کامران جیسے ہی گھر میں داخل ہوا، حنا کو دیکھ کر اُس کی ہنسی نکل گئی۔ سامنے حنا مٹی میں اَٹی گھر کی صفائی میں مصروف تھی۔
’’ارے واہ میری کباڑین بیگم صاحبہ! بڑی خوب صورت لگ رہی ہو۔‘‘
حنا نے آنکھیں دکھائیں ’’ہوگئے شروع، میری قابلیت پر کباڑین کی چھاپ لگا دی آپ نے… اب گھر کی صفائی کے بعد میرا جو حال ہورہا ہے اُس میں مَیں پری تو دِکھ نہیں سکتی۔‘‘
’’اچھا میری پیاری پری بیگم! ناراض مت ہو، ہم دونوں مل کر سارا کام جلدی جلدی نمٹاتے ہیں… چلو بتاؤ میں کہاں سے شروع کروں؟‘‘ کامران نے پیار سے کہا۔
’’نہیں کامران! آپ ابھی تو آئے ہیں، ویسے ہی بہت تھک گئے ہوں گے۔ آپ جائیں فریش ہوجائیں، میں کرلوں گی… بس تھوڑا سا ہی کام رہتا ہے۔‘‘
’’تم بھی تو تھک گئی ہوگی، صبح سے لگی ہو۔ ایسا کرتے ہیں کہ جلدی سے ختم کرتے ہیں، پھر ساتھ بیٹھ کر چائے پئیں گے۔‘‘
’’ٹھیک ہے، کامران! آپ بہت اچھے ہیں، میرا کتنا خیال کرتے ہیں، شادی کے سات سال کے بعد بھی آپ کے پیار میں کمی نہیں آئی، اس پر اللہ کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے۔‘‘ حنا نے اپنے نٹ کھٹ سے میاں کو پیار سے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’اچھا اب اتنی تعریفیں نہ کرو، کہیں میرا ارادہ نہ بدل جائے۔ اب یہ بتائو کون سا کباڑا اسٹور میں رکھنا ہے میری پیاری کباڑین!‘‘
’’کامران! ایک دن آپ مجھے کباڑین کے خطاب سے بری ضرور کریں گے، اور اگر نہ ہوا تو میرا نام بدل دیجیے گا۔‘‘
’’اچھا پھر نام بدل کر کیا نام رکھوں، وہی کباڑین؟‘‘ کامران نے شرارت سے کہا۔
’’اچھا بس کام شروع کریں، یہ ساری پینٹ کی خالی بالٹیاں اور کولڈ ڈرنکس کی بوتلیں اسٹور میں رکھ دیں۔‘‘
’’اس کاٹھ کباڑ کو کیا کرو گی رکھ کر بیگم!‘‘
’’میری مرضی جو کروں، آپ مدد کروا رہے تھے نا، تو کریں۔‘‘
کامران اور حنا کی شادی کو سات سال ہوگئے تھے اور ان کا ایک پیارا سا چھ سال کا بیٹا ریّان تھا۔ دونوں میاں بیوی میں بہت محبت تھی۔ ایک دوسرے کا بہت خیال بھی رکھتے تھے۔ حال ہی میں وہ کرائے کے چھوٹے فلیٹ سے اپنے ذاتی گھر میں شفٹ ہوئے تھے، یہ ایک سو بیس گز کا ڈبل اسٹوری مکان تھا جس میں کچھ تزئین و آرائش کروانے کی ضرورت تھی، فنشنگ کے ساتھ پینٹ بھی کروایا تھا جس کی وجہ سے گھر میں ہر جگہ پھیلاوا ہورہا تھا۔ نیچے کی منزل میں رہتے ہوئے انہوں نے پہلے اوپر والی منزل کا کام مکمل کروایا تاکہ جلدی اوپر شفٹ ہوا جا سکے۔ ان کا ارادہ اوپر والی منزل پر رہنے، اور گراؤنڈ فلور کرائے پر دینے کا تھا۔
نئے گھر میں شفٹ ہوئے انہیں تین ماہ ہوچکے تھے، ان تین ماہ میں حنا نے کچھ چیزیں جو کہ کامران کی نظر میں کاٹھ کباڑ تھیں، گھر سے باہر نکالنے کے بجائے اسٹور میں جمع کرنا شروع کردی تھیں، جس کی بنا پر کامران نے حنا کو ’’کباڑین‘‘ کا خطاب دیا تھا۔
دروازے پر بیل بجی تو کامران نے دروازہ کھولا۔ ’’انکل! یہ امی نے دیے ہیں۔‘‘ پڑوس کے بچے نے ایک شاپر کامران کے ہاتھوں پکڑایا اور یہ جا وہ جا۔ کامران نے شاپر کھولا تو اندر ڈھیر سارے انڈوں کے چھلکے تھے۔ ’’اُف یہ انڈوں کے چھلکے…؟‘‘
’’کون ہے کامران؟‘‘ حنا باورچی خانے سے ہاتھ پونچھتی ہوئی آئی۔
’’حنا! یہ پڑوس سے انڈوں کے چھلکے آئے ہیں۔‘‘
’’آ… اچھا… انڈوں کے چھلکے! مجھے دیں اسے۔‘‘ حنا نے گڑبڑا کر کامران کے ہاتھ سے شاپر لیا اور باورچی خانے میں چلی گئی۔
’’اب یہ انڈوں کے چھلکوں کی کیا کہانی ہے؟‘‘کامران زیر لب بڑبڑایا۔
رات کھانے کی میز پر کامران نے پوچھ ہی لیا ’’کیا آج انڈوں کے چھلکے بنائے ہیں؟‘‘
’’نہیں تو، کیسی باتیں کررہے ہیں، چکن بنایا ہے، دیکھیں…‘‘ حنا نے ڈونگے کا ڈھکن اٹھاکر دکھایا۔
’’اچھا پھر کیلشیم کے طور پر چکن میں ملا لیے ہوں گے انڈوں کے چھلکے۔‘‘
’’اُف! کیا ہوگیا ہے آپ کو؟ کامران چپ کرکے کھانا کھائیں، آپ کو سمجھ نہیں آئے گی اگر میں بتا بھی دوں گی تو۔‘‘
’’صحیح نام دیا ہے میں نے آپ کو۔ کباڑی بھی کاٹھ کباڑ جمع کرکے بیچ دیتے ہیں اور دوسروں کے گھروں کا لے کر جمع بھی کرتے ہیں، مگر انڈوں کے چھلکوں والی بات واقعی میری سمجھ سے باہر ہے۔‘‘
’’چپ کرکے کھانا کھائیں۔‘‘ حنا نے کامران کی پلیٹ میں کھانا سرو کرتے ہوئے کہا۔
اوپر کی منزل میں شفٹ ہوئے چھ مہینے گزر گئے۔ اسی دوران حنا کی محلے کی خواتین سے اچھی سلام دعا ہوگئی تھی۔ گھر کے کام کاج سے فراغت کے بعد حنا بہت بور ہوجاتی تھی، اس لیے وہ محلے کے ایک گھر میں ہونے والی ہفتہ وار فہم القرآن کلاس میں جانے لگی جس سے قرآن سے اس کا رشتہ مضبوط ہوگیا، وہ ہر کلاس میں پڑھے گئے رکوع کا بہت گہرائی سے مطالعہ کرتی اور عمل کی کوشش بھی کرتی جس سے اس کے دل کو بہت سکون ملتا۔ ساتھ ہی وہ کامران کی ایک پرانی خواہش کو پورا کرنے کی کوشش میں گزشتہ چھ ماہ سے لگی تھی تاکہ وہ اپنے پیارے میاں کو جلدی ایک سرپرائز گفٹ دے سکے۔ اکثر کامران ہی حنا کو سرپرائز دیا کرتا تھا، مگر ایک دن جب کامران نے اپنی دیرینہ خواہش کا اظہار کیا تو اُسے پورا کرنے اور اپنے پیارے میاں کے چہرے پر خوشی دیکھنے کے لیے اُس کام کو پورا کرنے میں جت گئی۔
’’آج جب کامران دفتر سے گھر آیا تو حسبِ معمول حنا نے مسکراکر استقبال کیا، مگر آج کچھ خاص تھا، کامران نے اُس کے چہرے کی چمک اور خوشی کو محسوس کرتے ہوئے کہا ’’کیا بات ہے حنا بیگم عرف کباڑین! آج بڑی خوش دکھائی دے رہی ہیں آپ۔‘‘
’’جی آج میں بہت بہت خوش ہوں، آپ جاکر فریش ہوجائیں، میں چائے اور ساتھ میں سموسے فرائی کرکے لاتی ہوں، پھر اپنی خوشی بھی شیئر کرتی ہوں۔‘‘
’’ایسا کیا ہے…؟‘‘
اوہو! پہلے جاکر فریش ہوجائیں نا۔‘‘
’’اچھا جی! جیسے آپ کا حکم بیگم صاحبہ۔‘‘
فریش ہوکر جب کامران باورچی خانے میں گیا تو وہاں حنا موجود نہیں تھی۔ ڈرائنگ روم، لائونج … پورے گھر میں دیکھ لیا، حنا کو نہ پاکر وہ پریشان ہوگیا۔ داخلی دروازے پر گیا تو دروازہ اندر سے بند تھا۔ ریّان بھی کمرے میں سورہا تھا۔ کہاں چلی گئی؟ چھت پر دیکھتا ہوں… ’’حنا… حنا! کہاں ہو بھئی؟‘‘
’’سرپرائز…!‘‘ سامنے کا منظر دیکھ کر حیرت سے کامران کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ چھت کے چاروں طرف رنگ برنگی، پھولوں سے لدی خوشبو سے مہکتی ہری بھری بیلیں، خوب صورت اور مختلف قسم کے خوب صورت پودے، چھت کے بالکل درمیان میں بچھا مصنوعی گھاس کا کارپٹ اور اس کے اوپر رکھی خوب صورت میز اور کرسیاں، اور ان سب کے بیچ میں حنا اپنی خوب صورت مسکراہٹ کے ساتھ کھڑی کامران کو مزید حیران کررہی تھی۔
کامران کے چہرے پر خوشی پھوٹ رہی تھی۔ حنا، کامران کے چہرے پر اس کی دیرینہ خواہش کے پورا ہونے کی خوشی دیکھ کر سرشار ہورہی تھی۔
’’حنا! میں اتنا خوش ہوں، یہ… یہ سب کیسے، کب کیا تم نے…؟‘‘
’’آپ پہلے اس ماحول کو انجوائے کریں، چائے پئیں۔ کامران! آپ کو یاد ہے جب ہم دو کمروں کے چھوٹے سے فلیٹ میں رہتے تھے تو آپ کو باغ بانی کا بہت شوق تھا اور آپ اکثر کہا کرتے تھے کہ کاش ہمارے گھر میں ہرا بھرا باغیچہ ہو، جس میں پھولوں سے بھری خوشبودار بیلیں ہوں، جہاں بیٹھ کر ہم شام کی چائے پئیں… مگر اُس فلیٹ میں آپ کی اس خواہش کا پوری ہونا ناممکن تھا، جب اللہ نے ہمیں اس خوب صورت گھر سے نوازا تو اس گھر میں کھلا صحن بھی نہیں تھا، مگر پھر میں نے چھت کے اوپر ایک خوب صورت باغ بنانے کا ارادہ کیا تاکہ میرے پیارے شوہر اور میں شام کی چائے کا اس خوب صورت فضا میں لطف اٹھائیں۔ میرے دل میں آپ کی خواہش کو پورا کرنے کا جنون سوار ہوا، آپ کے چہرے پر وہ خوشی دیکھنا چاہتی تھی جس کے لیے میں نے خود کو کباڑین بنادیا۔‘‘ حنا نے منہ بناکر کہا۔
’’سامنے جو گملوں کی قطار دیکھ رہے ہیں نا، یہ سارے گملے وہی پینٹ کی بے کار بالٹیاں ہیں جنہیں میں نے اپنے ہاتھوں سے پینٹ کیا، چھت پر زیادہ وزن نہ ہو اس لیے مٹی کے بجائے پلاسٹک کی ان بالٹیوں کا استعمال کیا… اور یہ کولڈ ڈرنکس کی خالی بوتلیں کاٹ کر ان میں بھی خوب صورت نقش ونگار بناکر انہیں planters hanging کے طور پر استعمال کیا ہے۔ پچھلے چھ ماہ سے محنت کررہی تھی، سبزیاں بھی اُگائی ہیں… اور انہی کے لیے انڈوں کے چھلکے جمع کرتی تھی کیوں کہ یہ پودوں کے لیے بہترین ہے، اور گھر کی سبزیوں اور پھلوں کے چھلکوں کو بھی میں اوپر لاکر ایک ڈرم میں ڈالتی تاکہ صحت مند اور دیسی کھاد بن سکے۔ یہ سب میں نے صرف آپ کے لیے کیا، آپ کی خوشی میری خوشی ہے۔ کامران آج آپ کو خوش دیکھ کر میں بہت خوش ہوں۔‘‘ حنا نے پیار سے کہا۔
کامران حیرت سے یہ سب سن رہا تھا۔ آج اسے حنا پر بہت پیار آرہا تھا۔ اس نے حنا کا شکریہ ادا کیا اور اس کاوش پر سلیوٹ کیا۔ اُس کے اس انداز پر حنا کی ہنسی نکل گئی۔
’’تم نے صحیح کہا تھا حنا! مجھے آج تمہیں دیا ہوا کباڑین کا خطاب واپس لینا ہوگا… اور تمہارا نام بدل کر پھولوں کی ملکہ رکھنا ہوگا۔ تھینک یو سو مچ میری فیری، میری ملکہ…‘‘ کامران نے گلاب کا پھول اس کے بالوں میں سجا کر پیار سے کہا۔’’بے کار چیزوں کو کام میں لگانے کی تمہاری اس کاوش پر علامہ اقبال کا ایک شعر یاد آگیا، کیا خوب کہا شاعر مشرق نے کہ:
نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں
’’واہ واہ…‘‘ اور دونوں مسکرا دیے۔ ان دونوں کی مسکراہٹ سے پھول بھی مسکا دیے۔