زندگی معاشرے سے جڑا ہوا ایک اٹوٹ انگ ہے۔ ہم زندہ ہیں تو ہمیں معاشرے اور اپنے ساتھ جڑے ہوئے رشتوں کے ساتھ رہنا پڑتا ہے چاہے وقت کوئی بھی حالات کوئی بھی ہوں، معاشرے اور رشتوں سے علیحدہ ہو جائیں تو جذبوں کے ساتھ انسان بھی مر جاتے ہیں۔
آج سے کچھ سال پہلے کا دور مشینی دور کہلاتا تھا لیکن آج تو دور ان مشینوں سے بھی کہیں زیادہ تیز ہو گیا ہے۔ یہ انٹرنیٹ کا دور بن گیا اب تو مشین نہیں چلانی پڑتی صرف فنگر ٹپس اور انگوٹھے کا نشان ہی زندگی کو دوڑانے کے لیے کافی ہے۔ صرف پوسٹ اور باتیں شیئر ہو جائیں تواچھا ہے لیکن عمل بھی ضروی ہے۔ کیا ہم سمجھتے ہیں کہ ہم سوچ اور عمل کو لے کر ساتھ چل رہے ہیں؟
ایک بزرگ راستے سے گزر رہے تھے۔ ایک جواں سال لڑکے نے ہاتھ میں عقیق کی انگوٹھی پہنی تھی۔ شفقت سے پوچھتے ہیں ’’بیٹا یہ انگوٹھی کیوں پہنی ہوئی ہے؟‘‘
لڑکا مسکرا کر بابا جی سے مخاطب ہوا ’’بابا جی! یہ عقیق کا پتھر ہے‘ پتا نہیں آپ کو یہ سنت رسولؐ ہے۔‘‘
’’اچھا بیٹا یہ سنتِ رسولؐ ہے۔ بابا جی مسکرائے۔
’’بیٹا! صرف پتھر پہن کر ثابت کرتے ہو سنتِ رسولؐ یا عمل بھی کرتے ہو؟‘‘
’’کیا مطلب بابا جی؟‘ لڑکے نے حیران ہو کر بابا جی کو دیکھا۔
’’مطلب یہ ہے بیٹا! ماں اور باپ کی خدمت کرتے ہو، دوسروں کو معاف کرتے ہو، کسی کا راستہ روک کر اس کی زندگی میں تنگی تو پیدا نہیں کرتے، دوسروں کی زندگیوں کو آسان بناتے ہو، راستے سے پتھر اٹھاتے ہو، کیا یہ سنتِ رسولؐ نہیں۔‘‘
بابا جی نے شفقت بھری مسکراہٹ کے ساتھ اس لڑکے کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ’’ہم خوش قسمت لوگ ہیں کہ ہمیں پریکٹیکل اسلام ملا ہے۔ سنت صرف وہی ہے جو آپ کا دماغ کہتا ہے یا وہ تمام تعلیمات بھی سنتِ ہیں جو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے مشعل راہ بنائیں۔ مسلمان ہونے کے لیئے تو صرف پانچ ارکان ماننے ضروری ہیں۔ کلمہ، نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ اور آپ کو سندمل جائے گی کہ آپ مسلمان ہو‘ مگر مکمل انسان اور مکمل مسلمان بننے کے لیے آپ کو سنت رسولؐ پر عمل کرنا انتہائی ضروری ہے۔ فرض، سنت اور نفل کو ان کی اپنی جگہ پر اہمیت دینا اور عمل کرنا سنت ہے۔ آپ کبھی نفل کو سنت اور فرض کی جگہ پر نہیں لے جا سکتے۔
دین تو آسانی پیدا کرتا ہے خیر کا رستہ اور میانہ روی دیتا ہے۔ اللہ کو بھی یاد رکھو اور دنیا داری بھی پوری کرو، کماو حلال کا رزق، خاندان کا حق ادا کرو۔
صرف سننا پڑھنا اور تبلیغ کرنا ہی دین نہیں بلکہ عملی کردار دین ہے۔ اپنی سوچ کو اتنا تنگ نہ کرو کہ آپ ان معاملات کو جو اللہ کی ذمہ ہے، اس پر لوگوں کوتولنا شروع کر دیں۔ اللہ کے کام اللہ پر چھوڑیں۔ مگر آج ہم نے روایتوں کو زندگی بنا دیا ہے جہاں ہماری معاشرتی روایات آ جاتی ہیں وہاں دین کی اہمیت کم ہو جاتی ہے۔ ہم ہر رسم و رواج کو اپنی سوچ کے مطابق بدل کر اپنی مرضی کا دین بنا دیتے ہیں۔ ہمیں کبھی احساس بھی نہیں ہوتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی سوچ کا دائرہ بدلیں تاکہ ہمارے ساتھ دوسروں کی زندگیاں بھی آسان ہوں۔‘‘