کیک اور سوشل میڈیا

372

ایک شمسی سال مزید مکمل ہوگیا۔بظاہر تو 2021سال مکمل ہوگئے ، مگر اس ماہ و سال کے آنے جانے سے انسان عبرت شائد ابھی نہیں لے پا رہا اور غفلت میں ہی پڑا محسوس ہوتا ہے ۔کئی پیارے امسال اپنی زندگی مکمل کر گئے، کئی حادثات ہوئے، کئی واقعات ہوئے مگر کیا ان سب سے کوئی سبق لیا گیا۔ایسا کیوں ہوتا ہے کہ نئے شمسی سال کی آمد پر جس قسم کی تقریبات و تفریحات کی جاتی ہیں وہ سوائے غفلت کی چادر اوڑھنے سے زیادہ کچھ نہیں ۔اس ہفتہ سوشل میڈیا پر بھی نیا سال دھوم دھام سے شروع ہوا ، مگر یہ دھوم دھام برطانیہ، امریکا اور کئی یورپی ممالک میں کورونا کے نئے ویری اینٹ اومیکرون کی وجہ سے قدرے ماند رہی۔ ایکسپو 2020 دبئی میں کرسمس اور نئے سال کو بطور تہوار منانےکا ماحول غالب رہا۔لوگ نئے سا ل کے عنوان سے کئی عزائم کا اظہار کرتے نظر آئے ۔ سال بھر کئی وڈیوز وائرل رہیں جن میں عامرلیاقت، قادر خان کو فردوس عاشق کا تھپڑ، دنانیر ،عائشہ اکرم اور ندا یاسر کی وڈیوشامل ہیں۔
سپریم کورٹ کی جانب سے کراچی میں تجاوزات کے خاتمے کی مہم بدستور جاری ہے ۔نسلہ ٹاور و دیگر غیر قانونی تعمیرات کے ختم کرنے کے بعد اس ہفتہ طارق روڈ کی ایک مسجد بھی اس حکم کی زد میں آگئی، مگر یہ پہلی بار نہیں آئی۔SaveMadinaMasjidکے عنوان سے ہیش ٹیگ ٹرینڈ تین دن تک کرتا نظر آیا۔ “اگر مسجد کو شہید کرنے کی کوشش کی گئی تو مسجد کو بچانے کیلئے جسم میں خون کا آخری قطرہ قربان کرونگا انشاءاللہ ۔” ایسی جذباتی پوسٹوں سے ایمان جگانے کی کوشش کی جاتی رہی۔ دوسری جانب سے یہ بیانیہ ملا کہ”اسلام کا لبادہ اوڑھ کر تم مسجد اور مدرسے کے نام پہ قبضہ کرتے ہو۔ شرم آنی چاہیے تم لوگوں کو۔ایک صاحب نے تو مقامی مدرسہ نیو ٹاون کا فتویٰ بھی لگا دیا کہ “مسجد تعمیر ہو جائے توہمیشہ کے لیے مسجد ہوجاتی ہے ۔” مفتی عدنان کاکا خیل نے اس ضمن میں ٹوئیٹ کی کہ “مدینہ مسجد طارق روڈ میں ہزاروں نمازی اللہ کے حضور سربسجود ہوتے ہیں۔دہائیوں سے قائم مسجد باقاعدہ نقشے منظور کروا کر بنی ہے۔یوں یکلخت اس کو ڈھا دینے کا حکم بلاجواز اور ناجائز ہے۔کسی اسلامی ملک میں حکومت کی اولین ذمہ داری اقامتِ صلاۃ ہے نہ کہ انہدامِ مساجد۔عوام کو مشتعل نہ کیا جائے۔” ویسے اس میں آپ کی خدمت میں چند دلچسپ سوشل میڈیا مکالمے پیش ہیں۔ “جگہ پر قبضہ کرنے کا یہ پرانا طریقہ ہے پاکستان میں۔زمین پر قبضہ کرو۔کچھ پلازے بناؤ اور ساتھ ہی مسجد بھی بنا ڈالو۔پھر لوگوں کو مذہبی جنونیت میں دھکیل کر جگہ پر قبضہ جاری رکھو۔اللہ سے تو تم لوگ ڈرتے نہیں ہو۔اور اسی اللہ کا نام لیکر اپنے مخالفوں کو قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے”۔سیاسی طور پر جمعیت علمائے اسلام (ف) میدان میںاس موقف کے ساتھ اتری ہے کہ “سکھوں کے گردوارے،ہندووں کے مندر، بنی گالہ محل،حیات ریزیڈنسی اسلام آباد،بحریہ ٹاؤن سب ریگولائز ہوسکتےہے لیکن مساجداور نسلہ ٹاور گرانیکی جلدی کیوں؟کسی کےباپ میںہےتومسجد گراکردکھائے۔اگر مسجدسلامت نہیں توتمہارےدفتربھی سلامت نہیں رہیں گے”۔
اس ہفتہ حکومت اپنا مہنگائی بڑھانے والامنی بجٹ پیش کرنے اور منظور کرانے میں کامیاب ہوگئی۔ اپوزیشن چیختی چلاتی رہی، “پی ٹی آئی ایم ایف منی بجٹ “کے ہیش ٹیگ کے تحت حکومتی اقدامات کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔قومی اسمبلی میں جاری احتجاج کے دوران پیپلز پارٹی کی شگفتہ جمانی نے پی ٹی آئی کی غزالہ سیفی کو تھپڑ ماردیا۔ فواد چوہدری بیچ بچاؤ کے بجائے مووی بناتے رہے، کیونکہ ان کی قائد اعظم کے سیکولر پاکستان والی تقریر پہلے ہی خاصا موضوع بن چکی تھی۔آصف زرداری، شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری ایوان میں نہیں آئے۔ اپوزیشن ارکان نے حکومتی بینچز پر جا کر شوکت ترین کو گھیر لیا، حکومت نے موقع غنیمت جانا اور اسی شور شور شرابے میں قوانین محصولا ت سمیت کئی قراردادیں منظور کرا لیں۔یہ سب وڈیوز سوشل میڈیا پر تنقید کے ساتھ شیئر ہوتا رہا۔
پاکستانی ڈرامہ اداکارہ علیزے شاہ ایک بار پھر سوشل میڈیا پر تنقید کے ساتھ وائرل رہیں ۔کچھ عرصہ قبل لاہور میں ایک فیشن شو کے دوران علیزے شاہ گلوکارہ شازیہ منظور کے گانے کے دوران کپڑے پاؤں میں پھنس جانے پر فرش پر گر پڑیں تھیں۔وہ وڈیو بھی وائرل رہا تھا۔ اس بار سگریٹ نوشی کرتے ہوئے کی وڈیو نے عوامی رد عمل کا نشانہ بنایا۔کچھ لوگ مردوں کی سگریٹ نوشی کو معیوب نہ قرار دینے کی دلیل دے کر سوال کرتے رہے کہ اگر مرد پی سکتا ہے تو عورت کیوں نہیں۔ کچھ صارفین نے کہا کہ اُس کی ذاتی زندگی ہے وہ کچھ بھی کرے ۔ مگر وہ یہ بھول گئے کہ سیلیبرٹی عوامی ہوتا ہے ذاتی نہیں ، بہرحال
یوں یہ بحث کئی دلچسپ میمز کے ساتھ ایک زبردست تہذیبی مکالمے میں داخل ہوگئی جو کہ خواتین کے حقوق کی جانب بھی جاتا اور یہ بھی بتاتا کہ سوشل میڈیا پر موجود نیٹیزن اب بھی کسی خاتون کو کم کپڑوں پر جہاں خوب ہدف بناتے ہیں وہاں ان کو تمباکو نوشی بھی قبول نہیں۔بنیادی طور پر یہ معاملہ ہماری روایتی تہذیبی علامت سے جڑا ہوا ہے جہاں عورت کا مقام قطعی طور پر مرد کے جیسا نہیں ہو سکتا بلکہ اس سے کہیں الگ اور اوپر ہی کہا جا سکتا ہے۔27 دسمبر کو بے نظیر بھٹو کی برسی بھی سوشل میڈیا پر منائی گئی ، وہ لڑکی لعل قلندر تھی، بے نظیر بھٹو، 27ستمبر بلیک ڈے کے ہیش ٹیگ ٹرینڈ بنائے گئے اور خاتون کی تصاویر اور وڈیوز کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے خوب پھیلایاگیا۔اسکے علاوہ اس ہفتہ جماعت اسلامی کی جانب سے سندھ کے بلدیاتی قانون کے خلاف مہم بھی زوروں پر نظر آئی۔سندھ حکومت کی جانب سے کراچی کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے کراچی کے بلدیاتی اختیارات سلب کرنےکے لیے قانون سازی کی گئی ۔ پیپلز پارٹی نے کہاکہ ہم نے یہ کام جلدی میں کیا ہے مگر جماعت اسلامی کا واضح موقف ہے کہ کراچی میگا سٹی ہے اسکے بلدیاتی اداروں کے سربراہ یعنی میئر کو باا ختیار کیا جائے اور تمام بلدیاتی ادارے و محکمہ میئر کراچی کے ماتحت کرے جائیں ۔ اس حوالے سے جماعت اسلامی مستقل سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے اور سوشل میڈیا پر مستقل ان سرگرمیوں کی گونج سنائی دیتی رہی ہے۔
اس ہفتہ یوم قائد اعظم بھی چلتا رہا اور کرسمس بھی ٹرینڈ لسٹ میں نظر آیا۔ اس میں اہم بات یہ ہوئی کہ ڈیفنس کراچی میں واقع ڈلیزیا بیکری کی ایک شاخ نے ایک خاتون صارف کو کیک پر کرسمس کی مبارک باد لکھنے سے منع کر دیا ۔سیلسٹیا نسیم نامی صارف نے بیکری انتظامیہ سے متعلق ٹوئیٹ میں لکھ دیاکہ ‘اگر وہ اقلیتوں اوراُن کے مذہب کے اتنے ہی خلاف ہیں تو انہیں ایسے مواقع (مذہبی تہواروں) سے پیسہ بھی نہیں کمانا چاہیے، ڈیلیزیا کےغیراخلاقی اورغیر پیشہ ورانہ رویے سے بہت مایوسی ہوئی۔”بیکری انتظامیہ نے صاف کہاکہ ہماری پالیسی نہیں ہے۔بیکری کے ایک صارف نے لکھا کہ ،”چند بیکریوں کو میری کرسمس کا کیک نہ بنانے پر تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے ان میں سے ایک نام ڈیلیزیا کا بھی ہے۔ایک بات بتاتا چلوں کہ ڈیلیزیا والے نہ ویلنٹائن کیک بنانتے ہیں نا ہی کسی بھی قسم کا پکچر کیک اور اُنکی یہ پالیسی ہمیشہ
سے ہے”۔یہی واقعہ کراچی کی ایک اور خاتون آنٹی منور کی جانب سے بھی پیش آیا۔ اس پر تو لبرل طبقات میں کھلبلی مچ گئی۔گوکہ 2018میں بھی متعلقہ بیکر ی کے بارے میں ایسا ہی ایک واقعہ سننے میں آیا مگر اسکو شائد پذیرائی نہ مل سکی۔ اہم بات یہ ہے کہ پذیرائی اس واقعہ کو بھی نہیں ملنے دی گئی جتنا اس پر شور ہو سکتا تھا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اس واقعہ پر پاکستان میں جتنا شور مچے گا لوگ سوال کریں گے کہ کیوں منع کیا؟ پھر جواب ملے گا کہ بھائی یہ کفریہ ، شرکیہ جملہ ہے اس لیے منع کیا۔ اس پر ایمانی غیرت لازمی جوش میں آئے گی تو یوتھ کلب کی جانب سے بنایا گیا مدلل وڈیو کلپ دوبارہ وائرل ہوگا جس سے عام مسلمانوںکومعلوم ہوگا کہ یہ مبارکباد انہیں کہاں سے کہاں لے جا سکتی ہے۔ عیسائیوں کا عقیدہ یہ نہیں ہے کہ 25 دسمبر کو اللہ کے پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی ، بلکہ وہ اس دن کو خدا کے بیٹے ( نعوذ باللہ) مسیح کی آمد کے عنوان سے مناتے ہیں جومسلمانوں کے لیے کسی طور بولنا بھی ممکن نہیں ۔مسلمانوں کا کامل عقیدہ ہے کہ لم یلد ولم یولد۔ اس لیے یہ کہنا کہ مسلمانوں کے تہوار کی بھی تو غیر مسلم مبارک باد دیتے ہیں تو ہم کیوں نہ دیں؟ انتہائی بودا اور لبرل بیانیہ ہے کیونکہ اول بات تو یہ ہےکہ ہمارے مذہبی تہوار ہمارے مذہبی عقائد سے جڑے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ ہم ، ہمارا دین حق پر ہے ۔جب ہم حق پر ہیں باقی باطل ہیں تو کسی غیر مسلم کا حق پر مبنی تہور کی مبارک باد دینے سے کوئی مسئلہ نہیں ۔ لیکن کوئی مسلمان اپنے عقیدے کے برخلاف کسی اور عقیدے سے جڑی تقریب یا تہوار کی مبارک باد قطعاً نہیں دےسکتا۔ یہ کوئی قومی دن ، یا کوئی کھیل، یا کسی کمپنی کا افتتاح کا دن نہیں ہوتا بلکہ خاص مذہبی عقائد سے جڑا عقیدہ ہوتا ہے ۔ کچھ لوگوں نے سوشل میڈیاپر قائد اعظم کی 11 ستمبر کی تقریر کو بطور دلیل غلط معنی پہنا کر پیش کیا ، جس کا وہیں لوگوں نے بھرپورجواب دیا کہ قائد اعظم نے صاف کہاکہ “اپنے اپنے عبادت گاہوں میں جانے کی آزادی ہے” اسکا مطلب یہ ہے کہ دوسرے کے مذہب و معاملات میں گھسنے کی آزادی نہیںہے۔ ایک اور صارف نے لکھا کہ “کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ایک اسرائیلی اپنے کیک پر Free Palestine لکھے گا۔” یوم قائد اعظم پر اس بار قائد اعظم کی جانب سے اسلام و پاکستان کے تعلق پر منی پوسٹوں کو بھی شیئر کیا گیا تاکہ جھوٹ پر مبنی لبرل بیانیے کو روکا جا سکے۔

حصہ