واٹس ایپ اسٹیٹس اَپ ڈیٹ کیے دو منٹ ہی گزرے تھے کہ ایک اسٹوڈنٹ کا جھٹ پٹ جواب آیا ’’میڈم! آپ نے اسٹیٹس پر آسان نکاح کے حوالے سے جو پوسٹ لگائی ہے، یہ آج کے دور میں ممکن نہیں۔ میں نے اپنے والدین سے یہی کہا کہ میں نکاح کرنا چاہتا ہوں، پڑھائی بھی جاری رہے گی تو میڈم یقین جانیں کہ والدین نے اس طرح برتاؤ کیا جیسے میں نے کوئی گناہ کی بات کردی ہو۔ کہنے لگے کہ کون پالے گا؟ کون کھلائے گا؟ شادی کے اخراجات؟ گھر میں ایک فرد کا اضافہ؟
میڈم! آج تو وہ زمانہ ہے کہ گھر میں اچانک ایک بن بلایا مہمان بھی برداشت نہیں کیا جاتا، اس کو بھی چائے پلانے کے لیے نمود و نمائش کی خاطر ہی سہی، ہزار روپے کھلے کروانے پڑتے ہیں اور آپ آسان نکاح کی بات کررہی ہیں؟‘‘
کہنے کو یہ ایک برسبیلِ تذکرہ بات تھی، مگر اپنے اندر معنی و مفاہیم سے برسرِ پیکار معاملہ، کہ آج کے نوجوان کو درپیش مسائل میں ’’نکاح سے لے کر گھر میں آنے والے مہمانوں کی چائے بھی ایک مسئلہ ہے۔‘‘
یہ فرسٹریشن، خودکشی کا بڑھتا ہوا رجحان… کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم نے نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی نوجوان نسل کو وہ مادّیت پرستانہ سوچ دے دی ہے جس کے نتیجے میں لاحاصل کا دکھ انہیں اپنی جان لینے پر مجبور کردیتا ہے۔
ایک قریبی عزیزہ نے اسی مادّیت پرستی کی دوڑ میں شامل ہونے کے لیے اپنے اچھے خاصے انجینئر بچے کو سائیڈ بزنس کے نام پر شادیوں کے لیے مووی میکر بنا ڈالا یہ کہہ کر کہ نوکری سے تو ’’صرف‘‘ ڈیڑھ لاکھ ملتے ہیں جب کہ ایک ’’ایونٹ‘‘ کی وڈیو بنانے کے تین لاکھ تک آرام سے مل جاتے ہیں۔ اب وہ اچھا خاصا الیکٹریکل انجینئر تقریبات میں لڑکیوں کے دوپٹے سیٹ کرواکر اُن کے خوب صورت پوز فوکس کررہا ہے۔
یہ تو صرف دو مثالیں ہیں، ہمارے متوسط طبقے میں شادیوں پر لیا جانے والا قرض اور پہلی اولاد کی شادی کے خرچ کے لیے اگلے بچوں کی شادیاں لیٹ کرنے کے رجحان سے لے کر عید، بقرعید اور دیگر تقریبات کے اخراجات نے بچوں کی زندگی کو مشکل ترین بنادیا ہے۔ اور ایسا صرف شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں ہی نہیں ہوتا بلکہ مادّیت پرستی کی دوڑ اس قدر بڑھ چکی ہے کہ خوش حال اور متوسط گھرانے ہی نہیں بلکہ نچلا طبقہ بھی اس دوڑ میں شامل ہے۔
اس ساری بحث کو سمیٹتے ہوئے ہم قدرت کے اس کارخانے کے اصل مالک اللہ رب العزت سے مشاورت طلب کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ رب العالمین اپنے بندوں کے’’سکون‘‘ کے لیے اُن کے جوڑے ’’نکاح‘‘ کی صورت بنا لینے کا مشورہ دیتا ہے۔ یہاں تک کہ اخلاقی، معاشرتی اور معاشی معاملات کے حل میں نکاح کے مشورے اور اس کو عام کرنے میں صحابہ کرامؓ کی زندگی میں نکاح ایسے آسان ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس زمانے میں موجودگی کے باوجود ایک صحابیؓ کے نکاح کی تقریب میں انہیں مدعو کرنے پر قدرت نہ رکھتے ہوئے بھی نکاح کرلیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا برا نہ منایا بلکہ خوشی سے مبارک باد دی۔ آج کے نوجوان ایک دوسرے کے کاندھوں پر سر رکھے جس سکون کی تلاش میں ہیں اور گمراہیوں کی جانب نکل پڑتے ہیں وہ سکون تو آسان نکاح کی سنت میں موجود ہے۔ غارِ حرا سے اک نورِ بصیرت لے کر آنے والے پیکر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈھارس بندھانے والا کوئی اور نہیں ان کی بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ہی تھیں۔ مصائب و آلام کے اس دور میں ایک دوسرے کو لاکھوں کندھے میسر ہوں مگر نکاح کے ذریعے میسر کندھا ہمیشہ توانا اور بااثر رہا ہے، اگر اس میں مادّیت پرستی کے ٹانکے نہ لگے ہوں۔
آج کی نسل میں کربِ نارسائی کے باعث مادّی خواہشات کی بہتات ہے جو اُن میں موجود نہ بھی ہو تو جانے انجانے میں اپنے بے جا سوالات کے ذریعے ہم خود بھی اُن میں شامل کردیتے ہیں۔ شادی کیوں نہیں ہورہی؟ تعلیم؟ پیشہ؟ آمدن؟ رہائش؟ جہیز کتنا؟ سسرال امیر؟ غریب؟ منہ دکھائی؟ سلامی؟ شادی کے طعام کی تفصیل؟ غرض نہ ختم ہونے والی طویل فہرست ہے جو ایک جوڑے کی زندگی مشکل ترین بنانے کے بعد اس کی اگلی نسل کو دردناک مستقبل کی طرف لے جاتی ہے، اور ایک نسل سے دوسری نسل کی طرف منتقل ہوتی ہے جو نوجوان طبقے کی فرسٹریشن کا باعث بن رہی ہے۔
اس کا حل انفرادی نہیں اجتماعی ہے، وہ یہ کہ کوئی موٹا پہن رہا ہے، جھوٹا کھا رہا ہے،کیا کھا رہا ہے، کیوں ،کیا ،کیسے… یہ سب اگر ہمیںمدد کے لیے پوچھنا ہے تو ضرور پوچھیں، مگر اپنی معلومات میں اضافے کا یہ طریقہ مناسب نہیں، کہ بعض اوقات محض ’’آپ‘‘ کو بتانے کی خاطر کسی کی زندگی بہت مشکل ہو جاتی ہے۔ ہم اگر حل نہیں دے پا رہے تو مسائل میں اضافے کا باعث بھی نہ بنیں۔