المیہ سقوط مشرقی پاکستان کا ذمہ دار کون؟

311

سقوط مشرقی پاکستان ،اسباب و اثرات

’’مشرقی پاکستان‘‘ کو ’’بنگلہ دیش‘‘ کا روپ دھارے نصف صدی بیت گئی مگر قوم کو آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ پاکستان ٹوٹنے کے اسباب کیا تھے؟ اس سانحے کے مجرموں کا سراغ لگایا گیا اور نہ انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کا اہتمام ہوا… روزنامہ ’’جسارت‘‘ نے اپنی قومی ذمے داری سمجھتے ہوئے آج سے ربع صدی قبل3 دسمبر 1995ء کو لاہور میں ایک اہم مجلس مذاکرہ کا اہتمام کیا جس میں ممتاز قومی، سیاسی اور صحافتی شخصیات نے اظہار خیال کیا۔ سابق وفاقی وزیر قانون محترم ایس ایم ظفر کے سوا مذاکرہ کے تمام مقررین اب اپنے خالق حقیقی کے حضور پیش ہو چکے ہیں تاہم انہوں نے ربع صدی قبل جن خیالات کا اظہار کیا وہ آج بھی ہمارے لیے چشم کشا اور رہنمائی کا ذریعہ ہیں، غور و فکر کا بہت سا سامان اپنے اندر رکھتے ہیں اور ملک کے محفوظ و روشن مستقبل کی راہیں ہمیں سجھاتے ہیں۔ میزبانی کے فرائض ممتاز صحافی اور تجزیہ نگار عطا الرحمن صاحب نے ادا کیے جو اس وقت ’’جسارت فورم لاہور‘‘ کے صدر تھے۔ ’’گاہے گاہے باز خواں ایں قصہ پارینہ را‘‘ کے طور پر اس مذاکرہ کی رو داد قسط وار ’’جسارت‘‘ کے قارئین کی نذر ہے۔

شرکائے مذاکرہ
٭پروفیسر عبدالغفور احمد: نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان
٭میجر جنرل (ر) رائو فرمان علی: مشرقی پاکستان کے آخری گورنر کے فوجی مشیر
٭ایس ایم ظفر: سابق وزیر قانون، متحدہ پاکستان
٭ڈاکٹر صفدر محمود: مورخ، مصنف، سابق پرنسپل ایڈمنسٹریٹیو اسٹاف کالج لاہور
عبدالکریم عابد: تجزیہ نگار، کالم نویس، سابق ایڈیٹر روزنامہ ’’جسارت‘‘

جسارت: ایک رائے یہ بھی ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بیج مرحوم ایوب خان کے دس سالہ دور میں بوئے گئے تھے۔ ملک کے ممتاز قانون دان جناب ایس ایم ظفر اس دور میں چند برسوں کے لیے پاکستان کے وزیر قانون رہے ہیں۔ المیہ مشرقی پاکستان سے تقریباً دو برس قبل ایس ایم ظفر صاحب نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ انہوں نے موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
ایس ایم ظفر:سقوط مشرقی پاکستان ایک ایسا المیہ ہے کہ وقتاً فوقتاً اس کا تجزیہ اور ذکر کرتے رہنا چاہئے تاکہ احساس زیاں تازہ رہے پاکستان اب پھر بحرانوں کا مرکز بنا ہوا ہے ان حالات میں ماضی کے تجربات کے صحیح تجزیئے سے ہمیں صحیح فیصلے کرنے میں مدد ملے گی۔ بہت سی باتوں کو چھوڑتے ہوئے میں دو تین اہم امور کا خصوصاً ذکر کروں گا۔ جنرل یحییٰ خان تہران کے دورے سے واپس آئے تو اسلام آباد میں انہوں نے ’’لیگل فریم ورک آرڈر‘‘ کا نفاذ کیا جس میں بہت سے آئینی نکات کے علاوہ ایک یہ سب سے اہم نکتہ بھی تھا کہ انتخابات ’’آئین ساز‘‘ اسمبلی کے لیے ہوں گے۔ یعنی 1970ء کے انتخابات کا مقصد محض حکومت کا قیام یا وزیر اعظم کا چنائو نہ تھا بلکہ یہ انتخابات آئین ساز اسمبلی کے لیے تھے۔ اس سے قبل آئین موجود تھا اور مارشل لاء کے باوجود ’’پیریٹی‘‘ کا اصول لاگو تھا یعنی مشرقی اور مغربی پاکستان کو برابری کا تناسب دیا گیا تھا پارلیمنٹ ایک ایوان تھا، سینٹ موجود نہیں تھا لیگل فریم ورک آرڈر میں ’’پیریٹی‘‘ کی جگہ ایک آدمی ایک ووٹ کا نظام تو رائج کر دیا گیا مگر سینیٹ کی گنجائش نہ رکھی گئی۔
آئین ساز اسمبلی کے انتخابات کا نتیجہ یہی ہونا چاہئے تھا کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے لوگ ایک ہی جماعت پر متفق ہوتے البتہ اگر انتخابات صرف حکومت سازی کے لیے ہوتے تو بچت کی گنجائش نکل سکتی تھی۔ لیگل فریم ورک آرڈر کس سے پوچھ کر بنایا گیا اور کس کے مشورے سے تیار ہوا۔ یحییٰ خان یہ باہر سے لے کر آئے یا خود ان کے ذہن کی اختراع تھی۔ آج تک اس کا سراغ نہیں مل سکا۔ یہ بھی ایک المیہ ہے کہ ہمارے یہاں بڑے بڑے واقعات کے محرکات کا علم نہیں ہو پاتا۔ بہرحال یہ ایک آئینی مسئلہ تھا جس نے بنگلہ دیش کے قیام میں مدد دی۔
دوسرے میرے اپنے نقطہ نظر سے شیخ مجیب الرحمن سنگین سازش کے مقدمے میں ملوث تھے۔ جس میں شہادت بھی موجود تھی کہ انہوں نے بھارت جا کر ’’پارس‘‘ کے خفیہ نام سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی سازش کی تھی۔ اس قسم کے سنگین الزام کی موجودگی میں مقدمہ کو نتیجہ خیز نہ ہونے دینا ہماری سیاسی قیادت کی ایسی غلطی تھی جس کے نتیجے میں لوگ اس عروج پر پہنچتے ہیں جہاں مجیب پہنچا۔
دفاع کے معاملے میں قوموں کو یہ حق ہوتا ہے کہ وہ ایسے اقدامات سوچیں کہ دفاع پراعتماد قائم رہے ہم نے کہا تھا کہ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان سے کریں گے اور دہلی تک پہنچیں گے۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ دفاعی امور میں جھوٹ بول کر اعتماد قائم نہیں کرنا چاہیے ورنہ یہ بلبلہ کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے چنانچہ ہمارے دفاع کا یہ بلبلہ1965ء کی جنگ کے خاتے پر پھٹا جب اسمبلی میں وزیر دفاع نے کہا کہ مشرقی پاکستان کا دفاع ہم نے چین کی مدد سے کیا۔ اس اعلان کے بعد مشرقی پاکستان کے لوگوں کا یہ حق بن گیا تھا کہ وہ سوچیں کہ اگر مغربی پاکستان دفاع کے لیے کام نہ آئے گا تو صرف ایسی ڈپلومیسی کے سہارے جو قطعی غیر یقینی ہے ہم خود مختار ریاست کی حیثیت سے زندہ نہیں رہ سکتے۔
فوج کے متعلق بھی دو باتیں عرض کرنا چاہوں گا مجھے یقین ہے کہ ہمارے فوجی اچھے فوجی ہیں، جو شہادت کا جام بخوشی نوش کرتے ہیں مگر کیا صرف لڑنا ہی دفاع ہے یا یہ کسی منصوبہ بندی کا بھی نام ہے؟ میں عرض کروں گا کہ فوجی قیادت کی دفاعی منصوبہ بندی بری طرح ناکام رہی۔ اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود میرا دل مطمئن نہیں کہ1971 ء میں فوجی قیادت کے پاس ایسی کوئی منصوبہ بندی تھی کہ مشرقی پاکستان کے حالات بگڑنے پر کیا حکمت عملی اپنائی جائے گی۔
مشرقی پاکستان میں فوج کو جب کریک ڈائون کا حکم دیا گیا تو یہ بھی تربیت نہیں کی گئی کہ پاکستانی فوج پاکستانی علاقے ہی میں جا رہی ہے کسی مقبوضہ علاقے میں نہیں، چنانچہ ہماری فوج نے کئی جگہ قابض فوج کا رویہ اختیار کیا اس کے بعد اگر اس وقت بنگلہ دیش نہ بنتا تو بعد میں بن جاتا۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی ایک وجہ مغربی پاکستان کے عوام بھی ہیں کیونکہ قومی معاملات میں عوام کو رد عمل دکھانا ہوتا ہے مشرقی پاکستان کے لوگوں کے جو حقوق تھے ان کی نفی پر مغربی پاکستان کے لوگوں کا رد عمل کیا تھا؟ ایک دو کے سوا کب آواز اٹھی کہ مغربی پاکستان کے لوگ اپنے مشرقی بھائیوں کے حقوق کی نفی اور ان کے حقوق کو غصب کرنے والوں کے خلاف ہیں بلکہ اخبارات کھنگالیں تو معلوم ہو گا کہ کس نے ’’ادھر ہم ادھر تم‘‘ کا نعرہ لگایا اور کہا کہ ’’خدا کا شکر ہے پاکستان بچا لیا گیا‘‘ کئی نے تو فوجیوں کی غیر انسانی حرکتوں کو بھی جائز قرار دیا۔
جہاں تک اس رائے کا تعلق ہے کہ علیحدگی کے بیج ایوب دور میں بو دیئے گئے تھے تو چار سال ان کے ساتھ رہتے ہوئے مجھے ایوب خان کی پالیسیوں یا شعور کے لحاظ سے کبھی شک نہیں پڑا کہ ایسی کوئی سوچ کہیں موجود ہے بلکہ وہ مشرقی پاکستان کی صنعتی اور معاشی ترقی پر بہت خوش تھے اور دفاع میں بھی مشرقی پاکستان کو شریک کرنا چاہتے تھے تاہم جو صدارتی نظام لائے تھے اس میں چیک اینڈ بیلنس کا کوئی اہتمام نہ تھا جس کی وجہ سے ایک شخص کے پاس ساری قوت اور اختیارات آ جاتے ہیں اس سے مشرقی پاکستان میں اعلیٰ سطحی حقوق سے محرومی کا احساس پیدا ہوا۔ لوکل باڈیز کا نظام بھی وہاں ایسے احسن انداز سے نہ چل رہا تھا کہ ان میں احساس شرکت پیدا کر سکتا۔
کراچی کی موجودہ صورتحال میں بھی ضروری ہے کہ کراچی کے باہر خصوصاً پنجاب کے عوام کراچی کے شہریوں کے سیاسی حقوق کی نفی کے خلاف اپنا رد عمل بھر پور طریقے سے پیش کریں۔ ’’جسارت فورم‘‘ کے ذریعے میں یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ کراچی کے باشندے جو ایم کیو ایم کے رکن ہیں یا نہیں ان کے درج ذیل حقوق کی نفی کی جا رہی ہے۔
اولاً مردم شماری کا نہ ہونا بہت زیادتی ہے فوج، پارلیمنٹ اور دیگر اداروں کی موجودگی میں مردم شماری کا نہ ہو سکنا ایک ایسا مسئلہ ہے کہ اس چنگاری سے کسی بھی وقت الائو تپ جائے گا۔ ثانیاً بلدیاتی ادارے عوام کا حق ہے جس سے انہیں محروم رکھا جا رہا ہے یہ حق انہیں ملنا چاہیے اور اس کے لیے مطالبہ کیا جانا چاہئے ثالثاً رائے شماری کے نتائج کی روشنی میں از سر نو حلقہ بندی ہونا چاہئے رابعاً کراچی کے مسئلے کا سیاسی حل تلاش کیا جانا چاہئے دانشوروں کو خود اس سلسلے میں کوشش کرنا چاہئے پنجاب اور مرکزی حکومت کو سنجیدگی سے اس جانب توجہ دینی چاہئے۔
کراچی کا فوجی حل تلاش کرنا درست نہیں وہاں مشرقی پاکستان جیسے حالات تو نہیں البتہ یوگوساویہ اور لبنان کے حالات ضرور پیدا ہو رہے ہیں اور ہم لمحہ بہ لمحہ سول وار کی طرف بڑھ رہے ہیں ایسے حالات میں سوچا جانا چاہئے کہ فوج کو کیا منصوبہ بندی کرنی ہوتی ہے خدا کے لیے اس پر سوچیں مبادا اس بار بھی ہم منصوبہ بندی کے بغیر رہ جائیں۔
آخری بات یہ کہ ملک میں ایک تھنک ٹینک کی شدید ضرورت ہے جو حکومت سے علیحدہ رہ کر سوچ بچار کرے اس تھنک ٹینک کے نہ ہونے سے امور خارجہ ان لوگوں کے حوالے رہتے ہیں جو وزارت خارجہ کے مستقل ملازم ہیں یا جو قسمت سے اس کے وزیر بن جائیں امور خارجہ سمجھنا ان کا کام نہیں یہ کام تھنک ٹینک کرتے ہیں۔ اس زمانے میں بتایا جاتا رہا کہ امریکی بحری بیڑا ہماری مدد کو آ رہا ہے مگر آج جیسا کہ ہنری کسنجر کے تازہ بیان سے واضح ہو گیا ہے کہ امریکا، روس اور بھارت تینوں پاکستان توڑنے پر متفق تھے آج بھی ہمیں سوچنا چاہیے کہ کون سا ملک ہمارے معاملے میں کہاں کھڑا ہے ؟ میں اس تفصیل میں نہیں جاتا کہ ہم آج کتنے دوستوں سے محروم ہو چکے ہیں، یہ ذکر بھی نہیں کرتا کہ بین الاقوامی سطح پر ہمارا مقام کس قدر مخدوش ہو چکا ہے۔ مگر ان تمام مسائل کا معروضی جائزہ لینے کے لیے کوئی تھنک ٹینک موجود نہیں۔
میرے خیال میں اب بھی بہت وقت ہے اور ملکی سالمیت اور بقاء کی بڑی گنجائش موجود ہیں خطرات کی گھنٹی ابھی دور سے سنائی دے رہی ہے مگر اس کے لیے منصوبہ بندی ہمیں آج ہی کرنا ہو گی فوجی قیادت اپنی منصوبہ بندی کرے، عوام خود بھی منصوبہ بندی کریں اور جو سوچ بچار کر سکتے ہیں وہ لکھیں۔
جسارت: ایس ایم ظفر صاحب !1971ء میں مشرقی پاکستان کے محاذ پر جنگ جاری تھی مگر ابھی مغربی پاکستان میں جنگ شروع نہیں ہوئی تو آپ نے لاہور میں منعقدہ ایک مذاکرہ میں مطالبہ کیا تھا کہ پاکستان چین سے فوراً دفاعی معاہدہ کرے۔ آپ یہ بتائیں گے کہ چین اور ایران نے 65ء میں جس طرح بڑھ چڑھ کر ہمارا ساتھ دیا اور کم از کم ہمارے لیے نفسیاتی سہارا بنے۔ 1971ء میں ان کا رویہ وہ کیوں نہ تھا؟ اور آج خارجہ پالیسی جس نہج پر جا رہی ہے ایک بڑی طاقت کے اشاروں پر تمام علاقائی دوستوں سے ہمارے تعلقات میں گرم جوشی ختم ہو رہی ہے اور بھارت سے ان کے تعلقات گہرے ہوتے جا رہے ہیں موجودہ خارجہ پالیسی کے تناظر میں ہم 1971ء سے بھی زیادہ مہیب خطرات سے دو چار ہیں۔ ان میں آپ کیا تجویز دیں گے؟
ایس ایم ظفر: جس مذاکرے کا ذکر آپ نے کیا یہ میرے مشرقی پاکستان کے آخری سفر کے فوراً بعد منعقد ہوا تھا میں واپس آیا تو چند دن بعد دونوں حصوں کے مابین فلائٹس بند ہو گئیں انہی دنوں روس اور بھارت میں دفاعی معاہدہ ہوا تھا جس کو دیکھ کر ’’لاہور سول فورم‘‘ کے اجلاس میں یہ تقاضا کیا گیا کہ چین سے معاہدہ کیا جائے معلوم نہیں اب اس جانب کوئی کوشش کی گئی یا نہیں کیونکہ ہمارا حکمران ٹولہ اس خوش گمانی کا شکار تھا کہ امریکا بھارت کو مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کی اجازت نہیں دے گا اسی لیے ساتویں بحری بیڑے کی آمد کا ذکر بار بار آتا رہا۔ اس سے زیادہ حالات کا مجھے علم نہیں۔ (جاری ہے)

حصہ