پچھلی نشست میں بیٹھی اس کا سوال اس کی عمر سے کہیں بڑا تھا۔ وہ آنکھیں پٹپٹاتی معصومیت سے پوچھ رہی تھی ’’میم گزشتہ دس سال میں آخر ایسا کیا ہوا کہ لوگ دین کی بات توجہ سے سننے لگے ہیں اور نوجوان دین کی بات پر غوروفکر کرنے لگے ہیں؟‘‘
مقررہ نے مسکراتے ہوئے بے ساختہ پوچھا ’’بیٹا سوال آپ کا ہے یا ادھار لیا ہے؟‘‘جواباً پورا ہال متبسم ہوگیا۔ کچھ نے مڑ کر اسے غورسے دیکھا بھی تو وہ سنجیدگی سے گویا ہوئیں ’’اس سوال کا جواب سوال سے آسان ہے آپ نے سنا ہوگا کہ تبدیلی یک دم نہیں آتی۔ نہ ہی کوئی کام اچانک ہوتا ہے۔‘‘
قانون قدرت ہے کہ ایک سانحہ کے پیچھے بہت سی مستقل غلطیاں ہوتی ہیں جس کے نتیجے کے طور پر سانحہ پیش آتا ہے۔ اسی طرح کسی بڑی کامیابی کے پیچھے چھوٹی چھوٹی مستقل کامیابیاں، اچھی اور مثبت کوششیں ہوتی ہیں یعنی قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے۔
ایک وقت تھا بڑے بڑے علما کی موجودگی کے باوجود ان کی بات سننے والا اگر کوئی تھا بھی توعمل کرنے والے اس طرح سے موجود نہیںتھے، تبدیلی دو طرفہ شروع ہوئی ۔ علما نے اس دور کے محاورے میں اپنی بات کہنی شروع کی تو دوسری طرف لوگوں کا مزاج بھی بدلنا شروع ہوا وہ لوگ جو پہلے گانوں، اداکاروں، کی بات کیا کرتے تھے۔ انہوں نے اس سے ہٹ کر علما کو سننا شروع کیا۔ پچاس ساٹھ اور ستر کی دہائی میں علما میں ایک ہی آواز تھی جو نوجوانوں کی زبان میں انہیں دین سمجھا رہی تھی۔ نوجوان اس کے گرد اکٹھے ہو رہے تھے۔ اپنے آپ کو اس کام کے لیے وقف کر رہے تھے۔ کسمپرسی تھی مگر جذبے جواں تھے۔
اس کے بعد ایک سلسلہ چل نکلا، آج کئی نام ہیں جن کو لوگ سن رہے ہیں، سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ گزشتہ ساٹھ سال کے اثرات اکٹھے ہوتے رہے۔ قومیں ہوں یا اشخاص ان کی کامیابی ایک مستقل جدوجہد کا نتیجہ ہوتی ہے۔ مشہور باکسر محمد علی کے ایک کامیاب مکاّ کے پیچھے اکیس سال کی جدوجہد شامل تھی اور عبدالستار ایدھی کا سفر ایک ریڑھی سے شروع ہوتا ہے۔ قائد اعظم کو قائد اعظم بننے میں ایک وقت لگتا ہے نتیجتاً پاکستان طویل جدوجہد کے بعد خواب سے تعبیر کی صورت رونماہوتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے برف کے پہاڑ سے ایک چھوٹا سا ٹکڑا لڑھکتا ہے اور نیچے آتے آتے وہ گلیشئیر میں تبدیل ہو کر موسموں کو بدلنے کا سبب بن جاتا ہے غرض ایک مثبت اور مستقل کوشش مستقبل کی تعمیر کی نوید ہے۔
اللہ رب الغزت کو وہ عمل پسند ہے جو تھوڑا ہو لیکن مستقل ہو کہ استقلال میں ایک حیرت انگیز طاقت ہے۔