شعرو شاعری

470

علامہ اقبال
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے
نظارے کی ہوس ہو تو لیلیٰ بھی چھوڑ دے
واعظ کمالِ ترک سے ملتی ہے یاں مراد
دنیا جو چھوڑ دی ہے تو عقبیٰ بھی چھوڑ دے
تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خودکشی
رستہ بھی ڈھونڈ خضر کا سودا بھی چھوڑ دے
مانندِ خامہ تیری زباں پر ہے حرفِ غیر
بیگانہ شے پہ نازش بے جا بھی چھوڑ دے
لطفِ کلام کیا جو نہ ہو دل میں دردِ عشق
بسمل نہیں ہے تو تو تڑپنا بھی چھوڑ دے
شبنم کی طرح پھولوں پہ رو اور چمن سے چل
اس باغ میں قیام کا سودا بھی چھوڑ دے
ہے عاشقی میں رسم الگ سب سے بیٹھنا
بت خانہ بھی حرم بھی کلیسا بھی چھوڑ دے
سوداگری نہیں یہ عبادت خدا کی ہے
اے بے خبر جزا کی تمنّا بھی چھوڑ دے
اچھّا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
جینا وہ کیا جو ہو نفس غیر پر مدار
شہرت کی زندگی کا بھروسا بھی چھوڑ دے
شوخی سی ہے سوال مکّرر میں اے کلیم
شرطِ رضا یہ ہے کہ تقاضا بھی چھوڑ دے
واعظ ثبوت لائے جو مے کے جواز میں
اقبالؔ کو یہ ضد ہے کہ پینا بھی چھوڑ دے
…٭…
سحر انصاری
نہ دوستی سے رہے اور نہ دشمنی سے رہے
ہمیں تمام گلے اپنی آگہی سے رہے
وہ پاس آئے تو موضوعِ گفتگو نہ ملے
وہ لوٹ جائے تو ہر گفتگو اسی سے رہے
ہم اپنی راہ چلے لوگ اپنی راہ چلے
یہی سبب ہے کہ ہم سرگراں سبھی سے رہے
وہ گردشیں ہیں کہ چھٹ جائیں خود ہی بات سے ہات
یہ زندگی ہو تو کیا ربطِ جاں کسی سے رہے
کبھی ملا وہ سرِ رہ گزر تو ملتے ہی
نظر چرانے لگا ہم بھی اجنبی سے رہے
گداز قلب کہے کوئی یا کہ ہرجائی
خلوص و درد کے رشتے یہاں سبھی سے رہے
…٭…
عبد الحمید عدم
ہنس کے بولا کرو بلایا کرو
آپ کا گھر ہے آیا جایا کرو
مسکراہٹ ہے حسن کا زیور
روپ بڑھتا ہے مسکرایا کرو
حد سے بڑھ کر حسین لگتے ہو
جھوٹی قسمیں ضرور کھایا کرو
حکم کرنا بھی اک سخاوت ہے
ہم کو خدمت کوئی بتایا کرو
بات کرنا بھی بادشاہت ہے
بات کرنا نہ بھول جایا کرو
تاکہ دنیا کی دل کشی نہ گھٹے
نت نئے پیرہن میں آیا کرو
ہم حسد سے عدمؔ نہیں کہتے
اس گلی میں بہت نہ جایا کرو
شان الحق حقی
نکلے تری دنیا کے ستم اور طرح کے
درکار مرے دل کو تھے غم اور طرح کے
تم اور طرح کے سہی ہم اور طرح کے
ہو جائیں بس اب قول و قسم اور طرح کے
بت خانے کا منظر بخدا آج ہی دیکھا
تھے میرے تصور میں صنم اور طرح کے
کرتی ہیں مرے دل سے وہ خاموش نگاہیں
کچھ رمز اشاروں سے بھی کم اور طرح کے
غم ہوتے رہے دل میں کم و بیش ولیکن
بیش اور طرح کے ہوئے کم اور طرح کے
مایوسِ طلب جان کے اس دشت ہوس میں
یاروں نے دیئے ہیں مجھے دم اور طرح کے
رہتی ہے کسی اور طرف آس نظر کی
ہیں وقت کے ہاتھوں میں علم اور طرح کے
رہبر کا تو اندازِ قدم اور ہی کچھ تھا
ہیں قافلے والوں کے قدم اور طرح کے
کچھ اور ہیں اس حسنِ بسنتی کی ادائیں
ہیں ناز نگارانِ عجم اور طرح کے
کہتے ہو کہ پھیکی سی ہیں رونکھی سی ہیں غزلیں
لو شعر سنائیں تمہیں ہم اور طرح کے
یہ کس نے کیا یاد کہاں جاتے ہو حقیؔ
کچھ آج تو پڑتے ہیں قدم اور طرح کے
…٭…
شکیل بدایونی
اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا
جانے کیوں آج ترے نام پہ رونا آیا
یوں تو ہر شام امیدوں میں گزر جاتی ہے
آج کچھ بات ہے جو شام پہ رونا آیا
کبھی تقدیر کا ماتم کبھی دنیا کا گلہ
منزل عشق میں ہر گام پہ رونا آیا
مجھ پہ ہی ختم ہوا سلسلۂ نوحہ گری
اس قدر گردشِ ایام پہ رونا آیا
جب ہوا ذکر زمانے میں محبت کا شکیلؔ
مجھ کو اپنے دلِ ناکام پہ رونا آیا
…٭…
حشام احمد سید
حرص و ہوس مٹی نہیں سیاسی دماغ سے
جو بلبلِ چمن تھے وہ لگتے تھے زاغ سے
بھٹو، مجیب و یحییٰ نے توڑا تھا یہ وطن
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
ہندوستان بھی رہا سازش میں غوطہ زن
چہرہ سیہ ہے انس کا عداوت کے داغ سے
بوئے ہی جا رہے ہیں تعصب کے بیج ہم
کیسے چنیں گلاب اب نفرت کے باغ سے
تہذیب دین کس قدر اب کھو چکے ہیں ہم
اپنی شناخت کھو کے ہم ہیں سراغ سے
حشام ہیں پڑے ہوئے حیرت کے روگ میں
میخانۂ حیات میں خالی ایاغ سے
…٭…

افتخار عارف کے پسندیدہ اشعار
بلند ہاتھوں میں زنجیر ڈال دیتے ہیں
عجیب رسم چلی ہے دعا نہ مانگے کوئی
…٭…
تمام خانہ بدوشوں میں مشترک ہے یہ بات
سب اپنے اپنے گھروں کو پلٹ کے دیکھتے ہیں
…٭…
پیمبروں سے زمینیں وفا نہیں کرتیں
ہم ایسے کون خدا تھے کہ اپنے گھر رہتے
…٭…
ہمیں میں رہتے ہیں وہ لوگ بھی کہ جن کے سبب
زمیں بلند ہوئی آسماں کے ہوتے ہوئے
…٭…
خاک میں دولت پندار و انا ملتی ہے
اپنی مٹی سے بچھڑنے کی سزا ملتی ہے
…٭…
روز اک تازہ قصیدہ نئی تشبیب کے ساتھ
رزق برحق ہے یہ خدمت نہیں ہوگی ہم سے
…٭…

ذیشان ساحل
یاد کرنے کے زمانے سے بہت آگے ہیں
آج ہم اپنے ٹھکانے سے بہت آگے ہیں
کوئی آ کے ہمیں ڈھونڈے گا تو کھو جائے گا
ہم نئے غم میں پرانے سے بہت آگے ہیں
جسم باقی ہے مگر جاں کو مٹانے والے
روح میں زخم نشانے سے بہت آگے ہیں
اس قدر خوش ہیں کہ ہم خواب فراموشی میں
جاگ جانے کے بہانے سے بہت آگے ہیں
جو ہمیں پا کے بھی کھونے سے بہت پیچھے تھا
ہم اسے کھو کے بھی پانے سے بہت آگے ہیں
…٭…

مشیرکاظمی
پھول لے کر گیا آیا روتا ہوا
بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں
قبر اقبال سے آرہی تھی صدا
یہ چمن مجھ کو آدھا گوارہ نہیں
……
شہر ماتم تھا اقبال کا مقبرہ
تھے عدم کے مسافر بھی آئے ہوئے
خون میں لت پت کھڑے تھے لیاقت علی
روح قائد بھی سر کو جھکائے ہوئے
کہہ رہے تھے سبھی کیا غضب ہوگیا
یہ تصور تو ہرگز ہمارا نہیں
……
سرنگوں تھا قبر پہ مینار وطن
کہہ رہا تھا کہ اے تاجدار وطن
آج کے نوجواں کو بھلا کیا خبر
کیسے قائم ہوا یہ حصارِ وطن
جس کی خاطر کٹے قوم کے مرد و زن
ان کی تصویر ہے یہ مینارا نہیں
……
کچھ اسیران گلشن تھے حاضر وہاں
کچھ سیاسی مہاشے بھی موجود تھے
چاند تارے کے پرچم میں لپٹے ہوئے
چاند تارے کے لاشے بھی موجود تھے
میرا ہنسنا تو پہلے ہی اک جرم تھا
میرا رونا بھی ان کو گوارہ نہیں
کیا فسانہ کہوں ماضی و حال کا
شیر تھا میں بھی اک ارض بنگال کا
شرق سے غرب تک میری پرواز تھی
ایک شاہین تھا میں ذہن اقبال کا
ایک بازو پہ اڑتا ہوں میں آج کل
دوسرا دشمنوں کو گوارہ نہیں
……
یوں تو ہونے کو گھر ہے سلامت رہے
کھینچ دی گھر میں دیوار اغیار نے
ایک تھے جو کبھی آج دو ہو گئے
ٹکڑے کر ڈالا دشمن کی تلوار نے
گھر بھی دو ہو گئے در بھی دو ہو گئے
جیسے کوئی بھی رشتہ ہمارا نہیں
……
کچھ تمہاری نزاکت کی مجبوریاں
کچھ ہماری شرافت کی مجبوریاں
تم نے روکے محبت کے خود راستے
اس طرح ہم میں ہوتی گئیں دوریاں
کھول تو دوں میں راز محبت مگر
تیری رسوائیاں بھی گوارہ نہیں
……
وہ جو تصویر مجھ کو دکھائی گئی
میرے خون جگر سے بنائی گئی
قوم کی ماؤں بہنوں کی جو آبرو
نقشہ ایشیاءمیں سجائی گئی
موڑ دو آبرو یا وہ تصویر دو
ہم کو حصوں میں بٹنا گوارہ نہیں
……
پھول لے کر گیا آیا روتا ہوا
بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں
قبر اقبال سے آرہی تھی صدا
یہ چمن مجھ کو آدھا گوارا نہیں
…٭…

بعد میں لگے گا
قابل اجمیری کے اہم اشعار
تم نے مسرتوں کے خزانے لٹا دیے
لیکن علاجِ تنگیِ داماں نہ کر سکے
اک والہانہ شان سے بڑھتے چلے گئے
ہم امتیاز ساحل و طوفاں نہ کر سکے
راستا ہے کہ کٹتا جاتا ہے
فاصلہ ہے کہ کم نہیں ہوتا
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
ہم بدلتے ہیں رخ ہواؤں کا
آئے دنیا ہمارے ساتھ چلے
خیالِ سود نہ اندیشہ زیاں ہے ابھی
چلے چلو کہ مذاقِ سفر جواں ہے ابھی
رکا رکا سا تبسم، جھکی جھکی سی نظر
تمہیں سلیقہ بے گانگی کہاں ہے ابھی
سکونِ دل کی تمنا سے فائدہ قابل
نفس نفس غمِ جاناں کی داستاں ہے ابھی
تضادِ جذبات میں یہ نازک مقام آیا تو کیا کرو گے
میں رو رہا ہوں تو ہنس رہے ہو میں مسکرایا تو کیا کرو گے
…٭…

افتخار عارف کے پسندیدہ اشعار
مرا خوش خرام بلا کا تیز خرام تھا
مری زندگی سے چلا گیا تو خبر ہوئی
…٭…
خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے
ایسی تنہائی کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے
…٭…

حصہ