المیہ سقوط مشرقی پاکستان کا ذمہ دار کون ؟ سقوط مشرقی پاکستان اسباب و اثرات

421

’’مشرقی پاکستان‘‘ کو ’’بنگلہ دیش‘‘ کا روپ دھارے نصف صدی بیت گئی مگر قوم کو آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ پاکستان ٹوٹنے کے اسباب کیا تھے؟ اس سانحے کے مجرموں کا سراغ لگایا گیا اور نہ انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کا اہتمام ہوا… روزنامہ ’’جسارت‘‘ نے اپنی قومی ذمے داری سمجھتے ہوئے آج سے ربع صدی قبل3 دسمبر 1995ء کو لاہور میں ایک اہم مجلس مذاکرہ کا اہتمام کیا جس میں ممتاز قومی، سیاسی اور صحافتی شخصیات نے اظہار خیال کیا۔ سابق وفاقی وزیر قانون محترم ایس ایم ظفر کے سوا مذاکرہ کے تمام مقررین اب اپنے خالق حقیقی کے حضور پیش ہو چکے ہیں تاہم انہوں نے ربع صدی قبل جن خیالات کا اظہار کیا وہ آج بھی ہمارے لیے چشم کشا اور رہنمائی کا ذریعہ ہیں، غور و فکر کا بہت سا سامان اپنے اندر رکھتے ہیں اور ملک کے محفوظ و روشن مستقبل کی راہیں ہمیں سجھاتے ہیں۔ میزبانی کے فرائض ممتاز صحافی اور تجزیہ نگار عطا الرحمن صاحب نے ادا کیے جو اس وقت ’’جسارت فورم لاہور‘‘ کے صدر تھے۔ ’’گاہے گاہے باز خواں ایں قصہ پارینہ را‘‘ کے طور پر اس مذاکرہ کی رو داد قسط وار ’’جسارت‘‘ کے قارئین کی نذر ہے۔

جسارت: ’’سقوط مشرقی پاکستان‘‘ ایک ایسا سانحہ ہے جس نے نہ صرف ہماری تاریخ پر المناک اثرات چھوڑے بلکہ اس نے ہمارے ملک کے جغرافیے کو بھی تبدیل کر دیا۔ 1971ء کے المیے سے قبل پاکستان کو نہ صرف دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کی حیثیت حاصل تھی بلکہ یہ قوموں اور ملکوں کی تاریخ میں ایک انوکھا تجربہ بھی تھا جس میں کرہ ارض کے دو خطے ایک ہزار میل کے درمیانی فاصلے کے باوجود تقریباً برابر کی آبادی کے ساتھ ایک نظریئے سے وابستگی کے باعث ایک آئین کے تحت ایک فیڈریشن کے نظام میں منسلک تھے۔ قومی ریاستوں (Nation States) کے اس دور میں یہ ایک منفرد تجربہ تھا۔ اہل علم اس سے اتفاق کریں گے کہ اگر یہ تجربہ جاری رہتا اور پاکستان متحد رہتا تو ہم نیشن اسٹیٹ بلڈنگ اور عمرانی علوم کی تاریخ میں ایک نہایت اہم باب کا اضافہ کرتے مگر ہماری نااہلیوں اور کوتاہیوں کی بناء پر اور بحیثیت قوم دور اندیشی کی کمی کی وجہ سے، ٹھوس منصوبہ بندی کے سخت فقدان اور چالاک و زیرک دشمن کی چالوںکے سبب یہ تجربہ ناکام ہو گیا۔
’’جسارت فورم‘‘ کے زیر اہتمام آج کی اس نشست کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنے باشعور قارئین کے سامنے یہ پہلو واضح کر سکیں کہ اس سانحہ سے ہم نے بہ حیثیت قوم کیا کیا سبق سیکھے ہیں تاکہ ایسا تلخ تجربہ دوبارہ دہرایا نہ جا سکے۔ ہم اس کا بھی جائزہ لینا چاہتے ہیں کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے پس منظر میں کون کون سے معاشی و سیاسی عوامل کار فرما تھے اور ہمارے لیڈروں کا اس میں کیا کیا حصہ تھا؟ آئندہ ہم ایسے سانحہ سے کیسے بچ سکتے ہیں اور اس کے لیے کیا کیا اقدامات ضروری ہیں؟
آج حالات اگرچہ اتنے سنگین نہیں مگر کراچی کے مسئلے کو جلد حل نہ کیا گیا تو یہ سخت خرابی کی طرف لڑھکتے محسوس ہوتے ہیں۔اس ساری صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے جسارت فورم لاہور کے زیر اہتمام اتوار 3دسمبر کو ایک مجلس مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا۔ اس میں شرکت کے لیے نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان پروفیسر غفور احمد کراچی سے اور سقوط ڈھاکہ کے وقت گورنر مشرقی پاکستان کے فوجی مشیر میجر جنرل(ر) رائو فرمان علی راولپنڈی سے بطور خاص تشریف لائے۔ ان کے علاوہ سابق وزیر قانون ایس ایم ظفر، ممتاز مورخ اور اسکالر ڈاکٹر صفدر محمود اور بزرگ صحافی جناب عبدالکریم عابد نے تفصیلی اظہار خیال کیا۔ ڈاکٹر صفدر محمود نے جو ان دنوں پاکستان ایڈمنسٹریٹو اسٹاف کالج کے پرنسپل ہیں اور جنہوں نے دوسری تصنیفات کے علاوہ المیہ مشرقی پاکستان کے اسباب و علل پر بھی کتاب لکھی ہے، گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے مندرجہ ذیل خیالات کا اظہار کیا!
ڈاکٹر صفدر محمود: جس موضوع پر گفتگو کے لیے جسارت نے اہل علم و دانش کو یہاں جمع کیا ہے اس پر کئی گھنٹے بھی گفتگو کی جائے تو موضوع تشنہ رہے گا۔ خوش قسمتی سے جنرل رائو فرمان علی یہاں موجود ہیں، جو سقوط مشرقی پاکستان کے عینی شاہد ہیں، انہوں نے اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھا اور اندرون خانہ حالات سے بھی واقف ہیں اور مختلف قوتوں کے کردار سے آگاہ ہیں۔
جہاں تک سقوط مشرقی پاکستان کا تعلق ہے اس میںہندوستان، عالمی طاقتوں، سیاست دانوں اور دیگر لوگوں کا کیا کردار رہا اس کے بارے میں اپنی طالب علمانہ تحقیق کے بعد کتاب لکھ چکا ہوں بلاشبہ اس سانحہ نے پاکستان کی تاریخ ہی نہیں جغرافیہ بھی بدل ڈالا لیکن ایک بات جو پاکستانی کی حیثیت سے مجھے پریشان رکھتی ہے اور جو میرے نزدیک اس سے بھی کہیں اہم معاملہ ہے وہ یہ ہے کہ اس نے ہماری قومی نفسیات بدل دی ہے جو بجائے خود بہت بڑا سانحہ ہے۔
ہندوستان کی تاریخ یوں تو چار ہزار سال قبل مسیح سے شروع ہوتی ہے مگر مسلمانوں نے یہاں محمد بن قاسم کے حملے کے وقت قدم رکھا اور پھر کسی نہ کسی صورت یہاں موجود رہے مغلیہ خاندان کے دور میں ہندوستان کی ایک متحدہ مملکت کا تصور ابھرا یوں مسلمانوں نے دس صدیوں تک ہندوستان پر حکومت کی جس سے مسلمان قوم کو ایک خاص اعتماد ملا اور ایک خاص نفسیات پروان چڑھی کہ ایک مسلمان چار ہندوئوں کے برابر ہے اس طرح مسلمانوں کو اپنی ذات اور مستقبل کے بارے میں بے انتہا اعتماد اور ایمان حاصل ہے۔
یہ نفسیات پہلی بار 1857ء میں پسپا ہوئی اور اسے ایک شدید دھچکا لگا مسلمانوں نے محسوس کیا کہ ایک تیسری قوت حکمران ہے مگر اس صورت میں بھی وہ ہندو کے غلام نہیں تھے بلکہ مسلمانوں اور ہندوئوں پر ایک تیسری قوت حکمران تھی جس کے کسی نہ کسی وقت ہندوستان سے چلے جانے کا یقین موجود تھا۔ پھر 1857ء کے سانحہ کے بعد سر سید احمد خان اور الطاف حسین حالی جیسے لوگ سامنے آئے اور انہوں نے قوم کو تباہی سے بچایا اس کے بعد سو سال کی تاریخ میں مسلم لیگ اور دوسری جماعتوں کے رہنمائوں، دانشوروں اور ادیبوں نے موثر کردار ادا کیا اور ان سب کے اس کردار کے نتیجے میں ہندوستان کا مسلمان 1935ء تک ایک علیحدہ مملکت کا قائل ہو چکا تھا چنانچہ انگریزی کی غلامی کے باوجود ایک ایسی مملکت کا تصور مسلمانوں کے لاشعور میں جاگزیں رہا جو ان کی اپنی دی ہوئی قرار داد پاکستان اسی لیے مقبول ہوئی کہ یہ ان کے لاشعور کی ترجمانی کرتی تھی۔ مسلمانوں نے پاکستان بننے کے بعد یہ محسوس کیا کہ وہ اس قابل تھے کہ انگریز اور ہندو کی مخالفت کے باوجود اپنی الگ مملکت بنا سکیں اس طرح مسلمانوں کی نفسیات میں موجود خود اعتمادی کا وہ خاص جذبہ مزید بڑھا۔ عوامی سطح پر 1965ء تک یہ جذبہ نمایاں رہا کہ ہم شاہی قلعہ پر سبز پرچم لہرائیں گے اور یہ کہاوت زبان زد عام تھی کہ ایک مسلمان چار ہندوئوں کو شکست دے سکتا ہے اس جنگ کے بعد بھی یہ اعتماد قائم رہا کہ بڑی عسکری قوت کے باوجود بھارت ہمیں شکست نہیں دے سکا یا یوں کہئے کہ شکست کھا کر ہم نے ہندوستان پر فتح پا لی۔
1971ء میں جغرافیہ کا بدل جانا میرے نزدیک اتنا بڑا سانحہ نہیں جتنا بڑا سانحہ یہ ہے کہ قوم کی نفسیات بدل گئی ہے۔ اندرا گاندھی کا مقصد بھی صرف مشرقی پاکستان کی علیحدگی نہیں تھا بلکہ اس اعتماد و ایقان کو مجروح کرنا بھی اس کے پیش نظر تھا جو مسلمانوں کے رگ و پے میں سرایت کر چکا تھا۔ اس کے بعد بھی دو خامیاں ہمارے اندر ایسی پائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے ہم اس نقصان عظیم کی تلافی نہ کر سکے۔ ایک اہم ضرورت یہ تھی کہ مولانا حالی کی طرح کے لوگ ابھرتے جو قوم کے اعتماد کو پارہ پارہ ہونے سے بچاتے مگر یہ خلا آج تک قائم ہے دوسرے اگر سیاسی نظام مستحکم ہو تو ملک کو مزید ٹوٹ پھوٹ کے امکانات سے بچایا جا سکتا ہے۔ مجھ پر قیامت گزر جاتی ہے جب شاہی قلعہ پر جھنڈا لہرانے کی بات کرنے والا سادہ لوح دیہاتی آج یہ پوچھتا ہے کہ ’’ملک قائم رہے گا؟‘‘یہ سوال قوم کی نفسیات میں تبدیلی اور مستقبل پر ایمان کے پارہ پارہ ہونے کی نشاندہی کرتا ہے۔ بیرون ملک بھی جائوں تو لوگ انتہائی درد مندی سے سوال کرتے ہیں کہ ’’کراچی کے واقعات کے بعد ملک قائم رہے گا؟‘‘ مستقل خوف اور بے یقینی کی کیفیت ہر طرف سرایت کر رہی ہے۔ مجھے انتہائی دکھ ہوتا ہے جب یہ دیکھتا ہوں کہ پڑھے لکھے لوگ اور قومی سرمایہ اور وسائل بیرن ملک منتقل ہو رہے ہیں۔ میں درد مند شہریوں کو اس جانب متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ اس کے لیے کچھ کریں۔ نوجوان نسل میں ملک و قوم کے مستقبل پر ایمان بحال کیا جائے ورنہ ساری ترقی فضول ہے اور سرمایہ کاری خواہ کتنی بھی ہو جائے کبھی رنگ نہ لا سکے گی۔
جسارت: ڈاکٹر صاحب! آپ کے خیالات بہت فکر انگیز ہیں اور نئی جہت میں سوچنے کی دعوت دیتے ہیں۔ اعتماد کے متزلزل ہونے کا آپ نے جو ذکر کیا اس کی ایک وجہ غالباً یہ تھی کہ زیرک چالاک دشمن کے مقابلے میں اس اعتماد کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے اعلیٰ قومی سطح پر اور ہرجہت میں مناسب منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی آپ براہ کرم بتائیں گے کہ ترتیب وار وہ اقدامات کیا ہونا چاہئیں جن سے یہ اعتماد بھی بحال ہو سکے اور اس کے ساتھ ہم متعین خطوط پر ایسی منصوبہ بندی بھی کریں جس کی بناء پر یہ اعتماد بہتر اور لازمی نتائج بھی پیدا کرے۔
ڈاکٹر صفدر محمود: اس مقصد کے لیے بہت سے اقدامات ضروری ہیں مگر میرے نزدیک پاکستان کا سب سے اہم مسئلہ قیادت کا بحران ہے سنگا پور، ملائیشیا، کوریا، انڈونیشیا، چین اور جاپان نے جو معاشی اورصنعتی ترقی کی ہے اس سے ان کا اعتماد جس طرح بڑھا ہے وہ ان کے چہروں سے پڑھا جا سکتا ہے یہ ممالک ہم سے بدتر حالات سے دو چار تھے مگر ان کو ایسی قیادت میسر آ گئی جس نے ان کا مقدر بدل کر رکھ دیا۔ ہمیں بھی اہل، ایماندار اور پر خلوص قیادت میسر آ جائے تو بقول اقبال ’’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی‘‘
اس قوم نے ایک اہل قیادت کی رہنمائی میں بے پناہ مشکل حالات میں پاکستان بنالیا مگر آج وہی قوم منتشر اور پریشان ہے تقسیم کے بعد کی قیادت اور اس کی کارکردگی پر تبصرہ کی ضرورت نہیں لیکن اس قیادت نے بہت مایوس کیا۔ قوم میں اعتماد سیاسی استحکام کے بغیر بحال نہیں کیا جا سکتا۔دوسرے لوگوں کو احساس شراکت دیا جائے آمریت سے لوگوں میں احساس محرومی پیدا ہوتا ہے اس احساس نے بھی سقوط مشرقی پاکستان میں اہم کردار ادا کیا اب بھی ایسی کسی صورتحال میں سندھ اور ان دوسرے علاقوں میں جہاں پہلے ہی اس کے جراثیم موجود ہیں حالات کو کنٹرول کرنا آسان نہ ہو گا۔تیسرے یہ کہ میں جب بھی یورپ یا امریکہ جاتا ہوں تو خصوصاً پچھلے دنوں جب مجھے امریکی قوم کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تو شدت سے احساس ہوا کہ امریکا کو متحد رکھنے میں ’’خوشحالی‘‘ اہم عنصر ہے اگر وہاں بھی ہماری طرح کی غربت ہو تو وہ کئی ریاستوں میں تقسیم ہو جائے گا لیکن سوال یہ ہے کہ جن لوگوں کو ایمانداری کی مثالیں قائم کرنا ہیں اگر وہی کرپشن میں ملوث ہوں تو خوشحالی کیسے آئے گی؟
سیاسی استحکام اور معاشی ترقی ایک دوسرے سے منسلک ہیں تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی کوئی چیلنج در پیش ہوتا ہے تو اس کا رد عمل بھی سامنے آتا ہے آج پھر ہمیں چیلنج درپیش ہے دیکھنا یہ ہے کہ سرسید احمد خان اور مولانا الطاف حسین حالی جیسے لوگ کب ابھرتے ہیں ابھی تو اس کے بارے میں خواب ہی دیکھا جا سکتا ہے جو ہمیں ٹوٹ پھوٹ کے خدشات سے نکال سکیں۔
جسارت: مشرقی پاکستان میں جب علیحدگی کے آثار نمایاں تھے تو اگرچہ اس وقت بھی دانشور اور اہل بصیرت موجود تھے جو قوم کو خطرات سے آگاہ کر رہے تھے۔ خود جسارت کے فائل گواہ ہیں کہ اداریوں اور مضامین میں بار بار توجہ دلائی جا رہی تھی کہ اگر یہ اقدامات نہ کئے گئے تو ملک کو نقصان پہنچ سکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہماری قوم کی مجموعی ذہنی اور عملی قیادت پیشگی آگے بڑھ کر ان سیاست دانوں اور حکمران ٹولے کے ہاتھ نہ روک سکی جن کے انتہائی خود غرضی پر مبنی سیاسی عزائم اور عاقبت نا اندیشانہ پالیسیاں مشرقی پاکستان کو تیزی کے ساتھ علیحدگی کی جانب دھکیل رہی تھیں۔ بحیثیت قوم ہمارا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ایک سانحے کے بعد تو اس کے اسباب و علل کی تلاش میں لگے رہتے ہیں لیکن امڈتے طوفان کے آثار نمودار ہو جانے کے باوجود ہم نہ اس کا مناسب ادراک کرتے ہیں نہ کسی ایسے لائحہ عمل پر اکٹھے ہو جاتے ہیں جس کی بنا پر اسے بروقت روکا جا سکے یا اس کا بھر پور مقابلہ کیا جا سکے۔ کیا آپ ایسے عملی اقدامات تجویز کر سکتے ہیں جنہیں اپنا کر ہم اپنی اس کوتاہی کو دور کر لیں۔
ڈاکٹر صفدر محمود:صدیوں سے مثل مشہور چلی آ رہی ہے کہ ہندو وقت پڑنے سے بہت پہلے سوچتا ہے، مسلمان عین وقت پر سوچتا ہے اور سکھ وقت گزر جانے کے بعد سوچتا ہے ملک ٹوٹنے کا عمل جاری تھا مگر ہم خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے ملک میں فوجی آمریت مسلط تھی، پہلے عام انتخابات کرائے جا رہے تھے۔ سیاسی بالغ نظری کا فقدان تھا اور جمہوری اداروں کا وجود نہ تھا۔ طے شدہ اصولوں کو توڑ کر جب دبائو کے تحت فیصلے کئے گئے تو یہ طے تھا کہ دونوں صوبوں میں ایک پارٹی نہیں ابھر سکے گی مسلم لیگ کی دونوں صوبوں میں جڑیں تھیں مگر یہ بہت کمزور ہو چکی تھی جذبات کی بنیاد پر فیصلے ہوئے جن کا نتیجہ وہی نکلا جس کا خدشہ تھا الیکشن میں دونوں حصوں میں ایسی دو جماعتیں کامیاب ہوئیں جن کا ایک دوسرے کے خطوں میں وجود ہی نہ تھا، پھر سیاسی تجربے کی کمی کے باعث حالات لوگوں کے بس سے باہر ہوتے چلے گئے بات کرنے کی بجائے بلٹ کا استعمال کیا گیا اس وقت کون کہتا کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ لاشعور میں اس وقت بھی یہ بات تھی کہ ملک کو نقصان نہیں پہنچ سکتا منصوبہ بندی نہیں تھی مگر ملک پر اندھا اعتماد تھا ساری صورتحال سے ایک ہی سبق ملتا ہے کہ ہم نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا مارچ 1971ء کے آرمی ایکشن کا یہ سبق تھا کہ سیاسی معاملات طاقت سے حل نہیں کئے جا سکتے مگر آج پھر وہی تجربہ دہرایا جا رہا ہے ہم نے مشرقی پاکستان کے سانحہ سے کوئی سبق نہیں سیکھا جہاں سے چلے تھے ہم وہیں کھڑے ہیں۔ (جاری ہے)

حصہ