آشنا ہے کوئی دیوار نہ در اپنا ہے
پھر بھی یارو گماں ہے کہ گھر اپنا ہے
یہاں تو ہر شخص نسب نامہ طلب کرتا ہے
تم تو کہتے تھے یہ کوچۂ نگر اپنا ہے
جس کے سائے میں گزرا تھا لڑکپن اپنا
لاکھ بوسیدہ ہے وہ پیڑ مگر اپنا ہے
آج بھی میں اماں ابا کی قبر پر فاتحہ پڑھنے آئی تو ذہن میں کسی شاعر کا یہ شعر گونجا۔ یہی ہیں وہ والدین جنہوں نے آج ہمیں اس مقام تک پہنچایا ورنہ ہم خود اس قابل نہ ہوتے شاید۔ آج انعم نے اپنے ڈرائیور کے والد کو ابا کے نام پہ حج پر روانہ کیا تو میرا ذہن ماضی کو یاد کرنے لگا اور میرا دل نہیں چاہا کہ میں یہاں سے واپس لوٹوں۔
’’اماں… اماں…!‘‘
’’ارے کیا ہوا کیوں چلا رہی ہو؟‘‘ غزالہ کی دل دہلا دینے والی چیخوں کے جواب میں اماں نے جھنجلا کر پوچھا۔
’’اماں یہ کیا ہو رہا ہے‘ میں جب بھی کوئی نیا جوڑا خریدتی ہوں، انعم کی بچی بغیر اجازت کے میری غیر موجودگی میں اٹھا کر لے جاتی ہے۔ آخر کب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا، میں تنگ آگئی ہوں۔‘‘ غزالہ دروازے پہ کھڑی ایک ہی سانس میں سب بول گئی۔
’’ارے میری بچی! چھوڑو ایک تو ہم نے اتنی کم عمری میں اس کی شادی اس نکمے راشد کے ساتھ کردی۔ اب نہ تو وہ خود کچھ دلاتا ہے نہ اسے کوئی کام کرنے دیتا ہے۔ ہائے میری انعم کیا قسمت لے کر پیدا ہوئی۔‘‘ اماں نے آسمان کی جانب دیکھ کر ٹھنڈی آہ بھری۔
اماں جی بات سن کر غزالہ ناک رگڑتی کمرے سے نکل کر باورچی خانے کی طرف چل دی اور دل ہی دل میں انعم آپی کے حالات کا سوچتے ہوئے اپنے غصے پر قابو پانے لگی۔
دراصل انعم آپی کی قسمت ہی اللہ نے کچھ ہی ایسی لکھی ہے۔ پیدائش کے اگلے دن ہی کار کے حادثے میں ابا کے دونوں ٹانگیں ناکارہ ہوگئیں۔ پہلے تو ابا کی آمدنی بھی تھی اور گھر بھی اپنا تھا لیکن حادثہ کے باعث علاج اور گھر چلانے کے لیے پیسوں کی ضرورت تھی جس کی وجہ سے گھر بیچنا پڑا۔ ابا اسپتال سے فارغ ہو کر گھر تو ا ٓگئے مگر ہمیشہ کے لیے دونوں ٹانگوں سے معذور ہو چکے تھے۔ یہ وہ دن تھے جو ابا اور اماں پہ قیامت جیسے گزرے۔ اماں نے ہمت اور ایمانداری سے کام لیا اور ایک چھوٹا سا مکان کرائے پر لیا۔ ادھر اماں نے گھر میں ہی ابا کے لیے مصروفیت بھی ڈھونڈ لی، گھر میں ہی بچوں کے لیے ٹافیاں، پاپڑ ایسی کچھ دوسری چیزیں رکھ کر بیچتے رہتے۔ جس سے ابا کا وقت بھی گزرنے لگا اور کچھ پیسے بھی آنے لگے ۔
اماں انعم آپی کو نہلا دھلا کر، فیڈر بنا کر ابا کے پاس گھر میں چھوڑ کر خود بنگلوں میں کام کرتیں اور واپسی میں جو ملتا دونوں میاں بیوی مل کر کھا لیتے۔ رات کو کچھ وقت نکال کر اماں دست کاری اور سلائی کرتیں۔
جو زندگی اماں بابا کی تھی اس میں کسی چوتھے فرد کی آمد کافی مشکل لگ رہی تھی مگر اماں کو بیٹے کی خواہش نے دوسری اولاد کی شکل میں بیٹی سے نواز دیا۔ غزالہ کی آمد پر اماں خوش تو ہوئیں مگر بیٹا ہونے کی تمنا باقی رہ گئی۔ انعم حفظ القرآن کے ساتھ ہی مڈل تک پڑھ سکی۔ انعم کو بہت کم عمری میں ہی سخت حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ اب تو گھر، ابا اور غزالہ کی ذمے داری بھی انعم پر آ گئی تھی کیوں کہ حالات اور غربت نے اماں ابا دونوں کو بہت جلد بستر سے لگا دیا۔
مسلسل محنت کرنے سے امان کی آنکھوں کی روشنی ختم ہوگئی، ابا تو تھے ہی معذور اور اب تو انہیں کھانسی کے ایسے دورے پڑنے لگے کہ راتوں کی نیند اڑنے لگی۔ سارا بوجھ اور ذمے داریاں انعم کو ورثہ میں مل گئیں۔ جس طرح عمر کے اس دور میں لڑکیاں آنکھوں میں سپنے سجانے لگتی ہیں انعم کی آنکھوں سے تھکن اور فکر برسنے لگی تھی۔
ہمت اور خود داری ان دونوں لڑکیوں میں تھی۔ دھوپ نکلنے سے پہلے گھر کی صفائی کرنا۔ غزالہ کالج کے لیے نکل جاتی تو انعم گھر میں ہی دست کاری اور سلائی کرنے بیٹھ جاتی۔ انہوں نے گھر میں چھوٹا سا سینٹر بھی کھولا ہوا تھا جہاں وہ محلے کی خواتین اور اسکول نہ جانے والی لڑکیوں کو سلائی سکھاتی تھیں۔ انعم مختلف کمپنیوں سے بیڈ کور، کشن کور وغیرہ لے آتی اسے سلواتی اور معاوضہ وصول کرتی۔ اس طرح غزالہ بھی کالج سے آنے کے بعد آرام کے بجائے کئی کورسز کے سلسلے میں نکل جاتی اور شام میں محلے کے بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی۔ ساتھ ہی ساتھ بڑی بڑی کمپنیوں سے ڈیلز ہونے لگی فیشن ڈیزائنروں سے واسطہ ہونے لگا مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
اب اماں‘ ابا کو انعم کی شادی کی فکر ہونے لگی تو اتفاق سے ابا کی ایک منہ بولی بہن نے اپنے اپنے بیٹے راشد کے لیے رشتہ ڈالا جو ایک پان کا کیبن چلا رہا تھا‘ تعلیم برائے نام تھی جب کہ اسے کبوتر پالنے کا بھی بہت شوق تھا۔ جب یہ شوق جنون اختیار کرنے لگا تو اس کی اماں کو فکر ہونے لگی کہ اب کسی سمجھدار لڑکی سے راشد کی شادی کر دینی چاہیے جو گھر بھی سنبھال سکے اور راشد کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلاسکے۔ ادھر پھوپھو نے رشتہ ڈالا ادھر اماں ابا نے یہ سوچ کر انعم آپی کے لیے راشد کا رشتہ قبول کیا کہ لڑکے کا آگے پیچھے کوئی نہیں اپنا کیبن چلاتا ہے اور والد کا چھوڑا ہوا یہ مکان بھی اپنا ہے۔ ایک والدہ ہیں جو ضعیف، مہربان اور رحم دل ہیں‘ ہماری انعم تو ہے ہی سمجھدار اور صبر والی۔
اس طرح انعم کا نکاح ہوا اور سادگی سے رخصتی بھی کردی گئی۔ انعم کے اس گھر سے رخصت ہوتے ہیں دل تو دل گھر بھی ویران ہونے لگا۔ انعم نے ساس کی خدمت اور گھر کی دیکھ بھال بہت اچھی طرح سے کی۔ انعم کے میاں راشد غیر ذمے دار اور شکی مزاج تھے۔ وہ گھر اور ماں سے لاپروا تھے مگر بیوی کے ساتھ بھی بہت برا سلوک کرتے۔ کیبن پر جانے کے بجائے دن بھر گلی کے آوارہ لڑکوں کے ساتھ گزار دیتے۔ کبوتروں کی وجہ سے شور الگ مچائے رکھتے۔ انعم کو بھی کہیں جانے کی اجازت نہیں تھی۔ ادھر انعم کو یہ خوش خبری ملی کہ وہ تین مہینے کی امید سے ہیں۔ جب ماں کے گھر آئی تو غزالہ کا کبھی ایک سوٹ یا ضرورت کی کوئی چیز لے لیتی پہلے تو غزالہ کو غصہ آتا لیکن انعم کے متعلق سوچ کر وہ دکھی ہوجاتی۔
ایک دن راشد جوئے میں پان کا کیبن بھی ہار گیا۔ راشد کی والدہ ضعیف تو تھیں ہی مگر راشد کی کرتوتوں نے انہیں بھی روگ لگا دیا ۔ وہ بار بار انعم سے معافی مانگتی کہ بیٹی مجھے معاف کر دو ۔ میری وجہ سے تمہاری زندگی برباد ہوگئی۔ غزالہ ہمیشہ انعم کو دلاسہ دیتی رہتی، مگر کب تک ایسا چلتا۔ انعم کی ابتر حالت دیکھ کر اماں بھی دنیا سے رخصت ہوگئیں۔
’’حالات جیسے بھی ہوں میں ہار نہیں مانوں گی۔‘‘ غزالہ نے انعم سے کہا۔ اماں کے جانے کے بعد غزالہ اکیلی پڑ گئی تھی۔ بہت اداس رہنے لگی مگر وہ ان والدین کی بیٹی تھی جنہوں نے بہت مشکل میں اپنی زندگی بسر کی تھی اور کبھی حرام کا ایک لقمہ تک نہیں کھلایا تھا۔ حق حلال کی کمائی سے وہ پلی بڑی تھی۔
اس نے ایک نظر اماں اور ابا کی قبر پر ڈالی‘ ایک خوب صورت اور مطمئن مسکراہٹ اس کے چہرے پر رونما ہوئی۔ ماضی کے وہ دن اور آج کامیابی کے دھانے پر خود کو دیکھ کر اماں اور ابا کے لیے دل سے دعائیں دیتی وہ اٹھ گئی۔
زندگی میں جتنے بھی دکھ اور حالات آتے ہیں وہ بہت کچھ سکھا کر جاتے ہیں۔ انعم کو صبر کرنے پر اللہ نے راشد سے جان چھڑا کر انعام کے طور پر فرحان سے ملوایا اور یوں ان دونوں کی شادی ہوگئی۔ فرحان دین دار اور کامیاب بزنس مین تھا۔ انعم بھی کوئی کم نہ تھی‘ فرحان کے ملتے ہی اس کے ٹیلنٹ نے انگڑائی لی اور اس نے اپنے کھوئے ہوئے مقام کو حاصل کرلیا۔
غزالہ اس وقت بس اتنا سوچ رہی تھی کہ زندگی کتنی عجیب ہے کبھی چیزیں اتنی مشکل دکھتی ہیں۔ جب انسان کو لگتا ہے کہ یہ آخری موڑ ہے مگر تھوڑا صبر اور محنت کے بعد زندگی حسین موڑ پر داخل ہوجاتی ہے جس کے بارے میں اس نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوتا۔
موبائل کی اسکرین روشن ہوئی اور اس پر میسج رونما ہوا ’’کب تک آرہی ہیں، کافی وقت ہوگیا ہے‘‘۔ اس نے ایک نظر موبائل اسکرین پر ڈالی، انعم آپی کا میسج دیکھ کر مسکرائی اور اپنا بیگ اٹھا کر دھیمے قدموں سے چلتی گاڑی میں بیٹھ گئی۔ زندگی کی گاڑی پھر سے چلنے لگی۔