سقوط ڈھاکہ نصف صدی بعد (آخری قسط)

321

بنگلہ دیش کا شوشا بھارت نے چھوڑا تھا اور بھارت قیام پاکستان کے اول روز اسے ختم کرنے کے منصوبے پر کام کررہا تھا۔ مشرقی پاکستان کے تعلیمی اداروں میں ہندو اساتذہ نفرت کے بیج بو رہے تھے اور کلکتہ میں اس حوالے سے بہت مربوط انداز میں کام ہورہا تھا۔ لیکن غیروں یا دشمنوں کے بجائے یہ دیکھنا چاہیے کہ اس حوالے سے ہمارا رویہ کیا تھا ہم نے تو خود بھارت کے کام کو آسان کیا ۔
سیاسی معاملات کو سیاسی طورپر حل کرنے کے بجائے فوجی حکومت نے 26مارچ سے مشرقی پاکستان میں ’’آپریشن سرچ لائٹ‘‘ کے نام سے فوجی ایکشن شروع کردیا۔ یہ فیصلہ ملک کو دولخت کرنے میں تابوت میں آخری کیل کی مانند تھا۔ شیخ مجیب الرحمن کو گرفتار کرلیا گیالیکن ان کے تمام ساتھی بھارت فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔
مشرقی پاکستان کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر لیفٹننٹ جنرل ٹکا خان کا یہ بیان اس زمانے میں بہت مشہور ہوا تھا کہ ہمیں زمین چاہیے ، انسان نہیں۔ چنانچہ عوام بلکہ اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو جانوروں کی طرح ذبح کیا گیا۔
26مارچ کو شام چھ بجے کے لگ بھگ پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو ڈھاکا سے کراچی پہنچے ، انہوں نے اپنے استقبال کے لیے آنے والوں سے مختصر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خدا کا شکر ہے ، پاکستان بچ گیا۔ ان کا وہ بیان بہت معنی خیز تھا، یعنی سیاسی عمل ختم ہونے اور عوامی رائے کا احترام کرنے کے بجائے اسے طاقت سے کچلنے کے مذموم فعل اور تاریخی جرم کو انہوں نے پاکستان بچنے سے تعبیر کیا۔
مشرقی پاکستان میں بغاوت اور خانہ جنگی شروع ہوچکی تھی اور اسے بھارت کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی۔ ایسٹ بنگال رجمنٹ، ایسٹ پاکستان رائفلز اور پولیس نے بغاوت کردی تھی۔
حکمرانوں کے فوجی آپریشن کے تباہ کن اور ملک دشمن فیصلے کی سزا مشرقی پاکستان میں بہاریوں اور دوسرے غیربنگالیوں کو بھگتنا پڑی۔ ہزاروں غیربنگالیوں کو جانوروں کی طرح ذبح کردیا گیا، عورتوں کی بڑے پیمانے پر عصمت دری کی گئی اور ان کی املاک پر قبضہ کرلیا گیا۔ اس سارے آرمی ایکشن کا المناک پہلو یہ تھا کہ باغیوں نہ صرف پاکستانی فوجیوں کو بے دردی سے قتل کیا بلکہ ان کے اہل خانہ کو بھی سفاکانہ سلوک کا نشانہ بنایا۔
بریگیڈئیر صدیق سالک کے مطابق فوجی کارروائیوں کے دوران لوٹ مار، قتل و غارت اور آبروریزی کے بھی تھوڑے بہت واقعات ہوئے۔ لیکن ان چند واقعات کی وجہ سے پوری پاک فوج کی رسوائی ہوئی۔ آبروریزی کی مجموعی طور پر9 وارداتیں ہوئیں اور ان میں ملوث تمام مجرموں کو عبرتناک سزائیں دی گئیں لیکن ان سزاؤں سے پاک فوج کی رسوائی کا داغ دھویا نہ جاسکا۔ ایسے واقعات کی مجموعی تعداد کا تو اندازہ نہیں، لیکن ایسا ایک واقعہ بھی پوری فوج کو رسوا کرنے کیلیے کافی تھا۔
مشرقی پاکستان میں آرمی ایکشن کے اعتبار سے نفری کم تھی۔ یعنی پچپن (55) ہزار126 مربع میل علاقے کے دفاع کے لیے پاک فوج کے اکتالیس ہزار (41) سے زائد افسر اور سپاہی متعین تھے۔
ان مساعد حالات کے باوجود پاک فوج نے ڈٹ کر باغیوں کا مقابلہ کیا اور پورے آٹھ ماہ تک لڑتے رہے اور اہم ضلعی ہیڈکوارٹرز اور سب ڈویژنل ہیڈکوارٹرز سمیت تمام بڑے بڑے شہروں اور قصبوں کو مکتی باہنی سے محفوظ رکھا۔اس دوران مغربی پاکستان سے معمولی کمک بھیجی گئی۔
10اپریل لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ خاں نیازی کو مشرقی پاکستان کا کمانڈر ایسٹرن کمان بناکر بھیجا گیا۔
آرمی ایکشن کی وجہ سے ہزاروں بنگالی سرحد عبور کرکے بھارت چلے گئے، جس میں پاک فوج کے مظالم کم اور بھارت کی شہ بھی شامل تھی۔اس معاملے کو بھارت نے عالمی سطح پر خوب اچھالا۔
اسلام پسند اور محب وطن عناصر نے پاک فوج سے بھرپور تعاون کیا ، کیونکہ اس ملک کی بقاء کا معاملہ تھا، جسے اسلام کے نام پر حاصل کیاگیا تھا۔چنانچہ عمر رسیدہ افراد پر مشتمل امن کمیٹیاں تشکیل دی گئیں اور صحت مند نوجوانوں کو رضاکار بھرتی کیا گیا۔ یہ کمیٹیاں ڈھاکا کے علاوہ دیہی علاقوں میں بھی قائم کی گئیں۔ اور ہرجگہ فوج اور مقامی لوگوں کے درمیان رابطے کا مفید ذریعہ ثابت ہوئیں ۔ ان کمیٹیوں کے چیئرمین اور ارکان شرپسندوں کا مسلسل ہدف بنتے رہے۔
ویسے تو امن کمیٹیوں میں محب وطن پارٹیوں کے ارکان شامل تھے۔ لیکن ان میں ایسے عناصر بھی شامل ہوگئے تھے جنہوں نے آرمی ایکشن سے قبل اپنے گھروں پر بنگلہ دیش کے پرچم تک لہرائے تھے ان عناصر نے مفرور ہندؤوں کی جائیدادوں پر قبضے کرنے اور روپے پیسے کے عوض مداخلت کاروں کو تحفظ دینے کا دھندا شروع کردیا۔
حتیٰ کہ چند ہی ہفتوں بعد ہی یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ رضاکار فورس کے بعض افراد بھارت کے لیے جاسوسی تک کر رہے ہیں۔ کچھ عرصے بعد تو اس امر کے ثبوت تک مل گئے کہ مکتی باہنی نے رضاکار فورس میں اپنے بہت سے لوگ داخل کردیے ہیں جو باغیوں کو قیمتی معلومات فراہم کرتے ہیں۔
یہ صورت حال اسلامی جمعیت طلبہ (یا اسلامی چھاترو شنگھو) کے کارکنوں کے لیے بہت اذیت ناک تھی ، اس طرح خود ان کی حب الوطنی ، خلوص اور دیانتداری مشکوک ہورہی تھی۔ چنانچہ مئی 1971 کے وسط میں جمعیت کے قائدین نے مطالبہ کیا کہ ہمارے کارکنوں کو علیحدہ سے منظم کیا جائے تاکہ پاکستان کی بقاء کی جنگ وہ زیادہ اعتماد کے ساتھ لڑسکیں۔
مارچ1971 میں مشرقی پاکستان میں آرمی ایکشن کے بعد ہی اسلامی جمعیت طلبہ (اسلامی چھاترو شنگھو) کے ذمہ داروں نے ایک اجلاس میں صورتحال پر غور کیا ، چار دن کے غور وفکر کے بعد اس ہنگامہ خیز اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ’’ اسلامی جمعیت طلبہ مشرقی پاکستان، سا لمیت پاکستان اور شہریوں کی جان ومال اور آبرو کے تحفظ کے لیے آگے بڑھے گی۔
اس فیصلے کے اعلان کے لیے 14مارچ کو جامع مسجد ڈھاکا یونیورسٹی میں کارکنوں کا اجتماع ہوا۔ ڈھاکہ جمعیت کے ناظم سید شاہ جمال چودھری (شہید ) نے بڑی دردمندی اور پرزور دلائل کے ساتھ پالیسی کا اعلان کیا۔ جس سے خطرات میں پھنسے ہوئے جمعیت کے کارکن یکسو ہوگئے۔
اس کے بعد15 مئی کو ڈھاکا میں جمعیت کی صوبائی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں جمعیت کے کارکنوں پر مشتمل ایک الگ رضاکار فورس کے قیام کی تجویز پیش کی مگر پاکستان کی ایسٹرن کمان نے اس تجویز کو لال فیتے کی نذر کردیا۔ لیکن پاک فوج میں کچھ افراد امن کمیٹیوں اور رضاکار فورس کی مایوس کن کارکردگی کے باعث متبادل صورتوں پر غور کررہے تھے۔
پاک فوج البدر کو عسکری تربیت فراہم کرتی تھی، جس کا دورانیہ عموماً سات سے بارہ روز ہوتا تھا۔ تربیت کے دوران خودکار ہلکا اسلحہ استعمال کرنے ، اسے کھولنے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے ، بارودی سرنگوں کو ناکارہ بنانے اور وائرلیس پیغام سمجھنے کی صلاحیت پیدا کی جاتی۔
عملی صورتحال یہ تھی کہ ان رضاکاروں کوجدید اسلحہ سے لیس نہیں کیا گیا کیونکہ خود پاک فوج کے پاس ہتھیاروں کی کمی تھی۔ جبکہ دشمن کے تمام یونٹ حتیٰ کہ پولیس اور مکتی باہنی کے پاس بھی جدید ہتھیار اور نئی ٹرانسپورٹ تھی۔ (جنرل نیازی، قومی ڈائجسٹ، جولائی ۱۹۷۸ء)
البدر کا تعلق چونکہ ایک اسلامی نظریاتی تنظیم سے تھا ، اس لیے جمعیت کی قیادت نے البدر کیڈٹوں کو فکری و نظریاتی تربیت دینے کا خاص طورپر اہتمام کیا۔ ان کے تربیتی پروگرام میں یومیہ درس قرآن، درس حدیث، شب بیداریاں، مجالسِ ذکر، ایک روزہ تربیتی کیمپ، فلسفہ جہاد(گروپ میٹنگ) فکرِ آخرت (گروپ میٹنگ)، باہمی احتسااب، دعا وغیرہ شامل ہوتی تھی۔
یہ پروگرام اس قدر توازن کے ساتھ ہوتے کہ اگر البدر مجاہدین کی رات جہاد میں گزرتی تو دن کا بیشتر حصہ فکری تربیت کے حصول میں یا اگر دن بھر میدانِ جنگ کے تھکے ماندے مجاہدین اپنی راتیں تہجد اور اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ و زاری میں گزارتے ۔ یہی وہ کردار تھا، جس نے پاک فوج کے بہت سے افسروں اور جوانوں کو اسلام کے عملی تقاضوں کی جانب متوجہ کیا اور ان کے سر آج بھی البدر کا نام سنتے ہی عقیدت سے جھک جاتے ہیں۔
ان نامساعد حالات کے باوجود پاک فوج نے ڈٹ کر باغیوں کا مقابلہ کیا اور پورے آٹھ ماہ تک اپنے پاؤں میں لغزش نہ آنے دی۔نومبر کے آخر میں بھارت نے مشرقی پاکستان پر حملہ کردیا اورچند روز بعد مغربی پاکستان پر بھی، اس خونریز جنگ کے واقعات کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ ایک عالمی سازش کے تحت پاک فوج نے 16دسمبر 1971کو بھارت کی فوج کے سامنے بلامشروط ہتھیار ڈال دئیے۔ یہ پوری اسلامی تاریخ کا شرمناک واقعہ تھا۔ جس سے امت مسلمہ کے سر شرم سے جھک گئے۔
بھارت نے 93ہزار سے زائد افراد کو جنگی قیدی بنالیا، جن میں پاک فوج کی تعداد نصف سے بھی کم تھی۔ جیسا کہ میں نے ابتدا میں بتایاکہ مشرقی پاکستان کے دفاع کے لیے مارچ میں صرف 41ہزار فوج تھی اور وہ بھی آٹھ ماہ سے لڑ رہی تھی، پہلے باغیوں سے اور پھر بھارت سے ۔ چنانچہ اس دوران سیکڑوں سپاہیوں نے جام شہادت نوش کرلیاتھا۔
یہ ایک ’’تاریخی حقیقت‘‘ ہے کہ بنگالیوں نے فوجی آپریشن بالخصوص سقوطِ ڈھاکا کے بعد اُن پاکستانیوں پر بڑے مظالم ڈھائے جنہوں نے ملک بچانے کے لیے پاک فوج کا ساتھ دیا۔پاک فوج کا ساتھ دینے والے ہزاروں بنگالیوں کا قتل عام کیا گیا ۔ خاص طورپر البدر کے مجاہدین اور ان کے اہل خانہ کا۔ اور اب تک جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو پھانسی دینے کا سلسلہ جاری ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان کے لیے اپنی جانیں دینے والے بہاریوں کو بنگلہ دیش کے رحم وکرم پر چھوڑ دیاگیا اور انہیں نصف صدی گزرجانے کے باوجود وطن واپس نہیں لایا گیا۔ اس میں پاکستان کے حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کی مجرمانہ غفلت ہے۔
یکم مئی 1972 کو لکھی گئی ایک عرضداشت میں میرپور اور محمد پور کے کئی علاقوں کا ذکر ہے جن کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ سب قتل گاہوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ ’اگر کوئی ان علاقوں کا اچانک معائنہ کرے تو جلی ہوئی لاشیں نظر آجائیں گی… ایک بہت بڑی تعداد کو گولپاڑہ پاور سٹیشن کی بھٹی میں جھونک کر زندہ جلا دیا گیا ہے۔‘ قتل و غارت گری کے علاوہ بڑے پیمانے پر عورتوں کے ساتھ زیادتی اور اغواکی وارداتوں کا بھی ذکر ہے۔
سقوط ڈھاکا کے چار روز بعد ہی بھٹو صاحب نے اقتدار سنبھال لیا، جس کے حصول کے لیے انہوں نے ملک کی سلامتی کی بھی پروا نہ کی۔ عوامی دباؤ کے تحت انہوں نے حمود الرحمن کمیشن قائم کیا۔ جس کی رپورٹ کو عام نہیں کیا گیا۔ حمود الرحمن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں جنرل یحییٰ اور ان کے پانچ اعلیٰ فوجی اہلکاروں کو سقوطِ ڈھاکاکا ذمے دار قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف مقدمہ چلانے کی سفارش کی تھی، مگر جنرل یحییٰ پر کبھی مقدمہ نہ چلایا جاسکا۔ وہ عزت کے ساتھ جیے اور مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ دفن ہوئے۔ تاہم قدرت کا اپنا نظام ہے، پاکستان توڑنے والے تین بنیادی کرداروں یعنی شیخ مجیب الرحمن، اندرا گاندھی اور ذوالفقار علی بھٹو کی عبرتناک موت ہوئی۔ لیکن سقوط ڈھاکا کے واقعہ کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا اور امت مسلمہ کے ماتھے پر لگا ہوا یہ داغ نہ جانے کب تک لگا رہے گا۔
(حوالہ جات: پریم چوپڑا کی کتاب انڈیاز سیکنڈ لبریشن، ص 155۔ ٹی ای لارنس، سیون پلرز آف وزڈم، ص 192۔ میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا از کرنل صدیق سالک۔البدر از سلیم منصور خالد، شکست آرزواز پروفیسر ڈاکٹر سید سجاد حسین۔خون اور آنسوؤں کا دریا۔ بچھڑ گئے از کرنل زیڈ آئی فرخ۔المیہ مشرقی پاکستان ازاعجاز ابن اسد۔ پاکستان ٹوٹنے کی کہانی از وسیم گوہر۔ مشرقی پاکستان کا زوال از سعید الدین۔ پاکستان توڑنے والے ازافتخار علی شیخ)

حصہ