سقوط ڈھاکہ نصف صدی بعد

294

(تیسری قسط)
تقریباً ایک سال بعد 3جون 1955کو ڈھاکا میں وزیراعظم محمد علی بوگرا نے مشرقی بنگال میں گورنر راج ختم کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے متحدہ محاذ پارلیمانی پارٹی کے سربراہ مولوی فضل الحق سے کہا کہ چونکہ ان کو اسمبلی میں اکثریت حاصل ہے، اس لیے وہ اپنی پارٹی کی جانب سے کسی فرد کو کو صوبے میں وزارت بنانے کے لئے نامزد کریں۔ چنانچہ 6جون 1955کو ابوحسین سرکار نے نئے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا۔
نیرنگی ٔ سیاستِ دوراں تو دیکھئے، دو سال قبل ’’غدار‘‘ کا خطاب دے کر برطرف کئے جانے والے مشرقی بنگال کے وزیراعلیٰ مولوی فضل الحق کو 9مارچ 1956کو مشرقی بنگال کا گورنر بنادیا گیا۔
مارچ 1957میں عوامی لیگ سے تعلق رکھنے والے رکن صوبائی اسمبلی محی الدین احمد نے ایوان میں ایک قراداد پیش کی جس میں وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ مشرقی پاکستان کو مکمل خودمختاری دی جائے اور صرف دفاع ، کرنسی اور امور خارجہ کے محکمے وفاقی حکومت اپنے پاس رکھے ۔ اس قرارداد پر مغربی پاکستان میں سخت ردعمل ہوا تھا لیکن مشرقی پاکستان اسمبلی کے اسپیکر عبدالحکیم نے اس قرارداد کو پیش کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ 3اپریل کو ایوان میں اس قرار داد پر ووٹنگ ہوئی اور اس قرارداد کو بھاری اکثریت سے منظور کرلیا گیا۔ پارٹی کے شدت پسند رہنماوں نے جن میں صوبائی وزیر اور عوامی لیگ کے رہنما شیخ مجیب الرحمن پیش پیش تھے، قرارداد کی حمایت میں تند وتیز بیانات دئیے اور کہا کہ مشرقی پاکستان کو نو (9) سال سے مسلسل لوٹا جارہا ہے اور اب وہاں کے عوام مکمل علاقائی خودمختاری سے کم کسی چیز پر رضامند نہیں ہوں گے۔
27اکتوبر 1958کو جنرل ایوب خان نے ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا ۔ ملک کے پہلے متقفہ آئین کو ، جسے 1956میں ملک کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے منظور کیا تھا، منسوخ کردیا گیا ۔اس آئین کے تحت ایک ماہ بعد ہی ملک میں پہلے عام انتخابات ہونا تھے وہ بھی ملتوی ہوئے۔ اس مارشل لاء نے مشرقی بنگال کی سیاسی قوتوں کو مایوسی کی دلدل میں دھکیل دیا۔جنرل ایوب کے مارشل لاء کے وقت فوج کے سینئر رینکنگ میں صرف دو بنگالی افسر تھے جن میں ایک کرنل اور ایک میجر جنرل تھا۔لہٰذا مشرقی پاکستان کے عوام یہ سوچنے پر مجبورہوگئے کہ اگر فوج ہی کو حکومت کرنا ہے تو ہمیں کبھی بھی اقتدار نہیں مل سکے گا۔
2 جنوری 1965ء کو ملک کے پہلے صدارتی انتخابات ہوئے ۔ فوجی ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان کنونشن مسلم لیگ کے امیدوار تھے۔ جبکہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت مشترکہ اپوزیشن کا پانچ جماعتی اتحاد کررہا تھا۔ جنرل ایوب نے جعلی نتائج جاری کرکے محترمہ کو ہرادیا جو مشرقی پاکستان کی جمہوری قوتوں اور عوام کے لئے بہت بڑا دھچکا تھا۔ اس وقت شیخ مجیب الرحمن مشرقی پاکستان میں مادرملت کی انتخابی مہم چلا رہے تھے۔ ایسا کیا ہوا کہ وہ پانچ سال بعد غدارِ وطن ہوگئے۔
6فروری 1966کو شیخ مجیب الرحمن نے لاہور میں اپوزیشن جماعتوں کی نیشنل کانفرنس کے دوران اپنے مشہورزمانہ چھ نکات پیش کئے۔ ان چھ نکات میں یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ 1940کی قراردادا پاکستان کے مطابق منتخب اسمبلی کی بالادستی قائم کی جائے یعنی ڈکٹیٹر شپ ختم کی جائے۔ وفاقی حکومت کے پاس صرف دفاع اور امورخارجہ ہوں۔ باقی محکمے صوبوں کے حوالے کئے جائیں۔
لیکن جنرل ایوب کی حکومت نے انہیں علیحدگی کا نعرہ قرار دیا ۔ ان چھ نکات پر مغربی پاکستان ہی نہیں ، مشرقی پاکستان کے سیاست دانوں نے بھی کڑی تنقید کی لیکن عالمی پریس نے ان چھ (6) نکات کی غیرمعمولی تشہیر کی ۔ عالمی شہرت یافتہ اخبارات اور جرائد نے ان کی حمایت میں اداریئے تحریر کئے اور شیخ مجیب کو ہیرو کے طور پر پیش کیا۔
6جنوری 1968کو حکومت پاکستان نے اعلان کیا کہ حکومت نے ایک سازش کا سراغ لگا یا ہے جس کا مقصد مشرقی پاکستان کو پاکستان سے الگ کرکے ایک آزاد ریاست کا قیام تھا۔ حکومت نے بتایا کہ اس نے 28افراد کو گرفتار کیا ہے جن میں عام شہری، بحری اور بری فوج کے افسران اور ملازمین شامل ہیں۔ ان افراد نے مشرقی پاکستان کی سرحد سے چند کلومیٹر دور واقع ایک چھوٹے بھارتی شہر اگرتلہ میں بعض بھارتی افسروں سے ملاقات کرکے اس سازش کی منصوبہ بندی کی ہے۔
بارہ دن بعد حکومت نے انکشاف کیا کہ اس سازش کے سرغنہ شیخ مجیب الرحمن ہیں اور انہیں اور ان کے کچھ اور ساتھیوں کو اس مقدمے کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا ہے۔
اپریل 1968میں حکومت نے اس مقدمے کی سماعت کے لئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ایس اے رحمن کی سربراہی میں ایک ٹریبونل قائم کیا اور 19جون 1968کو اس مقدمے کی سماعت کا باقاعدہ آغاز ہوا۔
استغاثہ کی عائدکردہ فرد جرم کے مطابق ملزمان بھارت سے سازباز کرکے اور ان کی مالی و اسلحہ کی مدد سے پاکستان کو اس کے مشرقی حصے سے محروم کرکے ایک آزاد ملک بنگلہ دیش قائم کرنا چاہتے تھے۔
عدالت نے 27جنوری 1969استغاثہ کے گواہان کے بیانات قلم بند کئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب جنرل ایوب خان کے خلاف کی تحریک پورے ملک میں زور وشور سے چل رہی تھی۔ جنرل ایوب نے حزب اختلاف کے اتحاد جمہوری مجلس عمل کے رہنماؤں کو گول میز کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی۔
رہنماؤں کو مذاکرا ت کی دعوت دی مگر ان رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ اگرتلہ سازش کیس واپس لیا جائے اور شیخ مجیب الرحمن کو باعزت بری کیا جائے۔ صدر ایوب خان یہ ہرگز نہیں چاہتے تھے لیکن انہیں سیاست دانوں کے مطالبے کے سامنے جھکنا پڑا اور انہوں نے اگرتلہ سازش کیس واپس لینے کا اعلان کردیا ۔ شیخ مجیب الرحمن ا ور ان کے ساتھی رہا کردئیے گئے ۔
26فروری 1969کو گول میز کانفرنس کا پہلا اجلاس ہوا۔ اس میں شیخ مجیب الرحمن اور اصغرخان شریک ہوئے۔ تاہم ذوالفقار علی بھٹو اور عبدالحمید بھاشانی نے کانفرنس میں شرکت کرنے سے صاف انکار کردیا ۔ 11مارچ کو ہونے والے کانفرنس کے دوسرے اجلاس میں بھی یہ دونوں مذکورہ بالا رہنما شریک نہیں ہوئے۔
الطاف گوہر اور دوسرے مؤرخین نے لکھا ہے کہ بھٹو اور بھاشانی کے بائیکاٹ کے پیچھے جنرل یحییٰ خان کا ہاتھ تھا۔ تاکہ کانفرنس کو ناکام بنایا جاسکے اور مارشل لاء کی راہ ہموار کی جاسکے اور پھر ایسا ہی ہوا۔ جنرل ایوب خان کی تمام تر ’’نیک خواہشات ‘‘ کے باوجود گول میز کانفرنس ناکام ہوئی اور جنرل یحییٰ خان کو مارشل لاء لگانے کا جواز مل گیا۔
1969ء میں ایوب خان نے شدید عوامی احتجاج اور اپنی بیماری کے سبب صدارت چھوڑی تو قانون کے مطابق قائم مقام صدر اسپیکر قومی اسمبلی کو ہونا چاہیے تھا مگرا سپیکر بنگالی ہونے کی وجہ سے ایسا نہیں ہوا۔ اقتدار ایک دوسرے جرنیل کو منتقل کر دیا گیا، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جنرل یحییٰ خان نے ایک سازش کے تحت اقتدار پر قبضہ کیا تھا، وہ ایک الگ کہانی ہے ، یہاں اس کے ذکرکا موقع نہیں۔
بہرحال جنرل یحییٰ نے 7دسمبر 1970ملک میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر عام انتخابات کرائے۔
جن میں قومی اسمبلی کی تین سو نشستوں میںمشرقی پاکستان سے قومی اسمبلی کی 162میں سے 160نشستیں عوامی لیگ نے جیت کر قومی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل کرلی۔ جبکہ مغربی پاکستان سے قومی اسمبلی کی 138 میں سے 81 نشتستوں پر پاکستان پیپلزپارٹی نے کامیابی حاصل کی تھی۔
اگرنیتوں میں خلوص ہوتا تو انتخابات کے فوری بعد قومی اسمبلی کا اجلاس بلوا کراکثریتی پارٹی کے رہنما شیخ مجیب الرحمن کو حکومت بنانے کی دعوت دی جاتی، مگر مغربی پاکستان کے حکمران اس بات سے خائف تھے کہ اگر ایک بار اقتدار مشرقی پاکستان کے لوگوں کے پاس چلا گیا تو ان کی بالادستی ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گی، یعنی اقلیت نہیں چاہتی تھی کہ اکثریت کو حکومت کا حق مل سکے۔
بریگیڈئر صدیق سالک نے اپنی مشہور کتاب ’’میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا ہے میں لکھا ہے:
’’ مجیب کا اصرار تھا کہ زیادہ سے زیادہ 15 فروری تک قومی اسمبلی کا اجلاس ہوجانا چاہیے جبکہ مسٹر بھٹو اسمبلی سے باہر کسی سمجھوتے کے لیے مزید وقت چاہتے تھے یحییٰ خان اور ان کے مشیر اپنا الگ لائحۂ عمل بنائے بیٹھے تھے ۔ سیاسی تکون۔۔ یعنی یحییٰ، مجیب ، بھٹو۔۔۔ روز بروز پیچیدہ ہوتی جارہی تھی۔۔ روشنی کی کوئی کرن کہیں نظر نہ آتی تھی۔‘‘ (میںنے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا۔ ص ۴۶)
اسی پس منظر میں 13فروری کو سرکاری طور پر اعلان کیا گیا کہ صدر یحییٰ نے 3مارچ کو ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرلیاہے۔ اس اعلان کے بعد ملکی سیاست میںتلاطم برپا ہوگیا۔پیپلزپارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو نے دو دن بعد ہی قومی اسمبلی کے اجلاس کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا اور واضح کردیا کہ پیپلزپارٹی چھ نکات میں نکات میں تبدیلی اور مفاہمت کے بغیر اسمبلی کے اجلاس میں شریک نہیں ہوگی اور اگر پیپلز پارٹی کو نظر انداز کیا گیا تو خیبر سے کراچی تک طوفان برپا کردوں گا۔(روزنامہ ڈان کراچی۔ ۱۶؍فروری ۱۹۷۱ء)
حالانکہ چند ہفتوں قبل ہی بھٹو صاحب نے ڈھاکا کے دورے میں واضح طور پر کہا تھا کہ چھ نکات جمہوریت کے قیام میں رکاوٹ نہیں بنیں گے۔ بھٹو صاحب کے اس یوٹرن پراکثریتی پارٹی کے لیڈر شیخ مجیب نے کہا کہ ہم سنگین تلے بھی چھ نکات سے ہٹ کر کوئی آئین قبول نہیں کریں گے۔جماعت اسلامی پاکستان کے امیر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے 23فروری کو ایک اجلاس کے دوران کہا کہ چھ نکات غلط ہیں ، مگر فیصلہ اسمبلی کے اندر ہونا چاہئے ۔
اس کے بعد ہی پیپلزپارٹی نے کراچی اور دیگر شہروں میں مظاہرے شروع کردئیے۔اسی دوران پاکستان پیپلز پارٹی کا کراچی میں کنونشن ہوا، جس کے دوران 20فروری کو اعلان کیا گیا کہ شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات کے حوالے سے کوئی سمجھوتہ نہ ہوا تو پیپلز پارٹی کے ارکان اسمبلی مستعفی ہوجائیں گے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جب عوامی لیگ نے قومی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل کرلی تھی تو پیپلز پارٹی کو واویلا مچانے کی کیا ضرورت تھی۔ اگر کوئی آئین بنتاتو اسمبلی میں بنتا اور ملک کا آئین کوئی بھی جماعت یکطرفہ طور پر کیسے بنا سکتی تھی، اس حوالے سے اتفاق رائے کو مدنظر رکھا جاتا۔
فروری کے آخر تک یہ فیصلہ کرلیا گیا تھا کہ3مارچ کو ہونے والا قومی اسمبلی کا اجلا س ملتوی کردیا جائے گا۔ مگر اس کا اعلان نہیں کیا گیا تھا۔ اس دور کی سیاسی صورتحال کا جائزہ لینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ حالات کس طرف جارہے تھے، حکمران کسی قسم کی مفاہمت کے لیے تیار نہیں تھے اور اکثریتی پارٹی یعنی عوامی لیگ کو اقتدار سے دور رکھنے کے لیے محلاتی سازشوں کا جال بچھادیا گیا تھا۔ اگرچہ اس نے ملک کے پہلے آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کی تھی۔
اس سازش میں صرف حکمران طبقہ ہی شامل نہ تھا، بلکہ مغربی پاکستان کے لیڈر ذوالفقار علی بھٹو شریک تھے۔اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اس میںاکثریتی پارٹی کے لیڈر شیخ مجیب الرحمن بھی اہم کردار ادا کررہے تھے۔ لیکن وہ سب مہرے تھے، اصل کھیل تو عالمی طاقتیں کھیل رہی تھیں جنہوں نے برسوں قبل قائد اعظم کے پاکستان کے دوٹکڑے کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔
28 فروری1971 کو بھٹو صاحب نے وہ بات کہہ دی ، جو تاریخ کا حصہ بن گئی یعنی اگر پیپلز پارٹی کے بغیر قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا تو عوامی تحریک چلائی جائے گی، ہمارے کسی رکن نے شرکت کی تو اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ بھٹوصاحب نے ایک جلسہ عام میں یہ بھی کہا کہ’’ادھر تم ادھر ہم‘‘،’’اپوزیشن میں نہیں بیٹھوں گا‘‘،’’دونوں حصوں کے لیے علیحدہ آئین بنا ئے جائیں‘‘جیسے الفاظ استعمال کئے جن کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑا۔
ان حالات میں ڈھاکا میں قومی اسمبلی کااجلاس بلوانے کے بجائے یکم مارچ کو فوجی حکمران جنرل یحییٰ خان نے قومی اسمبلی کاا جلاس ملتوی کرنے کا اعلان کردیا۔ اس کا فطری ردعمل ظاہر ہے کہ مشرقی پاکستان میں ہونا تھا اور وہ ہوا،وہاں پرتشدد مظاہرے، ہنگامے اور فسادات شروع ہوگئے، اگلے ہی روز ڈھاکا میں کرفیو نافذ کردیا گیا۔
6 مارچ کوصدر یحییٰ نے اعلان کیا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس 25مارچ کو ہوگا۔22مارچ کو ڈھاکا میں صدر یحییٰ سے شیخ مجیب الرحمن اور مسٹر بھٹو نے الگ الگ مذاکرات کئے ، اور اس کے بعد اعلان کیا گیا کہ 25 مارچ کو ہونے والا قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کردیا گیا ہے۔ اجلاس دوسری بار ملتوی کیا گیا تھا اور اس میں سازش کی بو آرہی تھی۔ کیونکہ عام انتخابات کے بعد اکثریتی پارٹی کو اقتدار منتقل نہ کرنا حکمرانوں کا سنگین جرم ہوتا ہے جس کا انجام صدیوں تک بھگتنا پڑتا ہے۔
ان حالات کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کے عوام کو یقین ہوگیا کہ وہ ابھی تک غلام ہیں کیونکہ انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے کے باوجود اقتدار ان کے حوالے نہیں کیا جارہا، چنانچہ لاواپھٹ پڑا ۔عوامی لیگ نے سول نافرمانی کا اعلان کردیا، 23 مارچ کو مشرقی پاکستان میں اعلان بغاوت کردیا گیااور عمارتوں پر بنگلہ دیش کا پرچم لہرا دیا گیاشیخ مجیب نے ہتھیار بند دستوں کی سلامی لی اور کہا کہ بنگلہ دیش کے عوام پر کوئی فیصلہ مسلط نہیں کیا جاسکتا۔
(جاری ہے)

حصہ