بچوں کی شخصیت بنانے میں ماں اور باپ دونوں کا کردار بہت ضروری ہوتا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ بیٹیاں باپ سے زیادہ اُنسیت رکھتی ہیں‘ کسی بھی بیٹی کے لیے اُس کا باپ ایک آئیڈیل ہوتا ہے‘ باپ کا سایہ گھنی چھائوں کی طرح ہوتا ہے جس کی چھائوں میں اُس کی اولاد اپنے آپ کو محفوظ سمجھتی ہے۔
میں نے جب سے ہوش سنبھالا اپنے والد محترم پروفیسر عبدالغفور احمد کو ملک کی ایک سیاسی جماعت اسلامی سے منسلک دیکھا۔ اپنے ملک و قوم کی محبت ان کے دل میں بے انتہا تھی۔ ملک کے جو بھی حالات ہوں‘ کبھی مایوس نہیں ہوئے اور ہمیشہ کہا ’’پاکستان اسلام کے نام پر ہے اور ان شاء اللہ ہمیشہ دنیا کے نقشے پر قائم رہے گا۔‘‘
سیاست کی مصروفیت کی وجہ سے ابا جی ہمیں زیادہ وقت نہیں دے پاتے تھے لیکن ہماری پرورش سے غافل نہیں تھے۔ ہماری تعلیم و تربیت اور ضروریات کا خیال رکھتے۔ ابا جی کی سیاسی کامیابی میں امی کا برابر کا ہاتھ ہے کیوں کہ گھر کی ذمہ داری امی نیلی ہوئی تھی تاکہ ابا جی اپنے ملک و قوم کی خدمت کرسکیں۔ امی سے ہم ہر بات کر لیا کرتے تھے۔ ابا جی سیاسی مصروفیت کی وجہ سے گھر پر کم ہوتے تو ابا جی سے تھوڑا تکلف سا تھا۔
مجھے اپنے بچپن کا ایک واقعہ یاد ہے۔ گرمیوں کے دن تھے‘ ابا جی لاہور سے کافی دن بعد گھر آئے تھے۔ میں نے ڈرائنگ کاپی پر آئس کریم کی تصویریں بنا کے اباجی کو دکھائیں۔ ابا جی بہت خوش ہوئے اور شام کو جب گھر آئے تو ہم سب کے لیے آئس کریم لے کر آئے۔ اس طرح وہ ہماری چھوٹی موٹی چیزوں کی حوصلہ افزائی کرتے۔
بھائیوں کو کھانے کی میز پر ٹیبل ٹینس کھیلتے دیکھا تو کچھ ہی دنوں بعد ٹیبل ٹینس کی میز گھر آگئی۔ جب نیا نیا ٹی وی آیا تو اس بات کہ پیش نظر کہ ہم محلے کے کسی گھر جا کر ٹی وی نہ دیکھیں ابا گھر ٹی وی لے آئے اور ساتھ ہی یہ بات بھی سمجھا دی کہ اس کا بے جا استعمال نہ کریں۔ ہم سب نے بھی کبھی ان کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچایا۔ یہ اباجی کی دور اندیشی تھی کہ کہے بغیر وہ اپنے بچوں کی خواہش سمجھ جایا کرتے تھے۔
اکتوبر 2008ء کو امی اس دنیا سے پردہ کر گئیں۔ امی کے جانے کے بعد ہم نے ابا جی کی شفقت کا ایک نیا روپ دیکھا۔ سیاست سے تقریباً کنارہ کشی اختیار کرکے ہم سب کو بھرپور وقت دیا۔ امی کے بعد ابا جی چار سال حیات رہے‘ ان چار سال میں ہمیں اتنا پیار دیا کہ ہم امی کی کمی کو بھی اباجی کی محبت میں ڈھونڈنے لگے اور بچپن سے جو ہمیں ابا جی سے بات کرتے تکلف اور جھجک تھی وہ ختم ہوا۔
ابا جی ہم سب سے گھل مل کے خوب باتیں کرتے۔ رات کے کھانے کے بعد ابا جی کے ساتھ زندگی کے ہر موضوع پر بات چیت ہوتی۔ ہنسی مذاق ہوتا۔ ابا جی اپنے بچپن کے واقعات بتاتے کہ کیسے یتیمی اور غربت میں اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھا اور اپنی محنت سے اس مقام تک پہنچے۔ اکثر ملازمت کے دوران کے قصے سناتے۔ کبھی کبھی لطیفے بھی سناتے۔ ہمارے ہاتھ کا پکا کھانا اچھا لگتا تو دل کھول کے تعریف کرتے اور ہنس کے کہتے پکانے میں تم لوگوں کو گھنٹوں لگتے ہیں اور ہمیں کھانے میں صرف پانچ منٹ لگتے ہیں۔
ابا جی طبیعت میں مزاح کا پہلو ایسا تھا کہ کسی کی دل شکنی نہ ہو۔ ایسا شائستہ مذاق کرتے۔ اکثر اپنے بیٹوں اور دامادوں سے کہتے یہ گھر کی خواتین گھنٹوں گرمی میں کچن میں کھڑے ہو کے کھانا پکا رہی ہوتی ہیں تو اسلام نے انہیں اتنی آزادی دی اگر یہ نہ پکاتیں تو ان پر کوئی زور زبردستی نہیں ہے‘ یہ شوہر کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود بھی کھائے اور بیوی کو بھی لا کے کھلائے۔ ابا جی بہوئوں‘ بیٹیوں کو بہت عزت دیتے تھے۔
میرے خالہ زاد بھائی نے اپنے کالج کے زمانے کا ایک واقعہ بتایا کہ ایک مرتبہ خالو صاحب ہمارے کالج آئے تو میں بہت خوش ہوکے ان کو سلام کرنے گیا کہ سب طالب علموں کے سامنے میرا تھوڑا رعب ہوگا کہ پروفیسر عبدالغفور احمد میرے خالو ہیں‘ میرے سلام کا جواب دیتے ہی خالو صاحب نے پوچھا ’’تم اس وقت باہر کیوں گھوم رہے ہو‘ کلاس میں کیوں نہیں ہو؟‘‘ میں نے کہا ’’یہ فری پیریڈ ہے‘‘ تو بہت پیار سے سمجھایا کہ ’’فری کلاس ہو تو لائبریری میں جا کر پڑھا کرو۔‘‘پہلے کے بزرگوں کا یہ انداز تھا تربیت و نصیحت کا۔
ایک مرتبہ کسی تقریب میں ابا جی کو سگریٹ پیش کی گئی تو بہت ہی پیارے انداز سے منع کیا کہ ’’افسوس میں اس سے محروم (یا محفوظ) ہوں۔‘‘
دسمبر 2012ء کو ابا جی بھی اس دارِ فانی رخصت ہوئے۔ دعا اللہ تعالیٰ ہمارے ماں‘ باپ سمیت تمام مرحومین کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے‘ آمین۔ ابا جی کے ساتھ گزرے ہر پل میری زندگی کا قیمتی اثاثہ ہیں۔ ابا جی کو ہم نے ہمیشہ سفید اجلا لباس پہنے اور نماز باجماعت ادا کرتے دیکھا۔ انہیں جتنی محبت ہم سے تھی اتنی ہی محبت جمعیت کے بچوں سے بھی تھی۔ ابا جی ایک روشن مینار کی طرح ہیں جس کی روشنی دور دور تک پھیلی ہوئی ہے۔ بے شک وہ دنیا سے پردہ کر گئے ہیں لیکن ہمارے دلوں میں زندہ ہیں۔
آخر میں میری نوجوان نسل سے گزارش ہے کہ وہ اپنے عظیم رہنمائوں کو پڑھیں اور ان کے پاک و شفاف کردار سے روشنی حاصل کریں۔
دعا ہے اللہ مولانا مودودیؒ، میاں طفیل محمدؒ، قاضی حسین احمد، پروفیسر عبدالغفور احمد، سید منور حسن اور نعمت اللہ خان جیسے رہنما پھر پیدا کرے‘ آمین۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا