جو ڈر گیا وہ مر گیا، کھا لے پی لے جی لے، داغ تو اچھے ہوتے ہیں، داغ نہیں تو سیکھنا نہیں، جسٹ ڈو اِٹ، مزا ہے زندگی، سب کہہ دو، تم ہی تو ہو، سپر ہے زندگی وغیرہ … یہ سب وہ جملے ہیں جنہیں ہم نہ چاہتے ہوئے بھی آئے روز ذہنوں میں دہراتے ہیں۔ لاشعور میں جانے سے پہلے ہی اسے دوبارہ شعور کی دنیا میں لے آتے ہیں۔
سماجی ذمہ داری کا نظریہ جان ملٹن اور اس کے ہم عصروں کی مسلسل اور سخت جدوجہد کے بعد معاشرے اور حکومتی حلقوں میں ان اصولوں کی روشنی میںکار فرمائی شروع ہوئی جس کے مطابق انہوں نے کچھ معاملات طے کیے۔
-1اچھی حکومت لوگوں کے کم معاملات پر حکومت کرے۔
2 – لوگوں پر بھروسہ کیاجائے۔
-3عام طور پر لوگ صحیح فیصلہ کرلیتے ہیں۔
ان اختیارات کے بعد اخبارات و جرائد نے آزادیٔ حق کا بے جا استعمال شروع کر دیا۔ بعض اخبارات آزادی اظہار کا غلط، منفی اور پُر فریب استعمال بھی کرنے لگے۔ جیسا ہمارے معاشرے میں آئے روز عوام ان نقصانات کی ضرر رسانیوں سے متاثر ہوتے رہتے ہیں۔
بیسویں صدی کے آخر تک ذرائع ابلاغ اس نظریے کی شقوں کے غلط اور آزادانہ استعمال کی بہ دولت اپنے عوام کو سب کچھ دکھانے اور منفی پروپیگنڈے، سچ کو جھوٹ کی آمیزش کے ساتھ پیش کرنے پر بھی کسی جواب دہی کے پابند نہیں ہوتے تھے۔ بیسویں صدی کے اہم واقعات میں چاند پر زندگی کی خلائی مخلوق کے متعلق جھوٹے واقعات، جنگ کے متعلق افواہیں، یلوکڈ کارٹون وغیرہ شامل ہیں۔
اس سمت میں کسی ملک کی حکومت کسی وزیر کسی حکومتی سطح پر براہ راست ذرائع ابلاغ پر کوئی بات کرنا، کوئی شق، کوئی حکومتی بیان کسی نئے مسئلے کو دعوت دینے کے مترادف تھا اسی لیے ایک نجی ادارے ’’ٹائم ان کارپوریٹ‘‘ کی فراہم کردہ رقم سے 1942 میں ایک کمیشن قائم کیا گیا جس نے 1947 تک کام کیا۔ اسے ہچسن کمیشن فریڈم آف دی پریس کہتے ہیں۔ کمیشن نے پانچ سال میں اپنی رپورٹ پیش کی۔ ابھی تک امریکا اور یورپی ممالک بشمول اسلامی آزاد ممالک اورپاکستان میں اسی رپورٹ کو بنیاد بنا کر تمام ذرائع ابلاغ کے متعلق قانون سازی کی جاتی ہے۔
رپورٹ کے نکات مندرجہ ذیل ہیں:
-1ذرائع ابلاغ پر معاشرے کی طرف سے ذمہ داریاں عائدہوتی ہے ان کی ملکیت کسی تجارت کی طرح نہیں ہوتی۔ عوام کے اعتماد پر پورا اترناضروری ہے۔
-2خبری ذرائع ابلاغ کو صادق، درست ، سب کے ساتھ مساوی سلوک کا حامل، غیر جانبدار اور معاشرے کے جملہ حالات کے مساوی ہوناچاہیے۔
-3ذرائع ابلاغ کو آزاد ہونا چاہیے ، معاشرے کی خدمت کے لیے کاپی رائٹ بندہوناچاہیے۔
-4ذرائع ابلاغ کو اخلاقی اصولوں اور پیشہ ورانہ قواعدکے متفقہ ضابطوں پر عمل کرناچاہیے۔
-5عوامی مفادات حفاظت کے لیے حکومت کو ذرائع ابلاغ کے معاملات میں مداخلت کرنی پڑسکتی ہے۔
-6ذرائع ابلاغ کا اہم کام یہ ہے کہ خود کوتبصرے و تنقید کے لیے ایک پلیٹفارم سمجھیں تاکہ انہیں عوام کے تمام حلقوں کے مفادات کام حافظ سمجھا جائے۔
-7 ابلاغی ادارے معاشرے کے اقدار و روایات کو لوگوں کے ذہنوں سے محو نہ ہونے دیں۔
-8 ابلاغی ادارے وہ ہوں جو معاشرے کے تمام حالات کی نمائندہ تصویروں کے سامنے پیش کریں‘ ان کی فراہم کردہ معلومات و اطلاعات سیاق و سباق کے ساتھ مکمل ہوں۔
-9 ذرائع ابلاغ کو معاشرے کے خاص خاص پہلوؤں کو اجاگر کرتے رہنا چاہیے تاکہ لوگ ان حصول کی جدوجہد سے غافل نہ ہو جائیں اور مل جل کر عظیم برادریاں پیدا کر سکیں۔
-10 ذرائع ابلاغ کو سنسنی اور خبروں میں رائے زنی سے اجتناب کرناچاہیے۔
-11 جرائم، تشدد، بدامنی، اقلیتوں کے خلاف اقدامات کی بیخ کنی ہوتی ہو۔
-12 بڑے ابلاغی اداروں کو معاشرے کے چھوٹے گروہوں کو بڑے گروہوں کے ظلم اور نفرت انگیز پروپیگنڈہ کے تدارک کے لیے ٹیلی ویژن پر وقت فراہم کیاجانا چاہیے تاکہ یہ گروہ بھی اپنا نکتہ نظر پیش کرسکے۔
یہ ہچسن کمیشن کی وہ رپورٹ تھی جس کی روشنی میں یورپی ممالک میں آج تک سختی سے عملدرآمد ہوتا ہے۔ یہ بات شاید ہم میں سے بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ امریکا کا خود اپنے ملک اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ سے متعلق الگ نظریہ ہے۔ ان کی اپنے شہریوں کے لیے پیش کی جانے والی تمام خبریں، پروگرام، ریئلیٹی شوز، ڈرامے ان تمام اطلاعات و معلومات سے قطعاًمختلف ہوتی ہیں جو وہ دنیا کے پیشترممالک میں اپنی ابلاغی اداروں کے ذریعے پہنچاتے ہیں۔ یورپ کے بیشتر ممالک میں یہی فلاسفی استعمال کی جاتی ہے۔ خود برطانیہ نے اپنے شہریوں کو پر تشدد واقعات اور سنسنی خیز خبروں سے دور رکھا ہے۔
اب ہم پاکستانی معاشرے کی جانب چلتے ہیں جس میں ہم رہتے ہیں۔ پاکستان اپنے قیام سے لے کر اب تک جس طرح طاغوت کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے اس سے ہرصاحب بصیرت اچھی طرح واقف ہے۔ وہ سازشیں‘ ایجنڈے‘ قوانین اور بین الاقوامی منظر نامے جن کا پاکستان کو پہلے دن سے سامنا رہا ہے‘ سب کے سامنے ہیں۔ ہمارے ابلاغی ادارے چاہے وہ پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک‘ سوشل میڈیا ہوں ایکٹیوسٹ یا اعلیٰ اداروں کے سربراہ سب بہ خوبی جانتے ہیں کہ پاکستان میں کس کا حکم چلتا ہے۔ یہ دیس تو لاالٰہ الاللہ کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا اور بنانے والے نے بھی اپنی جانب سے حتیٰ الامکان کوشش کی تھی کہ یہ ملک دشمن عناصر کے ہاتھوں میں نہ چلاجائے۔ لیکن بانی ٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا انتقال سے کچھ دن قبل یہ بیان کہ ’’میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں‘‘ بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کس طرح سازش کے تحت قائد کے انتقال کے تین سال گزر جانے کے بعد بھی محترمہ فاطمہ جناح کو عوام سے دور رکھا گیا، کس طرح لیاقت علی خان کو قتل کیا گیا اور ان کے قاتل کو موقع پر ہی گولی مار دی گئی، کس طرح ملک دشمن عناصر برسر اقتدار آئے اور آج تک ملک کو کھا رہے ہیں۔
ان حالات کے بعد 1965 میں رات کی تاریکی میں دشمن ملک نے پاکستان پر حملہ کیا جس کا منہ توڑ جواب قوم کے جیالوں نے حب الوطنی اور محبت و یگانگت سے دیتے ہوئے دشمن پر ایسا جوابی کاری وار کیا کہ دشمن اپنی بیرکوں میں شکست خوردہ واپس چلاگیا اور ہم آرام سے بیٹھے رہے بلکہ یہ کہنا بے جانا ہوگا کہ ہمیں لوری دے کر سلا دیاگیا۔
اسی دوران جب مشرقی پاکستان میں شورش برپا تھی مغربی پاکستان کے مسلمان بے خبر اپنی زندگی میں گم تھے۔ سوائے جماعت اسلامی کے کوئی ایسی جماعت تاریخ میں نظر نہیں آتی جس نے عوام کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کے لیے اپناحصہ ڈالا ہو۔ مسلم لیگ صرف پنجاب اور پیپلز پارٹی سندھ کی حد تک فعال تھی۔ صرف جماعت اسلامی ہی تھی جس کے کارکنان بیک وقت مشرقی اور مغربی پاکستان میں فعال تھے۔ سیلابوں کی سرزمین پر جب سیلاب آتے تو یہی کارکنان ’’فلڈ ریلیف فنڈ‘‘ جمع کرنے کے لیے نکل پڑتے اور دن رات فنڈ اکٹھا کرکے مشرقی پاکستان پہنچاتے۔ اُس وقت بھی ذرائع ابلاغ نے کوئی خدمت انجام نہ دی۔ ہماری پروفیسر بتاتی ہیں کہ اُس وقت بنگال کے پی ٹی وی پروگراموں کو دیکھ کر یوں لگتاتھا کہ جیسے وہاں صرف ناچ گانے ہی ہوتے ہیں۔
بالآخر سازشیںکامیاب ہو گئیں‘ ملکی ذرائع ابلاغ کی بہ دولت ہم یہ جنگ با آسانی ہار گئے۔ 90 ہزار پاکستانی فوج نے بھارت کے آگے ہتھیار ڈال دیے اور یوں نظریۂ پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا۔ اس وقت بھی ذرائع ابلاغ کی بنیادی ذمے داری یہ تھی کہ معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کی ترجمانی کرتا لیکن اس کے برعکس اخبارات اور برقی ابلاغ نے سازشوں کا شکار ہوکر اپنی ذمہ داریوں سے روگردانی کی۔ آج ہم یہی شورش و سازش بلوچستان میں دیکھ رہے ہیں۔
ابلاغی اداروں کی اہم خصوصیت یہی ہے کہ وہ معاشرتی اقدار کو لوگوں کے ذہنوں سے محو نہ ہونے دیں۔ آج کل کے ابلاغی ادارے معاشرے کی اقدار و روایات کا جس طرح جنازہ نکال رہے ہیں میں اور آپ اس سے بہ خوبی واقف ہیں‘ مارننگ شوز کے نام پر حیا سوز پروگرام تمام چینلوں سے براہِ راست نشر کی جاتی ہیں۔ پرنٹ میڈیا بھی کسی سے پیچھے نہیں‘ بہت سے اخبارات میں مدر ڈے، فادر ڈے، ٹیچر ڈے، بسنت، ویلنٹائن، ہیلووین ڈے اور بلیک فرائیڈے کے نام پر خصوصی ایڈیشن شائع کیے جاتے ہیں۔ ایسا لگتاہے کہ ہمارا میڈیا کسی ضابطۂ اخلاق کا پابند نہیں۔ خبروں کی سنسنی خیزی اور اس کے درست یا غلط ہونے سے پہلے ہی اتنی بات کرلی جاتی ہے کہ جس کے باعث معاشرہ میں بے حسی پھیل رہی ہے۔
تشدد کی بیخ کنی کی شق بھی ہمارے ابلاغی اداروں اور پروگرام بنانے والے افراد کی پالسیوں سے کوسوں دور ہے۔ ہمارے محترم استاد ڈاکٹر اسامہ شفیق کے مطابق گھریلو تشدد، ساس بہو سے جھگڑے، میاں بیوی میں ناچاقی اس تواتر سے دکھائی جاتی ہے کہ لگتا ہے پاکستان کا ہر گھر اس میں مبتلا ہے حالانکہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ آج ہی ہماری پروفیسر ڈاکٹر رفیعہ لیکچر کے دوران یہ بات بتا رہی تھیں کہ نیویارک سٹی میں ہر منٹ میں ایک جرم ہوتا ہے اور جس تواتر کے ساتھ وہاں جرائم ہوتے ہیں ہم اور آپ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ لیکن صرف یہ کہ ان کا میڈیا ان باتوں، افعال کی تشہیر نہیں کرتا اسی لیے ہم انہیں پُرامن سمجھتے ہیں جب کہ سب سے کم جرائم کی شرح اسلامی ممالک میں ریکارڈ کیا جا رہاہے۔
شرمین عبیدچنائے کی پاکستان پر بننے والی ’’اونرکلنگ‘‘ اور ’’سیونگ فیس‘‘ جیسی ڈاکومنٹری کی عالمی پزیرائی کے باعث پاکستانی ساکھ کو نقصان پہنچانے والے عناصر اور زیادہ گرم جوشی کے ساتھ مل کر اپنا کام ایک خاص ایجنڈا کے تحت سرانجام دے رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام الناس میں شعور و آگہی بیدار کی جائے۔ ہر خبر پر فوری ردعمل کا اظہار نہ کیا جائے۔ ذرائع ابلاغ پر بیشتر ڈاکومنٹری، خبریں اور پروگرام جھوٹ پر مبنی ہوتے ہیں لہٰذا ان کے متعلق افواہوں سے کان نہ دھرے جائیں۔ فوری ردعمل کے ذریعے ابلاغی اداروں کے نمبروں پر فون اور ای میل کے ذریعے غلط پروگراموںکی نشاندہی کی جائے۔ معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کی جانب ابلاغی اداروں کی توجہ بذریعہ ای میل، واٹس ایپ، ایمو،خطوط، فون اور سوشل میڈیا پر چلنے والے ان سے متعلقہ صفحات پر کروائی جائے۔ ابلاغی اداروں کی کسی غلطی کا فوری ردعمل عوام کے بجائے براہ راست ادارے تک پہنچایا جائے۔ بحیثیت قوم اپنے ہونے کا ثبوت دیجیے۔ وقت بتا دے گا آپ درست تھے۔
اے خاک نشینو! اٹھ بیٹھو‘ وہ وقت قریب آ پہنچا ہے
جب تخت گرائے جائیں گے‘ جب تاج اچھالے جائیں گے
اے ظلم کے ماتو! لب کھولو، چپ رہنے والو چپ کب تک
کچھ حشر تو ان سے اٹھے گا کچھ دور تو نالے جائیںگے