درخت لگائو ماحول بچائو

1849

درخت ماحول کی حفاظت کے اہم سپاہی ہیں ،زندگی کی علامت اور زمین کا زیور ہیں۔ کہتے ہیں، ملک سونے اور چاندی کے بغیر ترقی کرسکتا ہے لیکن جنگلات کے بغیر نہیں۔ ہم زندہ رہنے کے لیے جو سانس لیتے ہیں، وہ درختوںکا ہی مرہونِ منت ہے، یعنی ہماری زندگی کی سانسیں درختوں کی وجہ سے چل رہی ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ دنیا جس دن ان درختوں کے وجود سے خالی ہوگئی وہ دن انسان کا آخری دن ہوگا۔
جنگلات صرف انسانی زندگی کے لیے ہی اہم نہیں ہیں، بلکہ جانوروں کی بقاء کے لیے بھی ضروری ہیں۔ جنگلی حیوانات کے لیے جنگلات اور یہ درخت خوراک اور تحفظ مہیا کرتے ہیں۔ ان ہی جنگلات کی بدولت ہماری طبی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ ان سے جڑی بوٹیاں، عمارتی لکڑی اور جلانے والی لکڑی حاصل ہوتی ہے۔ جنگلات آب وہوا کو تبدیل کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں، اور اب پوری دنیا میں یہ تبدیلی بڑی تیزی سے رونما ہورہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 2050ء تک 6 ارب لوگ شہروں میں آباد ہوں گے اور کنکریٹ کنسٹرکشن کی وجہ سے شہری علاقوں میں خالی جگہوں پر درخت اور پودے لگانے کی ضرورت کہیں زیادہ بڑھ جائے گی۔ درخت اور ان کی ٹھنڈی چھائوں ماحول کو خوبصورت اور خوشگوار بنانے میں اہم کردار کرتی ہے، لیکن تمدن کی ترقی نے خوبصورت اور خوشگوار ماحول کو ختم کرکے انسان کو فطرت سے دور کردیا ہے، انسان نے اپنے ہاتھوں قدرتی ماحول کو تباہ کرکے اپنی بربادی کا سامان کیا ہے۔ اب کرۂ ارض کے موسم میں بڑی تیزی سے غیر متوقع تبدیلیاں آرہی ہیں۔ ایک طرف جہاں انٹارکٹیکا کے برف زار پگھل رہے ہیں اور دنیا کے بعض حصوں کے زیرآب آنے کے خطرات پیدا ہوچکے ہیں وہیں دوسری جانب کئی خطوں میں بارشوں کی کمی اور آبی وسائل کی کم یابی جیسے مسائل کے باعث خشک سالی اور غذائی قلت کے آثار پیدا ہوگئے ہیں، لیکن سب سے بڑا خطرہ خود انسانی صحت اور بقاء کے لیے پیدا ہوچکا ہے۔
پاکستان بھی موسم کی تبدیلی کے باعث تیزی سے متاثر ہورہا ہے۔ موسم کی خراب صورتِ حال کی وجہ سے سیلاب کے خطرات میں دگنا اضافہ ہوگیا ہے۔ پرانے وقتوں میں دیہی علاقوں میں سرسبز لہلہاتے کھیت کھلیان اور درخت روح کو تازگی بخشتے تھے، لیکن اب دیہاتوں میں بھی وہ چیز باقی نہیں رہی۔ کیکر، شیشم، شہتوت اور پیپل کے جو درخت نظر آجاتے تھے وہ اب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غائب ہوچکے ہیں، اور اسی وجہ سے شہری اور دیہی سطح پر ماحول میں تبدیلی آتی جارہی ہے، اور ماہرین کہتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کی ایک اہم وجہ پہاڑوں پر درختوں کی کٹائی ہے جس سے بیشتر بیماریاں بھی جنم لیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کینسر، ملیریا، اسہال اور دمہ وغیرہ جیسی بیماریوں کے علاوہ غذائی کمی کے مسائل میں بھی اضافہ ہورہا ہے، جبکہ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر سال 60 ہزار افراد الٹراوائلٹ شعاعوں کی وجہ سے جِلدی بیماریوں کا شکار ہوکر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے صحت کے امور سے متعلق ادارے ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ ایشیا اور افریقہ کے ممالک میں فضائی آلودگی سب سے زیادہ ہے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ دنیا میں ہر 10 میں سے 9 افراد آلودہ ہوا میں سانس لے رہے ہیں، فضائی آلودگی ہر سال 70 لاکھ افراد کو موت کی وادی میں دھکیل دیتی ہے۔ دل کی بیماریوں، اسٹروک اور پھیپھڑوں کے کینسر کے شکار ایک چوتھائی لوگ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے بیمار پڑتے ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت نے دنیا کے 4300 شہروں کے تجزیے کے بعد جاری رپورٹ میں کہا ہے کہ ایشیا اور افریقہ کے غریب ممالک میں ماحولیاتی آلودگی سے مرنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، اور بات اب صرف جسمانی بیماریوں پر نہیں رک گئی ہے بلکہ ان موسمیاتی تبدیلیوں کا اثر دماغی صحت پر بھی پڑ رہا ہے۔ امریکی نفسیاتی ایسوسی ایشن اور ایکو امریکی محققین کی طرف سے جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں حالات سے دل برداشتہ انسانوں میں ڈپریشن، بے چینی اور بے خوابی بڑھ رہی ہے۔ اس صورتِ حال سے نجات کی صرف ایک صورت ہے، اور وہ جنگی بنیادوں پر درخت لگانا ہے۔ درخت بادلوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ درختوں کے پتوں سے پانی کے بخارات ہوا بنتے ہیں تو ہوا میں نمی کا تناسب ٹھیک ہوتا ہے اور ہم خشک آب وہوا سے بچتے ہیں۔ بخارات اوپر جاکر بادل بنانے میں مدد دیتے ہیں، جس کے بعد بارش ہوتی ہے اور خشک سالی ختم ہوتی ہے، جس سے زندگی لوٹ آتی ہے۔ درختوں کی حفاظت کرکے ہم ملک پاکستان کو جنت نظیر بناسکتے ہیں۔ درخت ملکی معیشت، انسانی صحت کی بہتری اور بیماریوں سے نجات کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ ماہرین کے مطابق کسی بھی ملک میں 25 فیصد رقبے پر جنگلات کا ہونا بہت ضروری ہے، لیکن بدقسمتی سے پاکستان بھر میں 5 فیصد رقبے پر جنگلات موجود ہیں، اور یہ ایشیا میں جنگلات کی سب سے کم شرح ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کے مطابق پاکستان کے مجموعی رقبے کا صرف 1.9 فی صد جنگلات پر مشتمل ہے، جبکہ اوسطاً 25 فیصد رقبے پر جنگلات کا ہونا ضروری ہے۔ پاکستان میں جنگلات پر تحقیق کرنے والے سرکاری تدریسی ادارے پاکستان فارسٹ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق ملک میں 1990ء کی دہائی میں 35 لاکھ 90 ہزار ہیکٹر رقبہ جنگلات پر مشتمل تھا جو 2000ء کی دہائی میں کم ہوکر 33 لاکھ 20 ہزار ہیکٹر تک رہ گیا۔ ادارے کے مطابق 2002ء میں جنگلات کا رقبہ بڑھ کر 45 لاکھ ہیکٹر تک پہنچا، یعنی مجموعی طور پر ملک میں 5.1 فیصد رقبہ جنگلات پر مشتمل ہے، تاہم جنگلات پر کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے ایف اے او اور دیگر اہم غیر ملکی ادارے ان اعداد و شمار کو درست نہیں مانتے۔ ان کے مطابق پاکستان میں گزشتہ ایک دہائی سے مسلسل ہر سال جنگلات کا رقبہ کم ہوتا جارہا ہے اور اب کُل رقبے کے تین فیصد تک رہ گیا ہے۔
پاکستان میں زیادہ تر جنگلات گلگت بلتستان، خیبر پختون خوا اور آزاد کشمیر کے پہاڑی علاقوں میں پائے جاتے ہیں، جبکہ گلگت بلتستان میں 70 فیصد جنگلات صرف ضلع دیامر میں ہیں۔ اس ضلع کی سرحدیں خیبر پختون خوا سے ملتی ہیں۔
یہ صورتِ حال انتہائی تشویش ناک اور افسوس ناک ہے۔ تشویش ناک اس لیے کہ جنگلات کی کمی کے باعث ہم ایک خطرناک دور میں داخل ہورہے ہیں اور ہمارا مستقبل آلودہ نظر آرہا ہے۔ اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہم جنگلات میں اضافہ تو دور کی بات ہے جو جنگلات موجود ہیں اُن کو بچانے میں ہی ناکام ہیں۔ کیونکہ دوسری طرف ترقی کی دوڑ کی وجہ سے جس طرح آلودگی میں اضافہ ہورہا ہے اس تیزی سے ہم درخت نہیں اُگا رہے ہیں، جس کا نقصان ہم بھی اٹھا رہے ہیں اور آنے والی نسلیں بھی اٹھائیں گی۔ اگر ہمیں اپنے مستقبل کو زہر آلود ماحول سے بچانا ہے اور قدرتی ماحول فراہم کرنا ہے تو اس کے لیے آج کوئی فیصلہ کرنا ہوگا۔ آج اپنے حصے کا درخت لگانا ہوگا، لگے ہوئے درختوں اور جنگلات کی حفاظت کرنا ہوگی۔جوڈی تھامس نے کہا تھا کہ “”جب درخت جلائے جاتے ہیں ، تو وہ ہوا میں ایک دل دہلا دینے والی بو چھوڑ دیتے ہیں۔””
درخت لگانے کا کلچر پیدا ہوجائے تو ایئر کنڈیشنگ کلچر ختم ہوسکتا ہے، اور اگر درخت نہیں لگے تو پھر مستقبل میںایئر کنڈیشنگ لگژری نہیں بلکہ ہر گھر کی ضرورت بن جائے گا ۔گھروں اور چھوٹی عمارات کے آس پاس درخت لگانے سے بھی اردگرد کا ماحول بہتر کیا جاسکتا ہے۔ درخت لگانا بہت آسان کام ہے، بس اس کی اہمیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بہت مہنگا بھی نہیں ہے اور اسے لگانے میں زیادہ وقت بھی نہیں لگتا۔ صرف چند بیج ایسی جگہ بوئیں جہاں ہوا، دھوپ اور مٹی موجود ہو اور آپ دن میں ایک بار پانی دے سکیں۔ کچھ پودوں کو تو روزانہ پانی دینے کی بھی ضرورت نہیں، کیوں کہ انہیں ایک دو روز کے وقفے سے بھی پانی دیا جاسکتا ہے۔ بارشوں کے موسم میں تو اس کی ضرورت بھی ختم ہوجاتی ہے۔ آپ کی اس محنت کا پھل آپ کو بھی ملے گا اور آنے والی نسلیں اور دیگر انسان و چرند پرند بھی فائدہ اٹھائیں گے۔ اس اہم کام کی ترغیب بچوں میں بھی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ درخت لگانے کے شعور میں اضافہ ہوا ہے ،کچھ لوگ ایسے ابھی بھی ہیں جو ا شہر کی خوبصورتی اور ماحولیات کی بہتری کیلئے اپنے حصے کا فرض ادا کر رہے ہیں یہ کام انفرادی سطح پر بھی ہورہا ہے اور بعض این جی اوز جن میں الخدمت فاونڈیشن اور دعا فاونڈیشن نے بھی بڑا کام کیا ہے،اس کی مثال کی ہے صابر گل کی ہے جو 70؍ سالہ ریٹائرڈ مالی ہیں۔ چار سال قبل انہوں نے الخدمت فائونڈیشن کے تحت ایک مہم شروع کی۔ وہ محمد علی سوسائٹی میں درختوں کا خیال رکھتے ہیں۔ نئی ہائوسنگ سوسائٹیاں اور کالونیاں بنانے کیلئے جہاں لاتعداد درخت کاٹے جا چکے ہیںان کی کوشش ہے کہ علاقے میں سبزہ اور ہریالی برقرار رہےہ۔ ہر صبح صابر گل اور ان کے معاون تین پہیوں والی مخصوص گاڑی کے ذریعے پانی کے ٹینکر سے علاقے کے درختوں اور پودوں کو پانی دیتے ہیں اور پورے علاقے میں اس سرگرمی پر ان کے دس گھنٹے خرچ ہوتے ہیں۔ غیر ملکی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے صابر گل کہتے ہیں کہ میں ان پودوں کا اپنے بچوں کی طرح خیال رکھتا ہوں، میں نے اپنی زندگی کے پچیس سال ایک اسکول میں مالی کی حیثیت سے کام کیا ہے اور فائونڈیشن میں 2010ء میں بطور رضاکار شمولیت اختیار کی۔ الخدمت نے لاہور ،کراچی اور خیبر پختونخواہ مین شجر کاری مہم چلائی ہے،دعا فاونڈیشن نےدرخت لگانے کے معاشی پس منظر پر بھی کام کیا ہےاور زیتون و انجیر سمیت کئی پودوں پر کامیاب تجربے بھی کیے ہیں،شہر میں جہاں کئی مقامات پر پودے لگائے ہیں وہاں جامعہ کراچی کے بوٹنیکل گارڈن کے ساتھ بھی کام ہورہا ہے ۔ سوشل میڈیا پرآگاہی کے لیے ڈاکٹر فیاض عالم جو دعا زرعی تحقیقی مرکز کے تحت نت نئے تجربات کررہے جنہوں نے تھرکو گلزار بنانے کا آغاز کیا ہواہے اوریہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ حکومت اور دیگر لوگ اس عزم کے ساتھ کام کریں تو تھر صرف چند برس میں ہرا بھرا ہوسکتا ہے ،اسی طرح عرفان اخلاص ،ریحان اللہ والا بھی درخت اور اس کی اہمیت کے شعور کو پیدا کرنے میں اپنے حصے کا کام کررہے ہیں اس حوالے سے ہمیں اپنے بچوں کو بھی درخت کی اہمیت سے آشنا کرنے کی ضرورت ہے۔اور ہر گلی مھلے میں ایک صابر گل پیدا ہوجائے تو شہر کا نقشہ تبدیل ہوجائے اور سب کچھ ہر اہرا نظر آنے لگے گا۔ آئیے اپنے کھوئے ہوئے قدرتی اور فطری ماحول کو واپس لانے میں اپنا حصہ ڈالیں اور اپنے حصے کا درخت لگائیں۔

حصہ