افسانہ،ایک نئی صبح طلوع ہونے کو ہے

308

’’ایمان بیٹا یہ کیا کہ تم ہر وقت موبائل پر لگی رہتی ہو، ذرا سا کوئی کام کہہ دو تو بہت دیر لگاتی ہو!‘‘ دادی جان نے دور سے ایمان کو اپنی دوست سے موبائل پر بات کرتے ہوئے دیکھا تو کہا۔
’’جی دادی آپ کچھ کہہ رہی ہیں؟‘‘ ایمان نے دادی جان سے پوچھا۔
’’بیٹا، موبائل کی ہینڈ فری کان سے نکالو تو سنو کہ کوئی کیا کہہ رہا ہے۔ آج کل کے بچوں کو اس موبائل نے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ جب دیکھو ہر کوئی اس سے لگا رہتا ہے‘‘۔ دادی جان نے بیزاری سے کہا۔
’’ایمان بیٹا! گھر کے کاموں میں کبھی اماں کا ہاتھ بٹایا کرو، اس طرح سے تمہارا بڑھتا ہوا وزن بھی کم ہوگا، اور تو اور تمہاری اماں کو تو ہر وقت یہ فکر لاحق رہتی ہے کہ میری بیٹی کا کیا ہوگا!‘‘ دادی جان نے گہری آہ بھر کر اپنی پوتی ایمان سے کہا۔
ادھر پاس سے گزرتے ہوئے چھوٹے بھیا نے کہا ’’ایمان! میری شرٹ تو پریس کردو، مجھے ذرا جلدی آفس جانا ہے۔‘‘
’’چھوٹے بھیا! آپ کو تو میں ہی نظر آتی ہوں، میں تو پڑھنے جارہی تھی۔‘‘ ایمان نے جھٹ سے جواب دیا اور فوراً اپنے کمرے میں چلی گئی، اور ہینڈ فری کان سے لگائے اپنی دوست فروا سے باتیں کرنے لگی۔
’’فروا کیا بتائوں، جب دیکھو گھر والوں کو میں ہی نظر آتی ہوں، آپی شادی کے بعد کینیڈا چلی گئیں اور اب میں ہی سب کی نظروں میں رہتی ہوں، ابھی چھوٹے بھیا نے کام کا کہا تھا، پڑھائی کا بہانہ بناکر چکمہ دے کر آئی ہوں۔‘‘ اور ہنس کر باتیں کرنے لگی۔
ایمان، خدیجہ بیگم اور دادی جان (آمنہ بیگم) کے اکلوتے بیٹے فراز کی چھوٹی بیٹی تھی۔ فراز صاحب کے پانچ بچے تھے، سب سے بڑے عمر، جو قطر میں ملازمت کرتے تھے، اُس کے بعد وانیہ تھی جو شادی کے بعد کینیڈا چلی گئی تھی، اس کے بعد اسفر جو کراچی کی ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازم تھے، پھر ایمان جو کراچی یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھی، جب کہ سب سے چھوٹا احمر کالج میں پڑھ رہا تھا۔ خدیجہ بیگم بھی ایمان کی طرف سے فکرمند رہتی تھیں۔ گھر کے کاموں کے لیے ماسی آتی تھی مگر زیادہ تر کام وہ خود کرتی تھیں۔ وانیہ کی تو کم عمری میں ہی شادی کردی تھی، اب ایمان کے لیے بھی چاہتی تھیں کہ کوئی اچھا رشتہ ہو تو جلد ہی شادی کردیں، مگر ایمان ہر کام میں سستی دکھاتی تھی۔ اسی وجہ سے اس کا وزن بھی بڑھ رہا تھا۔
خدیجہ بیگم ایمان کی اس عادت سے نالاں رہتی تھیں۔ وہ اکثر اُسے ٹوکتیں کہ دوسرے گھر جائو گی تو کیا کرو گی؟ اس بات کا ذکر خدیجہ بیگم نے اپنی ساس سے کیا ’’اماں جان! مجھے تو ایمان کی کام چوری کی عادت نے پریشان کررکھا ہے، کیا کروں؟‘‘
’’خدیجہ تم صحیح کہہ رہی ہو، لیکن پریشان مت ہو، سب ٹھیک ہوجائے گا… پرائے گھر جاکر جب سارے کام اکیلے کرنے پڑیں گے۔‘‘ اماں جان نے کہا۔
’’کیا کہہ رہی ہیں اماں جان آپ…؟‘‘ خدیجہ بیگم نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔
’’ویسے خدیجہ! تم تو ایسی نہ تھیں۔ بہت پھرتیلی، ہر کام جھٹ پٹ کرتی تھیں، تمہاری اسی ادا نے تو ہمیں تمہارا گرویدہ کرلیا تھا اور ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ تمہیں فراز کی دلہن بنائیں گے۔ بھئی خدیجہ تم تو اب بھی ویسی ہی اسمارٹ ہو، پانچ بچوں کی ماں تو لگتی ہی نہیں۔ یہ ایمان پتا نہیں کس پر چلی گئی، نگوڑ ماری جب دیکھو موبائل میں لگی رہتی ہے۔‘‘ آمنہ بیگم نے اپنی بہو کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔
’’اماں جان میں کیا کروں اس کا؟‘‘ خدیجہ بیگم نے اپنی ساس سے کہا۔
’’بے فکر رہو تم، میں کچھ کرتی ہوں۔‘‘ آمنہ بیگم نے پان منہ میں رکھتے ہوئے کہا۔ ’’دیکھنا ایسا سسرال ڈھونڈوں گی کہ ایمان کو چار چاند نظر آجائیں گے۔‘‘ آمنہ بیگم خاندان بھر کے رشتے بھی کرواتی تھیں، اسی لیے اپنی بہو کو پیار بھرے انداز میں کہا۔
خدیجہ بیگم ایک دم سیدھی ہوکر بیٹھ گئیں ’’کیا کہہ رہی ہیں اماں جان! کیا کوئی رشتہ ہے آپ کی نظر میں؟‘‘
’’گھر کے بڑے جو ہوتے ہیں نا، وہ ہر کام حکمت اور تدبر سے کرتے ہیں، اور آج کل لڑکیوں کے رشتے کے سلسلے میں خاندان بھی دیکھا جاتا ہے، اور تمہیں تو معلوم ہے کہ میں بھی بھرے خاندان میں گئی تھی، میں نے ہمیشہ اپنے سسرال والوں کی دل و جان سے خدمت کی اور اللہ نے مجھے بھی تمہاری صورت میں اچھی بیٹی دی۔‘‘ آمنہ بیگم نے اپنی بہو کو پیار کرتے ہوئے کہا۔
’’میرے ذہن میں ماہم کے دیور کا خیال آیا تھا، ابھی کل ہی تو اُس کا فون آیا تھا کہ نانی میرے دیور کے لیے کوئی رشتہ بتائیں۔ ماہم جو کہ میری خالہ زاد بہن کی بیٹی ہے، جانتی ہو نا تم۔‘‘آمنہ بیگم نے بہو کو بتایا۔
’’جی اماں جان!‘‘ خدیجہ بیگم نے تابعداری سے کہا۔
’’اس کا شوہر تو نیوی میں ہے اور ایک ہی دیور ہے جو کہ آرمی میں ہے۔ اس کی ساس فاطمہ بہت اچھی عادت کی ہیں۔ آج کل اپنے بڑے بیٹے کے پاس سعودیہ گئی ہیں، آتی ہیں تو ماہم آئے گی ہم سے ملنے، اور ماہم نے اکثر باتوں میں ایمان کو پسند کرنے کا ذکر بھی کیا تھا۔‘‘اب خدیجہ بیگم کو تسلی ہوئی اور وہ رات کا کھانا بنانے باورچی خانے کی جانب چل دیں۔
ویسے تو وہ اپنی ساس کی فرماں بردار بھی تھیں، آخر اکلوتی جو تھیں۔ خدیجہ بیگم کے والدین انتقال کرچکے تھے۔ بڑے بھائی آسٹریلیا میں تھے۔ بس یہی ان کا میکہ تھا۔ رات کو جب سب کھانا کھا چکے تو انہوں نے ایمان سے کہا ’’بیٹا! برتن اٹھائو۔‘‘
’’اُف امی! آپ بھی نا، ہر وقت کام کا کہتی ہیں۔‘‘ ایمان بھنائی۔
’’کوئی بات نہیں بیٹا! کچھ مہینوں کی بات ہے۔‘‘ خدیجہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’ابو! یہ امی کو کیا ہوا، سب خیریت تو ہے نا، آپ سے کوئی بات تو نہیں ہوئی؟‘‘ ایمان شش و پنج میں مبتلا ،برتن اٹھا کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔
’’فراز بیٹا مجھے تم سے بات کرنی تھی۔‘‘
’’جی اماں جان، بولیں۔‘‘ فراز نے ماں کی بات سنتے ہوئے کہا۔
’’بیٹا! ایمان کے لیے ماہم کے دیور کا رشتہ ہے، ماہم نے مجھ سے کہا تھا ایمان کے لیے۔ لڑکا اچھا ہے، آرمی میں میجر ہے، اکثر اس کی پوسٹنگ دوسرے شہروں میں ہوتی رہتی ہے۔ مجھے تو پسند ہے۔ ماہم کی ساس سعودیہ میں ہیں، وہ جب آئیں گی تو ماہم انہیں لے کر ہمارے گھر آئے گی ایمان کے رشتے کے لیے۔‘‘
’’جی اماں جان اچھا ہے، ماہم تو آپ کی نواسی ہے اور ہماری بیگم بھی تو آپ کی پسند ہیں، ایمان کے لیے بھی اچھا ہی ہوگا۔‘‘ فراز نے مسکراتے ہوئے کہا۔
پھر ایک دن ماہم اپنی ساس فاطمہ کے ساتھ ایمان کا رشتہ لے کر آئی۔ سب کو لڑکا پسند آیا، اور اس طرح شادی جلد طے پائی۔ اب ایمان ’ایمان کاشان‘ بن کر فاطمہ کی بہو بنی۔ فاطمہ بہت خوش تھیں۔ ایمان کچھ دن اپنے سسرال کے ساتھ رہی، اسی اثنا میں کاشان کی پوسٹنگ کے آرڈر آگئے اور وہ ایمان کو لے کر کوئٹہ کے لیے روانہ ہوگیا۔ کاشان کو آرمی کی طرف سے گھر ملا ہوا تھا اور ایک عدد نوکر بھی تھا۔ لیکن اُسے اپنا کام خود کرنے کی عادت تھی، اور ہر کام وقت پر کرتا تھا جو کہ اس کی ڈیوٹی کا حصہ بھی تھا۔ گھر آتے دونوں بہت تھک گئے تھے اور صبح کاشان کو جوائننگ بھی دینی تھی۔ وہ صبح سویرے جلدی اُٹھا، اپنا اور ایمان کا ناشتا بنایا اور ایمان کو اُٹھایا ’’اٹھیں بیگم صاحبہ! ناشتا تیار ہے۔‘‘
ایمان ایک دم ہڑبڑا کر باورچی خانے میں آئی تو دیکھا واقعی ٹیبل پر ناشتا تیار تھا۔ کہاں تو گھر میں امی اٹھاتی تھیں اور وہ ہر بار سونے کا کہہ دیتی، مگر یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور تھا۔ خیر دونوں نے ناشتا کیا۔ کاشان نے اپنی تیاری کی۔ ایمان شوہر کو خدا حافظ کہنے کے لیے اٹھی۔
’’بیگم صاحبہ! آج کا استقبال تو ہم نے کیا، لیکن اب آپ مسز کاشان ہیں جن کی تربیت میں وقت کی پابندی ضروری ہوتی ہے، وقت پر اٹھنا، وقت پر سونا، ہر کام وقت پر کرنا ہوتا ہے۔ لہٰذا سوچا پہلے دن سے ہی آپ کو باور کرادیا جائے کہ ہماری صبح جلدی ہوتی ہے۔‘‘ کاشان نے مسکراتے ہوئے کہا، سلیوٹ کیا اور روانہ ہوگیا۔
ایمان مسکرائی کہ آج کی صبح تو خوش گوار ہے، اور کاشان نے ساتھ ہی ذمے داری کا احساس بھی دلایا۔ واقعی دادی صحیح کہتی تھیں۔ اور کاشان واقعی ایک بااصول شخص ہیں۔ کاشان کے جانے کے بعد گھر کا جائزہ لیا اور ہر کام بہ خوبی انجام دیا۔ کھانا بنایا، شوہر کے آنے سے پہلے تیار ہوگئی۔ کاشان جب گھر آیا تو بیوی کو اس طرح تیار دیکھ کر مسکرا اٹھاکہ امی نے میرے لیے میرے مزاج کا ہمسفر چنا ہے۔ کچھ دن تو ایمان گھبرائی کہ کس طرح اکیلی کروں گی، لیکن کاشان نے اس کا مکمل ساتھ دیا۔ ایمان نے گھر کے کاموں کو خود کرنے کا عادی بنایا اور اپنے وزن کو بھی کنٹرول کیا۔ متوازن غذا کے استعمال اور گھر کے کام خود کرنے کی وجہ سے ایمان کا وزن بھی کم ہو گیااور اب وہ خاصی اسمارٹ ہوگئی تھی۔ ویسے تو اکثر اس کی بات اپنے گھر والوں سے ہوتی رہتی تھی۔ گھر والے حیران تھے کہ یہ وہی ایمان ہے جو کہ گھر میں کچھ نہیں کرتی تھی!
ایک دن ویڈیو کال پر بات کرتے ہوئے خدیجہ بیگم ایمان کو دیکھ کر خوشی سے نہال ہوگئیں۔ قریبی بیٹھی دادی جان نے کہا ’’واقعی ایمان! تم نے تو اپنے آپ کو بدل ہی لیا۔‘‘
’’جی دادی جان! یہ سب آپ کی تربیت کا اثر ہے۔ گھر کے بڑوں سے ہی رونق ہوتی ہے اور وہ اپنے بچوں کے بھلے کے لیے ہی کہتے ہیں۔‘‘ اس کی بات سن کر سب مسکرادیے اور کاشان نے پیار بھرے انداز میں بیوی کو دیکھا۔

حصہ