ہم پرورش لوح قلم کرتے رہیں گے

304

اختتام پزیر سال کی خوش گوار ترین یادوں میں 18 دسمبر کی یہ شام بھی یقیناً شامل ہوگی جب حریم ادب کا آٹھواں رائٹرز کنونشن تھا، جس کا انعقاد ادارہ نور حق میں کیا گیا تھا۔ پنڈال میں پہنچے تو منتظمین جوق در جوق آنے والے شرکا کو مستعدی سے خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ استقبالیہ پر شرکائے محفل کے ادبی ذوق کو جلا بخشنے کے لیے کتابوں کے اسٹالز سجائے گئے تھے جن پر علمی و ادبی فن پارے موجود تھے۔ شرکائے کی بڑی تعداد ان سے استفادہ کر رہی تھی۔ وسیع و عریض پنڈال کے ایک جانب اسٹیج اور دوسری طرف پراجیکٹر لگائے گئے تھے، وسط میں خوب صورت نشستوں کا انتظام کیا گیا تھا۔ پروگرام کی نظامت ابھرتی ہوئی شاعرہ سمیرا غزل نے سنبھالی۔ پروگرام کا اہم پہلو قلم کاروں کے لیے باہمی ملاقات و تعارف کا سلسلہ رکھا گیا تھا جس کا مقصد چہروں سے آشنائی تھی چوں کہ تشنگیٔ ملاقات ہمیشہ باقی رہ جایا کرتی ، جب ادبی ساتھیوں کی شاہکار تحاریر اور شاعری نظروں سے گزرتیں فقط نام ہی آشنا ہوا کرتے۔ اس موقع سے قلم کی شہسواروں نے خوب فائدہ لیا۔ چہروں پر روشنی اور مسکراہٹوں میں مزید اضافہ ہوا۔ نمازِ عید کے بعد عیدگاہ کے سامنے کا منظر تصور میں گھوم گیا۔ ہر طرف مصافحہ و معانقہ کے مناظر تھے کہ کووڈ بھی پیچ و تاب کھا رہا ہوگا۔ خوشیوں کی جھرمٹ تھی اور ادبی ساتھیوں اور کرم فرماؤں کی محبت کی گرم جوشیاں تھیں۔ اسی اثنا اسٹیج سے نماز ادا کرنے کی صدا آئی تو سب نے خالق کائنات کے دربار میں سر جھکا دیا۔ شکر گزاری کے جذبات موجزن تھے کہ اس نے اتنی پیاری سنگتیں اس دنیا میں عطا فرمائیں۔
بعدازاں نہایت مستعدی اور منظم طریقے سے سلسلۂ لذتِ کام و دہن کا انتظام کیا گیا۔ ظہرانے سے فرصت کے بعد پروگرام کا باقاعدہ آغاز سورہ القلم کی آیات سے کیا گیا جس نے قلم کی حرمت اور تقدس کا احساس مزید بڑھایا۔ ماریہ فاروق نے بارگاہِ رسالت میں خوب صورت ہدیۂ عقیدت پیش کیا۔ پروگرام میں سینئر لکھاریوں اور صنف شعر و ادب کی نمایاں شخصیات کے علاوہ قیمہ جماعت اسلامی پاکستان محترمہ دردانہ صدیقی اور ناظمہ کراچی محترمہ اسما سفیر کی آمد خوش کن تھی۔ شاعرہ و افسانہ نگار محترمہ عزیزہ انجم کو کلام پیش کرنے کی دعوت دی گئی جسے حاضرین میں سراہا گیا اور خوب داد وصول کی۔
پروگرام کا اگلا حصہ مذاکرے پر مشتمل تھا‘ بعنوان ’’قلم کی حرمت کا پاس رکھنا‘‘ کا آغاز ہوا۔ مذاکرے میں عموماً افراد زیادہ دل چسپی کا اظہار نہیں کرتے مگر اس مذاکرے کی خاص بات یہ تھی کہ تمام سوالات ایسے تھے جو اکثر و بیشتر نو آموز لکھاریوں کے لیے کشش کا باعث تھے۔ مذاکرے کی خطابت فریحہ مبارک کے ذمے تھی اور شرکا میں صدر حریم ادب پاکستان عالیہ شمیم، بلاگ رائٹر و کالم نگار افشاں نوید، مشہور افسانہ نگار رومانہ عمر اور بچوں کے ادب کی جانی پہچانی مصنفہ راحت عائشہ شامل تھیں۔
’’ادب تہذیب پر کس طرح اثرانداز ہوتا ہے؟‘‘ عالیہ شمیم نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ادب کے لغوی معنی ہی تہذیب کے ہیں۔ ادب معمارِ تمدن بھی ہے اور تعمیرِ تمدن بھی۔ اسلام کے اصولوں کو سامنے رکھ کر جو ادب تخلیق ہوتا ہے وہ اسلامی تہذیب ہی کی نمائندگی اور شناخت کہلاتا ہے۔ ان کے مطابق ادب زندگی میں قرینہ اور سلیقہ سکھاتا ہے ، بے مقصد زندگی کو مقصد کی حس دینے والا اچھا ادب ہی ہوتا ہے جو شعور اور تخیل کو اجاگر کرتا ہے۔ جمالیاتی ذوق میں اللہ سے تعلق ہوگا تو وہ ایک مکمل تہذیب کی نمائندگی کرے گا۔ لکھائی کے حُسن پر بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بہتر املا ، موقع بر محل جملہ لکھنا اور زبان میں مہارت ہی ادب کا حُسن ہے۔
دوسرا سوال کہ اصلاحی تحاریر لکھنے والے فطرت اور حسن فطرت پر نہیں لکھتے بلکہ نصیحت اور تبلیغ کا انداز اپناتے ہیں تو ایسا کیوں ہے؟ اس کے لیے رومانہ عمر کی جانب مائیک بڑھایا گیا۔ ان کی رائے میں اصلاحی ادب دراصل صحت مند ادب ہے، ہر انسان میں خیر و شر کے جذبات و احساسات موجود ہوتے ہیں۔ جو اچھے جذبات ابھارے وہ صحت مند ادب ہے۔ جو ادب پارہ منفی جذبات کو غذا فراہم کرے وہ صحت مند نہیں کہلا سکتا۔ تخلیقی مقاصد میں تخیلات کی نازک آفرینی اور فطرت کا حسن اس میں شامل کرنا بھی ضروری ہے۔ افسانہ لکھنے کے لیے اہم ترین اس کا جان دار پلاٹ ہے۔ اس میں روانی اور بہاؤ، تجسس اور منظر نگاری بہت توجہ طلب ہیں۔ ہر کردار اپنا آپ واضح کرتا ہو، مبہم نہ ہو۔
حالات حاضرہ پر فوری ردعمل کی اہمیت اور مختصر تحاریر لکھنے کے لیے اہم باتیں پوچھنے پر افشاں نوید نے کہا کہ لکھنے والا پڑھنے والوں کے دل کے قریب ہوتا ہے۔ اپنے قاری کو یہ تاثر دے کہ میں زمانۂ حال میں رہتی ہوں اس کے لیے فوری رد عمل اہم ہوتا ہے۔ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ان کی سوچ کو الفاظ دیے جائیں۔ اچھا لکھاری حالات سے بیگانہ نہیں رہ سکتا۔ مختصر ترین لکھنے والے رات بھر مطالعہ کرتے ہیں، بہت مختصر لکھنا بہت زیادہ مطالعہ مانگتا ہے۔ لفظوں سے دوستی کے لیے بہت زیادہ مطالعہ کرنا پڑتا ہے۔ لفظ بڑے باوقار اور باحجاب ہوتے ہیں۔ یہ بہت مطالعے کے بعد اپنا آپ کھولتے ہیں۔
راحت عائشہ سے بچوں کے ادب کے متعلق بنیادی اصول پوچھے گئے تو انہوں نے کہا کہ بچوں کے لیے ہمارا مقصد یہ ہے کہ انہیں اردو سے جوڑا جائے اسی لیے ہم پریوں، جنوں، بھوتوں اور تصوراتی دنیاؤں کی کہانیاں لکھتے ہیں تاکہ ان کی دل چسپی اسی ذرائع سے اردو میں برقرار رکھی جاسکے۔ بچوں کی تخیلاتی حس ان دیو مالائی کرداروں کے ذریعے جگائی جاتی ہے۔ بچے دل چسپی ظاہر کرتے ہیں اس لیے میں سمجھتی ہوں کہ ان کرداروں کو اپنی تحاریر میں شامل کیا جانا چاہیے۔
مذاکرے کے اختتام تک سامعین کی دل چسپی برقرار رہی۔ اس کے بعد نگران حریمِ ادب کراچی عشرت زاہد نے پراجیکٹر پر ویڈیو کے ذریعے حریم ادب کی مختلف سرگرمیوں کی تفصیلات پیش کیں‘ بعنوان ’’دیے بہر سو جلا چلے ہم‘‘ واقعتاً اس بات کا ثبوت تھا کہ اس چمن کی آبیاری میں محنت کے بیج بوئے گئے ہیں جو بھرپور بہاریں دکھا رہا ہے۔ اس کے بعد تقسیم اسناد و انعامات کا مرحلہ شروع ہوا۔ ثنا علیم نے روسٹرم سنبھالا اور مختلف اصنافِ ادب میں اوّل، دوم اور سوم آنے والوں کو مدعو کرتی گئیں۔ دردانہ صدیقی، اسما سفیر اور عالیہ شمیم نے انعام یافتگان میں اسناد تقسیم کیں۔ بہت خوش کن احساس تھا کہ کارکردگی پر حوصلہ افزائی کی یہ روایت حریمِ ادب کی نمایاں خصوصیات میں ہمیشہ ہی شامل رہی ہے۔
آٹھویں حریم ادب کنونشن کی سب سے منفرد بات اس پلیٹ فارم کے ذریعے چھ کتب کی رونمائی تھی۔ ان میں محترمہ غزالہ عزیز کی بچوں کی کہانیوں کی کتاب ’’خوشیاں‘‘، معروف رائٹر و بلاگر افشاں نوید کی کتاب ’’دنیا میرے آگے‘‘ غزالہ ارشد کا ’’انوکھا سفر‘‘ جو چارلس ڈکنز کے ناول کا اردو ترجمہ ہے، محترمہ مریم شہزاد کا اطفالِ ادب پر مشتمل مجموعہ ’’نانو، دادو اور ہم‘‘، محترمہ شفا ہما کا ناول ’’جام ہے طلب‘‘ اور نیلم حمید کی کتاب ’’پاکستان میں خواتین کا مقام، احترام اور ذمہ دار‘‘ کی رونمائی بالترتب بدست سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی خواتین دردانہ صدیقی‘ عقیلہ اظہر ،عالیہ شمیم، اسما سفیر، غزالہ عزیز اور اسناء سفیر انجام پائی۔ انعامات کی تقسیم اور کتابوں کی رونمائی کے بعد قیمہ پاکستان دردانہ صدیقی نے خطاب کیا۔ نرم گرم اور پُرجوش خطاب کے آغاز میں انہوں نے کہا کہ قرآن میں اللہ رب العزت نے قلم کی قسم کھائی ہے، وہ قلم جس سے قرآن لکھا جارہا تھا، وہ قلم جس نے حق کی بات لکھی ہے اور وہ قلم جس کے ذریعے اہلِ حق ہر دور میں جہادِ فی سبیل اللہ کریں گے۔ انھوں نے مزید کہا کہ علم اور علم کے لیے قلم کی حیثیت پہلی وحی میں بتا دی گئی۔ یہ ایک قلم کی حرمت و تقدس ہے اور ایک قلم کار کو اس کا اس کا پاس دار ہونا چاہیے۔ انھوں نے گوادر کی تحریک کی کامیابی کا ذکر کرتے ہوئے اماں زینی کے کردار پر خصوصی روشنی ڈالی اور کہا کہ بطور شاعرہ ان کے قلم نے اس تحریک میں جان ڈالی اور ہزاروں افراد کو اس کا ہمراہی بنا دیا۔
پروگرام کے اختتام سے قبل ناظمہ کراچی اسما سفیر نے تمام شرکا اور اور حریم ادب کے منتظمین کو آٹھویں کنونشن کے انعقاد پر مبارک باد پیش کرتے ہوئے ادبی سرگرمیوں کے انعقاد و فروغ پر حریم ادب کی کاوشوں کو سراہا۔ پروگرام کا اختتام صائمہ افتخار کی دعا سے ہوا۔ شرکائے محفل کے ادبی ذوق کو جلا بخشنے کے لیے کتابوں کے اسٹالز سجائے گئے تھے جن پر علمی و ادبی فن پارے موجود تھے۔ شرکا کی بڑی تعداد نے ان سے استفادہ کیا۔ یوں خوشگوار یادوں اور پرجوش ملاقاتوں سے مزین یہ محفل اپنے اختتام کو پہنچی۔

حصہ