صرف خدا کے لیے تمہیں کھلا رہے ہیں تم سے کوئی بدلہ یا شکریہ نہیں چاہتے۔‘‘ (الدھر 8-9:76)
-4 پاک دل ہوں:
یہاں اُن پاک دل والوں کی ضرورت ہے جو خدا کی دی ہوئی دولت میں سے خدا کی راہ میں بہتر سے بہتر مال چھانٹ کر دیں۔ اس بارے میں ارشاد ہوا:
’’اے ایمان والو! تم نے جو مال کمائے ہیں اور جو رزق تمہارے لیے ہم نے زمین سے نکالا ہے اس میں سے اچھا مال راہِ خدا میں صَرف کرو‘ برے سے برا چھانٹ کر نہ دو۔‘‘ (البقرہ۔ 267:2)
تنگ دستی اور غربت میں بھی خرچ کریں:
یہاں اُن بڑی ہمت والوں کی ضرورت ہے جو تنگ دستی اور غربت و افلاس کی حالت میں بھی اپنا پیٹ کاٹ کر خدا کے دین کی خدمت اور خدا کے بندوں کی مدد میں روپیہ صَرف کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ اس بارے میں فرمایا گیا:
’’اپنے پروردگار کی مغفرت اور اس جن کی طرف لپکو جس کی وسعت زمین و آسمان کے برابر ہے‘ اور جو تیار کرکے رکھی گئی ہے ان پرہیز گاروں کے لیے جو خوش حالی اور تنگ حالی‘ دونوں حالتوں میں خدا کے لیے خرچ کرتے ہیں۔‘‘(آل عمران۔ 134-133:3)
-6 سخاوت پیشہ ہوں:
یہاں اُن ایمان داروں کی ضرورت ہے جو سچے دل سے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جو کچھ خدا کی راہ میں خرچ کیا جائے گا وہ ضائع نہ ہوگا‘ بلکہ خدا دنیا اور آخرت میں اس کا بہترین بدل عطا فرمائے گا‘ اس لیے وہ محض خدا کی خوشنودی کی خاطر خرچ کرتے ہیں۔ اس بات کی کوئی پروا نہیں کرتے کہ لوگوں کو ان کی فیاضی و سخاوت کا حال معلوم ہوا‘ یا نہیں اور کسی نے ان کی بخشش کا شکریہ ادا کیا یا نہیں۔ چنانچہ قرآن میں ارشاد ہوا:
’’تم جو کچھ بھی راہِ حق میں کرچ کرو گے وہ تمہارے ہی لیے بھلائی ہے جب کہ تم اپنے اس خرچ میں خدا کے سوا کسی اور کی خوشنودی نہیں چاہتے۔ اس طرح جو کچھ بھی تم کارِ خیر میں صَرف کرو گے اس کا پورا پورا فائدہ تم کو ملے گا اور تمہارے ساتھ ذرّہ برابر ظلم نہ ہوگا۔‘‘ (البقرہ۔ 272:2)
-7 ہر حال میں خدا کو یاد رکھیں:
یہاں اُن بہادروں کی ضرورت ہے جو دولت مندی اور خوش حالی میں بھی خدا کو نہیں بھولتے‘ جن کو محلوں میں بیٹھ کر اور ناز و نعمت میں رہ کر بھی خدا یاد رہتا ہے۔ ارشاد ہوا ’’اے ایمان والو! تمہارے مال اور تمہاری اولادیں تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دیں۔ جو لوگ ایسا کریں وہی خسارے میں رہنے والے ہیں۔‘‘ (المنافقون۔ 9:63)
یہ اللہ کی پارٹی میں شامل ہونے والوں کی لازمی صفات ہیں۔ ان کے بغیر کوئی شخص خدا کے دوستوں میں شامل نہیں ہو سکتا دراصل یہ انسان کے اخلاق ہی کا نہیں بلکہ اس کی ایمان کا بھی بہت بڑا اور سخت امتحان ہے۔ جو شخص خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے جی چراتا ہے‘ اس خرچ کو اپنے اوپر چٹی اور جرمانہ سمجھتا ہے۔ حیلوں اور بہانوں سے بچائو کی صورتیں نکالتا ہے‘ اور اگر خرچ کرتا ہے تو اپنی تکلیف کا بخار لوگوں پر احسان رکھ کر نکالنے کی کوشش کرتا ہے‘ یا یہ چاہتا ہے کہ اس کی سخاوت کا دنیا میں اشتہار دیا جائے‘ وہ دراصل خدا اور آخرت پر ایمان ہی نہیں رکھتا‘ وہ سمجھتا ہے کہ خدا کی راہ میں جو کچھ گیا وہ ضائع ہوگیا۔ اس کو اپنا عیش‘ اپنا آرام‘ اپنی لذتیں‘ اپنے فائدے اور اپنی نام وری‘ خدا سے اور اس کی خوشنودی سے زیادہ عزیز ہوتی ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ ہے یہی دنیا کی زندگی ہے۔ اگر روپیہ صَرف کیا جائے تو اسی دنیا میں نام وری اور شہرت ہونی چاہیے تاکہ اس روپے کی قیمت یہیں وصول ہو جائے‘ ورنہ اگر روپیہ گیا اور کسی کو یہ بھی معلوم نہ ہوا کہ فلاں صاحب نے فلاں کارِ خیر میں اتنا مال صَرف کیا ہی تو گویا سب مٹی میں مل گیا۔ قرآن مجید میں صاف فرما دیا گیا ہے کہ اس قسم کا آدمی خدا کے کام کا نہیں‘ وہ اگر ایمان کا دعویٰ کرتا ہے تو منافق ہے۔ چنانچہ آیات ذیل ملاحظہ ہوں:
(باقی صفحہ نمبر 10)
-8 احسان نہ جتلائیں:
’’اے ایمان لانے والو! اپنی خیرات کو احسان رکھ کر اور اذیت پہنچا کر ضائع نہ کر دو‘ اس شخص کی طرح جو محض لوگوں کو دکھانے اور نام چاہنے کے لیے خرچ کرتا ہے اور اللہ اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتا۔‘‘ (البقرہ۔ 264:2)
-9 مال جمع نہ کریں:
’’جو لوگ سونا اور چاندی جمع کر کر کے رکھتے ہیں اور اسے خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں سخت سزا کی بشارت دے دو۔‘‘ (التوبۃ۔ 34:9)
-10 اللہ کی راہ میں رخصت طلب نہ کریں:
’’اے نبیؐ! جو لوگ اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ توکبھی نہ چاہیں گے کہ انہیں اپنی جان و مال کے ساتھ جہاد میں حصہ لینے سے معاف رکھا جائے۔ اللہ اپنے متقی بندوں کو خوب جانتا ہے۔ معذرت صرف وہ لوگ طلب کرتے ہیں جو اللہ اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتے‘ جن کے دلوں میں شک ہے اور وہ اپنے شک ہی میں متردد ہو رہے ہیں۔‘‘ (التوبۃ۔ 44-45:9)
-11 راہِ خدا میں خوش دلی سے اطاعت کریں:
’’راہِ خدا میں ان کے خرچ کیے ہوئے مال صرف اس لیے قبول نہیں کیے جاسکتے کہ وہ دراصل اللہ اور رسولؐ پر ایمان نہیں رکھتے۔ نماز کو آتے ہیں تو دل برداشتہ ہو کر اور مال خرچ کرتے ہیں تو ناک بھوں چڑھا کر۔‘‘ (التوبۃ۔ 54:9)
منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ وہ بدی کا حکم دیتے ہیں اور نیکی سے منع کرتے ہیں اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرنے سے ہاتھ روکتے ہیں۔ وہ خدا کو بھول گئے اور خدا نے ان کو بھلا دیا‘ یقینا یہی منافقین فاسق ہیں۔
-12 اِنفاق فی سبیل اللہ کو چٹی نہ سمجھیں:
’’ان اعراب (یعنی منافقین) میں سے بعض وہ لوگ بھی ہیں جو راہِ خدا میں خرچ کرتے بھی ہیں تو زبردستی کو چٹی سمجھ کر۔‘‘ (التوبۃ 98:9)
-13 بخیل نہ ہوں:
سن رکھو! تم لوگ ایسے ہو کہ تم کو راہِ خدا میں خرچ کرنے کے لیے کہا جاتا ہے تو تم میں سے بہت سے لوگ بخل کرتے ہیں اور جو کوئی اس کام میں بخل کرتا ہے وہ خود اپنے ہی لیے بخل کرتا ہے۔ اللہ تو غنی ہے‘ تم ہی اس کے محتاج ہو۔ اگر تم نے خدا کے کام میں خرچ کرنے سے منہ موڑا تو وہ تمہاری جگہ دوسری قوم کو لے آئے گا اور وہ تم جیسے نہ ہوں گے۔‘‘ (محمد 38:47)
برادرانِ اسلام! یہ ہے اس زکوٰۃ کی حقیقت جو آپ کے دین کا ایک رکن ہے۔ اس کو دنیا کی حکومتوں کے ٹیکسوںکی طرح محض ایک ٹیکس نہ سمجھیے‘ بلکہ دراصل یہ اسلام کی روح اور اس کی جان ہے۔ یہ حقیقت میں ایمان کا امتحان ہے۔ جس طرح درجہ بدرجہ امتحانات دے کر آدمی ترقی کرتا ہے‘ یہاں تک کہ آخری امتحان دے کر گریجویٹ بنتا ہے‘ اسی طرح خدا کے ہاں بھی کئی امتحان ہیں‘ جن سے آدمی کو گزرنا پڑتا ہے اور جب وہ چوتھا امتحان‘ یعنی مال کی قربانی کا امتحان کامیابی کے ساتھ دے دیتا ہے تب وہ پورا مسلمان بنتا ہے۔ اگرچہ یہ آخری امتحان نہیں ہے‘ اس کے بعد زیادہ سخت امتحان جان کی قربانی کا آتا ہے جسے میں آگے چل کر بیان کروںگا۔ لیکن اسلام کے دائرے میں یا بالفاظِ دیگر اللہ کی پارٹی میں آنے کے لیے داخلے کے جو امتحانات مقرر کیے گئے ہیں ان میں سے یہ آخری امتحان ہے۔ آج کل بعض لوگ کہتے ہیں کہ خرچ کرنے اور روپیہ بہانے کے وعظ تو مسلمانوں کو بہت سنائے جا چکے‘ اب اس غربت و افلاس کی حالت میں تو ان کو کمانے جمع کرنے کی وعظ سنانے چاہئیں‘ مگر انہیں معلوم نہیں کہ یہ چیز جس پر وہ ناک بھوں چڑھاتے ہیں دراصل یہی اسلام کی روح ہے اور مسلمانوں کو جس چیز نے پستی و ذلت کے گڑھے میں گرایا ہے وہ دراصل اسی رُوح کی کمی ہے۔ مسلمان اس لیے نہیں گرے کہ اس روح نے ان کو گرا دیا‘ بلکہ اس لیے گرے ہیں کہ یہ روح ان سے نکل گئی ہے۔ (جاری ہے۔)

حصہ