ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک کبوتر اپنے بچے کو اڑنے کا طریقہ سکھا رہا تھا۔ دونوں ایک درخت کے قریب پہنچے تو اس کی ایک شاخ پر بیٹھ گئے تا کہ تھکن دور کرکے پھر اُرنے لگیں۔ نچلی شاخ پر ایک خالی گھونسلا تھا۔ کبوتر کا بچہ خالی گھونسلے پر جا بیٹھا اور کہنے لگا ’’واہ کیا اچھی جگہ ہے، سرسبز و شاداب درخت پر ایک گھر!‘‘
یہ گھونسلا ایک کوّے کی ملکیت تھا جو اسے چھوڑکر کہیں اور چلا گیا تھا۔ اتفاق دیکھیے اُس روز وہ اُدھر سے گزر رہا تھا۔ جونہی اس نے کبوتر کے بچے کو وہاں دیکھا، آگے بڑھا اور کائیں کائیں شروع کردی اور احتجاج کرتے ہوئے بولا:
’’اوگستاخ پرندے، میرے گھونسلے میں کیوں اور کس کی اجازت سے بیٹھا ہے؟‘‘ اس سے پہلے کہ بچہ کچھ کہتا، کبوتر بولا۔ ’’نہ ہم نے اجازت لی ہے نہ ہمیں اِس گھونسلے سے کچھ سروکار ہے۔ میں اپنے بچے کو اڑنے کا ہنر سکھارہا تھا۔ وہ تھک گیا تھا اور ہم چند لمحوں کے لیے یہاں بیٹھ گئے تھے۔ اگر مجھے بچے کا خیال نہ ہوتا تو ہم ہرگز درخت پر نہ بیٹھتے۔ یوں بھی ہم درختوں پر بیٹھنے والے پرندے نہیں۔ خواہ مخواہ فریاد نہ کرو، لو، ہم چلے!‘‘
کوّا بولا! ’’اچھا زبان درازی بھی کرنے لگے؟ دوسروں کے درخت پر جا بیٹھتے ہو، ان کے گھونسلے کو اپنا گھر بنالیتے ہو اور پھر کہتے ہو، فریاد نہ کرو۔ تم نے بڑا بُرا کیا، بہت غلط کیا ۔ مجھے اس سے کیا لینا دینا کہ تم اپنے بچے کو اڑنا سکھا رہے تھے یا نہیں۔ اب میں تمہیں مزا چکھائوں گا۔ تمہیں ذلیل کروں گا۔ ایک کبوتر کے لیے یہ کیسی گھٹیا بات ہے کہ کوّے کے گھونسلے کو ہوس کی نگاہ سے دیکھے!‘‘
کبوتر بولا: ’’میں نے کہا نا کہ ہماری نگاہ تمہارے گھونسلے پر نہیں تھی۔ لو اب ہم جارہے ہیں۔ اگر ہم سے کوئی جسارت ہوئی تو اپنی بزرگی کے ناتے ہمیں معاف کردینا۔ مفت میں لڑائی جھگڑا نہ کرو۔ لو بیٹھو، میں نے اپنے بچے کو اٹھایا اور چلا۔‘‘
کوّے نے پھر چیخ پکار شروع کردی: ’’بیکار بیٹھے، بیکار چلے مگر میں تمہیں جانے نہیں دوں گا۔ میں اب سب پرندوں کو جمع کرتا ہوں اور تمام کبوتروں کی عزت خاک میں ملاتا ہوں۔ دوسروں کے گھروں میں گھس بیٹھ کر مزے اڑانے کے کیا معنی ہیں؟ کیا یہ سرائے ہے؟ کیا یہ پرواز سکھانے کا ادارہ ہے؟ تم نے درخت پر بیٹھ کر بہت بُرا کیا۔ فریاد، فریاد، انصاف انصاف! اے پرندو آئو۔ یہاں جھگرا اُٹھ کھڑا ہوا۔ قارقار، قار قار!‘‘
غصے میں آپے سے باہر ہو کر کوّے نے کبوتر کے بچے کو زمین پر پٹخ دیا اور داد فریاد کی حد کردی۔ اب کبوتر کو بھی غصہ آگیا:
’’تمہیں اگر یہ شور و غوغا اتنا پسند ہے تو میں تمہاری خبر لیتا ہوں۔ کان کھول کر سن لو۔ دراصل یہ گھونسلا میری ملکیت ہے اب میں یہاں سے جائوں گا بھی نہیں، جو جی میں آئے کرلو‘‘۔
کوّے نے اور زور سے داد فریاد کی۔ اس پر پرندے اکٹھے ہوئے اور پوچھنے لگے، کیا ہوا، کیا ہوا؟ کوّا بولا: ’’اس کبوتر نے یہاں آکر میرے گھونسلے پر قبضہ کرلیا ہے۔ تم گواہ رہنا، میں اسے اذیت دوں گا، اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا‘‘۔
کبوتر بولا۔ ’’کوّا جھوٹا ہے۔ یہ گھونسلا میری ملکیت ہے۔ اس کوّے نے آکر میرے بچے کو نکال باہر پھینکا اور شوروغوغا کرکے میرا گھونسلا مجھ سے چھین لینا چاہتا ہے۔ تم جانتے ہو کہ ظالم کون ہے اور مظلوم کون‘‘۔
پرندوں کے کوّے سے پوچھا: ’’کیا تمہارے پاس کوئی سند و ثبوت ہے کہ یہ گھونسلا تمہارا ہے؟ کوّا بولا: ’’فریاد فریاد۔ آخر یہ کیا مسخرہ پن ہے؟ ثبوت کس بات کا؟ میں نے اپنے ہاتھوں سے یہ گھر بنایا ہے۔ میں اس کبوتر کو نکال باہر کروں گا، میں دھونس میں آنے والا نہیں!‘‘
پرندوں نے کبوتر سے پوچھا: ’’کیا تمہارے پاس کوئی سند و ثبوت ہے کہ یہ گھونسلا تمہارا ہے؟ کبوتر بولا: ’’میرے پاس ثبوت تو کوئی نہیں لیکن تم دیکھ رہے ہو کہ یہ گھر میرے پاس ہے اور یہ کوّا چاہتا ہے کہ بدمعاشی کے زور سے مجھے نکال باہر کرے۔ اس کا ثبوت خود میرا بچہ ہے کہ کوّے نے اسے زمین پر پٹخ دیا۔ آخر انصاف بھی کوئی چیز ہے تم اس کوّے کو چھوٹ نہ دینا کہ یہ چِلّا چِلّا کر مجھ کم زور پر ظلم کرے‘‘۔
پرندے بولے: ’’ہاں ہاں درست ہے۔ کوّا اس طرح داد فریاد کا حق نہیں رکھتا۔ کبوتر کے بچے کو زمین پر پٹخ دینا بھی کھلا ظلم ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ جنگل میں بدنظمی پھیلے۔ ہم نے کبھی کبوتر کے منہ سے جھوٹی بات نہیں سنی۔ صرف داد فریاد کرکے کسی چیز کا حق رکھنا درست نہیں، حق کے حصول کا سیدھا اور صاف معاملہ ہے۔ کوّے کو اگر کچھ کہنا ہے تو قاضی سے جا کر شکایت کرو تا کہ وہ معاملے کی چھان بین کرے‘‘۔
کوّا بولا: ’’تم نے بھی وہی راگ الاپنا شروع کردیا۔ آخر میرے مسئلے کا کیا حل ہے؟‘‘ پرندے بولے: ’’کچھ نہیں۔ جائو کسی عادل قاضی کا پتا چلائو مثلاً ہدہد جو حضرت سلیمانؑ کا مصاحب ہے اور عدل کے معنی سے واقف ہے اور وہ جو حکم کرے اسے مان لو‘‘۔ (جاری ہے)
کوّا بولا: ’’ میں ہدہد کو نہیں جانتا‘‘۔
پرندے بولے: ’’یہ تمہاری اپنی غلطی ہے کہ تم اس قدر وحشی ہو وگرنہ ہدہد سے ہر کوئی واقف ہے۔ ہدہد منصف پرندہ ہے۔ اس کے سرپر تاج ہے، صاحب خبر ہے اور اس کا قول قابل اعتبار ہے۔ ہم جاتے ہیں، اسے لے کر آتے ہیں‘‘۔
پرندے گئے اور اسے بلا لائے۔ ہدہد آیا اور اس نے پوچھا: ’’کیا مسئلہ ہے؟
کوّا بولا: ’’مجھے اس گھونسلے کو بنائے ہوئے ایک سال ہوگیا ہے۔ اب کبوتر آکر بلا اجازت اس میں براجمان ہوگیا ہے‘‘۔
کبوتر بولا: ’’میں ایک مدت سے اس گھونسلے میں بیٹھا ہوں اور میں نے یہاں کوئی کوّا نہیں دیکھا‘‘۔
کوّا بولا: ’’سب پرندے گواہ ہیں کہ میں نے کس قدر فریاد کی اور مجھے کتنی تکلیف ہوئی‘‘۔
کبوتر بولا: ’’سب پرندے گواہ ہیں کہ مجھ پر کتنا ظلم ہوا۔ اس نے میرے بچے کو گھونسلے سے پٹخ دیا اور خود مجھے زدوکوب کرنا چاہتا تھا‘‘۔
کوّا بولا: ’’اگر قاضی کا حکم ہو تو میں اس گھونسلے سے ہاتھ اٹھالوں گا لیکن مجھے امید ہے کہ مجھ سے ناانصافی نہیں ہوگی‘‘۔
ہدہد نے کوّے سے پوچھا ’’تیرے پاس کوئی سند و ثبوت ہے؟‘‘ اس نے کہا: نہیں۔ اس نے کبوتر سے پوچھا: ’’کیا تیرے پاس کوئی ثبوت ہے کہ یہ گھونسلا تو نے خود بنایا یا خریدا؟‘‘ اس نے کہا: نہیں۔
ہدہد نے کوّے سے پوچھا: ’’تو اب تک کہاں تھا؟‘‘ کوّے نے کہا: ’’میں ایک اور گھونسلے میں تھا‘‘۔ اس نے کبوتر سے پوچھا: ’’تو اب تک کہاں تھا؟‘‘ اس نے کہا: ’’میں اسی جگہ ہوں۔ میں اسی جگہ تھا کہ کوّا آیا اور اس نے ہنگامہ شروع کردیا‘‘۔
ہدہد نے کہا: ’’خوب، اگر میں فیصلہ کروں تو سب قبول کریں گے؟‘‘ پرندوں نے بیک آواز کہا: ’’ہاں قبول ہے اور جو فیصلہ ہوا اس پر عمل کریں گے۔ پرندوں کو چاہیے کہ وہ آرام و آسائش سے رہیں اور ان کو آسائش اسی وقت مل سکتی ہے جب قانون پر عمل ہو‘‘۔
ہدہد نے چند لمحوں کے لیے غور کیا، پھر بولا: ’’بہت خوب، میرے خیال میں گھونسلا کوبتر کو ملنا چاہیے‘‘۔ کوّے نے چاہا کہ داد فریاد کرے مگر پرندوں نے اس کی ایک نہ چلنے دی اور سب نے کہا: ’’ہاں ہاں، گھونسلا کبوتر کی ملکیت ہے اور کوّا اس سے بے دخل ہے، جہاں چاہے جائے‘‘۔
جب کوّے نے دیکھا کہ سبھی ایک ہی بات کہہ رہے ہیں وہ سمجھ گیا کہ اب اس کا زور نہیں چلے گا چنانچہ وہ خاموش ہوگیا۔ اب ہر پرندہ کوّے کی بدتہذیبی اور کبوتر کی خوبیوں کا ذکر کررہا تھا۔ تمام پرندے آپس میں باتیں کررہے تھے۔ اس موقع پر کبوتر ہدہد کے نزدیک گیا اور سرگوشی کے انداز میں بولا: ’’قاضی صاحب محترم! میں آپ کی عنایت کا شکر گزار ہوں لیکن میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں۔ آپ نے مجھے حق پر کیسے سمجھا حالانکہ کوّے کی طرح میرے پاس بھی کوئی ثبوت نہ تھا اور کوئی بھی حقیقت حال سے واقف نہیں تھا‘‘۔
ہدہد بولا: ’’تم نے ٹھیک کہا، سوائے تمہارے اور کوّے کے کوئی بھی حقیقت حال سے واقف نہیں تھا لیکن اس طرح کے معاملات میں جب کوئی اور دلیل موجود نہ ہو تو فیصلہ اس کے حق میں ہوتا ہے جو زیادہ نیک نام ہو اور جس کا اخلاق بہتر ہو، جو اچھے تعلقات قائم رکھتا ہو اور کسی نے اس کے منہ سے جھوٹ اور اس کے ہاتھ سے ظلم نہ سنا دیکھا ہو۔ تم راست گو کی حیثیت سے معروف ہو اور کوّا دروغ گو کی حیثیت سے بدنام ہے‘‘۔
کبوتر بولا: ’’مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ سچائی اور نیک نامی کا کتنا فائدہ ہے لیکن قاضی صاحب، میں آپ کو یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ گھونسلا میرا نہیں، کوّے کی ملکیت ہے اور مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میری شہرت تو راست گوئی کی ہو اور میرا عمل اس کے خلاف ہو‘‘۔
ہدہد بولا: ’’آفرین، مجھے بھی خوشی ہوئی کہ تمہارے بارے میں میرا گمان درست ہے لیکن یہ بتائو کہ فیصلے کے موقع پر تم نے جھوٹ کیوں بولا‘‘۔
کبوتر نے کہا: ’’میں نے آپ کی خدمت میں ایک لفظ بھی جھوٹ نہیں بولا۔ ہماری جو گفتگو ہوئی تھی اس کی صورت یہ تھی: میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ گھونسلا میں نے بنایا ہے یا خریدا ہے۔ میں نے کہا تھا کہ میں وہاں بیٹھا ہوا تھا اور میں صحیح کہہ رہا تھا لیکن آپ کے آنے سے پہلے کوّے نے ہنگامے اور فضول داد فریاد سے مجھے مجبور کردیا کہ میں بھی اسی کے لہجے میں اس سے بات کروں۔ میں اپنے بچے کو پرواز سکھا رہا تھا۔ بچہ ندھال ہوگیا تھا۔ بے چارہ ایک لمحے کو یہاں بیٹھا اور کوّا آیا اور اعتراض شروع کردیا۔ میں نے اس سے معذرت کی اور یہاں سے جانا چاہا لیکن اس نے ہمیں جانے نہ دیا، ہنگامہ کھڑا کردیا اور لڑنے مارنے پر تیار ہوگیا۔ میں چاہتا تھا کہ اسے تنبیہ ہوجائے لیکن اب گفتگو چونکہ میری راستی اور نیک نامی کی ہورہی ہے تو میں اس نیک نامی کو سیکڑوں گھونسلوں کے عوض بھی ہاتھ سے نہ جانے دوں گا‘‘۔
قاضی بولا: ’’اللہ تمہیں برکت دے، اب جب مجھے صحیح صورتِ حال معلوم ہوگئی، میں بھی تجھے رسوا نہیں کروں گا‘‘۔ پھر ہدہد نے پرندوں کا آواز دی اور کہا: ’’تم گواہ رہنا۔ اگر کوّا تیار ہے کہ کبوتر سے معذرت کرلے تو کبوتر اس کو گھونسلا دینے کو تیار ہے‘‘۔
اب کوّے کے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔ اس نے کہا: ’’جناب قاضی، میری تقصیر نہ تھی۔ ہمارا کام ہی کائیں کائیں کرنا ہے اور سب لوگ ہماری کائیں کائیں سے بے آرام ہوتے ہیں اور ہم سے دور رہتے ہیں لیکن ہم بھی کسی کا بُرا نہیں چاہتے۔ اب میں معذرت چاہتا ہوں اور کبوتر کے بچے کو زمین پر پٹخ دینے پر سخت شرمندہ ہوں‘‘۔
ہدہد نے اعلان کیا: ’’بہت خوب، کبوتر گھونسلا کوّے کے سپرد کرتا ہے!‘‘ اور تمام پرندے بیک وقت آواز بولے: ’’آفرین ہے کبوتر پر کہ اس قدر مہربان ہے!‘‘