یاد رکھنے کا سفر

344

قوت حافظہ : حکمت سے برکت تک کا سفر ہے

اب وقت نے پڑھائے تو پڑھنے پڑے تمام
اسباق جو نصاب میں شامل نہیں رہے
یہ مضمون عام علمی مضامین سے الگ میری اپنی زندگی کا سب سے بڑا انکشاف ہے۔ اس ہنر یعنی ’’میموری ماسٹری‘‘ کو میں نے عالمی شہرت یافتہ ماہرین سے خود سیکھا ہے۔ میں سلسلہ وار آپ کو حافظہ کے ہنر کو محفوظ رکھنے کے 30 بینک اکائونٹس کے راز دوں گا جہاں ان تجوریوں میں آپ اپنی تمام یادداشتیں محفوظ رکھ سکتے ہیں۔
اس ہنر کی برکات یہ ہیں کہ کو اگر کوئی بچہ، نوجوان یا بوڑھا اسے سیکھ جائے تو اس کا حافظہ حیرت انگیز طور پر بہترین ہوجاتا ہے‘ اس سے زندگی آسان ہوجاتی ہے چاہے وہ مسابقتی امتحانات ہوں، ڈاکٹری، سول سروسز یا کسی بھی طرح کی مہمات اورمقابلوں کو مکمل یقین کے ساتھ جیتا جا سکتا ہے۔ اس سے کم از کم فائدہ یہ ہوگا کہ 300 فیصد آپ کا حافظہ ترقی کرجائے گا‘ یادداشت توانا ہوجائے گی۔ جس کو یہ ہنر آجائے اس کو اپنی کسی بھی محرومی کا غم نہیں ہوگا۔ وہ اپنے بزرگوں، ملک و قوم سے شکایت بھی نہیں کرسکے گا کہ اس کو اچھا کالج، اچھے مواقع اور اچھے استاد نہیں ملے‘ بلکہ وہ خدا کا شکر ادا کرے گا کہ ایک ایسے امکانات کی دنیا میں داخل ہو نے کا راستہ بتا دیا جہاں ہر قدم پر خزانوں کے باب کھلتے ہیں۔ رب نے اس کے دماغ کو ایک ایسا حیرتِ کدہ بنا دیا جہاں سب کچھ ترتیب سے موجود ہے‘ جہاں یادوں کو آپ چھو کر اور ٹٹول کر دیکھ سکتے ہیں۔ جگ جیتنے کے سارے راز آپ کے پاس ہیں‘ اب رب کے شکر کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ جاتا۔
یاد رکھنا بھی اک عبادت ہے
کیوں نہ ہم ان کا حافظہ ہو جائیں
حافظے کی حیران کن صلاحیتوں سے جڑے ایسے دعوئوں کو پہلے میں اپنی نا واقفیت کی سبب بلا تامل ٹھکرا دیا کرتا تھا‘ بلکہ یہ مانتا تھا کہ قوت ِ حافظہ یا یادکرنے کی صلاحیت صرف مخصوص لوگوں کی پہچان ہوتی ہے‘ کسی خاص گروہ یا نسل کو یہ ملکہ حاصل ہوتا ہے۔ یہ اتفاقی مہارت، اتائی قسم کی چیز ہوتی ہے وغیرہ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان معجزاتی، کراماتی اور حیرت انگیز چیزوں کو پلک جھپکنے میں کیسے یاد کر سکتا ہے۔ ہزاروں الفاظ، ہزاروں اعداد و شمار، ہزاروں رنگوں کی ترتیب، پیچیدہ راستوں کی پہچان، مشکل الفاظ کے معنی، نئی زبانوں کا سیکھنا، املا کی غلطیوں کا حل، حساب کے فارمولے، پورے کرہ ارض کے ممالک اور ان کے شہر، کرنسی۔ عرض البلد اور طول البلد پر وقت کے بڑھتے اور گھٹتے اصول۔ ہزاروں پاس وارڈز بلکہ حفظ قرآن بھی اس سے آسان ہو جاتا ہے۔
حفظ ِمتن ایک فن ہے۔ یہ صرف معلومات پر منحصر علم نہیں بلکہ ہنر ہے۔ ہنر کو پل بھر میں سیکھا نہیں جاسکتا۔ اس کو چند ہفتوں کی مشق درکار ہوتی ہے۔ پھر یہ اپنا کمال دکھاتا ہے۔ ہر سائیکل چلانے والا اور تیراکی کا فن جاننے والا یہ بھی خوب جانتا ہے کہ وہ دوسرے شخص کو حتمی طور پر یہ نہیں بتا سکتا کہ تم صرف یوں سائیکل پر سوار ہوجائو تو توازن آجائے گا۔ تیراک بھی ٹھیک وہ راز نہیں دے سکتا کہ بدن پانی میں یوں چھوڑو یا یوں سنبھالو تو تیراکی کا ہنر آجائے گا بلکہ صرف کوشش پر لگا کر چھوڑ دیا جاتا ہے پھر یکایک سائیکل کا توازن اور تیراکی میں بدن پر قابو پانے کا ہنر آجاتا ہے۔ حافظے کا یہ ہنر بھی تھوڑی سی مشق مانگتا ہے۔ پھر آپ جادو گر بن جاتے ہیں۔ یہ میرا ذاتی تجربہ ہے۔ ہم نے لیپ ٹاپ، پام ٹاپ کو سمجھا اور برتا ہے اب Neck Topکو سمجھنا ہوگا۔ جو دماغ ہم اپنے گردن پر ڈھوئے ڈھوئے پھرتے ہیں‘ اس کے راز ٹٹولنے ہوں گے۔ اس لیے حافظے کے ہنرکے بارے میں کسی سرسری رائے سے گمراہ ہونے کے بجائے اس کو مکمل طور پر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ قوتِ حافظہ کا سفر حکمت سے برکت تک کا سفر ہے۔ کہیں بھی ذہانت کی سبیل و لنگر نہیں ملتی۔ ہمیں اپنی کوشش، وسائل اور تعلیم یافتہ افراد کے ایثار سے یہ مہم سر کرنی ہوگی۔
اگر کوئی یہ پوچھے کہ یادداشت کسے کہتے ہیں؟ تو جواب یہ ہے کہ قوت ِ حافظہ انسانیت کی مشترکہ میراث۔ یہ فرد کی تنہا جاگیر نہیں۔ ہاں ہر فرد کے سپرد یہ ایک امانت ہے۔ یہ کامن ویلتھ ہے جو رب نے سب کو دیا ہے اور وہ سب کی مشترکہ جاگیر ہے۔ یادکی طاقت آپ کی چاکری کرنے کے واسطے رب نے عطا کی ہے۔ یہ ’’طاقت‘‘ کے بجائے ’’عذاب‘‘ اُس وقت بنتی ہے جب ہم بے کار جذبات و احساسات سے بھری یادوں کی دنیا میں جینے لگتے ہیں۔ کیوں کہ ’’جذبات‘‘ صرف عقل کے سفیر ہوتے ہیں۔ سفیروں کی باتیں سنی جاتی ہیں‘ اس کو نہ تو قتل کیا جاتا ہے اور نہ ہی سفیر کو حاکم مان کر اس کی غلامی کی جاتی ہے۔ بے نتیجہ جذبات کو ہم اگر اپنے حافظے میں جگہ نہ دیں تو عقل بہتر فیصلے کرسکتی ہے۔ عقل، حافظہ اور یادداشت کو صرف جذبات کے تڑکے سے ذائقے دار بنا کر اس کو ذہن کے برف دان میں رکھیں اور جب چاہیں استعمال کریں۔
یادوں نے لے لیا مجھے اپنے حصار میں
میرا وجود حافظہ بن کر سکڑ گیا
اگر ذہن میں یہ سوال ابھرے کہ یاد کی روشن سطح پر کیا رہتا اور کیوں رہتا ہے۔ اس کا جواب ہوگا کہ ہم دن نہیں، لمحے یاد رکھتے ہیں۔ حافظے میں صدیاں نہیں، پل پناہ لیتے ہیں۔ ہم یادوں کی زنجیر نہیں‘ کڑی پکڑتے ہیں زنجیر خود بہ خود کھنچی چلی آتی ہے۔ اگر یہ سوال ابھرے کہ کیا ہر آدمی کے پاس حافظہ ہوتا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ حافظہ یا تو تربیت یافتہ ہوتا ہے یا غیر تربیت یافتہ ہوتا ہے۔ کمزور سے کمزور ذہن شعوری کوشش سے تربیت لے کر کمال حاصل کرسکتا ہے ورنہ ہم تو کان میں پنسل اڑس کر سارے جنگل کے درختوں کی لکڑیوں کو ٹٹولتے رہتے ہیں لیکین اپنے کان میں پھنسا قلم نظر نہیں آتا۔
حافظہ اور دماغ کی ساخت کے بارے میں ایک سائنسی حقیقت ہے کہ ایک مرتبہ 2002 میں انسٹی ٹیوٹ آف نیورالوجی لندن نے عالمی شہرت یافتہ حافظہ کے 9 ماہرین کے دماغ کا عام آدمی کے دماغ سے مقابلہ کرتے ہوئے FMRI (functional magnetic resonance Image) کے ذریعہ چیک کیا گیا تو انھیں حیرت ہوئی کہ بظاہر دونوں گروپوں میں کوئی فرق نہیں تھا سوائے اس کے کہ جب یاد کرنے کی مہم پر جو ماہرین ہوتے ہیں ان کے ذہن میں نیورانس کی نورکی جھل مل تحریریں جو نیورو لوجیکل شاہ راہ پر کوڈنگ کی شکل میں لکھی ہوتی ہیں جس کو Synaptic messages بھی کہتے ہیں۔ ویسے اللہ نے ہر انسان کو اتنا حافظہ دیا ہے کہ جو 300 سال تک 24 گھنٹے چلائے جانے والی فلم کے برابر ہے۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ ہم اس دولت یا خزانوں سے واقف نہیں۔ اسی لیے جگہ جگہ قرآن میں یاد، ذکر، حافظہ اور اس سے جڑی ذمے داریوں کا ذکر آتا ہے۔ (جاری ہے)

حصہ