ایران میں ان واقعات کی اطلاع پہنچی تو مجوسی مذہب کے پیشوائوں نے محسوس کیا کہ اہل روم کو نیچا دکھانے کا یہ بہترین موقع ہے۔ انہوں نے پرویز کو غیرت دلائی کہ فوکاس نے تمہارے محسن کو قتل کیا ہے اور اس سے انتقام لینا تم پر فرض ہے۔ پرویز کو ملک گیری کی ہوس اپنے اسلاف سے ورثے میں ملی تھی اور موریس سے ہمدردی محض ایک بہانہ تھا۔ چنانچہ بازنطینی سلطنت میں اندرونی خلفشار کے آثار دیکھتے ہی اُس نے اپنی افواج کو پیش قدمی کا حکم دے دیا۔
اہل روم فوکاس کے مظالم سے دل برداشتہ ہوچکے تھے اس لیے وہ کسی محاذ پر بھی ایرانی لشکر کا مقابلہ نہ کرسکے۔ چنانچہ ایرانیوں نے کسی قابل ذکر مزاحمت کا سامنا کیے بغیر آرمینیا پر قبضہ کرلیا۔ پھر چند ماہ بعد خسرو پرویز کی فوج شام کے شمال مشرقی علاقوں کو تحت و تاراج کرتی ہوئی انطاکیہ کی طرف بڑھی۔ یہ شہر ایشیائی ممالک میں قیصر کے نائب السلطنت کا دارالحکومت تھا اور ماضی میں کئی بار ایرانیوں کے ہاتھوں تباہی کا سامنا کرچکا تھا۔ لیکن وحشت و بربریت کا یہ طوفان جس کے دروازے خسرو پرویز نے کھولے تھے ماضی کے تمام طوفانوں سے زیادہ بھیانک تھا۔ اس سیل ہمہ گیر کے سامنے رومیوں کے دفاعی حصار تنکوں کے انبار ثابت ہورہے تھے۔
فوکاس نے بازنطینی سلطنت کے لیے وہی حالات پیدا کردیے تھے جو چند سال قبل ہرمز نے ایران کے لیے پیدا کیے تھے۔ اور جب اندرونی خلفشار کے ساتھ بیرونی جارحیت انتہائی خطرناک نتائج پیدا کرنے لگی تو ایرانیوں کی طرح رومیوں نے بھی اپنے ظالم اور نااہل حکمران کے خلاف بغاوت کردی۔ قسطنطنیہ کے امراء اور مذہبی پیشوائوں نے افریقی مقبوضات کے گورنر کو قسطنطنیہ کے تخت پر قبضہ کرنے کی دعوت دی لیکن عمر رسیدہ گورنر نے اپنی جگہ اپنے نوجوان بیٹے ہرقل کی خدمات پیش کردیں۔ ہرقل کی قیادت میں ایک جنگی بیڑہ قرطبہ سے قسطنطنیہ کی طرف روانہ ہوا اور باقی لشکر خشکی کے رستے چل پڑا۔ جب ہرقل کا جنگی بیڑا آبنائے باسفورس میں داخل ہوا تو قسطنطنیہ کے باشندوں نے مسرت کے نعروں سے اُس کا خیر مقدم کیا۔ فوکاس کے محافظ جنہیں وفادار رکھنے کے لیے اُس نے خطیر رشوتیں دی تھیں، افریقا اور مصر کے منظم لشکر کا مقابلہ نہ کرسکے۔
فوکاس کو پابہ زنجیر ہرقل کے سامنے لایا گیا اور وہ سخت اذیتوں کے بعد قتل کردیا گیا۔
ہرقل تخت پر رونق افروز ہوا لیکن اس کے ساتھ ہی قسطنطنیہ کی گلیوں اور بازاروں میں خوشیاں منانے والے عوام گرجوں میں دعائیں مانگنے والے راہب اور نئے حکمران کے دربار میں نذرانے پیش کرنے والے امراء یہ سن رہے تھے کہ پرویز کی فوجیں انطاکیہ پر قابض ہوچکی ہیں اور وہاں فرزندانِ تثلیت کے گرجے آتشکدوں میں تبدیل کیے جارہے ہیں۔
باب ۱۳
موسم سرما کی ایک رات آسمان پر تاریک بادل چھائے ہوئے تھے اور ہلکی ہلکی بارش ہورہی تھی۔ ایک سوار فرمس کی سرائے کے قریب گھوڑے سے اترا اور اُس نے آگے بڑھ کر دروازے پر دستک دی۔ چند ثانیے کوئی جواب نہ آیا۔ پھر صحن میں قدموں کی آہٹ سنائی دی اور کسی نے دروازے کے قریب پہنچ کر سوال کیا۔
’’آپ یروشلم سے آئے ہیں؟‘‘
’’ہاں‘‘۔ اجنبی نے جواب دیا۔
پوچھنے والے نے دروازہ کھول دیا اور اجنبی اپنے گھوڑے سمیت اندر داخل ہوا۔ سرائے کے ملازم نے پوچھا۔ آپ کے ساتھی کہاں ہیں؟‘‘۔
اجنبی نے جواب دیا۔ ’’میرا کوئی ساتھی نہیں۔ میں یہ رات یروشلم میں گزارنا چاہتا تھا۔ لیکن مجھے معلوم نہ تھا کہ ان دنوں شام ہوتے ہی شہر کے دروازے بند ہوجاتے ہیں‘‘۔
’’تو آپ کو کسی رومی افسر نے یہاں نہیں بھیجا؟‘‘
’’نہیں!…‘‘
’’ٹھیریئے! میں ابھی آتا ہوں‘‘۔ ملازم یہ کہہ کر بھاگ گیا اور اجنبی آگے بڑھ کر چھپر کے نیچے کھڑا ہوگیا۔ تھوڑی دیر فرمس جس کے ہاتھ میں مشعل تھی اپنے دو نوکروں کے ساتھ برآمدے میں نمودار ہوا اور اُس نے آگے بڑھ کر اجنبی سے پوچھا یروشلم کی طرف سے آئے ہو؟‘‘
’’ہاں! مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کو بے وقت تکلیف دے رہا ہوں۔ لیکن شہر کے دروازے بند تھے‘‘۔
’’تمہیں راستے میں کوئی اور مسافر تو نہیں ملا؟‘‘۔
’’نہیں! یروشلم سے آگے یہاں تک تمام راستہ سنسان تھا‘‘۔
فرمس نے کہا۔ ’’مجھے افسوس ہے کہ سرائے مسافروں سے بھری ہوئی ہے اور میں تمہارے لیے کوئی تسلی بخش انتظام نہیں کرسکتا۔ آج بارش کی وجہ سے غزہ کا ایک قافلہ یہاں رُک گیا تھا‘‘۔
اجنبی نے جواب دیا۔ ’’مجھے یقین ہے کہ آپ مجھے اس بارش میں سڑک پر آرام کرنے کا مشورہ نہیں دیں گے۔ آپ نے مجھے پہچانا نہیں۔ میں پہلے بھی یہاں ٹھہر چکا ہوں۔ اگر آپ کے پاس سرائے کے اندر کوئی جگہ نہیں تو میں اصطبل میں گزارا کرسکتا ہوں۔ اگر کھانا نہ ہو تو بھوکا بھی رہ سکتا ہوں۔ لیکن میرے گھوڑے کے لیے آپ کو جو کے ایک تو بڑے اور گھاس کے ایک گٹھے کا انتظام ضرور کرنا پڑے گا‘‘۔
سرائے کے مالک نے آگے بڑھ کر مشعل اونچی کی اور غور سے اجنبی کی طرف دیکھ کر چلایا۔ ’’عاصم! بھائی مجھے معاف کرنا۔ اس وقت میرا خیال کہیں اور تھا۔ تمہارے لیے میں تمام سرائے خالی کراسکتا ہوں‘‘۔
پھر وہ نوکروں کی طرف متوجہ ہوا۔ ’’بیوقوفو! کھڑے کیا دیکھ رہے ہو گھوڑا اصطبل میں لے جائو۔ اور ان کا کھانا اوپر کے کمرے میں پہنچادو‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’نہیں نہیں، اس وقت میں کھانا نہیں کھائوں گا۔ صبح دیکھا جائے گا۔ مجھے افسوس ہے کہ میں نے آپ کو بے وقت تکلیف دی ہے‘‘۔
فرمس نے اُس کا ہاتھ پکڑ کر کہا۔ ’’آئو! تم نے مجھے کوئی تکلیف نہیں دی۔ میں کسی کا منتظر تھا۔ اور ان کے لیے میں نے کھانا بھی تیار کروا رہا تھا۔ اب وہ نہیں آئے تو خدا نے تم کو بھیج دیا ہے‘‘۔
عاصم فرمس کے ساتھ چل دیا اور تھوڑی دیر بعد وہ بالائی منزل کے اُس کشادہ کمرے میں داخل ہوئے جہاں عاصم نے چند ماہ قبل ایک رات قیام کیا تھا۔ لیکن اب یہ کمرہ پہلے کی طرح آراستہ نہ تھا۔ خوشنما قالین اور پردے غائب تھے۔ دو پلنگوں پر صاف ستھرے بستر لگے ہوئے تھے۔ اور اُن کے درمیان ایک چھوٹی سی میز اور چار کرسیاں پڑی تھیں۔ سامنے انگیٹھی میں آگ سلگ رہی تھی اور دائیں بائیں دو طاقوں میں چراغ روشن تھے۔
فرمس نے کہا۔ ’’آج سردی بہت زیادہ ہے اور میں نے آگ یہاں اس لیے جلوائی تھی کہ یروشلم سے آنے والے مہمانوں کو تکلیف نہ ہو۔ اب مجھے یہ توقع نہیں کہ وہ اس موسم میں سفر کریں گے۔ لیکن اگر وہ آگئے تو مجھے تمہارے لیے دوسرا انتظام کرنا پڑے گا۔ میرا رہنے کا مکان خالی پڑا تھا لیکن شام کے وقت ایک قافلہ پہنچ گیا اور میں نے دو کمرے بارش میں ٹھٹھرے ہوئے مسافروں کے حوالے کردیئے۔ اب میرے پاس ایک چھوٹی سی کوٹھڑی ہے۔ اگر کوئی آگیا تو میں تمہیں وہاں لے جائوں گا‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’آپ کو میرے متعلق اس قدر پریشان نہیں ہونا چاہیے میں زمین پر سونے کا عادی ہوں۔ آج مجھے صرف بارش سے بچنے کے لیے چھت کی ضرورت ہے‘‘۔
فرمس نے جواب دیا۔ ’’لیکن پچھلے پہر خراٹے سن کر تم یہ محسوس کرو گے کہ چھت گر رہی ہے۔ انوطنیہ کہا کرتی تھی کہ میرے خراٹوں سے بیک وقت پانچ آوازیں نکلتی ہیں‘‘۔
عاصم نے پوچھا۔ ’’اب وہ یہاں نہیں ہیں؟‘‘۔
’’نہیں! وہ پچھلے ہفتے اپنی ماں کے ساتھ اسکندریہ چلی گئی۔ اگر دمشق کی طرف ایرانیوں کی پیش قدمی رُک گئی تو وہ واپس آجائیں گی ورنہ شاید مجھے بھی یہاں سے بھاگنا پڑے‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’میں نے راستے میں اس قسم کی افواہیں سنی تھیں کہ ایرانیوں کی پیش قدمی کے باعث یروشلم اور شام کے دوسرے شہروں کے لوگ اسکندریہ اور قسطنطنیہ کا رُخ کررہے ہیں‘‘۔
فرمس نے جواب دیا۔ ’’یہ افواہیں نہیں۔ انطاکیہ پر ایرانیوں کے قبضے کے بعد رومی اُمراء نے اپنے بال بچوں کو شام کے دوسرے شہروں سے نکالنا شروع کردیا تھا۔ پھر جب ایرانیوں نے مزید پیش قدمی کی تو شام کے خوشحال لوگ بھی اپنے گھر بار چھوڑ کر بھاگنے لگے اور اب تو یہ حال ہے کہ عوام کے قافلے بھی اسکندریہ اور مصر کے دوسرے شہروں کا رُخ کررہے ہیں‘‘۔
عاصم نے پوچھا۔ ’’آپ جن مہمانوں کا انتظار کررہے تھے وہ کون ہیں؟‘‘
’’مجھے صرف اتنا معلوم ہے کہ دو انتہائی معزز خواتین کو دمشق پہنچنے کے لیے میری مدد کی ضرورت ہے۔ تم پطیوس سے ہو پچھلی مرتبہ میری سرائے میں اُس سے تمہاری ملاقات ہوئی تھی۔ اُس نے مجھے یہ پیغام بھیجا تھا کہ وہ رات کے وقت یہاں قیام کریں گی۔ پھر مجھے ان کو دمشق تک پہنچانے کا بندوبست کرنا ہوگا۔ اگر رات کے وقت کسی نے اُن کا پیچھا کیا ہوگا تو خبر مل جائے گی پھر میرا یہ کام ہوگا کہ ایک دو دن انہیں یہاں چھپائے رکھوں۔ یہ خواتین کون ہیں؟ یہ بات میرے لیے ایک معما ہے لیکن پطیوس ایک ایسا دوست ہے جس کی خاطر میں بڑے سے بڑا خطرہ مول لے سکتا ہوں۔ اب میں نیچے جا کر کچھ اور اُن کا انتظار کرنا چاہتا ہوں۔ نوکر تمہارے لیے کھانا اور کپڑوں کا جوڑا لے آئے گا۔ میرا لباس تمہارے جسم پر عجیب معلوم ہوگا لیکن تمہارے لیے بھیگے ہوئے کپڑے تبدیل کرنا ضروری ہیں‘‘۔ فرمس یہ کہہ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔
O
عاصم کھانا کھانے کے بعد آگ کے سامنے بیٹھا اپنے کپڑے سکھا رہا تھا۔ فرمس دوبارہ کمرے میں داخل ہوا اور اُس نے قریب بیٹھتے ہوئے کہا۔ ’’اب ایک پہر سے زیادہ رات گزر چکی ہے اور بارش بھی خاصی تیز ہوگئی ہے، ان حالات میں مجھے دو عورتوں کا یروشلم سے یہاں پہنچا بعیدازقیاس معلوم ہوتا ہے۔ اب اگر تمہیں نیند نہ آگئی تو ہم اطمینان سے باتیں کرسکتے ہیں‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’آپ سے باتیں کرتے ہوئے مجھے نیند یا تھکاوٹ محسوس نہ ہوگی‘‘۔
فرمس نے کہا۔ ’’میرے لیے اس سے بڑی خوشی اور کیا ہوسکتی ہے کہ تم یہاں آئے ہو۔ آج میں یہ سوچ رہا تھا کہ میں نے اپنی بیوی اور بیٹی کو بھیج کر غلطی کی ہے۔ مجھے اُن کے ساتھ جانا چاہیے تھا لیکن اب میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ میرے یہاں رُک جانے میں بھی قدرت کی ایک مصلحت تھی۔ میرے ایک محسن کو یہاں آنا تھا اور خدا کو یہ منظور نہ تھا کہ وہ رات کے وقت یہاں پہنچے اور اُس کے راستے میں آنکھیں بچھانے والا کوئی نہ ہو۔ لیکن تم تنہا آئے ہو اور ان دنوں بڑے بڑے قافلے بھی شام کا رُخ کرتے ہوئے خوف محسوس کرتے ہیں۔ تم بہت کمزور ہوگئے ہو اور تمہارا چہرہ یہ بتارہا ہے کہ تم کانٹوں پر چل کر یہاں پہنچے ہو۔ پچھلی مرتبہ جب تم یہاں آئے تھے تو تمہیں تلوار سے زیادہ کسی چیز کی ضرورت نہ تھی لیکن آج مجھے تمہارے سامان میں تلوار نظر نہیں آئی۔ عاصم میرے اَن گنت سوالات کا جواب تمہارے چہرے پر لکھا ہوا ہے لیکن پھر بھی میں تمہاری زبان سے تمہاری سرگزشت سننا چاہتا ہوں۔ میں تھوڑی دیر کے لیے کمرے سے باہر اس لیے نکل گیا تھا کہ تم اطمینان سے کھانا کھا سکو اور میرے سوالات تمہیں پریشان نہ کریں۔ میزبانی کے آداب مجھے تم سے ایسی باتیں پوچھنے سے منع کرتے ہیں جن کا جواب دینا ایک مہمان کے لیے تکلیف دہ ہو۔ لیکن میں تمہارا دوست ہوں۔ اور یہ پوچھے بغیر نہیں رہ سکتا کہ تم کن حالات میں گھر سے نکلے ہو، تمہاری منزلِ مقصود کہاں ہے اور میں تمہاری کیا مدد کرسکتا ہوں؟‘‘
عاصم کچھ دیر سر جھکائے سوچتا رہا۔ بالآخر اُس نے فرمس کی طرف دیکھا اور کہا۔ آپ یہ سمجھ لیجیے کہ میرے وطن کی زمین میرے لیے تنگ ہوچکی ہے۔ اور میں اپنے مقدر کی تاریکیوں سے پیچھا چھڑانے کے لیے بھاگ رہا ہوں۔ عرب کی حدود سے نکلنے کے بعد اس سرائے سے آگے میری کوئی منزل نہ تھی اور اب اس کمرے سے باہر میرے لیے ساری دنیا تاریک ہے‘‘۔
فرامس نے پوچھا۔ ’’کیا لڑائی میں تمہارے دشمن غالب آگئے تھے؟‘‘
’’میں نے جس وطن کو چھوڑا ہے وہاں میرا کوئی دوست یا دشمن نہ تھا۔ میرا گناہ یہ ہے کہ میں محبت اور انتقام کی لذت سے محروم ہوچکا ہوں اور آپ کے پاس اس لیے آیا ہوں کہ اس محرومی کے باوجود زندہ رہنا چاہتا ہوں‘‘۔
(جاری ہے)